ورچوئل جلسہ اور انتخابی سیاست
تحریک انصاف پنجاب میں کوئی جلسہ یا ریلی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے
تحریک انصاف کے ورچوئل جلسے کے حوالے سے ایک بحث جاری ہے کہ اسے کامیاب کہا جائے یا ناکا م ۔ یہ بحث بھی جاری ہے کہ کیا یہ تحریک انصاف کے سیاسی مردہ گھوڑے میں جان ڈال سکے گا۔
یہ ورچوئل جلسہ تحریک انصاف کی انتخابی مہم کا کوئی کامیاب ہتھیار ثابت ہو سکے گا، اس کے لیے کوئی بریک تھرو بن سکے گا ؟۔ مجھے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ اس ورچوئل جلسے میں آن لائن کتنے لوگ شریک تھے۔
کیونکہ پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کسی بھی طرح آن لائن نہیں ہونے۔ نہ تو ووٹنگ آن لائن ہونی ہے اور نہ ہی کوئی انتخابی مہم آن لائن چل سکتی ہے۔ اس لیے تحریک انصاف کے مخالفین کے اس تبصرے کو کسی بھی طرح رد یا مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ آن لائن جلسے کے بعد آن لائن ووٹنگ کرالیں اور تحریک انصاف اپنا وزیر اعظم بھی آن لائن ہی منتخب کرا لے ۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں انٹر نیٹ بند کر دیا گیا تھا، اس لیے لوگ شرکت نہیں کر سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انٹر نیٹ بند ہے لیکن اس کا اعلان بھی انٹر نیٹ پر ہی کیا جا رہا تھا۔ اگر تحریک انصاف کے اس الزام کو قبول کر لیا جائے کہ حکومت اس کے ورچوئل جلسے سے ڈر گئی اور اس نے پاکستان کے اندر انٹر نیٹ سلو کر دیا یا بند کر دیا، جس سے بڑی تعداد میں لوگ اس ورچوئل جلسے میں شرکت نہ کرسکے۔
اگر تحریک انصاف کی اس دلیل ،منطق یا الزام کو درست مان لیا جائے تو پھر جو بھی لوگ اس ورچوئل جلسے میں شریک تھے، ان کی اکثریت پاکستان سے نہیں تھی، اس میں اکثریت اوور سیزپاکستانیوں کی تھی۔ اگر اس جلسے میں پاکستان سے شریک لوگوں کی تعداد کم تھی تو پھراس کا پاکستان میں اثر بھی کم ہے۔ جو اوور سیز لوگ شریک تھے ان میں اکثریت نہیں بلکہ بھاری اکثریت نے انتخابات کے موقع پر پاکستان آنا ہی نہیں ہے۔
اس لیے جب انھوں نے ووٹ کا استعمال ہی نہیں کرنا تو پھر ان کا انتخابات میں کوئی اثر ہی نہیں ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر شور تو مچا سکتے ہیں لیکن بیلٹ باکس تک نہیں پہنچ سکیں گے، اس لیے بیلٹ پر اس جلسے کا کوئی اثر نہیں ہوگا ۔
اس وقت تحریک انصاف کی اصل صورتحال یہی ہے کہ اس کی بالخصوص پنجاب میں کوئی سیاسی پوزیشن نہیں ہے۔
تحریک انصاف پنجاب میں کوئی جلسہ یا ریلی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ورچوئل جلسے کی تعداد کا دعویٰ کرنے والے کیا اس بات سے انکار کر سکتے ہیں کہ تحریک انصاف اس وقت پنجاب میں کہیں بھی دس پندرہ ہزار لوگ جمع کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
بانی تحریک انصاف اڈیالہ جیل میں ہیں، تحریک انصاف اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اڈیالہ کے سامنے کوئی مظاہرہ کرلے۔ یہی صورتحال کے پی، سندھ کراچی کی بھی ہے۔ کراچی میں بھی تحریک انصاف کوئی سیاسی سرگرمی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اسی طرح سندھ اور بلوچستان میں بھی کوئی پوزیشن نہیں ہے۔
اس لیے ورچوئل جلسے کے بعد بھی تحریک انصاف ملک میں جہاں اصل انتخابات ہونے ہیں وہاں کوئی سیاسی سرگرمی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ایسے میں ورچوئل جلسے سے کیا حاصل ہوا ہے۔
