کراچی پرکتوں کی یلغار
مضافاتی علاقوں میں ان کتوں کا نشانہ موٹرسائیکل سوار بنتے ہیں جس سے کئی خطرناک حادثات ہوچکے ہیں
کراچی شہر میں کتوں کے شہریوں پر حملے بڑھ گئے۔ صرف شہر کے ایک سرکاری اسپتال، سول اسپتال میں تین دنوں میں کتے کے کاٹنے کے 500 مریضوں کا علاج ہوا، مگر دوسری طرف علاج کی ویکسین ناپید ہوگئی۔
ایک انگریزی معاصر کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کتے کے کاٹنے کا علاج دو سرکاری اسپتالوں سول اسپتال، جناح اسپتال جب کہ ایک لوگوں کی مدد سے چلنے والے انڈس اسپتال میں موجود ہے۔ انڈس اسپتال کے ریکارڈ کے مطابق اس سال کتے کے کاٹنے کے 13ہزار کیس آئے۔
اس اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال ہمارے پاس 10 ہزار کیس آئے تھے، جو ڈاکٹر اس مرض کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سال میں دو دفعہ کتوں کے حملے زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔مارچ، اپریل، اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں صورتحال زیادہ خراب ہوتی ہے۔ ان مہینوں میں کتوں کی افزائش نسل بڑھتی ہے۔ سول اسپتال والے کہتے ہیں کہ ہر ماہ کتے کے کاٹنے کے 900کیس آتے ہیں اور تقریباً ایک ہزار 900 مریض فالو اپ کے لیے اسپتال آتے ہیں۔
ڈاکٹروں کا مشاہدہ ہے کہ ویسے تو پورے کراچی سے مریض آتے ہیں مگر زیادہ تر مریض گولیمار، لیاری، بلدیہ ٹاؤن اور گڈاپ کے علاقوں سے آتے ہیں۔
جناح پوسٹ گریجویٹ اسپتال کی ڈاکٹر نوشین کا کہنا ہے کہ کتے کے کاٹنے کے علاج کی ویکسین RIG کا ملنا ایک دشوار مرحلہ ہے۔
شہر کے سب سے بڑے سول اسپتال میں اس مرض کی ویکسین صبح کے اوقات میں لگائی جاتی ہے مگر کتے ان اوقاتِ کارکی پابندی نہیں کرتے۔ جو مریض دوپہر سے رات گئے تک کتوں کی لذت کا باعث بنتے ہیں، انھیں صبح آنے کی ہدایت کی جاتی ہے، صرف شدید زخمی مریضوں کو ویکسین مہیا ہوتی ہے۔
اندرونِ سندھ سے تعلق رکھنے والے صحافی سہیل سانگی کا کہنا ہے کہ صر ف کراچی کی ہی نہیں، پورے سندھ میں کتے کے کاٹنے کی ویکسین آسانی سے دستیاب نہیں ہوتی ہے۔ کراچی شہر کے ہر علاقے میں کتوں کے غول کے غول نظر آتے ہیں۔
مضافاتی علاقوں میں ان کتوں کا نشانہ موٹرسائیکل سوار بنتے ہیں جس سے کئی خطرناک حادثات ہوچکے ہیں۔ طارق روڈ جہاں بڑی بڑی دکانیں اور شاندار شاپنگ مال قائم ہیں وہاں فٹ پاتھوں پر اورگاڑیوں کے نیچے کتے سوتے اور دوڑتے نظر آتے ہیں۔ دکاندار اور خریداری کے لیے آنے والے لوگ بچا کچا سامان فٹ پاتھ پر یا سڑک کے درمیان آئی لینڈ پر پھینکتے ہیں، یہ کتے اس غذا سے ہی زندگی پاتے ہیں۔
کتے کے کاٹنے کے اس معاملے کا تعلق دو حوالوں سے اہم ہے۔ ایک مسئلہ کتوں کی افزائشِ نسل کا ہے۔ کراچی بشمول اندرونِ سندھ میں کام کرنے والے غیر سرکاری تنظیم (NGO's) کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ 15 برسوں میں بلدیاتی اداروں کی کارکردگی بڑی طرح متاثر ہوئے تھے۔ ہر شہر میں کوڑے کرکٹ کے اٹھانے اور اس کوڑے کو ٹھکانے لگانے کا نظام فرسودہ اور ناکارہ ہے۔
تمام شہروں میں بلدیاتی اداروں کے اہلکاروں کا وقت صفائی کے معیارکو بلند کرنے کے بجائے دیگر کاموں میں گزرتا ہے، پورے صوبہ میں سیوریج کا نظام مفلوج ہوچکا ہے۔ کراچی، حیدرآباد اور سکھر غرض ہر شہر میں سڑکوں اور گلیوں میں گندہ پانی جمع ہونا معمول کی بات ہے۔
