ففتھ جنریشن وار اور بحیثیت قوم ہماری ذمہ داریاں

 شہریوں کی حقائق تک رسائی آسان اور سوشل میڈیا پر قانون سازی کی ضرورت ہے


 شہریوں کی حقائق تک رسائی آسان اور سوشل میڈیا پر قانون سازی کی ضرورت ہے ۔ فوٹو : فائل

تاریخ انسانی اس بات پر گواہ ہے کہ جس قدر انسان نے انسان کو نقصان پہنچایا، شاید ہی کسی دوسری چیز نے پہنچایا ہو۔

تبھی بعض اوقات تاریخ انسانی کے سیاہ صفحات سے گرد اڑاتے ہوئے بے ساختہ زبان سے یہ جملہ نکل جاتا ہے کہ ''مجھے درندوں سے نہیں اب انساں سے ڈر لگتا ہے''۔ انسان سے بھی پہلے جو سب سے طاقت ور چیز ہے، وہ فطرت ہے۔

اگرچہ بہت سے ادوار میں فطرت نے بھی انسانیت کو آزمائش کی گہری کھائیوں میں دھکیلا ہے۔ کبھی زمین کا لرز جانا، کبھی فلک کا برس پڑنا، مگر پھر بھی اس حوالے سے فطرت کا نمبر بعد میں آتا ہے۔

غرض آسمانی آفتوں سے بھی بڑھ کر انسان ہی وہ واحد ہستی ہے جو انسانیت کی دشمن رہی ہے۔ انسانی تاریخ کی پہلی جنگ ایک عورت کی خاطر لڑی گئی، اس دن سے لے کر آج تک جنگیں جاری ہیں، اگر ہم انہیں شمار کرنا چاہیں تو یہ ہمارے لیے ممکن نہیں، مگر آج ان جنگوں کی نوعیت بدل چکی ہے۔

اکیسویں صدی میں جب علم کے مختلف شعبوں پر کام ہوا تو اس دوران جنگوں کی تقسیم بھی زیر غور آئی۔ جنگوں کی یہ تقسیم ''وار فیئر ماڈل'' کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس اصطلاح کو سب سے پہلے 1648ء میں استعمال کیا گیا۔ امن کے پہلے معاہدے Treaty of Westphalia کے بعد اس کی ابتداء ہوئی۔ یہ معاہدہ 30 سالہ جنگی ماحول کے بعد ہوا تھا۔

یہ جنگ جرمنی اور دیگر ممالک کے درمیان تھی۔ اس جنگ کی بنیاد مذہب کو قرار دیا جاتا ہے۔ یہ جنگ فرسٹ جنریشن وار کہلاتی ہے، جس میں 80 لاکھ افراد قتل ہوئے تھے۔ اس کے بعد سیکنڈ جنریشن وار کی اصطلاح عام ہوئی، ان جنگوں میں فوج کے دستوں اور کثرتِ تعداد کی جگہ طاقتور ہتھیاروں نے لے لی۔

سیکنڈ جنریشن وار کی اصطلاح 1989ء کے بعد اس وقت استعمال ہوئی، جب جنگی ہتھیار جدید، خطرناک اور ایٹمی بن چکے تھے، اسی طرح امریکہ کے ایک پروفیسر رابرٹ جے بنکر کی لکھی ہوئی تحقیق کے مطابق تھرڈ جنریشن وار میں جنگیں آئیڈیاز یعنی خیالات کی بنیاد پر شروع کی گئیں۔

تھرڈ جنریشن وار میں دشمن کو سامنے سے وار کے بجائے پیچھے سے وار کرنے پر زیادہ فوکس کیا گیا، تھرڈ جنریشن وار میں گوریلا وار بھی شامل ہے جس میں جنگی منصوبہ بندی اور طریقہ کار اہمیت اختیار کر گیا اور چھپ کر خاص انداز سے جنگ کی جاتی، جس سے مخالف فوج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جاتا تھا، جنگی حربے کے ذریعہ دشمن کو حیرت زدہ کر دیا جاتا، اس کے بعد فورتھ جنریشن وار کی اصطلاح عام ہوئی۔

جدید دور کی جنگوں کو فورتھ جنریشن وار کہا گیا ہے، اس جنریشن کی جنگوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو بھی شامل کیا گیا، رابرٹ بنکر نے اپنے تحقیقی مضمون میں لکھا کہ ایک طاقت ور فوج ایک آبادی والے مقام پر حملہ کرتی ہے اور اس چال کو فورتھ جنریشن وار کا ایک اہم عنصر گردانا جاتا ہے۔

یہ ایسا جنگی حربہ ہے کہ اچانک پوری تیاری اور نہایت تیزی کے ساتھ دوسرے ممالک پر حملے کیے جاتے، جیسے امریکیوں نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر پے در پے حملے کیے، بی باون طیاروں کے ذریعہ ڈیزی کٹر بموں کا استعمال کیا،حالاںکہ فورتھ جنریشن وار پر اہل مغرب کے محققین نے اپنے مقالوں میں سخت تنقید کی ہے۔

