نگرانوں کی نگرانیاں
خالق کائنات نے فرمادیا ہے کہ قومیں اور افراد دونوں کو گردش میں رکھا جاتا ہے
12 اکتوبر 1999کو جب جنرل مشرف نے حکومت پر قبضہ کیا، میں اس وقت پی آئی اے کی سیکیورٹی ڈویژن کا سربراہ تھا۔ نئی انتظامیہ نے میرے کہنے پر مجھے میرے محکمے (پولیس) میں واپس بھیجنے کا خط لکھ دیا۔
اسلام آباد واپس آکر میں اُس وقت کے اسٹیبلشمنٹ سیکریٹری صاحب (جو مجھے بہت اچھی طرح جانتے تھے) سے ملا۔ انھوں نے مجھے دیکھتے ہی فون اٹھایا کہ میں آئی جی پنجاب سے کہنے لگا ہوں کہ ذوالفقار فیلڈ افسر ہے، اس کی صلاحیّتیں وہاں استعمال ہونی چاہئیں۔
اس پر میں نے کہا، نہیں سر! میں پولیس اکیڈمی میں نوجوان افسروں کی ٹریننگ کرانا چاہتا ہوں۔ انھوں نے حیران ہوکر پوچھا، واقعی؟ میں نے جواب دیا، سر ٹریننگ میرا passion ہے، میں لاہور کا پولیس چیف رہ چکا ہوں، اب فیلڈ کا کوئی شوق نہیں رہا۔ لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے علم اور تجربے سے نئے افسران مستفیض ہوں، اسی روز نیشنل پولیس اکیڈمی اسلام آباد میں میری تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری ہوگیا۔ پولیس کے سب سے بڑے تربیتی ادارے میں میں ارشاد احمد حقانی، ایس ایم ظفر، صاحبزادہ یعقوب علی خان، عبدالحفیظ پیرزادہ، جسٹس شفیع الرحمن اور چیف جسٹس آف پاکستان جیسے نامور اور صاحبان علم ودانش کو بطور گیسٹ اسپیکر بلاتا رہا۔
پولیس اکیڈمی کے افسران کو ملک کے اندر اور باہر دوسرے تربیتی اداروں میں بھی مختصر دورانیے کے کورسز کے لیے بلایا جاتا ہے۔ اسی سلسلے میں ایک بار میں نیپا (NIPA) لاہور میں دو روز کے ایک کورس میں شریک ہوا۔ مختلف سروسز کے بیس پچیس دیگر افسران بھی شریک تھے، دوسرے روز بتایا گیا کہ آج کا سیشن بڑا اہم ہے کہ آج دو معروف صحافی اور ایڈیٹر لیکچر کے لیے آئیں گے، چنانچہ ہم وقت سے پہلے ہی اپنی نشستوں پر باادب ہو کر بیٹھ گئے۔
تھوڑی دیر بعد ایک انگریزی جریدے اور انگریزی روزنامے کے ایڈیٹر صاحبان ہال میں داخل ہوئے، پہلے جمہوریت پسند اور لبرل ایڈیٹر صاحب نے بولنا شروع کیا، لوگوں نے محسوس کیا کہ موصوف کی آواز اور تکبر کی سطح کچھ زیادہ ہی بلند ہے۔
ہمارا یعنی سامعین کا خیال تھا کہ ہر دو مقررین میں سے ایک جمہوریت کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، دوسرے کا تعلق دائیں بازو ہے، اس لیے دونوں مارشل لاء کی دھجیاں اڑا دیں گے اور ڈکٹیٹر مشرّف پر سخت ترین تنقید کریں گے۔
میں چونکہ ان کے حالیہ اداریئے پڑھ چکا تھا جس میں جمہوریت پر شب خون مارنے والے آمر کی تعریف و تحسین کی گئی تھی، اس لیے مجھے کچھ خدشات تو تھے مگر یہ بھی خیال تھا کہ آخر دونوں صحافی ہیں، انھوں نے اپنے امیج کا بھی تحفظ کرنا ہے اس لیے وہ سول سرونٹس کے سامنے اپنے آپ کو جمہوریت کا حامی اور آمریت کا مخالف ثابت کرنے کی ضرور کوشش کریں گے۔
