افغانستان دہشت گردوں کا محفوظ ٹھکانہ
عسکریت پسندی کی تازہ ترین لہر نے ایک بار پھر مربوط پالیسی کے فقدان کو بے نقاب کر دیا ہے
میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں افغانستان سے لائے جانے والے غیر ملکی اسلحے کے استعمال کے ثبوت پھر منظرِ عام پرآگئے ہیں۔
ٹی ٹی پی کو ہتھیاروں کی فراہمی نے خطے کی سلامتی کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا ہے، بالخصوص پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
درحقیقت پاکستان کے لیے سیکیورٹی چیلنجز میں اضافہ ہوا ہے۔ سابق قبائلی علاقوں میں سرحد پار سے حملے نمایاں طور پر بڑھے ہیں لیکن اس سال عسکریت پسندوں کے ہاتھوں تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے، عسکریت پسندوں نے عملی طور پر پاکستانی ریاست کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا ہے۔
سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے اندر ہونے والے کچھ حملوں میں افغان طالبان بھی ٹی ٹی پی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں نے افغانستان سے امریکا کو نکالنے میں طالبان کی مدد کی اور اب طالبان انھیں شیلٹر فراہم کر رہے ہیں۔ ان حملوں اور دیگر معاملات کی وجہ سے اسلام آباد نے غیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔
اس کے بعد سے چار لاکھ سے زیادہ افغان ملک چھوڑ چکے ہیں لیکن اب بھی 10 لاکھ غیر قانونی پناہ گزین باقی ہیں۔ دوسری جانب پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کسی طرح کے مذاکرات کی سختی سے تردید کی ہے۔ حالیہ عرصے میں ملک میں ہونے والے متعدد بڑے دہشت گردانہ حملوں کے لیے اسلام آباد نے اسی عسکریت پسند تنظیم کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
یورو ایشین ٹائمز کے مطابق پاکستان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی کارروائیوں میں امریکی ساخت کے اسلحے کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
پینٹاگون کے مطابق امریکا نے افغان فوج کو کل 427,300 جنگی ہتھیار فراہم کیے، جس میں 300,000 انخلا کے وقت باقی رہ گئے، اس بنا پر خطے میں گزشتہ دو سالوں کے دوران دہشت گردی میں وسیع پیمانے پر اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پینٹاگون کے مطابق امریکا نے 2005 سے اگست 2021 کے درمیان افغان قومی دفاعی اور سیکیورٹی فورسز کو 18.6 ارب ڈالر کا سامان فراہم کیا۔
یہ تمام حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ افغان ریجیم نہ صرف ٹی ٹی پی کو مسلح کر رہی ہے بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ راستہ بھی فراہم کر رہی ہے۔ تقریباً آٹھ ہفتے بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل یہ واقعی ایک سنگین صورت حال ہے۔ انتخابات آٹھ فروری 2024 کو ہوں گے۔
خاص طور پر شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خودکش بم دھماکوں اور عسکریت پسندوں کے حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے دونوں صوبوں میں انتخابی ریلیوں پر عسکریت پسندوں کے حملے کے خطرات کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ رواں سال کے آغاز سے اب تک ہونے والی مجموعی اموات میں سے 92 فیصد انھی دو صوبوں میں ہوئیں۔
دشمن ریاستوں کی سرپرستی میں علیحدگی پسند، فرقہ وارانہ، نسلی اور مذہبی بنیاد پرستوں کی وجہ سے پاکستانی شہری دہشت گردوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ پاکستان میں ہونیوالے دہشت گرد حملوں میں 70000سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی معیشت کو مجموعی طور پر 150بلین ڈالرز سے زیادہ کا مالی نقصان ہوا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کرانے میں بھارت کے ملوث ہونے میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
