سانحہ9مئی اور قانونی مسائل
ملٹری کورٹس کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ وہاں مجرم اور غیر مجرم دونوں کو سزا ملے گی
9 مئی کے پرتشدد واقعات پاکستان کی تاریخ کا بد ترین سانحہ ہے۔ اس روز ایک سیاسی جماعت کے تربیت یافتہ سیاسی خود کش بمبار شرپسندوں نے وہ کام کیا جس کی جرات پاکستان کے دشمن بھی کرنے سے پہلے سو بار سوچتے۔ تحریک انصاف کی ٹائیگر فورس جی ایچ کیو پر چڑھ دوڑی، ریڈیو پاکستان پشاور کی تاریخی عمارت کو نذر آتش کیا۔
کور کمانڈر ہاؤس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، پورے ملک میں عسکری اداروں اور تنصیبات پر بیک وقت اور ایک ہی انداز میں حملہ آور ہوئے، نجی و سرکاری املاک نذر آتش کر ڈالیں، گاڑیوں کے شو روم جلا دیے، وطن کے لیے اپنے جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے شہداء کی تصاویر اور یادگاروں کو اکھاڑ پھینکا۔ ایدھی ایمبولینس سمیت بسوں، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ ڈنڈے لہراتے، نعرے لگاتے، گالیاں بکتے خوف و ہراس پھیلاتے رہے۔ پاک فوج کے CSD اسٹور کومال غنیمت سمجھ کر لوٹ لیا گیا' دو دن پورے ملک میں لوٹ مار کرتے رہے۔
یہ سب کچھ 9 اور 10 مئی کو ہوا اور آج دسمبر اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے، سات ماہ گزر چکے ہیں مگر ابھی تک ہم اس کشمکش سے باہر نہیں نکلے کہ ان دہشت گردی کے واقعات میں ملوث دہشتگردوں کا ٹرائل عام عدالتوں میں ہوگا یا فوجی عدالتوں میں؟ انھیں کون سزا دے گا؟ مجھے اگست 2011 کا واقعہ یاد آرہا ہے، جب لندن کے ایک علاقے ٹوٹنہم میں پولیس فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہو گیا جس کے خلاف پورے شہر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہ مظاہرے فسادات میں بدل گئے اور ان کا دائرہ بہت سے علاقوں تک پھیل گیا۔ پر تشدد مظاہروں کے دوران شہریوں نے دکانوں، عمارتوں اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی، نجی و سرکاری، جو چیز سامنے آئی جلا ڈالی۔
ڈیپارٹمنٹل اسٹورز اور چھوٹی بڑی دکانوں میں لوٹ مار شروع کر دی، ان پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ چار روز تک جاری رہا۔ پھر ریاست کا صبر جواب دے گیا اور اس نے اپنی رٹ قائم کرنے کی ٹھان لی۔ قانون حرکت میں آیا اور پرتشدد مظاہروں پر فوری قابو پانے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کا آغاز ہوا۔
اس وقت برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون تھے انھوں نے اعلان کیا کہ انسانی حقوق کے بارے میں جعلی فکر مندی کو رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا جو کوئی بھی پرتشدد مظاہروں اور لوٹ مار میں ملوث ہے تصاویر سے پہچان کر انھیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ یہ محض اعلان نہیں تھا بلکہ عمل تھا۔ اس اعلان کے بعد لندن پولیس نے کم و بیش تین ہزار افراد کو حراست میں لیا۔ عدالتیں دن رات کھلی رہیں، اسپیڈی ٹرائل کے ذریعے مجرموں کو جیل بھیجا گیا۔
مبینہ طور پر ہر مجرم کو اوسطاً 16.8 ماہ قید کی سزا ملی، لندن فسادات میں وہ کم عمر بچے جو چھوٹے موٹے جرائم کے مرتکب ہوئے تھے، انھیں بھی معاف نہیں کیا گیا۔ خواتین کو بھی نہیں بخشا گیا۔ جلاؤ گھیراؤ سے لے کر لوٹ مار کرنے والے تک کو سزائیں دی گئیں۔ اور ایک ہمارا پاکستان ہے جہاں 9 مئی کے سانحے کو سات ماہ سے زیادہ گزرچکے ہیں اور ابھی تک ہم فیصلہ نہیں کر پارہے کہ کرنا کیا ہے۔