سوشل میڈیا پر ایسی وڈیوز وائرل ہوتی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ برسراقتدار جماعت کے منتخب اراکین نے اپنے مسلمان کارکنوں کو نوازنے کے لیے سینیٹری ورکرزکے طور پر بھرتی کرا دیا، یوں ان کارکنوں کو وظیفہ تو ملنے لگا مگر صفائی کا نظام ناقص ہوگیا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے جب نچلی سطح کا بلدیاتی نظام ختم کیا توکونسلر اور یونین کونسل کو بے اختیار کیا۔ سندھ کی حکومت نے پہلے چین کی ایک کمپنی کی مدد حاصل کی۔ اس کمپنی نے جدید مشینیں خریدیں، ہیوی ڈیوٹی ٹرک حاصل کیے گئے اور شہر کے مختلف علاقوں میں رنگ برنگے ڈسٹ بن لگا دیے گئے۔ اس کام کی کوئی اونر شپ نہیں تھی۔
ایک اور ادارہ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ بنایا گیا مگر اس ادارے میں لاکھوں روپے کی تنخواہوں کے عوض افسران کا تقرر ہوا یوں شہرکی بڑی سڑکوں پر مشین سے صفائی کے مناظر خود نظر آنے لگے، البتہ صفائی کا معیار بلند نہ ہوسکا۔ اس ضمن میں ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کام سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ کو سونپا گیا مگر سیوریج کی ذمے داری واٹرکارپوریشن کے سپرد کی گئی، یوں معاملہ ہنوز حل نہ ہوسکا۔
اسی سال جب سندھ میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا عمل مکمل ہوا تو اس نظام میں یونین کونسل اور کونسلرکے ادارے کی حیثیت بھی واضح ہوئی، مگر المیہ یہ ہے کہ یونین کونسل کی سطح پر ابھی تک نہ تو اختیارات دیے گئے نا مالیاتی طور پر انھیں با اختیارکیا گیا ہے جس کی بناء پر بلدیاتی مسائل سنگین ہوتے جارہے ہیں۔
گزشتہ برسوں کے دوران جب کتے کے کاٹنے سے ہلاکتوں کی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں تو کتوں کے خاتمے کے لیے ان کو ہلاک کرنے کا ایک پروجیکٹ شروع ہوا۔ جانوروں کی بہبود کے لیے کوشش کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم نے کتوں کو ہلاک کرنے کو غیر انسانی سلوک قرار دیا تو کتوں کی نس بندی کرنے کا ایک اور پروجیکٹ شروع کیا گیا۔
یہ پروجیکٹ بھی کروڑوں روپے کا تھا مگر اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اس اہم مسئلہ پر ابھی تک کچھ نہ ہوسکا۔ ایک اور اہم معاملہ کتے کے کاٹنے کے علاج کی ویکسین کا ہے۔ پاکستان میں کسی قسم کی ویکسین نہیں بنائی جاتی۔
بھارت دنیا کے چند ممالک میں شامل ہے جہاں تمام قسم کی ویکسین تیار ہوتی ہے۔ جب سابقہ حکومت نے بھارت سے تمام قسم کے تعلقات ختم کیے تو تجارت بھی منقطع کر دی جس کی بناء پر ملک میں انسانی جان بچانے والی ادویات کی قلت پیدا ہوگئی۔ جب سے بھارت سے تجارت بند ہوئی ہے کتے کے کاٹنے کے علاج کی ویکسین نا پید ہے۔
معقول بات تو یہ ہے کہ بھارت سے تجارت پر عائد پابندیاں ختم کرنی چاہئیں تاکہ تمام قسم کی ویکسین آسانی سے دستیاب ہونے لگے۔ سندھ کے نگران وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر ایک متحرک وزیر اعلیٰ ہیں۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر سعد جیسے ماہرین وزارت صحت کے نگراں ہیں۔ اسی طرح بلدیات کے وزیر بھی مختلف نوعیت کے دعویٰ کر رہے ہیں۔
ضرورت یہ ہے کہ ہر یونین کونسل کو بااختیار کیا جائے، ہر محکمہ کے کونسلر کی یہ ذمے داری ہونی چاہیے کہ صفائی کے نظام کو مؤثر بنانے اور کتوں کے خاتمے کے کام کی رات دن نگرانی کرے۔
ڈاکٹر سعد نیاز نے اس اہم معاملے کا نوٹس لیا ہے اور متعلقہ ڈاکٹروں سے تجاویز لی ہیں مگر یہ مسئلہ صرف علاج کی سہولتیں بہتر بنانے سے حل نہیں ہوسکتا۔ جواں سال مرتضیٰ وہاب تمام ٹاؤنز کے چیئرمین، یو سی چیئرمین اور کونسلر کو متحرک کریں۔ کم سے کم کتوں سے تو نجات دلانے کے لیے تو کچھ کرنا چاہیے۔
ایک انگریزی معاصر کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کتے کے کاٹنے کا علاج دو سرکاری اسپتالوں سول اسپتال، جناح اسپتال جب کہ ایک لوگوں کی مدد سے چلنے والے انڈس اسپتال میں موجود ہے۔ انڈس اسپتال کے ریکارڈ کے مطابق اس سال کتے کے کاٹنے کے 13ہزار کیس آئے۔
اس اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال ہمارے پاس 10 ہزار کیس آئے تھے، جو ڈاکٹر اس مرض کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سال میں دو دفعہ کتوں کے حملے زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔مارچ، اپریل، اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں صورتحال زیادہ خراب ہوتی ہے۔ ان مہینوں میں کتوں کی افزائش نسل بڑھتی ہے۔ سول اسپتال والے کہتے ہیں کہ ہر ماہ کتے کے کاٹنے کے 900کیس آتے ہیں اور تقریباً ایک ہزار 900 مریض فالو اپ کے لیے اسپتال آتے ہیں۔
ڈاکٹروں کا مشاہدہ ہے کہ ویسے تو پورے کراچی سے مریض آتے ہیں مگر زیادہ تر مریض گولیمار، لیاری، بلدیہ ٹاؤن اور گڈاپ کے علاقوں سے آتے ہیں۔
جناح پوسٹ گریجویٹ اسپتال کی ڈاکٹر نوشین کا کہنا ہے کہ کتے کے کاٹنے کے علاج کی ویکسین RIG کا ملنا ایک دشوار مرحلہ ہے۔
شہر کے سب سے بڑے سول اسپتال میں اس مرض کی ویکسین صبح کے اوقات میں لگائی جاتی ہے مگر کتے ان اوقاتِ کارکی پابندی نہیں کرتے۔ جو مریض دوپہر سے رات گئے تک کتوں کی لذت کا باعث بنتے ہیں، انھیں صبح آنے کی ہدایت کی جاتی ہے، صرف شدید زخمی مریضوں کو ویکسین مہیا ہوتی ہے۔
اندرونِ سندھ سے تعلق رکھنے والے صحافی سہیل سانگی کا کہنا ہے کہ صر ف کراچی کی ہی نہیں، پورے سندھ میں کتے کے کاٹنے کی ویکسین آسانی سے دستیاب نہیں ہوتی ہے۔ کراچی شہر کے ہر علاقے میں کتوں کے غول کے غول نظر آتے ہیں۔
مضافاتی علاقوں میں ان کتوں کا نشانہ موٹرسائیکل سوار بنتے ہیں جس سے کئی خطرناک حادثات ہوچکے ہیں۔ طارق روڈ جہاں بڑی بڑی دکانیں اور شاندار شاپنگ مال قائم ہیں وہاں فٹ پاتھوں پر اورگاڑیوں کے نیچے کتے سوتے اور دوڑتے نظر آتے ہیں۔ دکاندار اور خریداری کے لیے آنے والے لوگ بچا کچا سامان فٹ پاتھ پر یا سڑک کے درمیان آئی لینڈ پر پھینکتے ہیں، یہ کتے اس غذا سے ہی زندگی پاتے ہیں۔
کتے کے کاٹنے کے اس معاملے کا تعلق دو حوالوں سے اہم ہے۔ ایک مسئلہ کتوں کی افزائشِ نسل کا ہے۔ کراچی بشمول اندرونِ سندھ میں کام کرنے والے غیر سرکاری تنظیم (NGO's) کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ 15 برسوں میں بلدیاتی اداروں کی کارکردگی بڑی طرح متاثر ہوئے تھے۔ ہر شہر میں کوڑے کرکٹ کے اٹھانے اور اس کوڑے کو ٹھکانے لگانے کا نظام فرسودہ اور ناکارہ ہے۔
تمام شہروں میں بلدیاتی اداروں کے اہلکاروں کا وقت صفائی کے معیارکو بلند کرنے کے بجائے دیگر کاموں میں گزرتا ہے، پورے صوبہ میں سیوریج کا نظام مفلوج ہوچکا ہے۔ کراچی، حیدرآباد اور سکھر غرض ہر شہر میں سڑکوں اور گلیوں میں گندہ پانی جمع ہونا معمول کی بات ہے۔