پاکستان میں بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردی کے بارے میں پاکستان کی طرف سے پہلے ہی ایک ڈوزیئر جاری کیا جا چکا ہے جس میں انتہائی مخصوص معلومات جیسے بینک اکاؤنٹس اور اس میں ملوث بھارتی شہریوں کے شواہد موجود ہیں جو دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ اس ڈوزیئر میں ٹی ٹی پی، بلوچ شرپسندوں اور دیگر گروپوں کے تربیتی کیمپوں کی تعداد اور مقامات بھی شامل ہیں۔
ذرایع کے مطابق حال ہی میں بھارتی بدنام زمانہ انٹلیجنس ادار ے ''را'' نے پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے لیے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے چار دیگر دہشت گرد گروپوں کے ساتھ انضمام کے لیے 10لاکھ ڈالرز کی خطیر رقم خرچ کی ہے۔
بھارت افغانستان میں تھنک ٹینکس اور دیگر ذرایع سے بلوچ علیحدگی پسندوں کو بھی رقم فراہم کرکے ان کی مالی اعانت کرتا رہا ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ''را'' مختلف جی پی ایس کے ذریعے سی پیک CPECکے منصوبوں پر حملے کروا کے ان منصوبوں کی پیش رفت رکوانے کے لیے بھارتی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
افغانستان سے 23 دہشت گرد تنظیمیں امریکا، چین اور پاکستان سمیت لگ بھگ 53 ممالک میں دہشت گردی پھیلاتی ہیں، ان تنظیموں میں ٹی ٹی پی سمیت القاعدہ، جماعت الاحرار، حزب التحریر، جنداللہ، آئی ایم یو اور بلوچ گروپس شامل ہیں۔
افغانستان سے دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ممالک میں پاکستان سر فہرست ہے، 23 میں سے 17 دہشت گرد تنظیمیں صرف پاکستان کو نشانہ بناتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان خطے میں دہشت گرد تنظیموں کی باقاعدہ مالی معاونت کررہا ہے، پاکستان میں گزشتہ سال دہشت گردی کی بڑھتی لہر میں ٹی ٹی پی اور افغان حمایت کا مرکزی کردار رہا۔
آپریشن ضرب عضب اور رد الفساد سے تقریباً ختم ہونے والی ٹی ٹی پی، افغان طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد دوبارہ متحرک ہوگئی ہے۔
پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں بھی افغانستان میں چھوڑا جانے والا امریکی اسلحہ استعمال ہوا تھا پچھلے دو برسوں میں پاکستان میں ہونے والے تمام خودکش حملہ آور بھی افغان تھے جس سے لگتا ہے کہ ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے، طالبان حکومت نے پاکستان کے بارہا مطالبے پر بھی کوئی ایکشن نہ لیا۔
امریکی نمایندہ برائے امن پروگرام کے مطابق ٹی ٹی پی افغانستان میں دہشتگردوں کی تربیت اور ان کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے متحرک ہے۔
افغانستان بارڈر پر ہماری توجہ بہت زیادہ نہیں ہے اس لیے وہاں ٹی ٹی پی وغیرہ کی سرگرمیاں بڑھی ہیں۔ ٹی ٹی پی کافی منظم گروپ ہے جو اب پاکستان پر اس علاقے سے دباؤ ڈال رہا ہے۔ افغانستان سے متصل پاکستان کے کافی علاقے پر ان کا اثرو رسوخ ہے۔
اس کی ایک وجہ شاید انھیں وہاں حاصل مقامی حمایت ہے یا پھر مقامی افراد حکومت کی مکمل رٹ نہ ہونے کے باعث ٹی ٹی پی کے لوگوں سے بگاڑنا نہیں چاہتے تاکہ وہ محفوظ رہیں۔ وہ خوف کا شکار ہیں۔ دراصل افغانستان کے ساتھ متصل پاکستانی علاقوں کے لیے ایک جامع پالیسی کی ضرورت تھی۔ وہاں کے لوگوں کو تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات دینا ضروری تھا۔