لہٰذا یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ مارشل لاء اورآمر کو کلین چٹ دے دیں اور اس پر بالکل ہی تنقید نہ کریں، مگر آمریت پر تنقید کے دو بول سننے کے لیے ہمارے کان ترس گئے اور دونوں کے خطاب ختم ہوگئے۔ اگر انھوں نے تنقید کا نشانہ بنایا بھی تو سابق وزیراعظم نوازشریف کو جنھیں جنرل پرویز مشرف نے گرفتار کرکے قید کر رکھا تھا۔ تربیت گاہوں میں مہمان مقرر کی تقریر کے بعد سامعین کو سوال کرنے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔ ایک دو سوالوں کے بعد میں نے ہاتھ کھڑا کیا اور اجازت ملنے پر کہا،
''محترم ایڈیٹر صاحبان! ملک میں جب بھی جمہوریت پر کلہاڑا چلایا جاتا ہے تو سیاسی قیادت کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے، ان کے بعد قوم صحافیوں کی جانب دیکھتی ہے کہ وہ آمریت کے خلاف آواز اٹھائیں گے اور قوم کی راہنمائی کریں گے، مگر یہ دیکھ کر قوم کو بڑی مایوسی ہوئی ہے کہ جس طرح اسلام پسند صحافی جنرل ضیاء الحق کے ساتھ کھڑے ہوگئے تھے اسی طرح سارے لبرل اور سیکولر صحافی نئے ڈکٹیٹر جنرل مشرف کی گود میں بیٹھ گئے ہیں، کیا آپ اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ جمہوریت کے تحفظ کے لیے سینئر صحافی اپنا کردار ادا نہیں کرسکے؟'' یہ غیر متوقع اور سخت سوال سن کر ایک صاحب کا کچھ رنگ بدلا مگر انھوں نے آواز کو اور بلند کیا اور انگریزی کے کچھ بھاری بھرکم الفاظ کے پیچھے پناہ لینے کی کوشش کی۔
دوسرے ایڈیٹر نے سوال کو لوڈڈ قرار دینے کی کوشش کی۔ مہمان مقرر رخصت ہوئے تو چائے پر کورس کے تمام شرکاء کی متفقہ رائے تھی کہ دونوں صاحبان سوال کا کوئی مناسب جواب نہیں دے سکے کیونکہ جو بات پوچھی کہی تھی وہ حقائق پر مبنی تھی اور اسے جھٹلانا ممکن نہیں تھا۔
خالق کائنات نے فرمادیا ہے کہ قومیں اور افراد دونوں کو گردش میں رکھا جاتا ہے۔ لہٰذا گردش زمانہ کے اٹل اصول کے تحت دس سال بعد حالات تبدیل ہوگئے اور نیا منظر نامہ اس طرح بنا کہ مشرف کا اقتدار ختم ہوگیا، کل کے زیر عتاب آج کے حکمران بن گئے، مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی اور پنجاب میں مسلم لیگ نون کی طرف سے میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ بن گئے، جنھوں نے گوجرنوالہ میں امن وامان کے دگرگروں حالات ٹھیک کرنے کے لیے راقم کو وہاں کا پولیس چیف مقرر کردیا۔
میری وہاں تعیناتی کو دو سال بیت چکے تھے، امن وامان مکمل طور پر بحال ہوا تو اس کے ساتھ ہی پولیس پر عوام کے اعتماد کا لیول بہت بلند ہو گیا۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ 2009-10 میں گوجرانوالہ میں عوام کا سب سے پسندیدہ اور مقبول محکمہ پولیس تھا، اور اہم ترین تقریبات میں مہمانِ خصوصی کے طور پر راقم کو مدعو کیا جاتا تھا، گوجرنوالہ کے ایک معتبرمقامی اخبار اور اس کے مالک، ایک دیانتدار اور باضمیر صحافی سمجھے جاتے تھے۔
