صدر کو پھنسایا جارہا ہے خط لکھنے کا راستہ شہیدوں کی قبروں کی طرف جاتا ہے بابر اعوان
اٹارنی جنرل نے خط لکھا تو ٹرائل شروع ہوجائیگا، سارا پاکستان بچہ نہیں، آج بھی خط کا مخالف ہوں، کل تک میں گفتگو
KARACHI:
سینیٹر بابر اعوان نے کہاہے کہ خط لکھنے کا راستہ شہیدوں کی قبروں کی طرف جاتا ہے ۔
میں خط نہ لکھنے کے اپنے موقف پر قائم ہوں مگر مشرف کے مشیروں نے کام دکھا دیا ہے ۔خط نہ لکھنے کا فیصلہ سی ای سی کا تھا لیکن اب خط لکھنے کا فیصلہ کہاں ہوا ہے اس کے بارے میں پتہ چلنا چاہیے۔ سوئس قوانین کے مطابق اگر اٹارنی جنرل خط لکھے تو ٹرائل شروع ہوجائے گا۔ پروگرام کل تک میں اینکر پرسن جاوید چوہدری سے گفتگو میں انہوں نے کہاکہ کیس کھلوانا جن لوگوں کا مقصد تھا وہ اس کے ذریعے صرف پارٹی کا میڈیا ٹرائل چاہتے تھے اور ایسا ہورہا ہے۔
1997 سے پارٹی کا ٹرائل جاری ہے۔خط لکھنے پر آمادگی سے سیدھا صدر کو پھنسایا جارہا ہے حکومت میں یہ فیصلہ ہوا کہ خط لکھنا ہے لیکن جو تصویر پیش کی گئی وہ درست نہیں ہے۔ خط نہ لکھنے کا فیصلہ سی ای سی کا تھا لیکن جب خط لکھنے کی بات کی گئی ہے تو سی ای سی کا اجلاس تو بیٹھا ہی نہیں۔1997ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھی مقدمات کھولنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس وقت کئی ٹیمیں ہیں ایک ٹیم تو وہ ہے جو کئی سالوں سے خط لکھ کر جیب میں ڈالے پھر رہی ہے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے تھے کہ خط تو لکھنا ہی پڑے گا میں وہ ہوں جو پہلے بھی خط لکھنے کے حق میں نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہوں کیونکہ خط لکھنا شہیدوں کی قبروں کے ٹرائل کے سوا کچھ نہیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہاتھا کہ این آر او کا دفاع نہیں کریں گے اور خط لکھنے کے شوقین بھی وہی ہیں۔ قوم اورپیپلزپارٹی میں بچے ہیں لیکن سارا پاکستان بچہ نہیں ہے۔آج کی پیشی کے بعد ہم پیچھے نہیں جاسکتے۔آج ہم نے عدالت کے روبرو کہاہے کہ ہم خط لکھیں گے اور عدالت نے بھی کہاہے کہ آپ خط لکھ کر لے آئیں ہم دیکھ لیں گے کہ اس کو کس طرح کا ہونا چاہیے۔ اگر عدالت نے کہاکہ یہ خط ایسے نہیں ایسے لکھ کر لائیں یا خط میں یہ الفاظ ہونے چاہئیں تو ہم کچھ بھی نہیں کرسکیں گے۔ میں ذاتی طورپر خط لکھنے کے حوالے سے ایگزیکٹوز کے سامنے سرینڈر نہیں کروں گا۔ میرا نہیں خیال کہ خط لکھنے کے معاملے پر کابینہ کو اعتماد میں لیا گیا ہوگا۔خط نہ لکھنے کا فیصلہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا تھا فیصلہ بدلا کیسے اس کا پتہ چلنا چاہیے۔
میں نے اپنا کردار اداکیا اور آج بھی کررہاہوں۔ خط لکھنا آرٹیکل 248 کی خلاف ورزی ہے ۔بابر اعوان نے جاوید چوہدری کی جانب سے پیش کیے جانے والے خط کی تصدیق کی ہے یہ وہی خط ہے جو اس وقت کے اٹارنی جنرل نے ملک قیوم نے سوئس حکام کو لکھا تھا جس میںصدر زرداری اور بھٹو فیملی کیخلاف کیس واپس لینے کی اطلاع دی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے وزیر قانون فاروق ایچ نائیک کو سوئس حکام کو خط لکھ کر یہ خط واپس لینے کی ہدایت کی ہے۔
