ابھی انسان کی تخلیق نہیں ہوئی تھی لیکن مکالمے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پہلا تحریری مکالمہ جسے خالق کائنات نے اپنی لافانی کتاب قرآن مجید میں محفوظ کیا، وہ تخلیق انسانیت سے متعلق تھا۔ فرشتوں کا خیال تھا کہ اگر صرف تسبیح ہی کرنی ہے تو پھر نئی مخلوق کی ضرورت نہیں لیکن پروردگار عالم نے انہیں لاعلم قرار دے کر خاموش کروادیا۔
تخلیقِ سیدنا آدم علیہ السلام کے بعد دوسرا مکالمہ اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور حضرت آدمؑ کے درمیان ہوا۔ یہ مکالمہ فرشتوں کے علم کی محدودیت پر برہان قاطع اور نسل انسانی کے نوری مخلوق پر علمی فوقیت کا نقطہ آغاز تھا۔
ایک مکالمہ سیدنا ابراہیمؑ نے نمرود سے بھی کیا تھا، جب وہ خود کو خدا سمجھ کر موت و حیات کے فیصلے کرنے لگا۔ حضرت ابراہیمؑ نے کہا کہ اگر اپنی خدائی پر سچے ہو تو سورج کو مشرق کے بجائے مغرب سے نکال کر دکھا دو۔
سورج کیا نکالنا تھا، حیرت، ندامت اور جہالت سے اس کی آنکھیں باہر نکل آئیں اور خدا کا پیامبر کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوا۔
مکالمے کی روایت عرش سے فرش تک ہر دور میں جاری رہی ہے اور یہ کبھی رک نہیں سکتی، کیوں کہ علم تک رسائی اور جہالت کے سدباب کی یہ ایک موثر ترین انسانی قدر ہیں۔ دنیا کے ہر رشتے کو توانائی، ہرشعبے کو بڑھوتری اور ہر قوم کو اونچائی مکالمے کے آب حیات سے ملتی ہے۔ جس دن یہ سلسلہ رسد بند ہوجائے، اس دن رشتے بکھرنے لگتے ہیں، شعبوں پر زوال آتا ہے اور قوم ماضی کا قصہ بننے لگتی ہے۔
اقبال خورشید کا 'فکشن سے مکالمہ' دنیا کے کسی بھی ادب میں نئی روایت نہیں اور ایسا بھی نہیں کہ اس 'فکشنی مکالمے' کے بعد مکالمے کی ضرورت ختم ہوجائے گی بلکہ یہ 'مکالمہ' تلاش علم، تفہیم ادب اور فکشن کی سیدھی راہ ڈھونڈنے کی وہ کاوش ہے جس کی مثال اردو منطقے میں خال خال ہے۔
ادیبوں سے انٹرویو کی جو صحافیانہ بلکہ سوقیانہ قسم ہمارے ہاں رائج ہے، اس کی بنیاد علم دوستی اور ادب پروری نہیں بلکہ وہ بندہ پروری (تعلقات عامہ) کا ایک گھٹیا تشہیری حربہ ہے جس کو پڑھنے کے بعد ادیب کی تاریخ ولادت، اس کا پیدائشی وزن، اس کی دایہ کا نام اور مسلک، اس کے پرائمری میں فیل ہونے کی تاریخ، اس کے والد کا خفیہ پیشہ، آمدنی، ڈگریوں کی تعداد اور سرکاری محکمے میں پروموشنز کی مرحلے معلوم ہوجاتے ہیں بلکہ یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ ادیب اگلے انتخابات میں کس پارٹی کو ووٹ دے کر قوم کو شرمندہ کرے گا۔
کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اقبال خورشید کے اکثر مکالمے ان ادیبوں سے ہوئے ہیں جو اپنی عمر، شناخت اور شہرت کے اس حصے تک جاپہنچے ہیں جہاں انہیں کسی عامیانہ تشہیر بازی کی ضرورت نہیں۔ نوے برس کے انتظار حسین کو کوئی کیا شہرت دے گا؟ ان کی تو زیارت ہی اردو افسانے کا ایک بند دروازہ کھول دیتی تھی۔ عبداللہ حسین کے ساتھ تو بیٹھ جانا ہی فکشن کے طالب علموں کےلیے سعادت کی بات ہے اور اسد محمد خان تو وہ پارس ہے جو ساتھ بیٹھنے والوں کو سونا بنانے کا ہنر رکھتا ہے۔