انھوں نے اپنے قلم کو کبھی فروخت نہیں کیا تھا، اس لیے اس کٹر کامریڈ کی میرے دل میں بڑی عزت تھی۔ ایک روز وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم اپنے اخبار کی سلور جوبلی منا رہے ہیں، اس موقع پر لاہور سے بڑے سینئر صحافی بھی آئیں گے اور میری خواہش ہے کہ اس تقریب کی صدارت آپ کریں۔
میں نے کہا کہ بہتر ہے کہ آپ اس تقریب کی صدارت کسی سینئر صحافی سے کرائیں، مگر وہ نہ مانے، میرا انکار اور ان کا اصرار کچھ روز تک جاری رہا مگر بالآخر میں نے ہار مان لی اور کہہ دیا کہ میں آپ کی تقریب میں آجاؤں گا۔ تقریب کے روز گوجرنوالہ میں چیف سیکریٹری کا دورہ تھا اس لیے میں کامریڈ صاحب کے اخبار کی تقریب میں کچھ تاخیر سے پہنچا۔ تقریب کے مہمان خصوصی لاہور سے آئے ایک معروف صحافی تھے، اسٹیج پر میری دائیں جانب مہمان خصوصی اور بائیں جانب چیمبر آف کامرس کے صدر بیٹھے تھے۔
مہمان خصوصی کو تقریر کے لیے بلایا گیا تو انھوں نے اپنے بلند آہنگ خطاب میں حسبِ معمول کچھ ڈینگیں ماریں، جمہوریت کے لیے اپنی خدمات بتائیں اور پھر چیمبر کے صدر سے مخاطب ہوکر کہا، آپ فکر مت کرو، میں پرائم منسٹر کو یہاں لے کر آؤںگا اور آپ کے مسائل حل کروا دوں گا۔ آخر میں مجھے تقریر کی دعوت دی گئی تو میں نے کہا ''اس ضلع کا باسی ہونے کے ناطے میں میزبان بھی ہوں۔
اس لیے اس حیثیت میں لاہور سے آنے والے صحافیوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ مگر میرا ایک صحافی صاحب کے ساتھ ایک اور رشتہ بھی تھا۔ قاری اور ایڈیٹر کا رشتہ، جوبڑا دیرینہ تھا، میں کئی سالوں سے ان کا باقاعدہ قاری تھا اور جمہوریت کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں رہنمائی لیاکرتا تھا۔ لہٰذا اکتوبر 1999 میں جب ایک ڈکٹیٹر نے حکومت پر قبضہ کرکے مارشل لاء لگادیا تو ہم نے راہنمائی کے لیے پھر آپ کی جانب رجوع کیا۔
مگر مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا جب میں نے دیکھا کہ اس پیپر میں ڈکٹیٹر کی تعریف وتوصیف کی گئی تھی، میں نے سوچا شاید مجھے سمجھنے میں غلطی لگی ہے، مگر اگلے پرچوں کے اداریئے بھی آمر کی تعریف وتحسین سے ہی بھرے ہوتے تھے، لہٰذا 2000سے میں نے اسے پڑھنا بند کردیا اور اس طرح میرا ایڈیٹر اور قاری والا رشتہ ختم ہوگیا۔
اس پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا، گوجرنوالہ کی فضا ایسی تھی کہ سامعین کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں ڈی آئی جی کے مقابلے میں وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔
تالیوں اور نعروں کی گونج سے مہمان خصوصی کی اکڑ نکل گئی اور پھر وہ آخر تک خاموش بیٹھے رہے۔ ان کے ساتھ ایک زیر تربیت صحافی بھی تھا، اب تو ماشاء اللہ بہت منجھا ہوا اینکر بن چکا ہے بھی آیاہوا تھا۔ وہ بڑا خوش تھا، اور میرے پاس آکر کہنے لگا ، آپ نے انھیں چپ کرادیا ہے''۔ اس تقریب کے چند ہفتوں بعد گوجرانوالہ کے ایک ضمنی الیکشن میں پولیس کو مکمل طور پر غیرجانبدار رکھنے پر راقم کو تبدیل کردیا گیا۔
(جاری ہے)
اسلام آباد واپس آکر میں اُس وقت کے اسٹیبلشمنٹ سیکریٹری صاحب (جو مجھے بہت اچھی طرح جانتے تھے) سے ملا۔ انھوں نے مجھے دیکھتے ہی فون اٹھایا کہ میں آئی جی پنجاب سے کہنے لگا ہوں کہ ذوالفقار فیلڈ افسر ہے، اس کی صلاحیّتیں وہاں استعمال ہونی چاہئیں۔
اس پر میں نے کہا، نہیں سر! میں پولیس اکیڈمی میں نوجوان افسروں کی ٹریننگ کرانا چاہتا ہوں۔ انھوں نے حیران ہوکر پوچھا، واقعی؟ میں نے جواب دیا، سر ٹریننگ میرا passion ہے، میں لاہور کا پولیس چیف رہ چکا ہوں، اب فیلڈ کا کوئی شوق نہیں رہا۔ لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے علم اور تجربے سے نئے افسران مستفیض ہوں، اسی روز نیشنل پولیس اکیڈمی اسلام آباد میں میری تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری ہوگیا۔ پولیس کے سب سے بڑے تربیتی ادارے میں میں ارشاد احمد حقانی، ایس ایم ظفر، صاحبزادہ یعقوب علی خان، عبدالحفیظ پیرزادہ، جسٹس شفیع الرحمن اور چیف جسٹس آف پاکستان جیسے نامور اور صاحبان علم ودانش کو بطور گیسٹ اسپیکر بلاتا رہا۔
پولیس اکیڈمی کے افسران کو ملک کے اندر اور باہر دوسرے تربیتی اداروں میں بھی مختصر دورانیے کے کورسز کے لیے بلایا جاتا ہے۔ اسی سلسلے میں ایک بار میں نیپا (NIPA) لاہور میں دو روز کے ایک کورس میں شریک ہوا۔ مختلف سروسز کے بیس پچیس دیگر افسران بھی شریک تھے، دوسرے روز بتایا گیا کہ آج کا سیشن بڑا اہم ہے کہ آج دو معروف صحافی اور ایڈیٹر لیکچر کے لیے آئیں گے، چنانچہ ہم وقت سے پہلے ہی اپنی نشستوں پر باادب ہو کر بیٹھ گئے۔
تھوڑی دیر بعد ایک انگریزی جریدے اور انگریزی روزنامے کے ایڈیٹر صاحبان ہال میں داخل ہوئے، پہلے جمہوریت پسند اور لبرل ایڈیٹر صاحب نے بولنا شروع کیا، لوگوں نے محسوس کیا کہ موصوف کی آواز اور تکبر کی سطح کچھ زیادہ ہی بلند ہے۔
ہمارا یعنی سامعین کا خیال تھا کہ ہر دو مقررین میں سے ایک جمہوریت کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، دوسرے کا تعلق دائیں بازو ہے، اس لیے دونوں مارشل لاء کی دھجیاں اڑا دیں گے اور ڈکٹیٹر مشرّف پر سخت ترین تنقید کریں گے۔
میں چونکہ ان کے حالیہ اداریئے پڑھ چکا تھا جس میں جمہوریت پر شب خون مارنے والے آمر کی تعریف و تحسین کی گئی تھی، اس لیے مجھے کچھ خدشات تو تھے مگر یہ بھی خیال تھا کہ آخر دونوں صحافی ہیں، انھوں نے اپنے امیج کا بھی تحفظ کرنا ہے اس لیے وہ سول سرونٹس کے سامنے اپنے آپ کو جمہوریت کا حامی اور آمریت کا مخالف ثابت کرنے کی ضرور کوشش کریں گے۔