سوشل میڈیا پر ایسی وڈیوز وائرل ہوتی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ برسراقتدار جماعت کے منتخب اراکین نے اپنے مسلمان کارکنوں کو نوازنے کے لیے سینیٹری ورکرزکے طور پر بھرتی کرا دیا، یوں ان کارکنوں کو وظیفہ تو ملنے لگا مگر صفائی کا نظام ناقص ہوگیا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے جب نچلی سطح کا بلدیاتی نظام ختم کیا توکونسلر اور یونین کونسل کو بے اختیار کیا۔ سندھ کی حکومت نے پہلے چین کی ایک کمپنی کی مدد حاصل کی۔ اس کمپنی نے جدید مشینیں خریدیں، ہیوی ڈیوٹی ٹرک حاصل کیے گئے اور شہر کے مختلف علاقوں میں رنگ برنگے ڈسٹ بن لگا دیے گئے۔ اس کام کی کوئی اونر شپ نہیں تھی۔
ایک اور ادارہ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ بنایا گیا مگر اس ادارے میں لاکھوں روپے کی تنخواہوں کے عوض افسران کا تقرر ہوا یوں شہرکی بڑی سڑکوں پر مشین سے صفائی کے مناظر خود نظر آنے لگے، البتہ صفائی کا معیار بلند نہ ہوسکا۔ اس ضمن میں ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کام سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ کو سونپا گیا مگر سیوریج کی ذمے داری واٹرکارپوریشن کے سپرد کی گئی، یوں معاملہ ہنوز حل نہ ہوسکا۔
اسی سال جب سندھ میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا عمل مکمل ہوا تو اس نظام میں یونین کونسل اور کونسلرکے ادارے کی حیثیت بھی واضح ہوئی، مگر المیہ یہ ہے کہ یونین کونسل کی سطح پر ابھی تک نہ تو اختیارات دیے گئے نا مالیاتی طور پر انھیں با اختیارکیا گیا ہے جس کی بناء پر بلدیاتی مسائل سنگین ہوتے جارہے ہیں۔
گزشتہ برسوں کے دوران جب کتے کے کاٹنے سے ہلاکتوں کی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں تو کتوں کے خاتمے کے لیے ان کو ہلاک کرنے کا ایک پروجیکٹ شروع ہوا۔ جانوروں کی بہبود کے لیے کوشش کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم نے کتوں کو ہلاک کرنے کو غیر انسانی سلوک قرار دیا تو کتوں کی نس بندی کرنے کا ایک اور پروجیکٹ شروع کیا گیا۔
یہ پروجیکٹ بھی کروڑوں روپے کا تھا مگر اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اس اہم مسئلہ پر ابھی تک کچھ نہ ہوسکا۔ ایک اور اہم معاملہ کتے کے کاٹنے کے علاج کی ویکسین کا ہے۔ پاکستان میں کسی قسم کی ویکسین نہیں بنائی جاتی۔
بھارت دنیا کے چند ممالک میں شامل ہے جہاں تمام قسم کی ویکسین تیار ہوتی ہے۔ جب سابقہ حکومت نے بھارت سے تمام قسم کے تعلقات ختم کیے تو تجارت بھی منقطع کر دی جس کی بناء پر ملک میں انسانی جان بچانے والی ادویات کی قلت پیدا ہوگئی۔ جب سے بھارت سے تجارت بند ہوئی ہے کتے کے کاٹنے کے علاج کی ویکسین نا پید ہے۔
معقول بات تو یہ ہے کہ بھارت سے تجارت پر عائد پابندیاں ختم کرنی چاہئیں تاکہ تمام قسم کی ویکسین آسانی سے دستیاب ہونے لگے۔ سندھ کے نگران وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر ایک متحرک وزیر اعلیٰ ہیں۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر سعد جیسے ماہرین وزارت صحت کے نگراں ہیں۔ اسی طرح بلدیات کے وزیر بھی مختلف نوعیت کے دعویٰ کر رہے ہیں۔
ضرورت یہ ہے کہ ہر یونین کونسل کو بااختیار کیا جائے، ہر محکمہ کے کونسلر کی یہ ذمے داری ہونی چاہیے کہ صفائی کے نظام کو مؤثر بنانے اور کتوں کے خاتمے کے کام کی رات دن نگرانی کرے۔
ڈاکٹر سعد نیاز نے اس اہم معاملے کا نوٹس لیا ہے اور متعلقہ ڈاکٹروں سے تجاویز لی ہیں مگر یہ مسئلہ صرف علاج کی سہولتیں بہتر بنانے سے حل نہیں ہوسکتا۔ جواں سال مرتضیٰ وہاب تمام ٹاؤنز کے چیئرمین، یو سی چیئرمین اور کونسلر کو متحرک کریں۔ کم سے کم کتوں سے تو نجات دلانے کے لیے تو کچھ کرنا چاہیے۔