ان مجرموں کو فوری سزائیں دینے کے لیے ان کے کیسز فوجی عدالتوں میں بھیجے گئے لیکن 23 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں فوجی عدالتوں کو کام سے روک دیا۔
اس فیصلے کو حکومت پاکستان نے چیلنج کیا۔ چند روز پہلے سپریم کورٹ کے چھ رکنی لارجر بینچ نے ایک بڑا فیصلہ سنایا جس میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کا سپریم کورٹ کا ہی فیصلہ معطل کردیا اور ریمارکس دیے، کہ فوجی عدالتیں ملزمان کا ٹرائل کر سکتی ہیں لیکن حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کے احکامات سے مشروط ہوگا۔
ماہرین قانون کا ایک بڑا طبقہ اور تمام محب وطن اس بات پر متفق ہیں کہ جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاؤس اور فوجی اہمیت کے مقامات اور تنصیبات پر حملے، توڑ پھوڑ، آتش زنی اور شہدا کی یادگاروں کو مسمار کرنے والے قومی مجرم ہیں اور ان کا اقدام دہشت گردی ہے وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ان پر ملٹری کورٹس ہی میں اسپیڈی مقدمات چلنے چاہئیں۔
آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ دونوں کے تحت ان پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جا سکتے ہیں مگر انھیں عام معافی کسی بھی قانون کے تحت نہیں دی جا سکتی۔
سول عدالتوں کے حوالے کرنے کا مطلب ہے سب کو باعزت بری کرنا، کیونکہ ہمارا نظام انصاف اتنا پیچیدہ ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں میں سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں بے گناہ پاکستانی مسلمانوں کے قاتل دہشت گرد بری ہوچکے یا انھیں بہت کم سزائیں ہوتی ہیں۔ یہ قومی المیہ ہے پاکستان کی عدالتوں میں 90 فیصد وقت 1فیصد اشرافیہ کے مقدمات کے لیے مخصوص ہے اور 99 فیصد عوام کے لیے باقی 10فیصد وقت ہے، اس میں سے بھی اگر چھٹیاں نکال لیں تو یہ دس فیصد وقت کم ہو کر صرف 1 فیصد ہی رہ جاتا ہے۔
غریب آدمی کسی جھوٹے کیس میں پھنس جائے تو بیس سال جیل کاٹنے کے بعد اسے بے گناہ قرار دے کر جب اس کی رہائی کا پروانہ جاری کیا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ قیدی تو کئی سال پہلے زندگی سے آزاد ہوکر موت کی آغوش میں جا چکا ہے۔ پھر ان کے لواحقین ان کی قبر پر جاکر ان کی بریت اور بے گناہی کا عدالتی حکم سناتے ہیں۔ نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار 9 مئی کے مجرموں کو سزاؤں سے بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔
سپریم کورٹ کے چھ رکنی بنچ نے فوجی عدالتوں کے خلاف فیصلہ سنایا تو پی ٹی آئی' اس کے حامیوں اور سہولت کاروں نے خوشیاں منائی تھیں۔ میرے جیسے پاکستانی جو پاک فوج اور شہداء کے احترام کو قومی سلامتی سے مشروط کرتے ہیں انھیں اس فیصلے سے شدید مایوسی ہوئی تھی اور ان کے ذہنوں میں ایک ہی سوال تھا کہ اگر فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہونے والے سزاؤں سے بچ گئے تو فوج کو بطور ادارہ ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ یہ دنیا کے بہت سے ممالک بشمول بھارت میں ایسے معاملات کے فیصلے فوجی عدالتوں کے ذریعے ہوتے ہیں۔
فوجی عدالتوں کے خلاف پٹیشن دائر کرنے کا مقصد ہی کچھ اور تھا۔ اور وہ مقصد یہ تھا کہ9مئی کے فسادات میں ملوث شرپسندوں کو ملٹری قانون کے شکنجے سے بچایاجائے۔ لیکن اس کے دیگر مضمرات پر غور کیا جائے تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ وہ تمام ملک دشمن عناصر جو کسی بھی طرح ریاست پاکستان کو نقصان پہنچانے میں ملوث پائے جائیں وہ ملٹری قانون سے بچے رہیں۔
کیونکہ اگر آرمی ایکٹ سے ان کو تحفظ مل جائے تو کریمنل پروسیجر کی شقیں لگنے اور ان میں موجود گنجائش کی وجہ سے ملک شرپسند آسانی سے چھڑوائے جاسکتے ہیں۔ ماضی میں اس طرح کی مثالیں سب نے دیکھی ہیں۔ دراصل پاکستان کا کریمنل جسٹس سسٹم دنیا کاکمزور ترین سسٹم ہے اور اس میں جرائم میں ملوث افراد کو آسانی سے من مرضی کاریلیف دلوایا جاسکتا ہے۔
ملٹری کورٹس کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ وہاں مجرم اور غیر مجرم دونوں کو سزا ملے گی۔ ایسا ہرگز نہیں کہ ملٹری کورٹس سے ہر ملزم کو لازمی سزا ہی ملتی ہے۔ بے گناہ ثابت ہونیوالوں کو فوجی عدالتوں سے مکمل انصاف ملتا ہے اور قصور واروں کے ساتھ کوئی رو رعایت نہیں کی جاتی۔
پاکستان آرمی ایکٹ 1952 اور 1967 کے تحت ہزاروں سویلین ان ملٹری قوانین کے تحت ڈسپوز آف کیے جاچکے ہیں اور سپریم کورٹ آف پاکستان ان قوانین کی روشنی میں متعدد فیصلے بھی دے چکی ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت ہونیوالے فیصلوں کوانٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس نے بھی قانونی عمل تسلیم کیا ہے۔
پاکستان کے قانون اور آئین کے تناظر میں اس قانون کی حقیقت اور حیثیت کو نہیں جھٹلایا جاسکتا۔ سال2015 میں گیارہ جج صاحبان نے سویلین ٹرائل ملٹری کورٹس کے ذریعے ہونے کی توثیق کی۔ اسی طرح2017 میں پانچ جج صاحبان نے بھی فیصلے کی توثیق کی۔
سپریم کورٹ کے چھ رکنی بینچ نے بھی مشروط فیصلہ دیا ہے، فیصلے میں فوجی عدالتوں کو سویلینز کے ٹرائل کی اجازت تو دی گئی ہے لیکن فیصلے کا اختیار نہیں دیا گیا ۔ حکومت پاکستان کو اس مشروط فیصلے کو چیلنج کرکے واضح فیصلہ لینا چاہیے تاکہ دہشتگردوں کو جلد از جلد نشان عبرت بنایا جاسکے۔
کور کمانڈر ہاؤس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، پورے ملک میں عسکری اداروں اور تنصیبات پر بیک وقت اور ایک ہی انداز میں حملہ آور ہوئے، نجی و سرکاری املاک نذر آتش کر ڈالیں، گاڑیوں کے شو روم جلا دیے، وطن کے لیے اپنے جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے شہداء کی تصاویر اور یادگاروں کو اکھاڑ پھینکا۔ ایدھی ایمبولینس سمیت بسوں، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ ڈنڈے لہراتے، نعرے لگاتے، گالیاں بکتے خوف و ہراس پھیلاتے رہے۔ پاک فوج کے CSD اسٹور کومال غنیمت سمجھ کر لوٹ لیا گیا' دو دن پورے ملک میں لوٹ مار کرتے رہے۔
یہ سب کچھ 9 اور 10 مئی کو ہوا اور آج دسمبر اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے، سات ماہ گزر چکے ہیں مگر ابھی تک ہم اس کشمکش سے باہر نہیں نکلے کہ ان دہشت گردی کے واقعات میں ملوث دہشتگردوں کا ٹرائل عام عدالتوں میں ہوگا یا فوجی عدالتوں میں؟ انھیں کون سزا دے گا؟ مجھے اگست 2011 کا واقعہ یاد آرہا ہے، جب لندن کے ایک علاقے ٹوٹنہم میں پولیس فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہو گیا جس کے خلاف پورے شہر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہ مظاہرے فسادات میں بدل گئے اور ان کا دائرہ بہت سے علاقوں تک پھیل گیا۔ پر تشدد مظاہروں کے دوران شہریوں نے دکانوں، عمارتوں اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی، نجی و سرکاری، جو چیز سامنے آئی جلا ڈالی۔
ڈیپارٹمنٹل اسٹورز اور چھوٹی بڑی دکانوں میں لوٹ مار شروع کر دی، ان پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ چار روز تک جاری رہا۔ پھر ریاست کا صبر جواب دے گیا اور اس نے اپنی رٹ قائم کرنے کی ٹھان لی۔ قانون حرکت میں آیا اور پرتشدد مظاہروں پر فوری قابو پانے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کا آغاز ہوا۔
اس وقت برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون تھے انھوں نے اعلان کیا کہ انسانی حقوق کے بارے میں جعلی فکر مندی کو رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا جو کوئی بھی پرتشدد مظاہروں اور لوٹ مار میں ملوث ہے تصاویر سے پہچان کر انھیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ یہ محض اعلان نہیں تھا بلکہ عمل تھا۔ اس اعلان کے بعد لندن پولیس نے کم و بیش تین ہزار افراد کو حراست میں لیا۔ عدالتیں دن رات کھلی رہیں، اسپیڈی ٹرائل کے ذریعے مجرموں کو جیل بھیجا گیا۔
مبینہ طور پر ہر مجرم کو اوسطاً 16.8 ماہ قید کی سزا ملی، لندن فسادات میں وہ کم عمر بچے جو چھوٹے موٹے جرائم کے مرتکب ہوئے تھے، انھیں بھی معاف نہیں کیا گیا۔ خواتین کو بھی نہیں بخشا گیا۔ جلاؤ گھیراؤ سے لے کر لوٹ مار کرنے والے تک کو سزائیں دی گئیں۔ اور ایک ہمارا پاکستان ہے جہاں 9 مئی کے سانحے کو سات ماہ سے زیادہ گزرچکے ہیں اور ابھی تک ہم فیصلہ نہیں کر پارہے کہ کرنا کیا ہے۔
ان مجرموں کو فوری سزائیں دینے کے لیے ان کے کیسز فوجی عدالتوں میں بھیجے گئے لیکن 23 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں فوجی عدالتوں کو کام سے روک دیا۔
اس فیصلے کو حکومت پاکستان نے چیلنج کیا۔ چند روز پہلے سپریم کورٹ کے چھ رکنی لارجر بینچ نے ایک بڑا فیصلہ سنایا جس میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کا سپریم کورٹ کا ہی فیصلہ معطل کردیا اور ریمارکس دیے، کہ فوجی عدالتیں ملزمان کا ٹرائل کر سکتی ہیں لیکن حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کے احکامات سے مشروط ہوگا۔
ماہرین قانون کا ایک بڑا طبقہ اور تمام محب وطن اس بات پر متفق ہیں کہ جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاؤس اور فوجی اہمیت کے مقامات اور تنصیبات پر حملے، توڑ پھوڑ، آتش زنی اور شہدا کی یادگاروں کو مسمار کرنے والے قومی مجرم ہیں اور ان کا اقدام دہشت گردی ہے وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ان پر ملٹری کورٹس ہی میں اسپیڈی مقدمات چلنے چاہئیں۔
آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ دونوں کے تحت ان پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جا سکتے ہیں مگر انھیں عام معافی کسی بھی قانون کے تحت نہیں دی جا سکتی۔
سول عدالتوں کے حوالے کرنے کا مطلب ہے سب کو باعزت بری کرنا، کیونکہ ہمارا نظام انصاف اتنا پیچیدہ ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں میں سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں بے گناہ پاکستانی مسلمانوں کے قاتل دہشت گرد بری ہوچکے یا انھیں بہت کم سزائیں ہوتی ہیں۔ یہ قومی المیہ ہے پاکستان کی عدالتوں میں 90 فیصد وقت 1فیصد اشرافیہ کے مقدمات کے لیے مخصوص ہے اور 99 فیصد عوام کے لیے باقی 10فیصد وقت ہے، اس میں سے بھی اگر چھٹیاں نکال لیں تو یہ دس فیصد وقت کم ہو کر صرف 1 فیصد ہی رہ جاتا ہے۔