کیا اس ورچوئل جلسے کے بعد لوگ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ اگر مضبوط امیدوار تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر فائدہ کیا۔
اگر یہ لوگوں کو تحریک انصاف کی طرف مائل کرنے میں ناکام ہے تو کامیابی کیا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اوور سیز پاکستان آکر انتخاب لڑنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی کوئی مہم چلانے کے لیے یہاں آنے کے لیے تیار ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو اب تک لاکھوں اوور سیزپاکستانی پہنچ چکے ہوتے۔ ان کا نہ آنایہ بات سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ وہ تحریک انصاف کی لڑائی سوشل میڈیا پر تو لڑ سکتے ہیں لیکن میدان میں لڑنے کے لیے تیار نہیں۔
ورچوئل جلسے میں بہت سے مفرور اور فرار رہنماؤں نے بھی خطاب کیا ہے۔مفرور اور فرار رہنماؤں کی بھی کوئی زمینی اہمیت نہیں ہے۔ حماد اظہر، مراد سعید سمیت سب کیا انتخابات لڑ نے کی پوزیشن میں ہیں؟ ان میں سے اٹھارہ کو اشتہاری قرار دیکر ان کے شناختی کارڈ بلاک کر دیے گئے ہیں۔
جن کے شناختی کارڈ بلاک ہو گئے ہیں سمجھیں وہ انتخاب لڑ نے کے لیے نا اہل ہیں۔ ان کے کاغذات نامزدگی قبول نہیں ہوںگے۔ اسی طرح فرار رہنماؤں کا بھی انتخاب لڑنا مشکل ہے۔ میں سمجھتا ہوں جیل میں قید رہنما پھر الیکشن لڑ سکیں گے۔ لیکن مفرور اور فرار لوگوں کے لڑنے کا کوئی چانس نہیں، اس لیے ان کے خطاب کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔
ملک میں کاغذات نامزدگی جمع ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ۔ امیدوارا ن اپنے اپنے کاغذجمع کرا رہے ہیں۔ لوگ ٹکٹوں کے لیے رابطے کر رہے ہیں۔ امیدواران کے انتخابی دفاتر آباد ہو گئے ہیں۔ لوگ اپنی اپنی انتخابی مہم کے لیے حکمت عملی بنا رہے ہیں۔
ایسے میں تحریک انصاف کہاں ہے؟ کیا کوئی ان کے ٹکٹ لینے کے لیے تیار ہے؟ ایک انتخابی دفتر دکھائیں۔ بلکہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ماضی میںتین تین کروڑ روپے میں بکنے والا تحریک انصاف کا ٹکٹ اب کوئی دس ہزار لے کر بھی لینے کو تیار نہیں۔ وکلا کو ٹکٹ دینے کا اعلان بھی کوئی خاص کامیاب نظر نہیں آرہا۔ پانچ دس بڑے ناموں کے علاوہ کوئی ٹکٹ لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
آپ ورچوئل جلسے کی بات کرتے ہیں، ہم زمینی حقائق کی بات کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کے آجکل اسٹار شیر افضل مروت لاہور سے گرفتار ہوئے ،کیا احتجاج ہوا؟ بلکہ خبر تو یہ ہے کہ جیل میں ان کو ملنے کوئی نہیں گیا۔ جب وہ رہا ہوئے تو پچاس لوگ بھی جیل کے باہر موجود نہیں تھے۔ یہی حقیقت ہے۔ ورچوئل جلسہ ایک خواب اور سیراب ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
انتخابات کا فیصلہ ورچوئل جلسے سے نہیں ہونا۔ زمین پر موجود جلسے سے ہونا ہے۔ بیلٹ پیپر ورچوئل نہیں ہوگا، بیلٹ پیپر زمین پر ہوگا۔ امیدوار ورچوئل نہیں ہوگا، زمین پر ہوگا۔ انتخا بی دفاتر ورچوئل نہیں ہوںگے، زمین پر ہوں گے۔
مزاحمتی تحاریک ورچوئل نہیں بلکہ وہ زمین پر چلتی ہیں۔ یہ بھی کوئی منطق نہیں کہ ہمیں احتجاجی تحریک کی اجازت نہیں مل رہی۔ احتجاجی تحریک اجازت سے نہیں چلتی، یہ عوام کے بل بوتے پر چلتی ہے۔ لوگ سٹرکوں پر نکلیں گے تو کوئی احتجاج کو نہیں روک سکتا۔
لوگ کم ہیں تو احتجاج کا بستر گول۔ لوگ زیادہ ہیں تو سامنے والے کا بستر گول ۔ نو مئی کو بھی لوگ کم تھے، آج بھی کم ہیں۔ مزاحمتی تحریک کے لوازمات تحریک انصاف کے پاس نہ کل پورے تھے نہ آج پورے ہیں۔ باقی سب ڈرامہ ہے۔