حکومت قانون کے تحت کسی پر بھی پابندی لگاسکتی ہے نگراں وزیر اعظم
تشدد کو جواز بنا کر اُسے انسانی حقوق کا نام دینا کسی صورت قابل قبول نہیں ہے،انوار الحق کاکڑ کی کوئٹہ میں طلبا سے گفتگو
نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ تشدد کو جواز بنا کر اُسے انسانی حقوق کا نام دینا کسی صورت قابل قبول نہیں ہے، حکومت قوانین کے تحت کسی پر پابندی لگا سکتی اور اُسے ختم کرسکتی ہے۔
کوئٹہ میں طلبا سے گفتگو کرتے ہوئے نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ معاشرے میں زبان، مذہب اور نسل کے نام پر گروہ بنانے والے جواز پیش کرتے ہیں مگر جواز کوئی نہیں ہے، تشدد کو جواز بنانے اور آواز اٹھانے کیلیے آئین نے قومی و صوبائی اسمبلی کے الیکشنز لڑنے کی اجازت دی ہے۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ آٹھ فروری کو الیکشن ہورہے ہیں، جس کیلیے تمام شہری کاغذات نامزدگی جمع کرواسکتے ہیں اور کسی پر کوئی پابندی نہیں ہے، وہاں سیاسی طور پر منتخب ہوکر جائیں اور پھر اپنے مسائل پر ایک فورم پر بھرپور انداز سے آواز اٹھائیں۔
انہوں نے کہا کہ تشدد کو جواز کی بنیاد پر تسلیم کرنا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ ریاست کرے گی، کالعدم تنظیم کے لوگ تشدد اور قتل و غارت کرتے تھے، بی ایل اے اور بی ایل ایف بھی یہی کرتی ہے۔
نگراں وزیر اعظم نے نوجوان بالاچ قتل کا نام لیے بغیر کہا کہ 'ابھی ایک شخص ہلاک ہوا جس کی تحقیقات ہورہی ہیں مگر کوسٹل ہائی وے پر 15 لوگ جل گئے تھے، اُن پر کسی نے آواز نہیں اٹھائی'۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ رحیم یار خان سے مزدور آئے تھے، انہیں حفاظت کیلیے تھانے میں رکھا گیا تھا، دہشت گردوں نے پولیس اور مزدوروں کو قتل کیا مگر کسی نے اُس واقعے پر انسانی حقوق کی آواز نہیں اٹھائی، کیا انسانی حقوق کیلیے مخصوص ہونا ضروری نہیں ہے۔
نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ 'حکومت کے پاس بہت ساری معلومات ہیں اور وہ قانون کے تحت میڈیا میں اظہار کی اجازت دینے یا نہ دینے کا استحقاق رکھتی ہے، میڈیا کو آزادی اظہار رائے بھی ایک قانون کے تحت ہی حاصل ہے'۔
انوار الحق کاکڑ نے اس موقع پر اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہیں کیوں آکسفورڈ میں نہیں بلایا گیا؟ اسلیے کہ ہر چیز کے قوانین ہوسکتے ہیں۔
نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ قوانین کے تحت ہم کسی پر پابندی لگا سکتے اور ختم کرسکتے ہیں، نہ ہم ولن ہیں اور نہ ہی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ہیرو ہیں۔
کوئٹہ میں طلبا سے گفتگو کرتے ہوئے نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ معاشرے میں زبان، مذہب اور نسل کے نام پر گروہ بنانے والے جواز پیش کرتے ہیں مگر جواز کوئی نہیں ہے، تشدد کو جواز بنانے اور آواز اٹھانے کیلیے آئین نے قومی و صوبائی اسمبلی کے الیکشنز لڑنے کی اجازت دی ہے۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ آٹھ فروری کو الیکشن ہورہے ہیں، جس کیلیے تمام شہری کاغذات نامزدگی جمع کرواسکتے ہیں اور کسی پر کوئی پابندی نہیں ہے، وہاں سیاسی طور پر منتخب ہوکر جائیں اور پھر اپنے مسائل پر ایک فورم پر بھرپور انداز سے آواز اٹھائیں۔
انہوں نے کہا کہ تشدد کو جواز کی بنیاد پر تسلیم کرنا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ ریاست کرے گی، کالعدم تنظیم کے لوگ تشدد اور قتل و غارت کرتے تھے، بی ایل اے اور بی ایل ایف بھی یہی کرتی ہے۔
نگراں وزیر اعظم نے نوجوان بالاچ قتل کا نام لیے بغیر کہا کہ 'ابھی ایک شخص ہلاک ہوا جس کی تحقیقات ہورہی ہیں مگر کوسٹل ہائی وے پر 15 لوگ جل گئے تھے، اُن پر کسی نے آواز نہیں اٹھائی'۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ رحیم یار خان سے مزدور آئے تھے، انہیں حفاظت کیلیے تھانے میں رکھا گیا تھا، دہشت گردوں نے پولیس اور مزدوروں کو قتل کیا مگر کسی نے اُس واقعے پر انسانی حقوق کی آواز نہیں اٹھائی، کیا انسانی حقوق کیلیے مخصوص ہونا ضروری نہیں ہے۔
نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ 'حکومت کے پاس بہت ساری معلومات ہیں اور وہ قانون کے تحت میڈیا میں اظہار کی اجازت دینے یا نہ دینے کا استحقاق رکھتی ہے، میڈیا کو آزادی اظہار رائے بھی ایک قانون کے تحت ہی حاصل ہے'۔
انوار الحق کاکڑ نے اس موقع پر اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہیں کیوں آکسفورڈ میں نہیں بلایا گیا؟ اسلیے کہ ہر چیز کے قوانین ہوسکتے ہیں۔
نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ قوانین کے تحت ہم کسی پر پابندی لگا سکتے اور ختم کرسکتے ہیں، نہ ہم ولن ہیں اور نہ ہی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ہیرو ہیں۔