انتخابات کے التوا کی سازش
اگرسول انتظامیہ درکارنہیں توکیا ہمارے یہ دوست چاہتے ہیں کہ فوج یہ کام کرے جوخود کواپنے آئینی کردار تک محدود کرچکی ہے
چیف جسٹس آف پاکستان نے بیک جنبش قلم انتخابات کے التوا کی سازش ناکام بنا دی۔ یہ ایک مبارک فیصلہ ہے۔ اس کی برکت سے قومی زندگی پر چھائی ہوئی ہر نحوست ان شاء اللہ چھٹ جائے گی اور معاملات سیاست و ریاست سیدھی راہ پر گامزن ہو جائیں گے۔
قومی معاملات کا سیدھی راہ پر گامزن ہو جانا یقیناً اطمینان بخش ہے لیکن یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آخر وہ کون ذات شریف ہے جسے انتخابات کی تمنا نہیں۔
تفنن برطرف، انتخابات سے پہلو بچانے کا خواہش مند کوئی ایک فریق نہیں بلکہ کئی طبقے تھے۔ اتفاق سے جن کے مفادات مشترک ہو گئے ہیں۔ ان میں پہلا اور اہم ترین گروہ تو وہی ہے جو لاہور ہائی کورٹ میں گیا اور اسی کی درخواست پر حکم امتناعی جاری کر کے انتخابی عمل کو روک دیا یعنی پی ٹی آئی۔ دوسرا گروہ ناقابل یقین ہے۔
یہ وہی گروہ ہے جس کی طرف سے انتخابات کا مطالبہ تو بہ تکرار کیا جا رہا لیکن اس کے ساتھ ہی بالکل پی ٹی آئی کی طرح ہی اسے مشکوک بھی بنایا جا رہا ہے۔ یہ ہے پاکستان پیپلز پارٹی۔ ایک اور فریق بھی ہے۔ اس کا ذکر کچھ دیر بعد میں کرتے ہیں۔ پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ دونوں فریق انتخابات چاہتے کیوں نہیں ؟
یہ دونوں جماعتیں کیوں چاہتی ہیں کہ انتخابات التوا کا شکار ہو جائیں۔ سیاسی مفاد کے تعلق سے بالکل علیحدہ مقاصد رکھنے والی جماعتوں کی منزل ایک کیسے ہو گئی، یہ کہانی بڑی دل چسپ ہے۔ پہلے فریق اول یعنی تحریک انصاف کا کیس سمجھتے ہیں۔
یہ جماعت پے درپے کئی مسائل کا شکار ہے۔ اپنی عاقبت نا اندیشی، عاجلانہ طرز عمل اور غیر سیاسی رویوں کی وجہ سے اس نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی جماعت اور اس کا ڈھانچا تباہ کر لیا۔ یہ جماعت بے سر(Head Less) بھی ہو چکی ہے۔
ہر چند اس کے بانی نے عثمان بزدار کے انتخاب جیسی روش کو برقرار رکھتے ہوئے بیرسٹر گوہر خان کی شکل میں ایک اور چہرہ تلاش کر لیا ہے لیکن جیسے کہا جاتا ہے کہ پوت کے پاؤں پالنے میں، ابھی سے اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ صاحب ایک سیاسی جماعت سنبھالنے کی اہلیت نہیں رکھتے چہ جائیکہ پی ٹی آئی ان کی قیادت میں انتخابی معرکے میں کود سکے۔
پی ٹی آئی کی دشواریاں دو ہیں، اول اس جماعت کا ڈھانچا شکست و ریخت کا شکار ہو چکا ہے اور دوم، اب اس کے پاس انتخابی بساط پر اتارنے کے لیے امیدوار بھی نہیں ہیں۔ اس جماعت کی طرف سے تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ اس کے امیدواروں کا رخ جبراً دوسری جماعتوں کی طرف موڑ دیا گیا ہے یا انھیں غیر سیاسی کر دیا گیا ہے۔
ہمارے ذرائع ابلاغ کے ایک حصے کا المیہ یہ ہے کہ کسی گروہ کی طرف سے جو لائن اختیار کی جاتی ہے یا اس کی طرف سے پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، اس کی طرف سے بھی وہی جگالی شروع کر دی جاتی ہے۔
یہ ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ زمینی حقائق کی روشنی میں صورت حال کا جائزہ لے کر اصل حقیقت تک پہنچا جائے حالاں کہ پی ٹی آئی کے پروپیگنڈے کی بہ جائے ذرا سا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے توحقیقت سامنے آ جاتی ہے کیوں کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سرمایے کی طرح انتخابی امیدوار بھی بہت حساس ہوتا ہے۔ وہ گیلی زمین پر پاؤں نہیں رکھتا جو سیاسی جماعت قومی مفادات اور دفاع کے متوازی جا کھڑی ہو، وہ فوراً راستہ بدل لیتا ہے۔
پی ٹی آئی کے الیکٹیبلز اور امیدواروں نے یہی راستہ اختیار کیا ہے۔ یہ جماعت جو چاہے کہے لیکن غیر جانب دار مبصرین کو تو پروپیگنڈے کا شکار ہونے کے بہ جائے اصل صورت حال پیش نظر رکھنی چاہیے۔