فورتھ جنریشن وار کے بعد ففتھ جنریشن وار کے نام سے نئی اصطلاح عام ہوئی، جو ڈیوڈ ایکس نے 2009ء میں اپنے ایک کالم میں دی، ففتھ جنریشن وار کی سادہ الفاظ میں تعریف یہ ہے کہ اس میں پوری قوم شریک ہوتی ہے۔

اس میں لوگوں کو ایک دوسرے کے سامنے لڑنے کی نوبت نہیں آتی، ففتھ جنریشن وار میں دشمن اپنے ہارڈ پاور کے بجائے سافٹ پاور کو استعمال کرتا ہے، ففتھ جنریشن وار کے بنیادی ہتھیار جہاز، ٹینک اور میزائل نہیں بلکہ سفارت کاری پراکسیز' ٹی وی'ریڈیو'اخبار'سوشل میڈیا اور معیشت ہیں، یہ ذہن پر نہیں بلکہ اذہان میں لڑی جاتی ہے۔

انسانوں کو نہیں بلکہ ان کے ذہنوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان کئی سالوں سے اس جنگ کی زد میں ہے، فوجیں بھیجنے کے بجائے زیر نشانہ ملک کے شہریوں کو اپنی ریاست اور فوج کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، براہ راست حملے کے بجائے پراکسیز کے ذریعہ متعلقہ ریاست کو کمزور کیا جاتا ہے اور اس ملک کے اپنے شہریوں کو بالواسطہ اور بلاواسطہ مدد کے ذریعے اپنے پراکسیز میں تبدیل کیا جاتا ہے۔

اب یہ اصطلاح بڑی شدت کے ساتھ پاکستان میں استعمال ہونے لگی ہے، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ دشمن ممالک اور مختلف نان اسٹیٹ ایکٹرز نے پاکستان کے خلاف ففتھ جنریشن وار چھیڑ دی ہے، جس کے تحت ملک کے اندر مختلف قومیتوں کے لوگوں کو ریاست اور بالخصوص فوج کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے، مختلف بنیادوں پر ذہنی انتشار اور تفریق کو ہوا دی جارہی ہے۔

اداروں کو آپس میں لڑانے کی کوشش ہو رہی ہے جبکہ بے یقینی کی فضاء پیدا کرکے پاکستانی معیشت کو بھی تباہ کرنے کی ناپاک کوشش ہو رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان دنوں سیاست'صحافت حتی کہ عدالت کو بھی اس ففتھ جنریشن وار کے آئینے میں دیکھا جا رہا ہے اور اسی کے تناظر میں ریاستی پالیسیاں تشکیل پا رہی ہیں۔

مبالغہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس حد تک ہم اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان ففتھ جنریشن وار کی زد میں ہے تاہم سوال یہ ہے کہ اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ سوچنا یہ بھی ہے کہ ہماری ریاست اس جنگ میں کس طرح جواب دے رہی ہے اور اسے کیا کرنا چاہیے؟ تو اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ!

ففتھ جنریشن وار میں خوفناک ٹیکنالوجی کا استعمال ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ابہامات اور شکوک و شبہات کی ایسی آندھی چلتی ہے جس سے منظر نامہ دھندلا جاتا ہے، اگر سوشل میڈیا پر نظر دوڑائیں تو اس پر موجود مواد تسکین کے بجائے تشکیک کا سبب بنتا ہے۔

میڈیا سے جڑا کوئی بھی شعبہ ففتھ جنریشن وار کا اہم ہتھیار ہے لیکن سوشل میڈیا اس جنگ کا اہم کردار ہے، جس میں طرح طرح کی تحاریر، ویڈیو کلپس، پوسٹس، واٹس ایپ و فیسبک سٹیٹس ہوتے ہیں جن کے ذریعہ عوام کو بہکایا جاسکتا ہے، اور اس بہکاوے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ قوم کی حیثیت اور مقام داؤ پر لگ جاتا ہے۔

ارباب اختیار کو چاہیے کہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے چین، ترکی اور ملائشیا کی طرز پر اس کی حدود و قیود کا تعین کریں، ففتھ جنریشن وار کا ٹارگٹ زیادہ تر نوجوان نسل ہے، یہ جنگ میڈیا کی ہے، اس میں میڈیا کا استعمال بہت احتیاط سے کرنے کی ضرورت ہے۔

میڈیا کا میدان بہت وسیع ہے، خاص طور پر سوشل میڈیا نوجوانوں کو اس کے غلط استعمال سے روکنے کے لیئے سینسر پالیسی سخت کرنا پڑے گی، پسماندہ صوبوں کی احساس محرومی کا ازالہ کرنا ہوگا، وگرنہ دشمن پسماندہ صوبوں کی عوام میں بغاوت کے جذبات ابھارنے کی ناپاک سازش میں کامیاب ہو گا۔