لہٰذا یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ مارشل لاء اورآمر کو کلین چٹ دے دیں اور اس پر بالکل ہی تنقید نہ کریں، مگر آمریت پر تنقید کے دو بول سننے کے لیے ہمارے کان ترس گئے اور دونوں کے خطاب ختم ہوگئے۔ اگر انھوں نے تنقید کا نشانہ بنایا بھی تو سابق وزیراعظم نوازشریف کو جنھیں جنرل پرویز مشرف نے گرفتار کرکے قید کر رکھا تھا۔ تربیت گاہوں میں مہمان مقرر کی تقریر کے بعد سامعین کو سوال کرنے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔ ایک دو سوالوں کے بعد میں نے ہاتھ کھڑا کیا اور اجازت ملنے پر کہا،
''محترم ایڈیٹر صاحبان! ملک میں جب بھی جمہوریت پر کلہاڑا چلایا جاتا ہے تو سیاسی قیادت کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے، ان کے بعد قوم صحافیوں کی جانب دیکھتی ہے کہ وہ آمریت کے خلاف آواز اٹھائیں گے اور قوم کی راہنمائی کریں گے، مگر یہ دیکھ کر قوم کو بڑی مایوسی ہوئی ہے کہ جس طرح اسلام پسند صحافی جنرل ضیاء الحق کے ساتھ کھڑے ہوگئے تھے اسی طرح سارے لبرل اور سیکولر صحافی نئے ڈکٹیٹر جنرل مشرف کی گود میں بیٹھ گئے ہیں، کیا آپ اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ جمہوریت کے تحفظ کے لیے سینئر صحافی اپنا کردار ادا نہیں کرسکے؟'' یہ غیر متوقع اور سخت سوال سن کر ایک صاحب کا کچھ رنگ بدلا مگر انھوں نے آواز کو اور بلند کیا اور انگریزی کے کچھ بھاری بھرکم الفاظ کے پیچھے پناہ لینے کی کوشش کی۔
دوسرے ایڈیٹر نے سوال کو لوڈڈ قرار دینے کی کوشش کی۔ مہمان مقرر رخصت ہوئے تو چائے پر کورس کے تمام شرکاء کی متفقہ رائے تھی کہ دونوں صاحبان سوال کا کوئی مناسب جواب نہیں دے سکے کیونکہ جو بات پوچھی کہی تھی وہ حقائق پر مبنی تھی اور اسے جھٹلانا ممکن نہیں تھا۔
خالق کائنات نے فرمادیا ہے کہ قومیں اور افراد دونوں کو گردش میں رکھا جاتا ہے۔ لہٰذا گردش زمانہ کے اٹل اصول کے تحت دس سال بعد حالات تبدیل ہوگئے اور نیا منظر نامہ اس طرح بنا کہ مشرف کا اقتدار ختم ہوگیا، کل کے زیر عتاب آج کے حکمران بن گئے، مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی اور پنجاب میں مسلم لیگ نون کی طرف سے میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ بن گئے، جنھوں نے گوجرنوالہ میں امن وامان کے دگرگروں حالات ٹھیک کرنے کے لیے راقم کو وہاں کا پولیس چیف مقرر کردیا۔
میری وہاں تعیناتی کو دو سال بیت چکے تھے، امن وامان مکمل طور پر بحال ہوا تو اس کے ساتھ ہی پولیس پر عوام کے اعتماد کا لیول بہت بلند ہو گیا۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ 2009-10 میں گوجرانوالہ میں عوام کا سب سے پسندیدہ اور مقبول محکمہ پولیس تھا، اور اہم ترین تقریبات میں مہمانِ خصوصی کے طور پر راقم کو مدعو کیا جاتا تھا، گوجرنوالہ کے ایک معتبرمقامی اخبار اور اس کے مالک، ایک دیانتدار اور باضمیر صحافی سمجھے جاتے تھے۔
