کرپشن کی تکرار‘ فیصلہ کیوں نہیں
جنرل پرویز مشرف پر بھی ان کی حکومت میں کسی ملک سے کروڑوں ڈالر لینے کے الزامات لگے
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ دوسروں کو چور کہنے والا خود سب سے بڑا چور نکلا ہے، مجھے 7 سال تک جھوٹے مقدمات میں پھنسائے رکھا گیا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہیے۔ میاں نواز شریف کو جواب دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے ایک ترجمان نے کہا کہ شریف خاندان کی لوٹ مار کے قصے زبان زد عام ہیں۔
خود کو مظلوم کہنے والا اپنے دفاع میں ایک رسید بھی پیش نہ کر سکا۔ شریفوں کی کرپشن کے قصے دہائیوں سے ہر زبان پر ہیں۔ علاوہ ازیں انٹرنیشنل اینٹی کرپشن ڈے کے حوالے سے گورنر ہاؤس میں منعقدہ ایک سیمینار میں کہا گیا ہے کہ فلاحی ریاست کے لیے ہمیں کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا، بدعنوانیوں سے پاک معاشرے کے قیام کے لیے ہمیں پرعزم رہنا ہے۔
سوشل میڈیا پر تین بار وزیر اعظم رہنے والے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی اندرون ملک اور بیرون ممالک قیمتی جائیدادوں کی تفصیلات اب بھی موجود ہیں جب کہ لندن میں آصف زرداری پر بھی سرے محل کی ملکیت کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
ان پر اور بے نظیر بھٹو پر بھی سوئس بینکوں میں کروڑوں ڈالر جمع کرنے کی بازگشت تو سپریم کورٹ میں بھی سنی گئی اور اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے پی پی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو ایک حکم بھی دیا تھا جس کی تعمیل نہ ہونے پر سپریم کورٹ نے انھیں نااہل قرار دے کر برطرف بھی کر دیا تھا۔آصف زرداری طویل قید کاٹنے کے بعد ملک کے 5 سال صدر مملکت رہے اور انھی کے دور میں سوئس بینک میں جمع مبینہ کرپشن کا ریکارڈ بھی میڈیا پر دکھایا گیا تھا ۔
آصف زرداری سرے محل کی ملکیت سے انکاری تھے پھر وہ سرے محل فروخت ہوا تو بات دب گئی مگر وزیر اعظم نواز شریف پر ان کی برطرفی پر کرپشن کے الزامات لگے۔ ان پر لندن میں ایون فیلڈ ریفرنس بھی بنا۔ انھیں جائیدادیں بنانے پر نیب نے سزائیں بھی دلائیں۔ نواز شریف لندن میں چار سال اسی ایون فیلڈ میں رہ کر وطن واپس آ چکے ہیں اور اب بھی انھوں نے کہا ہے کہ مجھے سات سال بعد جھوٹے مقدمات میں اب انصاف مل رہا ہے۔
نواز شریف کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کا بانی جو ہمیں چور ڈاکو قرار دیتا آ رہا ہے اس کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ سے بڑا اسکینڈل ملکی تاریخ میں نہیں آیا۔تقریباً چار عشروں سے ملک کے سابق حکمرانوں پر کرپشن کے نہ صرف الزامات لگتے رہے بلکہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی پانچ حکومتیں بھی کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف ہوئیں۔
جنرل پرویز مشرف پر بھی ان کی حکومت میں کسی ملک سے کروڑوں ڈالر لینے کے الزامات لگے۔ بڑے بیورو کریٹس پر بھی کرپشن کے الزامات لگائے گئے اور میڈیا پر خبریں آئیں کہ کرپشن کی رقم سے انھوں نے متعدد ممالک میں جائیدادیں بنائی ہوئی ہیں۔
جن پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے ان میں اکثریت سیاستدانوں کی ہے۔ بڑے سب محفوظ ہیں کچھ چھوٹے کرپٹ افسروں کو سزائیں دی گئیں باقی کے خلاف کوئی تحقیقات تک نہیں ہوئی۔ بعض سرکاری اداروں میں شکایات کا شعبہ موجود ہے جس میں انکوائری کے بعد شوکاز نوٹس جاری ہوتا ہے جس کے بعد مبینہ کرپٹ فیصلے سے قبل اگر ازخود ریٹائرمنٹ لے لے تو اس کے گناہ معاف سمجھے جاتے ہیں اور وہ ریٹائر ہو کر اپنی تمام مراعات کا حقدار ہوتا ہے۔
نیب سمیت ملک میں احتساب کے ادارے بنے۔ ادارہ نیب جو جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں کی گئی کرپشن کے لیے بنایا تھا جس کا بڑا کام اور اہم ذمے داری سیاسی رہنماؤں کی، کی گئی کرپشن پکڑنا تھا مگر نیب نے یہ کہا کہ جنرل پرویز کی زیر سایہ جو (ق) لیگ کی حکومت میں آیا وہ کرپشن سے پاک قرار دیا گیا جو سیاستدان جنرل مشرف کا مخالف تھا ،اس پر نیب نے کرپشن کے مقدمات بنائے۔ انھیں گرفتار کیا گیا اور ثبوت نہ ملنے پر وہ عدالتوں سے رہا ہوتے گئے۔
جنرل مشرف کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں آئیں مگر پی ٹی آئی کی حکومت میں نیب متنازع ہوا ۔ اس وقت نیب کے حکومت سے گٹھ جوڑ اور وزیر اعظم کے کہنے پر ان کے مخالف تمام سیاستدانوں پر مقدمات بنا کر انھیں گرفتار کیا گیا۔
وہ سالوں جیل میں رہ کر عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہوئے۔ کسی ایک کو سزا نہیں ہوئی کیونکہ نیب کے پاس گرفتار کیے جانے والوں کی کرپشن کے ثبوت نہیں تھے۔ اعلیٰ عدالتوں سے بلا ثبوت بنائے گئے الزامات پر نیب کی سرزنش ہوئی، سخت عدالتی ریمارکس تک دیے گئے ۔
میاں نواز شریف نے اپنی دوسری حکومت میں کہا تھا کہ کرپشن اتنے جدید طریقے سے کی جاتی ہے کہ اس کے ثبوت ہی نہیں ملتے۔ آصف زرداری اور شریفوں پر کرپشن کے الزامات پی ٹی آئی کی طرف سے لگے اور اب بھی لگائے جا رہے ہیں کہ شریف خاندان کی لوٹ مار کے قصے زبان زدعام ہیں اور اب انھیں ڈیل پر ریلیف مل رہا ہے تو اپنے دور میں ان کی کرپشن کے ثبوت عدالتوں میں کیوں پیش نہیں کیے گئے کہ انھیں اب عدالتی ریلیف مل رہا ہے۔
نواز شریف ان مقدمات کو شروع سے ہی جھوٹا قرار دیتے آئے مگر جنھوں نے انھیں کرپٹ کہہ کر بدنام کیا ان کے خلاف شریفوں نے ہتک عزت کے مقدمات کیوں دائر نہیں کیے۔ انھوں نے مبینہ الزامات کی صرف تردید کی، عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔ عدالتوں میں جا کر چور ڈاکو کہنے والوں پر کیس کیوں نہیں بنائے؟ دور تبدیل ہونے کے بعد ریلیف ملنے پر سوالات تو اٹھیں گے ۔