اسی طرح ریاست کے سیاسی ڈھانچے پر بھی کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں دشمن سیاست کی آڑ میں صوبوں کے مابین اور صوبوں اور وفاق کے مابین نفرت کے ماحول کو فروغ دینے میں کامیاب نہ ہو جائے۔

اسی طرح مذہبی حوالے سے ضروری ہے کہ ملک میں قانون سازی ہو، مقدسات کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیئے قانون سازی کرکے اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ فرقہ واریت کے خاتمہ کا واحد حل یہی ہے کہ مقدسات کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیئے قانون سازی ہو، بہرحال ارباب اختیار کو اس پر غور کی اشد ضرورت ہے۔

ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ اپنی پسند و ناپسند کے بجائے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے، مہذب قوم کا طریقہ بھی یہی ہے اور ففتھ جنریشن وار کی روک تھام کے لیئے بھی یہ تدبیر موثر ثابت ہو گی۔ ففتھ جنریشن وار کے منڈلاتے سیاہ بادلوں میں جب یکایک ہماری نگاہ نوجوان کے کردار کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو اس کے کردار کی چکاچوند روشنی کچھ پردوں میں ڈھکی دکھائی دیتی ہے۔

نوجوان تو قوم و ملت کا وہ ستون ہے، جس نے ایسے حالات اور جنگی ماحول میں ڈگمگانا نہیں ہے، کیوں کہ پوری قوم و ملت اسی کے سہارے کھڑی ہے۔ کسی نے لکھا کہ ''طاقتوں، صلاحیتوں، حوصلوں، امنگوں، جفاکشی، بلند پروازی اور عزائم کا دوسرا نام نوجوانی ہے''۔ اس لیے نوجوان کو سب سے پہلے خود کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔

مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکل کر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔کہی سنی باتیں ان کیلیے ہوتی ہیں جن کے پاس اپنی صلاحیت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ایک نوجوان کیلیے، جو باصلاحیت، جرات مند، بلند ہمت اور بلند حوصلہ ہو وہ سنی سنائی باتوں کی بجائے تحقیق کو ترجیح دیتا ہے۔

جنگ کے اس ماحول میں نوجوانوں کا اپنی حکمت و فراست سے کام لینا بھی ازحد ضروری ہے، تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ کون سے ایسے عوامل اور امور ہیں، جو ہمارے لیے، ہماری قوم کیلیے مفید ہیں تاکہ انہیں اپنایا جائے۔ اور کون سی ایسی چیزی ہیں جو محض بناوٹی اور جعلی ہیں تاکہ ان کی نشان دہی کرکے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور قوم میں شعور اجاگر کیا جائے۔

دور حاضر کے نوجوان کو جس جنگ کا سامنا ہے وہ معلومات کی جنگ ہے، جس میں پروپیگنڈا اور جھوٹی خبریں مسلسل زیر گردش رہتی ہیں، تاکہ نوجوان اور ان کی قوم حقیقت تک رسائی حاصل نہ کرسکیں۔ اس دوران جب ان معلومات کو جذبات کا تڑکا لگایا جاتا ہے تو نوجوانوں کی صلاحیت اس کی بھینٹ چڑھتی دکھائی دیتی ہے۔

یہ جنگ میڈیا کی جنگ ہے، جس میں میڈیا اس کا وسیع تر میدان اوراس کے بیشتر پلیٹ فارم اس کا بہترین ہتھیار ہیں۔ انٹرنیٹ، فیس بک، یوٹیوب وغیرہ ہر پلیٹ فارم کا اگر نوجوان صحیح طریقے سے استعمال کریں تو ففتھ جنریشن وار کے بھیانک اثرات سے اپنے وطن، اپنی قوم و ملت کی حفاظت کرسکتے ہیں۔

ففتھ جنریشن وار کے حوالے سے نوجوانوں میں دینی اور عصری دونوں علوم کے رجحان کو پروان چڑھانا بھی نہایت ضروری ہے، کیوں کہ ان دونوں علوم کے حسین امتزاج کے بغیر نوجوان کا دور حاضر میں پیش آنے والے مسائل اور چیلنجز کا سامنا کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔ نوجوانان ملت کو اپنی عقل و حکمت کو بھی بروئے کار لانا چاہیے کہ وہ کسی بھی ایسے گروہ یا سر گرمی کا حصہ نہ بنیں جس سے ان کی زندگی، کردار اور وطن کا وقار داؤ پر لگ جائے۔

اس ساری صورتحال کے ساتھ ساتھ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سنی سنائی باتوں پر عمل کرنے کے بجائے تصدیق کریں اور قرآنی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ریسپانس کریں۔

سوشل میڈیا کا درست استعمال ہمارے ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت ہے، سوشل میڈیا کا استعمال ذمہ دار شہری کے طور پر انجام دیں، ہر ایسی خبر کو جو قوانین پاکستان کے خلاف ہے اور وطن عزیز کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے، شیئر نہ کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں