لاڈلا بننے کی بے چینی
ہوائی جہاز حادثے کے بعد بالاتروں نے بے نظیر بھٹو کو وزیراعظم بنایا تھا
اقتدار سے محرومی کے بعد دوبارہ لاڈلا بننے کے لیے پی ٹی آئی کے سابق وزیراعظم نے تمام کوششوں میں مکمل ناکام رہنے کے بعد مایوس ہوکر اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بنایا تھا، اس سے قبل وہ اپنے ہٹائے جانے کا ذمے دار امریکا کو قرار دیتے رہے تھے۔
انھوں نے اپنے صدر مملکت کے ذریعے خفیہ ملاقاتیں بھی کیں، وہ چاہتے تھے کہ بالاتر غیر جانبدار رہنے کی پالیسی ترک کر کے ان پر دوبارہ دست شفقت رکھ دیں مگر اس وقت کے آرمی چیف کے صاف انکار سے وہ مایوس ہوگئے تھے اور مجبور ہوکر انھوں نے اپنے سابقہ محسنوں کو دباؤ میں لانے کی بھی بھرپور کوشش کی تھی۔
ان ملاقاتوں سے قبل بھی انھوں نے بالاتروں کا غیرجانبدار رہنا قبول نہیں کیا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ انھیں ایک بار پھر لاڈلا بنا لیا جائے۔
ان ملاقاتوں سے قبل اگر سابق وزیراعظم حقائق تسلیم کرلیتے کہ انھیں امریکی سازش کے تحت نہیں بلکہ آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا ہے مگر انھیں عوام کے جذبات سے کھیلنا تھا اور عوام کو گمراہ کرنا تھا جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے تھے۔
دوبارہ لاڈلا بننے کی جلدی میں وہ اتنے بے چین ہوئے کہ مکمل مایوس ہوکر انھوں نے کہہ دیا کہ غیر جانبدار تو جانور ہوتے ہیں لیکن متعدد الزامات کے باوجود بالاتر بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے لیے دوبارہ جانبدار ہوجانے پر تیار نہیں ہوئے ۔
بالاتروںکی کو کبھی لاڈلوں کی کمی نہیں رہی ، ہر دور میں سیاستدان لاڈلا بننے کے لیے تیار رہے ہیں کیوں کہ انھیں پتا تھا کہ بالاتروںکا لاڈلا بنے بغیر وہ کبھی حکومت میں شامل ہوسکتے ہیں نہ اقتدار میں آسکتے ہیں۔
لیاقت علی خان کی کابینہ میں جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع بنایاگیا تھا جس کے بعد ایوب خان ترقی کرتے کرتے1958میں اقتدار میں آگئے اور وزیراعظم لیاقت علی خان کے بعد سیاستدان ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے رہے جس کا فائدہ بیوروکریٹ غلام محمد اور اسکندر مرزا نے اٹھایا، وہ سیاستدانوں کو وزیراعظم بناتے اور ہٹاتے رہے جس کے بعد جنرل ایوب کو موقع ملا اور وہ صدر اسکندر مرزا کو ہٹاکر خود اقتدار میں آگئے اور ان کے اقتدار کے حامی سیاست دانوں نے ان کا مکمل ساتھ دیا۔
جنرل ایوب سے جنرل پرویز مشرف تک ہرکابینہ میں سیاست دان شامل رہے اور بالاتروںکا لاڈلا ہونے پر فخر کرتے تھے اور پرویز الٰہی نے جنرل پرویز کو ایک نہیں دس بار فوجی وردی میں صدر بنوانے کا اعلان کیا تھا۔میاں نواز شریف جنرل جیلانی کی دریافت تھے جو جنرل ضیاء کی نظر کرم سے وزیرخزانہ پھر وزیراعلیٰ پنجاب بنے۔
ہوائی جہاز حادثے کے بعد بالاتروں نے بے نظیر بھٹو کو وزیراعظم بنایا تھا، انھوں نے انھیں خوش کرنے کے لیے جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت عطاکیا تھا۔ نواز شریف نے پہلی بار ہی بالاتروں اور صدر غلام اسحاق کی آشیرداد سے وزیراعظم بننے کے بعد ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کیا اور دونوں سے بگاڑ کر اقتدار سے محروم ہوئے، وجہ بالاتروں کی ناراضگی تھا۔
بے نظیر اور نواز شریف کے بعد نیا پاکستان بنانے کے دعویدار نے خود کو بااختیار سمجھ کر من مانی کی انتہا کردی اور من مانی اور انتقام میں بے نظیر اور نواز شریف کو پیچھے چھوڑ کر بالاتروں پر حکم چلانا شروع کردیا جو اس کے محسن تھے، بالاتروں کو مجبوراً غیر جانبداری اختیار کرنا پڑی تھی جس کا دکھ لاڈلا برداشت نہیں کرپا رہا۔
آصف زرداری نے بھی لاڈلا ہوتے ہوئے دھمکیاں دی تھیں مگر صورتحال بھانپ گئے تھے۔ نواز شریف نے صرف نام لیے تھے، اب مزاحمتی بیانیہ پر زور نہ دینے پر انھیں رعایت ملی جو بلاول زرداری سے برداشت نہیں ہورہی، اس لیے وہ بالاتروںکے بجائے نواز شریف کے پیچھے پڑگئے ہیں۔
نواز شریف بالاتروںکی سیاسی پیداوار تھے اور انھوں نے جنرل ضیاء کے نقش قدم پر چلنے کا اعلان کیا تھا اور خود بالاتر ہونے لگ گئے تھے۔ لگتا ہے کہ سپر لاڈلا بننے کے لیے اب پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بہت بے چین ہیں۔
پاکستان کی سیاست ہمیشہ سے لاڈلوں کے کنٹرول میں رہی ہے 'ہر لاڈلا اقتدار لینے کے لیے بالاتروں کے ہر مطالبے ہر شرط کو قبول کر لیتا ہے لیکن جب اقتدارسے محروم ہوتا ہے تو خود کو جمہوریت کا چیمپیئن کہنا شروع کر دیتا ہے۔
انھوں نے اپنے صدر مملکت کے ذریعے خفیہ ملاقاتیں بھی کیں، وہ چاہتے تھے کہ بالاتر غیر جانبدار رہنے کی پالیسی ترک کر کے ان پر دوبارہ دست شفقت رکھ دیں مگر اس وقت کے آرمی چیف کے صاف انکار سے وہ مایوس ہوگئے تھے اور مجبور ہوکر انھوں نے اپنے سابقہ محسنوں کو دباؤ میں لانے کی بھی بھرپور کوشش کی تھی۔
ان ملاقاتوں سے قبل بھی انھوں نے بالاتروں کا غیرجانبدار رہنا قبول نہیں کیا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ انھیں ایک بار پھر لاڈلا بنا لیا جائے۔
ان ملاقاتوں سے قبل اگر سابق وزیراعظم حقائق تسلیم کرلیتے کہ انھیں امریکی سازش کے تحت نہیں بلکہ آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا ہے مگر انھیں عوام کے جذبات سے کھیلنا تھا اور عوام کو گمراہ کرنا تھا جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے تھے۔
دوبارہ لاڈلا بننے کی جلدی میں وہ اتنے بے چین ہوئے کہ مکمل مایوس ہوکر انھوں نے کہہ دیا کہ غیر جانبدار تو جانور ہوتے ہیں لیکن متعدد الزامات کے باوجود بالاتر بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے لیے دوبارہ جانبدار ہوجانے پر تیار نہیں ہوئے ۔
بالاتروںکی کو کبھی لاڈلوں کی کمی نہیں رہی ، ہر دور میں سیاستدان لاڈلا بننے کے لیے تیار رہے ہیں کیوں کہ انھیں پتا تھا کہ بالاتروںکا لاڈلا بنے بغیر وہ کبھی حکومت میں شامل ہوسکتے ہیں نہ اقتدار میں آسکتے ہیں۔
لیاقت علی خان کی کابینہ میں جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع بنایاگیا تھا جس کے بعد ایوب خان ترقی کرتے کرتے1958میں اقتدار میں آگئے اور وزیراعظم لیاقت علی خان کے بعد سیاستدان ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے رہے جس کا فائدہ بیوروکریٹ غلام محمد اور اسکندر مرزا نے اٹھایا، وہ سیاستدانوں کو وزیراعظم بناتے اور ہٹاتے رہے جس کے بعد جنرل ایوب کو موقع ملا اور وہ صدر اسکندر مرزا کو ہٹاکر خود اقتدار میں آگئے اور ان کے اقتدار کے حامی سیاست دانوں نے ان کا مکمل ساتھ دیا۔
جنرل ایوب سے جنرل پرویز مشرف تک ہرکابینہ میں سیاست دان شامل رہے اور بالاتروںکا لاڈلا ہونے پر فخر کرتے تھے اور پرویز الٰہی نے جنرل پرویز کو ایک نہیں دس بار فوجی وردی میں صدر بنوانے کا اعلان کیا تھا۔میاں نواز شریف جنرل جیلانی کی دریافت تھے جو جنرل ضیاء کی نظر کرم سے وزیرخزانہ پھر وزیراعلیٰ پنجاب بنے۔
ہوائی جہاز حادثے کے بعد بالاتروں نے بے نظیر بھٹو کو وزیراعظم بنایا تھا، انھوں نے انھیں خوش کرنے کے لیے جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت عطاکیا تھا۔ نواز شریف نے پہلی بار ہی بالاتروں اور صدر غلام اسحاق کی آشیرداد سے وزیراعظم بننے کے بعد ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کیا اور دونوں سے بگاڑ کر اقتدار سے محروم ہوئے، وجہ بالاتروں کی ناراضگی تھا۔
بے نظیر اور نواز شریف کے بعد نیا پاکستان بنانے کے دعویدار نے خود کو بااختیار سمجھ کر من مانی کی انتہا کردی اور من مانی اور انتقام میں بے نظیر اور نواز شریف کو پیچھے چھوڑ کر بالاتروں پر حکم چلانا شروع کردیا جو اس کے محسن تھے، بالاتروں کو مجبوراً غیر جانبداری اختیار کرنا پڑی تھی جس کا دکھ لاڈلا برداشت نہیں کرپا رہا۔
آصف زرداری نے بھی لاڈلا ہوتے ہوئے دھمکیاں دی تھیں مگر صورتحال بھانپ گئے تھے۔ نواز شریف نے صرف نام لیے تھے، اب مزاحمتی بیانیہ پر زور نہ دینے پر انھیں رعایت ملی جو بلاول زرداری سے برداشت نہیں ہورہی، اس لیے وہ بالاتروںکے بجائے نواز شریف کے پیچھے پڑگئے ہیں۔
نواز شریف بالاتروںکی سیاسی پیداوار تھے اور انھوں نے جنرل ضیاء کے نقش قدم پر چلنے کا اعلان کیا تھا اور خود بالاتر ہونے لگ گئے تھے۔ لگتا ہے کہ سپر لاڈلا بننے کے لیے اب پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بہت بے چین ہیں۔
پاکستان کی سیاست ہمیشہ سے لاڈلوں کے کنٹرول میں رہی ہے 'ہر لاڈلا اقتدار لینے کے لیے بالاتروں کے ہر مطالبے ہر شرط کو قبول کر لیتا ہے لیکن جب اقتدارسے محروم ہوتا ہے تو خود کو جمہوریت کا چیمپیئن کہنا شروع کر دیتا ہے۔