سینیٹر بابر اعوان نے کہاہے کہ خط لکھنے کا راستہ شہیدوں کی قبروں کی طرف جاتا ہے ۔
میں خط نہ لکھنے کے اپنے موقف پر قائم ہوں مگر مشرف کے مشیروں نے کام دکھا دیا ہے ۔خط نہ لکھنے کا فیصلہ سی ای سی کا تھا لیکن اب خط لکھنے کا فیصلہ کہاں ہوا ہے اس کے بارے میں پتہ چلنا چاہیے۔ سوئس قوانین کے مطابق اگر اٹارنی جنرل خط لکھے تو ٹرائل شروع ہوجائے گا۔ پروگرام کل تک میں اینکر پرسن جاوید چوہدری سے گفتگو میں انہوں نے کہاکہ کیس کھلوانا جن لوگوں کا مقصد تھا وہ اس کے ذریعے صرف پارٹی کا میڈیا ٹرائل چاہتے تھے اور ایسا ہورہا ہے۔
1997 سے پارٹی کا ٹرائل جاری ہے۔خط لکھنے پر آمادگی سے سیدھا صدر کو پھنسایا جارہا ہے حکومت میں یہ فیصلہ ہوا کہ خط لکھنا ہے لیکن جو تصویر پیش کی گئی وہ درست نہیں ہے۔ خط نہ لکھنے کا فیصلہ سی ای سی کا تھا لیکن جب خط لکھنے کی بات کی گئی ہے تو سی ای سی کا اجلاس تو بیٹھا ہی نہیں۔1997ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھی مقدمات کھولنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس وقت کئی ٹیمیں ہیں ایک ٹیم تو وہ ہے جو کئی سالوں سے خط لکھ کر جیب میں ڈالے پھر رہی ہے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے تھے کہ خط تو لکھنا ہی پڑے گا میں وہ ہوں جو پہلے بھی خط لکھنے کے حق میں نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہوں کیونکہ خط لکھنا شہیدوں کی قبروں کے ٹرائل کے سوا کچھ نہیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہاتھا کہ این آر او کا دفاع نہیں کریں گے اور خط لکھنے کے شوقین بھی وہی ہیں۔ قوم اورپیپلزپارٹی میں بچے ہیں لیکن سارا پاکستان بچہ نہیں ہے۔آج کی پیشی کے بعد ہم پیچھے نہیں جاسکتے۔آج ہم نے عدالت کے روبرو کہاہے کہ ہم خط لکھیں گے اور عدالت نے بھی کہاہے کہ آپ خط لکھ کر لے آئیں ہم دیکھ لیں گے کہ اس کو کس طرح کا ہونا چاہیے۔ اگر عدالت نے کہاکہ یہ خط ایسے نہیں ایسے لکھ کر لائیں یا خط میں یہ الفاظ ہونے چاہئیں تو ہم کچھ بھی نہیں کرسکیں گے۔ میں ذاتی طورپر خط لکھنے کے حوالے سے ایگزیکٹوز کے سامنے سرینڈر نہیں کروں گا۔ میرا نہیں خیال کہ خط لکھنے کے معاملے پر کابینہ کو اعتماد میں لیا گیا ہوگا۔خط نہ لکھنے کا فیصلہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا تھا فیصلہ بدلا کیسے اس کا پتہ چلنا چاہیے۔
میں نے اپنا کردار اداکیا اور آج بھی کررہاہوں۔ خط لکھنا آرٹیکل 248 کی خلاف ورزی ہے ۔بابر اعوان نے جاوید چوہدری کی جانب سے پیش کیے جانے والے خط کی تصدیق کی ہے یہ وہی خط ہے جو اس وقت کے اٹارنی جنرل نے ملک قیوم نے سوئس حکام کو لکھا تھا جس میںصدر زرداری اور بھٹو فیملی کیخلاف کیس واپس لینے کی اطلاع دی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے وزیر قانون فاروق ایچ نائیک کو سوئس حکام کو خط لکھ کر یہ خط واپس لینے کی ہدایت کی ہے۔