غریب آدمی کسی جھوٹے کیس میں پھنس جائے تو بیس سال جیل کاٹنے کے بعد اسے بے گناہ قرار دے کر جب اس کی رہائی کا پروانہ جاری کیا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ قیدی تو کئی سال پہلے زندگی سے آزاد ہوکر موت کی آغوش میں جا چکا ہے۔ پھر ان کے لواحقین ان کی قبر پر جاکر ان کی بریت اور بے گناہی کا عدالتی حکم سناتے ہیں۔ نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار 9 مئی کے مجرموں کو سزاؤں سے بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔
سپریم کورٹ کے چھ رکنی بنچ نے فوجی عدالتوں کے خلاف فیصلہ سنایا تو پی ٹی آئی' اس کے حامیوں اور سہولت کاروں نے خوشیاں منائی تھیں۔ میرے جیسے پاکستانی جو پاک فوج اور شہداء کے احترام کو قومی سلامتی سے مشروط کرتے ہیں انھیں اس فیصلے سے شدید مایوسی ہوئی تھی اور ان کے ذہنوں میں ایک ہی سوال تھا کہ اگر فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہونے والے سزاؤں سے بچ گئے تو فوج کو بطور ادارہ ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ یہ دنیا کے بہت سے ممالک بشمول بھارت میں ایسے معاملات کے فیصلے فوجی عدالتوں کے ذریعے ہوتے ہیں۔
فوجی عدالتوں کے خلاف پٹیشن دائر کرنے کا مقصد ہی کچھ اور تھا۔ اور وہ مقصد یہ تھا کہ9مئی کے فسادات میں ملوث شرپسندوں کو ملٹری قانون کے شکنجے سے بچایاجائے۔ لیکن اس کے دیگر مضمرات پر غور کیا جائے تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ وہ تمام ملک دشمن عناصر جو کسی بھی طرح ریاست پاکستان کو نقصان پہنچانے میں ملوث پائے جائیں وہ ملٹری قانون سے بچے رہیں۔
کیونکہ اگر آرمی ایکٹ سے ان کو تحفظ مل جائے تو کریمنل پروسیجر کی شقیں لگنے اور ان میں موجود گنجائش کی وجہ سے ملک شرپسند آسانی سے چھڑوائے جاسکتے ہیں۔ ماضی میں اس طرح کی مثالیں سب نے دیکھی ہیں۔ دراصل پاکستان کا کریمنل جسٹس سسٹم دنیا کاکمزور ترین سسٹم ہے اور اس میں جرائم میں ملوث افراد کو آسانی سے من مرضی کاریلیف دلوایا جاسکتا ہے۔
ملٹری کورٹس کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ وہاں مجرم اور غیر مجرم دونوں کو سزا ملے گی۔ ایسا ہرگز نہیں کہ ملٹری کورٹس سے ہر ملزم کو لازمی سزا ہی ملتی ہے۔ بے گناہ ثابت ہونیوالوں کو فوجی عدالتوں سے مکمل انصاف ملتا ہے اور قصور واروں کے ساتھ کوئی رو رعایت نہیں کی جاتی۔
پاکستان آرمی ایکٹ 1952 اور 1967 کے تحت ہزاروں سویلین ان ملٹری قوانین کے تحت ڈسپوز آف کیے جاچکے ہیں اور سپریم کورٹ آف پاکستان ان قوانین کی روشنی میں متعدد فیصلے بھی دے چکی ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت ہونیوالے فیصلوں کوانٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس نے بھی قانونی عمل تسلیم کیا ہے۔
پاکستان کے قانون اور آئین کے تناظر میں اس قانون کی حقیقت اور حیثیت کو نہیں جھٹلایا جاسکتا۔ سال2015 میں گیارہ جج صاحبان نے سویلین ٹرائل ملٹری کورٹس کے ذریعے ہونے کی توثیق کی۔ اسی طرح2017 میں پانچ جج صاحبان نے بھی فیصلے کی توثیق کی۔
سپریم کورٹ کے چھ رکنی بینچ نے بھی مشروط فیصلہ دیا ہے، فیصلے میں فوجی عدالتوں کو سویلینز کے ٹرائل کی اجازت تو دی گئی ہے لیکن فیصلے کا اختیار نہیں دیا گیا ۔ حکومت پاکستان کو اس مشروط فیصلے کو چیلنج کرکے واضح فیصلہ لینا چاہیے تاکہ دہشتگردوں کو جلد از جلد نشان عبرت بنایا جاسکے۔