حسن منظر درویشی اور تخلیقیت کا ایسا عمدہ امتزاج رکھتے ہیں کہ اُن کی تحریریں عطرِ عود کی طرح قارئین کو اپنے وجود میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ مرزا اطہر بیگ کی خاموشی بھی آپ کو ناول کے اسرار و رموز سکھا سکتی ہے۔ مستنصر حسین تارڑ اردو ادب کے وہ لکھاری ہیں جنہیں زندگی میں ہی لیجنڈ کا درجہ مل چکا ہے۔ شکیل عادل زادہ تو وہ چراغ رہ گزر تھے جو تابانی دکھا کر ایک پوری نسل کو منور کرگئے۔ بقول احمد مشتاق
کئی چاند تھے سر آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو میرے ہی جگر میں تھا نہ تمہاری زلف سیاہ تھی
کتاب کی نثر بہت تازہ، شستہ اور تخلیقی ہے۔ بطور صحافی ایک طویل کیریئر کے باوجود اقبال خورشید نے اپنی نثر کو صحافتی لفظوں کی متلاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیا۔ ادیبوں کے مختصر تعارف میں اقبال خورشید کا قلم ایک ترنم بھری آبشار کی طرح بہتا ہے، جس میں شاعرانہ نزاکت کی پھوار ساتھ ساتھ چلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کہیں کہیں وہ نثر کالی گھٹاؤں جیسی پراسراریت اپنا لیتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے آپ کسی مشاق ادیب کا کوئی دلفریب افسانہ شروع کر بیٹھے ہیں۔
'فکشن سے مکالمہ' ان لکھاریوں کی حیات مستعار کا نچوڑ ہے جنہوں نے ایک ایسے سماج میں اپنے روز وشب گزارے جہاں ادب لکھنا سب سے زیادہ گھاٹے کا سودا ہے۔ یہ ان مہان ادیبوں کی آپ بیتی ہے جو روزی روٹی کے جھمیلوں میں پھنسنے کے باوجود اپنے وجودی اظہار کو تخلیقی سطح پر برتنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ اُن لکھاریوں کی کتھا ہے جو بیگانگی کا شکار ہوکر لوگوں میں یگانگت اور محبت کے شعوری چراغ جلانے کےلیے کوشاں رہے۔ اِن میں اُن قلمکاروں کی زندگی کا عکس ہے جو ادب کو شہرت اور دولت کے بجائےعزت اور وقار کا وسیلہ سمجھتے تھے۔ یہ ان اولوالعزم تخلیقی ذہنوں کی روداد ہے جو آتش نمرود میں کود پڑے اور عقل دانتوں میں انگلیاں دابے ان کے فیصلے اور بے باکی پر حیران و پریشان رہی۔
اقبال خورشید نے مکالمے کا ایک ایسا دسترخوان سجایا ہے جہاں علم کے پیاسے اپنی تشنگی بجھا سکتے ہیں۔ عبقری انسانوں سے گفتگو میں جہاں آپ کو وقار، متانت اور سنجیدگی کا توشہ ملے گا وہیں ہمت، صبر اور استقامت کی حیران کن مثالیں بھی آپ کے شعور کو جگمگا دیں گی۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کتنی طلب، لگن اور محبت کے ساتھ ان ادب کے استادوں کے سامنے دوزانو ہوکر سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بقول غالب:
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