فاٹا کے علاقوں کا خیبر پختونخوا میں انضمام تو ہوا تو لیکن بات کتابی انضمام سے آگے نہیں بڑھی۔ ان علاقوں پر توجہ دینے کی ضرورت تھی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر دہشت گردوں کی جانب سے حملے اسی طرح جاری رہے تو الیکشن کیسے ہوں گے؟ عوامی نمایندے جنھیں الیکشن مہم پر نکلنا ہوتا ہے، ان کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔
افغان طالبان نے اپنی کمٹمنٹ کی پاسداری نہیں کی ہے، پاکستانی حکومت کا آج بھی افغان طالبان سے مطالبہ یہی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دیں لیکن انھوں نے یقین دہانی کے باوجود اپنی کمٹمنٹ کی پاسداری نہیں کی ہے۔
اب افغان حکومت ایک ذمے دار ہمسایہ ملک کا فرض ادا کرتے ہوئے پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرے لیکن افغان حکومت نے تاحال پاکستان کے مطالبے کا مثبت جواب نہیں دیا ہے، بلکہ افغانستان سے ان دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوکر پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
افغانستان کے ایک مذہبی رہنما نے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف کچھ عرصہ قبل فتویٰ بھی جاری کیا ہے اور افغان حکومت مسلسل اس بات کی تردید کرتی رہی ہے کہ افغانستان میں نہ تو کوئی دہشت گرد تنظیم ہے نہ اس کا ٹھکانہ ہے۔
تو سوال یہ ہے کہ پھر دہشت گرد، جن میں ٹی ٹی پی کے خوارج سرفہرست ہیں، کس طرح افغانستان سے آکر پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان نے جو ڈوزیئر افغانستان کے حوالے کیا ہے اس پر افغان حکومت کارروائی کیوں نہیں کرتی۔ دال میں کچھ کالا تو ضرور ہے۔
عسکریت پسندی کی تازہ ترین لہر نے ایک بار پھر مربوط پالیسی کے فقدان کو بے نقاب کر دیا ہے۔ انسداد دہشت گردی کی مؤثر اور پائیدار حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے جو ملک کی سلامتی اور انتخابی عمل کے لیے خطرہ بننے والے عسکریت پسند عناصر کا خاتمہ کر سکے۔
ٹی ٹی پی کو ہتھیاروں کی فراہمی نے خطے کی سلامتی کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا ہے، بالخصوص پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
درحقیقت پاکستان کے لیے سیکیورٹی چیلنجز میں اضافہ ہوا ہے۔ سابق قبائلی علاقوں میں سرحد پار سے حملے نمایاں طور پر بڑھے ہیں لیکن اس سال عسکریت پسندوں کے ہاتھوں تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے، عسکریت پسندوں نے عملی طور پر پاکستانی ریاست کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا ہے۔
سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے اندر ہونے والے کچھ حملوں میں افغان طالبان بھی ٹی ٹی پی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں نے افغانستان سے امریکا کو نکالنے میں طالبان کی مدد کی اور اب طالبان انھیں شیلٹر فراہم کر رہے ہیں۔ ان حملوں اور دیگر معاملات کی وجہ سے اسلام آباد نے غیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔
اس کے بعد سے چار لاکھ سے زیادہ افغان ملک چھوڑ چکے ہیں لیکن اب بھی 10 لاکھ غیر قانونی پناہ گزین باقی ہیں۔ دوسری جانب پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کسی طرح کے مذاکرات کی سختی سے تردید کی ہے۔ حالیہ عرصے میں ملک میں ہونے والے متعدد بڑے دہشت گردانہ حملوں کے لیے اسلام آباد نے اسی عسکریت پسند تنظیم کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
یورو ایشین ٹائمز کے مطابق پاکستان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی کارروائیوں میں امریکی ساخت کے اسلحے کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
