افغان اور پاکستانی پاسپورٹ

ہمیں یہ ہمیشہ یادرکھنا چاہیے کہ مجاہدین ہوں یاطالبان یاالقاعدہ یاداعش یہ سب دہشتگرد تنظیمیں امریکی سامراج کی تخلیق ہیں

www.facebook.com/shah Naqvi

حال ہی میں یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ افغانستان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کا نام ایسے ہزاروں افغان شہریوں کی فہرست میں شامل ہے جن کے پاس ماضی قریب تک پاکستانی پاسپورٹ تھا جو کہ پانچ سال کے لیے جاری کیا گیا۔

اس کا انکشاف ایک صحافی نے رواں سال اگست میں کیا۔ یہ پاسپورٹ پنجاب، خیبر پختونخوا ،بلوچستان اور کراچی سمیت ملک کے مختلف بڑے شہروں سے جاری کیے گئے۔ جب کہ اس غیر قانونی کام اور ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کا اصل گڑھ خیبر پختونخوا کا علاقہ طور خم تھا جہاں جعلی دستاویزات کی بنیاد پر "یومیہ" سیکڑوں افغانوں کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کیے جاتے تھے اور جس کے عوض فی پاسپورٹ 8سے 10لاکھ وصول کیے گئے اور یہ رقم اعلیٰ حکام تک پہنچتی تھی۔

نہ صرف بلکہ آخری تحقیقات میں یہ سامنے آیا ہے کہ ان پاسپورٹوں کی تعداد مختلف خلیجی ریاستوں کے حوالے سے ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے اس طرح وصول شدہ رقم کی مالیت کم از کم 20ارب سے بھی زیادہ ہے جو اعلیٰ کرپٹ افسران نے رشوت کے طور پر وصول کیے ۔ اس سے بڑی ملک و قوم سے غداری اور کیا ہو سکتی ہے۔

اس حوالے سے نادرا کے کچھ اعلیٰ افسران کی گرفتاریاں بھی کی گئیں۔ لیکن جعلی پاسپورٹ بنانے میں ملوث بیشتر افسران ریٹائرڈ یا بیرون ملک منتقل ہو چکے ہیں۔

اس طرح اس عرصے میں ہزاروں پاکستانیوں کی حق تلفی ہوئی اور وہ سعودی ملازمت کا کوٹہ جو پاکستانیوں کے لیے مختص تھا وہ افغان لے اڑے اور پاکستان اس طرح سے کروڑوں ڈالر کی ترسیلات زر سے محروم رہا۔

یہ معاملہ صرف خلیجی ممالک تک محدود نہیں بلکہ ان پاسپورٹوں پر یہ افغان مہاجرین ، یورپ اور دیگر ممالک میں سفر کر کے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے جس سے عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستانی پاسپورٹ رینکنگ میں صومالیہ سے بھی نیچے آگیا ہے۔ یہ افغانستان ہی ہے جس کی وجہ سے پچھلے چالیس برسوں سے پاکستان کو مسلسل تباہ کن نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ سلسلہ تھمنے کو نہیں آرہا۔ حال ہی میں پاک فوج کے 23 جوانوں کی شہادت ہمارے سامنے ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد افغان عوام خاص طور پر خواتین کن حالات سے گزر رہی ہیں، اس کا احوال نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کی زبانی سنیں۔ گزشتہ ہفتے جوہانسبرگ جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی دسویں برسی پر خطاب کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ طالبان نے افغانستان میں لڑکی ہونا ہی غیر قانونی بنا دیا ہے۔


دو سال پہلے تک افغانستان میں عورتیں کام کرتی تھیں اور وزارتوں کے منصب پر بھی فائز تھیں۔ لڑکیاں کرکٹ اور فٹ بال کھیلتی تھیں بچیاں اسکول جاتی تھیں۔ سب کچھ بہترین نہ ہونے کے باوجود پیش رفت ہو رہی تھی۔

تاہم طالبان نے کابل پر قبضہ کرتے ہی خواتین کے حقوق سلب کر لیے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ طالبان حکومت کو نسلی عصبیت کی مرتکب قرار دے۔ یقیناً حقوق نسواں کے حوالے سے دنیا زیادہ دیر افغانستان سے صرف نظر نہیں کر سکتی۔ اسے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔

جب دوہا قطر میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان انتقال اقتدار کا معاہدہ ہو رہا تھا تو یہ تاثر پھیلایا گیا کہ یہ" اصلاح شدہ طالبان"ہیں۔ ماضی کے شدت پسند سخت گیر طالبان نہیں جو1990کی دہائی کے آخر میں تھے۔ یہ ایک دھوکہ تھا جو امریکا پاکستان سمیت پوری دنیا نے کھایا۔ جب کہ افغان عوام کی کثیر تعداد یہ واویلا کرتی ہی رہ گئی کہ یہ طالبان اپنی سرشت میں بدلنے والے نہیں یہ افغانستان کو عورتوں کے لیے جیل جیسا بنا دیں گے۔

تعلیم پر پابندی اور زندگی کے ہر شعبے سے انھیں نکال کر باہر کریں گے ۔ جب افغان طالبان کا کابل پر قبضہ ہوا تو نیو یارک ٹائمز میں ہی ایک افغان خاتون پروفیسر کا مضمون چھپا کہ مجھے اور میری بیٹیوں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ اگر میں اور میری بیٹیاں یونیورسٹی جانے سے باز نہ آئیں تو ان پر تیزاب پھینک کر ہلاک کر دیا جائے گا۔

اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے اور افغان قیادت کی باریک بینی ملاحظہ فرمائیں کہ نئے حکم کے مطابق دس سال سے زائد عمر کی لڑکیوں پر تعلیم کی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس صورت حال کے خلاف احتجاج کرنے والی خواتین اور طالبات کو گرفتار کر کے لاپتہ کیا جا رہا ہے اور یہاں تک کہ ان خواتین اور لڑکیوں کو طالبان ارکان سے شادی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہ رپورٹ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انٹرنیشنل کمیشن فارجیورسٹ نے شائع کی ہے۔

نیو یارک ٹائمز نے ہی افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے موقع پر یہ چشم دید رپورٹ شائع کی کہ جب امریکیوں نے تخت کابل پر ایک گولی چلائے بغیر کابل پر طالبان کا قبضہ کرایا تو ایک طالبان سپاہی اس ناقابل یقین واقعے پر آدھے گھنٹے تک خوشی کے آنسو بہاتا رہا کہ اسے اس بات پر یقین نہیں آرہا تھا۔ پاکستان نے طالبان کے لیے پوری دنیا سے تنقید برداشت کی۔

طالبان کے امریکیوں سے دوحا مذاکرات کامیاب کرائے اور ہر ممکن کوشش کی کہ ہر صورت طالبان کو اقتدار منتقل ہو۔ اور اس کا صلہ پاکستان کو یہ مل رہا ہے کہ افغانستان میں 23دہشت گرد تنظیموں میں سے 17کاٹارگٹ پاکستان ہے۔

ہمیں یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ مجاہدین ہوں یا طالبان یا القاعدہ یا داعش یہ سب دہشت گرد تنظیمیں امریکی سامراج کی تخلیق ہیں جن کو جواز بنا کر امریکا اپنے مفادات کے لیے پچھلے 40برسوں سے ہمارے خطے میں مسلسل مداخلت کر رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہمارا خطہ پاکستان سمیت مسلسل تباہ کن سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے۔
Load Next Story