سہولیات نہیں ٹیکسوں کے ذمے دار شہری
متوسط طبقہ غریب اور غریب مزید غریب ہو کر رہ گیا مگر انکم ٹیکس نہ دینے والے زیادہ متاثر نہیں ہیں
نگراں دور میں انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کے خلاف جو مہم شروع کر رکھی ہے اس کے اشتہارات میں ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ انھیں گوشوارے جمع کرانا ہی پڑیں گے ورنہ ان کے یوٹیلیٹی سروسز کے کنکشن کٹیں گے۔
ایف بی آر کا موقف ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت تمام نان فائلرز اپنے ریٹرن بلاتاخیر فائل کریں ورنہ ان کے موبائل فون یا سمز، بجلی گیس کے کنکشن منقطع کر دیے جائیں گے۔
کہا جا رہا ہے کہ جو شہری ذمے دار نہیں وہ سہولیات کا حق دار نہیں۔ یہ موقف سو فیصد درست ہے کہ انکم ٹیکس کی ادائیگی کے حقدار شہریوں کو انکم ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرنا چاہیے کیونکہ ہر مہذب اور قانون پر عمل پیرا ملک میں انکم ٹیکس کی ہر حالت میں ادائیگی ضروری ہے کیونکہ ہر ریاست شہریوں کے ٹیکسوں سے چلتی ہے۔
امور مملکت حکومت ان ٹیکسوں کی وصولی سے ہی چلاتی ہے اور ملک کے عوام کو حاصل ٹیکسوں سے ہی سہولیات دیتی اور ترقیاتی منصوبے مکمل کراتی اور ملک کو ترقی دلاتی ہے۔
ٹیکس کی اہمیت اور ادائیگی کی پابندی سے کوئی انکار نہیں کیا جا سکتا مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ انکم ٹیکس ادائیگی کے حامل افراد خصوصاً کاروباری حضرات انکم ٹیکس برائے نام ہی ادا کرتے ہیں اور ان لاکھوں افراد میں ٹیکس فائلروں کی تعداد بہت کم ہے جس کی وجہ سے ملکی امور متاثر ہو رہے ہیں اور حکومت اپنے ترقیاتی منصوبوں پر بھی عمل نہیں کر پا رہی اور ایسی صورت حال میں ایف بی آر سخت فیصلوں پر مجبور ہوئی ہے اور نگراں حکومت کے دور میں اب انکم ٹیکس وصولی کے لیے یوٹیلیٹی سروسز کے کنکشن منقطع کرنے کے اقدامات شروع کیے گئے ہیں۔
یہ بھی درست ہے کہ کسی بھی ماضی کی حکومت میں انکم ٹیکس وصولی کے لیے اتنے سخت فیصلے کبھی نہیں کیے گئے جو موجودہ نگراں حکومت میں کیے گئے ہیں۔
پارلیمنٹ کی غیر موجودگی میں اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے نگراں حکومتیں قائم ہوتی ہیں جن کی مدت ماضی میں تین ماہ رہی ہے مگر پہلی بار اگر 8 فروری کو انتخابات متاثر نہ ہوئے تو موجودہ نگراں حکومت کی مدت 6 ماہ ہو جائے گی اور اتحادی حکومت نے جان بوجھ کر نگران حکومت کو وہ اختیارات بھی دیے جو ماضی میں کبھی نہیں دیے گئے۔ ماضی میں نگران حکومت میں سیاسی و غیر سیاسی لوگ شامل رہے اور اب بھی ہیں۔
نگراں حکومتیں کیسے چلتی ہیں یہ سب کو پتا ہے۔ نگراں حکومت کی تقرری سے قبل مختلف جماعتوں کی اتحادی حکومت تھی جو پی ٹی آئی حکومت میں کی گئی مہنگائی کو بنیاد بنا کر آئی تھی مگر اتحادی حکومت نے 16 ماہ میں مہنگائی کم کرنے کے بجائے مسلسل بڑھائی اور عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا جس پر پی ٹی آئی۔
جماعت اسلامی کو اتحادی حکومت پر تنقید کا موقعہ ملا اور عوام پی ٹی آئی دور میں بڑھائی گئی مہنگائی بھول گئے اور اتحادی حکومت کی اس پالیسیوں کو ناپسند کرنے لگے جس سے پی ٹی آئی کی مقبولیت بڑھی اور لوگ بھول گئے کہ وہ حکومت آئی ایم ایف کو سخت ناراض کر گئی تھی اور جاتے جاتے اس حکومت نے بجلی و پٹرول کی قیمتیں آئی ایم ایف کی شرائط کے برعکس کم کردی تھیں۔
اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کو راضی کرنے کے لیے ہر عوام دشمن اقدام کیا، بے روزگاری بڑھائی جس سے وہ آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے میں تو کامیاب ہو گئی مگر اسے مزید قرض کے لیے آئی ایم ایف کی مزید سخت شرائط ماننا پڑیں۔