اس جماعت کے راستے کی دوسری رکاوٹ اس کی کارکردگی ہے۔ وفاقی حکومت میں تو اس جماعت نے بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کو متنوع قسم کے مسائل سے دوچار کیا ہی تھا جن میں اقتصادی مسائل اور خارجہ تعلقات کا شعبہ خاص طور پر قابل ذکر تھا لیکن خیبر پختونخوا میں جہاں اس کی حکومت بلا شرکت غیرے نو برس رہی ہے۔
وہاں اس نے کس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے؟ اس جماعت کی اصل دشمن کسی موہوم دشمن کے بہ جائے یہ حقیقتیں ہیں جن کا بہادری سے سامنا کرنے کے بہ جائے وہ کبھی الیکشن کمیشن کو کوستی ہے، کبھی اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنا لیتی ہے اور کبھی نگراں حکومتوں کو آڑے ہاتھوں لیتی ہے۔
یہ جماعت انتخابات کے التوا کی آرزو مند اس لیے بھی تھی کہ اگر وہ مختلف حیلوں بہانوں سے جسٹس قاضی فائز عیسی کا عرصہ نکل جائے تو اس کے خیال میں اس کے بعد اسے مفید مطلب حالات میسر آ جائیں گے۔ اس طرح چیئرمین تحریک انصاف اور ان کی جماعت کو شاید کچھ سہولت میسر آ جائے۔ ایسا سوچتے ہوئے وہ لوگ شاید حقیقت فراموش کر بیٹھے کہ قومی سلامتی اور دفاع کے معاملات افراد سے منسلک نہیں ہوتے بلکہ ان کا تعلق ریاست سے ہوتا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا معاملہ بھی بڑا دل چسپ ہے۔ یہ جماعت انتخابات کا مطالبہ کرتی ضرور رہی ہے لیکن اس کا معاملہ بھی پی ٹی آئی سے مختلف نہیں۔ سندھ میں اس کی سب سے بڑی دشمن اس کی کارکردگی ہے۔ وہ سندھ میں پندرہ برس تک بلا شرکت غیرے حکمران رہی ہے۔ اس کے دور میں صوبہ اور خاص طور پر شہری سندھ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔
سندھ میں پہلی بار اس جماعت کے سامنے حقیقی سیاسی چیلنج آ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں جو انتخابی اتحاد وجود میں آ رہا ہے، حالیہ تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے اور یہ ایک حقیقی خطرہ ہے۔ اس خطرے نے پیپلز پارٹی کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے۔ سندھ کی طرح پنجاب اور دیگر دو صوبوں میں پی ٹی آئی کی طرح اس کے پاس بھی انتخابی امیدوار نہیں ہیں۔ یہی سبب تھا کہ انتخابی عمل کو شکوک وشبہات میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔
تیسرا عنصر عبوری اور نگراں نظام کا ایک انتہائی مختصر حصہ ہے جس کی خواہش ہے کہ اگر ان دنوں میں کچھ بڑھ سکیں تو اچھا ہو جائے۔ بدقسمتی سے اس خواہش کے غبارے میں ہوا بھرنے والوں میں بھی ذرائع ابلاغ کا ایک چھوٹا سا حصہ شامل ہے جس نے مختلف دلائل و براہین تراش کر کے اس خواہش کو حقیقی واقعہ بنانے کی کوشش کی۔
اب جو بات یہاں ہم کہنے جا رہے ہیں، وہ ایک واضح زمینی حقیقت تو نہیں اور نہ ایسا ہو سکتا ہے لیکن مفادات کے اس اجتماع نے یہ غیر مرئی اتحاد تشکیل دے دیا۔ اسی بے وجود اتحاد کو مجسم ثابت کرنے کے آرزو مند دانش مندوں کی طرف سے پروپیگنڈے کا طوفان اٹھایا گیا پی ٹی آئی نے جسے عدالت میں پہنچ کر ایک واضح صورت دے دی۔
اس صورت حال میں چوتھا کردار ان دانش وروں کا ہے جو انتخابی شفافیت کے نام پر التوا کے ہتھکنڈوں کی تائید کرتے ہیں۔ ان دانش وروں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی انتخابات کا التوا تو نہیں چاہتی اصل میں وہ انتظامیہ کے بہ جائے عدلیہ کی نگرانی میں انتخابات چاہتی ہے۔
اس قسم کا موقف اختیار کرتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کر دی جاتی ہے کہ 2013 میں بھی عدلیہ کی نگرانی میں انتخابات ہوئے تھے جسے آر او ز کا الیکشن قرار دے کر مسترد کیا گیا۔ اب عدلیہ عملہ فراہم کرنے سے انکار کر چکی ہے۔
ایسی صورت میں الیکشن کمیشن عملہ کہاں سے لائے؟ اسے دستیاب وسائل سے ہی عملہ حاصل کرنا ہے۔ اگر سول انتظامیہ درکار نہیں تو کیا ہمارے یہ دوست چاہتے ہیں کہ فوج یہ کام کرے جو خود کو اپنے آئینی کردار تک محدود کر چکی ہے۔