پینٹاگون کے مطابق امریکا نے افغان فوج کو کل 427,300 جنگی ہتھیار فراہم کیے، جس میں 300,000 انخلا کے وقت باقی رہ گئے، اس بنا پر خطے میں گزشتہ دو سالوں کے دوران دہشت گردی میں وسیع پیمانے پر اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پینٹاگون کے مطابق امریکا نے 2005 سے اگست 2021 کے درمیان افغان قومی دفاعی اور سیکیورٹی فورسز کو 18.6 ارب ڈالر کا سامان فراہم کیا۔
یہ تمام حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ افغان ریجیم نہ صرف ٹی ٹی پی کو مسلح کر رہی ہے بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ راستہ بھی فراہم کر رہی ہے۔ تقریباً آٹھ ہفتے بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل یہ واقعی ایک سنگین صورت حال ہے۔ انتخابات آٹھ فروری 2024 کو ہوں گے۔
خاص طور پر شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خودکش بم دھماکوں اور عسکریت پسندوں کے حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے دونوں صوبوں میں انتخابی ریلیوں پر عسکریت پسندوں کے حملے کے خطرات کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ رواں سال کے آغاز سے اب تک ہونے والی مجموعی اموات میں سے 92 فیصد انھی دو صوبوں میں ہوئیں۔
دشمن ریاستوں کی سرپرستی میں علیحدگی پسند، فرقہ وارانہ، نسلی اور مذہبی بنیاد پرستوں کی وجہ سے پاکستانی شہری دہشت گردوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ پاکستان میں ہونیوالے دہشت گرد حملوں میں 70000سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی معیشت کو مجموعی طور پر 150بلین ڈالرز سے زیادہ کا مالی نقصان ہوا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کرانے میں بھارت کے ملوث ہونے میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
پاکستان میں بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردی کے بارے میں پاکستان کی طرف سے پہلے ہی ایک ڈوزیئر جاری کیا جا چکا ہے جس میں انتہائی مخصوص معلومات جیسے بینک اکاؤنٹس اور اس میں ملوث بھارتی شہریوں کے شواہد موجود ہیں جو دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ اس ڈوزیئر میں ٹی ٹی پی، بلوچ شرپسندوں اور دیگر گروپوں کے تربیتی کیمپوں کی تعداد اور مقامات بھی شامل ہیں۔
ذرایع کے مطابق حال ہی میں بھارتی بدنام زمانہ انٹلیجنس ادار ے ''را'' نے پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے لیے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے چار دیگر دہشت گرد گروپوں کے ساتھ انضمام کے لیے 10لاکھ ڈالرز کی خطیر رقم خرچ کی ہے۔
بھارت افغانستان میں تھنک ٹینکس اور دیگر ذرایع سے بلوچ علیحدگی پسندوں کو بھی رقم فراہم کرکے ان کی مالی اعانت کرتا رہا ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ''را'' مختلف جی پی ایس کے ذریعے سی پیک CPECکے منصوبوں پر حملے کروا کے ان منصوبوں کی پیش رفت رکوانے کے لیے بھارتی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
افغانستان سے 23 دہشت گرد تنظیمیں امریکا، چین اور پاکستان سمیت لگ بھگ 53 ممالک میں دہشت گردی پھیلاتی ہیں، ان تنظیموں میں ٹی ٹی پی سمیت القاعدہ، جماعت الاحرار، حزب التحریر، جنداللہ، آئی ایم یو اور بلوچ گروپس شامل ہیں۔
افغانستان سے دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ممالک میں پاکستان سر فہرست ہے، 23 میں سے 17 دہشت گرد تنظیمیں صرف پاکستان کو نشانہ بناتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان خطے میں دہشت گرد تنظیموں کی باقاعدہ مالی معاونت کررہا ہے، پاکستان میں گزشتہ سال دہشت گردی کی بڑھتی لہر میں ٹی ٹی پی اور افغان حمایت کا مرکزی کردار رہا۔