انھوں نے اپنے قلم کو کبھی فروخت نہیں کیا تھا، اس لیے اس کٹر کامریڈ کی میرے دل میں بڑی عزت تھی۔ ایک روز وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم اپنے اخبار کی سلور جوبلی منا رہے ہیں، اس موقع پر لاہور سے بڑے سینئر صحافی بھی آئیں گے اور میری خواہش ہے کہ اس تقریب کی صدارت آپ کریں۔
میں نے کہا کہ بہتر ہے کہ آپ اس تقریب کی صدارت کسی سینئر صحافی سے کرائیں، مگر وہ نہ مانے، میرا انکار اور ان کا اصرار کچھ روز تک جاری رہا مگر بالآخر میں نے ہار مان لی اور کہہ دیا کہ میں آپ کی تقریب میں آجاؤں گا۔ تقریب کے روز گوجرنوالہ میں چیف سیکریٹری کا دورہ تھا اس لیے میں کامریڈ صاحب کے اخبار کی تقریب میں کچھ تاخیر سے پہنچا۔ تقریب کے مہمان خصوصی لاہور سے آئے ایک معروف صحافی تھے، اسٹیج پر میری دائیں جانب مہمان خصوصی اور بائیں جانب چیمبر آف کامرس کے صدر بیٹھے تھے۔
مہمان خصوصی کو تقریر کے لیے بلایا گیا تو انھوں نے اپنے بلند آہنگ خطاب میں حسبِ معمول کچھ ڈینگیں ماریں، جمہوریت کے لیے اپنی خدمات بتائیں اور پھر چیمبر کے صدر سے مخاطب ہوکر کہا، آپ فکر مت کرو، میں پرائم منسٹر کو یہاں لے کر آؤںگا اور آپ کے مسائل حل کروا دوں گا۔ آخر میں مجھے تقریر کی دعوت دی گئی تو میں نے کہا ''اس ضلع کا باسی ہونے کے ناطے میں میزبان بھی ہوں۔
اس لیے اس حیثیت میں لاہور سے آنے والے صحافیوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ مگر میرا ایک صحافی صاحب کے ساتھ ایک اور رشتہ بھی تھا۔ قاری اور ایڈیٹر کا رشتہ، جوبڑا دیرینہ تھا، میں کئی سالوں سے ان کا باقاعدہ قاری تھا اور جمہوریت کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں رہنمائی لیاکرتا تھا۔ لہٰذا اکتوبر 1999 میں جب ایک ڈکٹیٹر نے حکومت پر قبضہ کرکے مارشل لاء لگادیا تو ہم نے راہنمائی کے لیے پھر آپ کی جانب رجوع کیا۔
مگر مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا جب میں نے دیکھا کہ اس پیپر میں ڈکٹیٹر کی تعریف وتوصیف کی گئی تھی، میں نے سوچا شاید مجھے سمجھنے میں غلطی لگی ہے، مگر اگلے پرچوں کے اداریئے بھی آمر کی تعریف وتحسین سے ہی بھرے ہوتے تھے، لہٰذا 2000سے میں نے اسے پڑھنا بند کردیا اور اس طرح میرا ایڈیٹر اور قاری والا رشتہ ختم ہوگیا۔
اس پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا، گوجرنوالہ کی فضا ایسی تھی کہ سامعین کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں ڈی آئی جی کے مقابلے میں وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔
تالیوں اور نعروں کی گونج سے مہمان خصوصی کی اکڑ نکل گئی اور پھر وہ آخر تک خاموش بیٹھے رہے۔ ان کے ساتھ ایک زیر تربیت صحافی بھی تھا، اب تو ماشاء اللہ بہت منجھا ہوا اینکر بن چکا ہے بھی آیاہوا تھا۔ وہ بڑا خوش تھا، اور میرے پاس آکر کہنے لگا ، آپ نے انھیں چپ کرادیا ہے''۔ اس تقریب کے چند ہفتوں بعد گوجرانوالہ کے ایک ضمنی الیکشن میں پولیس کو مکمل طور پر غیرجانبدار رکھنے پر راقم کو تبدیل کردیا گیا۔
(جاری ہے)