اسمبلیوں کی مدت بڑھا کر اتحادی حکومت مزید مشکل فیصلے کرسکتی تھی مگر مزید پریشانی سے بچنے کے لیے اتحادی حکومت مزید مشکل فیصلوں اور ریکارڈ توڑ مہنگائی کا اختیار نگراں حکومت کو دے گئی جس نے بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات اور ٹیکس بڑھا کر عوام کی چیخیں نکال دیں اور اب بھی مہنگائی بڑھانے کا سلسلہ جاری ہے۔
وفاق اور صوبوں میں بڑی بڑی کابینائیں نگرانوں نے بنائیں اور اپنوں کو نوازا۔ نگراں حکومت میں ڈالر اور سونا کنٹرول کرنے اور اسمگلنگ روکنے کے لیے بالاتروں کی حمایت سے سخت فیصلے کیے جس کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے۔ اسٹاک مارکیٹ 62 ہزار انڈیکس کی حد عبور کرکے نیا ریکارڈ بنا چکی ہے مگر عوام کو کوئی فائدہ ہوا نہ مہنگائی کم ہوئی بلکہ اب تو سبزیاں بھی اتنی مہنگی ہیں جو ماضی میں نہیں ہوئی تھیں۔
پی ٹی آئی جماعت اسلامی موجودہ ملکی صورت حال کا ذمے دار گزشتہ اتحادی حکومت کو اور پی پی مسلم لیگ (ن) کو اور پی ٹی آئی کی مخالف جماعتیں اس کی پونے چار سالہ حکومت کو ذمے دار قرار دے رہی ہیں اور عوام ان سب کے الزامات کی سیاست کی سزا بھگت رہے ہیں۔
متوسط طبقہ غریب اور غریب مزید غریب ہو کر رہ گیا مگر انکم ٹیکس نہ دینے والے زیادہ متاثر نہیں ہیں۔ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے متاثرہ پٹرولیم استعمال کرنے والوں نے اس کا استعمال کم کر دیا ہے جس کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات کی فروخت میں 16 فیصد کمی واقع ہو چکی ہے۔ پٹرول، بجلی و گیس کے صارفین کو ہر حکومت نے اپنی کمائی اور عوام کو معاشی مسائل میں الجھانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کے علاوہ بجلی و گیس کے گھریلو صارفین سے حکومت سیلز ٹیکس کے علاوہ اضافی رقوم اور کمرشل استعمال پر انکم ٹیکس بھی وصول کرتی آ رہی ہے۔
مسالے، صابن، گھی، پکانے کے تیل کے بغیر کھانے نہیں پک سکتے نہ نہائے بغیر رہا جا سکتا ہے یہ اشیا سامان تعیش نہیں روز کی ضروریات ہیں۔ بجلی و پٹرول کا استعمال کم کیا جاسکتا ہے مگر اشیائے ضروریہ کے بغیر زندگی نہیں گزاری جا سکتی۔ چائے پینا عیاشی نہیں مگر ان سب اشیا پر ملک کا ہر شخص ٹیکس ادا کر رہا ہے۔
سوئی گیس کے نرخ مسلسل بڑھانے اور ٹیکس وصولی سے مطمئن نہ ہونے والی ہر حکومت کو شکایت ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے سہولیات مانگتے ہیں۔ گھروں تک کو گیس نہیں مل رہی مگر گیس نرخ سردیوں میں بڑھا دیے گئے بلکہ گھروں پر چار سو سے ایک ہزار تک فکس چارجز عائد کر دیے اور اب بجلی فیول کے نام پر مزید تین روپے مہنگی کردی ہے اور گیس کے نرخ مزید بڑھائے جا رہے ہیں اور یہ مسائل مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ نے بجلی بلوں میں سیلز ٹیکس وصولی روک دی ہے کاش حکومت کے مہنگائی بڑھانے کے احکامت کو بھی روکا جائے ۔ بڑے تاجر، صنعتکار اور کروڑوں روپے ماہانہ کمانے والوں سے انکم ٹیکس ضرور وصول کیا جانا چاہیے کیونکہ ایسے اکثر بڑے لوگ ٹیکس نہیں دیتے یا انکم ٹیکس افسران کی ملی بھگت سے کم دیتے ہیں جس کی ذمے دار حکومت اور سرکاری ادارے ہیں ،سرکاری افسران کو ذاتی کمائی کی فکر زیادہ ہے وہ نہیں چاہتے کہ ٹیکس زیادہ جمع ہو اور حکومت کی آمدنی بڑھے۔
یہی افسران فائلرز نہ بڑھنے کے ذمے دار ہیں۔ ملک کا ہر شخص ٹیکس دے رہا ہے اور سہولتوں سے محروم ہے جب کہ حکومت ٹیکس لے کر بھی سہولیات نہیں دے رہی۔ یوٹیلیٹی سروسز نان فائلرز سے چھیننے سے فرق پڑے نہ پڑے مگر بے انتہا ٹیکسوں کی ادائیگی سے عام لوگوں کو سہولیات تو کیا جینے کا حق بھی نہیں دیا جا رہا۔