آپریشن ضرب عضب اور رد الفساد سے تقریباً ختم ہونے والی ٹی ٹی پی، افغان طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد دوبارہ متحرک ہوگئی ہے۔
پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں بھی افغانستان میں چھوڑا جانے والا امریکی اسلحہ استعمال ہوا تھا پچھلے دو برسوں میں پاکستان میں ہونے والے تمام خودکش حملہ آور بھی افغان تھے جس سے لگتا ہے کہ ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے، طالبان حکومت نے پاکستان کے بارہا مطالبے پر بھی کوئی ایکشن نہ لیا۔
امریکی نمایندہ برائے امن پروگرام کے مطابق ٹی ٹی پی افغانستان میں دہشتگردوں کی تربیت اور ان کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے متحرک ہے۔
افغانستان بارڈر پر ہماری توجہ بہت زیادہ نہیں ہے اس لیے وہاں ٹی ٹی پی وغیرہ کی سرگرمیاں بڑھی ہیں۔ ٹی ٹی پی کافی منظم گروپ ہے جو اب پاکستان پر اس علاقے سے دباؤ ڈال رہا ہے۔ افغانستان سے متصل پاکستان کے کافی علاقے پر ان کا اثرو رسوخ ہے۔
اس کی ایک وجہ شاید انھیں وہاں حاصل مقامی حمایت ہے یا پھر مقامی افراد حکومت کی مکمل رٹ نہ ہونے کے باعث ٹی ٹی پی کے لوگوں سے بگاڑنا نہیں چاہتے تاکہ وہ محفوظ رہیں۔ وہ خوف کا شکار ہیں۔ دراصل افغانستان کے ساتھ متصل پاکستانی علاقوں کے لیے ایک جامع پالیسی کی ضرورت تھی۔ وہاں کے لوگوں کو تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات دینا ضروری تھا۔
فاٹا کے علاقوں کا خیبر پختونخوا میں انضمام تو ہوا تو لیکن بات کتابی انضمام سے آگے نہیں بڑھی۔ ان علاقوں پر توجہ دینے کی ضرورت تھی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر دہشت گردوں کی جانب سے حملے اسی طرح جاری رہے تو الیکشن کیسے ہوں گے؟ عوامی نمایندے جنھیں الیکشن مہم پر نکلنا ہوتا ہے، ان کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔
افغان طالبان نے اپنی کمٹمنٹ کی پاسداری نہیں کی ہے، پاکستانی حکومت کا آج بھی افغان طالبان سے مطالبہ یہی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دیں لیکن انھوں نے یقین دہانی کے باوجود اپنی کمٹمنٹ کی پاسداری نہیں کی ہے۔
اب افغان حکومت ایک ذمے دار ہمسایہ ملک کا فرض ادا کرتے ہوئے پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرے لیکن افغان حکومت نے تاحال پاکستان کے مطالبے کا مثبت جواب نہیں دیا ہے، بلکہ افغانستان سے ان دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوکر پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
افغانستان کے ایک مذہبی رہنما نے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف کچھ عرصہ قبل فتویٰ بھی جاری کیا ہے اور افغان حکومت مسلسل اس بات کی تردید کرتی رہی ہے کہ افغانستان میں نہ تو کوئی دہشت گرد تنظیم ہے نہ اس کا ٹھکانہ ہے۔
تو سوال یہ ہے کہ پھر دہشت گرد، جن میں ٹی ٹی پی کے خوارج سرفہرست ہیں، کس طرح افغانستان سے آکر پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان نے جو ڈوزیئر افغانستان کے حوالے کیا ہے اس پر افغان حکومت کارروائی کیوں نہیں کرتی۔ دال میں کچھ کالا تو ضرور ہے۔
عسکریت پسندی کی تازہ ترین لہر نے ایک بار پھر مربوط پالیسی کے فقدان کو بے نقاب کر دیا ہے۔ انسداد دہشت گردی کی مؤثر اور پائیدار حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے جو ملک کی سلامتی اور انتخابی عمل کے لیے خطرہ بننے والے عسکریت پسند عناصر کا خاتمہ کر سکے۔