میڈیا واچ ڈاگ سائیں کی آزادی اظہار رائے کے رنگ نرالے
کہتے ہیں کہ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ اور اگر رنگ پہ لگ گیا زنگ تو پھر کسی کام نہ آے گا ڈھنگ۔ بچے کریں گے تنگ اور زندگی میں نہ ہوگی ترنگ۔
جی ہاں کچھ یہی کہنا ہے آپ کی ہماری بلکہ پورے پاکستان کی زبیدہ آپا کا۔ اب آپ کہیں گے عمر کے اس حصے میں زبیدہ آپا کو رنگ کا کیوں خیال آیا تو میرے عزیز دوستوں زبیدہ آپا کو گورے رنگ کی کیا ضرورت ہے وہ تو خود ماشا الله گلابی رنگت کی مالک ہیں۔ اور آپا اپنے لئے نہیں بلکہ دیس میں بسنے والی شادی شدہ اور غیر شادی شدہ تمام صنف نازک کی فلاح و بہبود کا بیڑا اٹھائے صابن بیچ رہی ہیں۔ حیران کن طور پر اس صابن کے استعمال کی کوئی عمر قید نہیں۔ -
ایک طرف آپا گورے رنگ کی اہمیت اجاگر کرنے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف ان کے بھائی انور دودھ کی افادیت اور محفوظ دودھ کی مہم چلاتے نظر آ رہے ہیں- مگر یہ دنیا کسی کو چین سے کہاں جینے دیتی ہے عوام کی فلاح کا جس نے بھی سوچا اسکی آواز کو ہمیشہ دبا دیا گیا۔ اس پر کبھی نسل پرستی اور کبھی عصبیت پسندی جیسے گھناونے الزام لگاے گئے۔ اب آپا کی ہی مثال آپ کے سامنے ہے وہ خود گلابی رنگت کی ہیں مگر خواہش رکھتی ہیں ہے کہ پورا پاکستان گورا ہو جائے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی کے تجربے کا نچوڑ ایک صابن میں ڈال دیا۔
بتاؤ کوئی مفت میں اتنا نیک کام کرتا ہے آپا نے تو جنید جمشید کی سانولی سلونی کو گورے رنگ کے زمانے میں ہجرت کروانے کی پوری کوشش کی ہے اور یہ فارمولا تو ولایتی کریم بنانے والی کمپنی نے رنگ ساز کمپنی کے اشتراک سے بھی نہ کر سکیں اب آپ کہیں گے کہ رنگ ٹوکن والا تھا یا بغیر ٹوکن والا۔ اور یہی فارمولا بناتے بناتے تو آئنسٹائن نے اپنی جان گنوادی۔
میرے خیال میں تو آپا نے ویلفیئر میں ایدھی صاحب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مگر یہاں بسنے والی پس پردہ قوتیں آپا کے خلاف بھی سازشیں کرنے میں مصروف ہوگئیں- ایک نام نہاد وڈیرے کے بیٹے جس کی بچی بھی سائیں اور وہ خود بھی سائیں ہے اپنے ہی گانے تاڑو مارو کی ویڈیو میں گوری رنگت کی لڑکیوں کو گھورتے دیکھا گیا ہے۔ اور وہ یو ٹیوب پر سے پابندی بھی اس لئے ہٹوانا چاہتا ہے کہ تاکہ وہ گوری لڑکیوں کی ویڈیوز دیکھ سکے۔ یہ شخص آج کالوں کا علمبردار بن کر سامنے آگیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہم کالے ہیں تو کیا ہوا دل والے ہیں۔ بھلا بتاؤ کیا پہلے اس ملک میں کم اندھیرا ہے۔ کم از کم گورے رنگ سے لوڈ شیدڈنگ کے دوران ایمرجنسی لائٹ کا خرچہ تو بچے گا۔ میرا تو خیال ہے وزیر اعظم صاحب مفت انرجی سیور کے بجائے مفت زبیدہ آپا سوپ تقسیم کریں تاکہ ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد مل سکے۔
اب ذرا خود کو سائیں ماننے والے اس شخص کے مطالبات تو سنیں ۔
سائیں نے پہلے نکتے میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے ''اب گورا ہوگا پاکستان'' کی تشہیری مہم کو فی الفور بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ سائیں کے دوسرے نکتے میں تمام اخبارات کو ضرورت رشتہ کے اشتہار میں گوری یا گلابی رنگت جیسے الفاظ کے استمال سے گریز کرنے کا کہا گیا ہے۔ لہذا سائیں کے پہلے دو نکات تو ان کی جاگیردارانہ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں اور اظہار رائے کی آزادی سے متصادم نظر آتے ہیں۔ میڈیا ویسے ہی ملکی تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے اور یہ اپنی آمرانہ سوچ سے میڈیا کو ڈکٹیشن دینے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سائیں کے تیسرے نکتے میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ایک تو ویسے سے لوگ ٹیکسوں سے پریشان ہے اوپر سے اگر مزید کوئی ٹیکس لگ گیا تو بیچارے غریب عوام کہاں جائیں گے۔
سائیں کے چوتھے نکتے میں گورا قبرستان کا نام تبدیل کر کے سب کا قبرستان کرنے کا کہا گیا ہے۔ ارے اس سے تو بہت سے لوگوں کو خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ اگر ہم نے گوروں کے کسی بھی اثاثے پر اپنی ملکیت ظاہر کی گئی تو اسکا نقصان تمام کالوں کو ہوگا۔ اب ریمنڈ ڈیوس تو آپک و یاد ہی ہوگا تمام کالے ملکر بھی ایک گورے کو قابو نہ کر سکے۔
سائیں کے پانچویں نکتے میں ماؤں کو مخاطب کرکہ انھیں اپنے بچوں کو دھوپ میں نہ کھیلنے پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں اس سے تو سیدھی سیدھی بغاوت کی بو آ رہی ہے یہاں اسمبلی میں حقوق نسواں کیلئے قراردادیں پیش کی جا رہی ہیں اور سائیں عورت کی آواز کو دبانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بھلا بتاؤ فیض جیسے عظیم شاعر کے کلام ''بول کے لب آزاد ہیں تیرے۔۔ بول زبان اب تک تیری ہے'' کا کیا بنے گا۔ بھلا آج تک کسی مرد میں یہ ہمت ہوئی ہے کہ وہ عورت کی آواز کو دبا سکے یا کسی کام سے روک سکے۔ اگر بچے باہر دھوپ میں نہیں کھیلیں گے تو وہ ماؤں کو تنگ کریں گے اور ان کا کام مزید بڑھ جائے گا۔ یہ تو ماؤں کے ساتھ سراسر ناانصافی ہوئی نا۔
اور سائیں کا آخری نکتہ آمنہ شیخ کے لئے ہے اور یہ نکتہ قابل عمل اور قابل قبول ہے۔ لیکن خاکسار کو محب مرزا سے ڈر لگتا ہے۔ مگر جب امریکا جیسے گورے ملک میں کالا صدر ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں۔
میری دانست میں گورا ہونے کا حق تو بہرحال ہر پاکستانی کو حاصل ہے اور یہ حق ان سے چھیننا بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ مگر اپنے صابن کی تشہیر کے لئے کسی کالے انسان کو کم تر اور گورے کو برتر ثابت کرنا سراسر نا انصافی ہے۔ خاکسار میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتا ہے مگر میڈیا کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے اور ایسے اشتہارات دکھانے سے گریز کرنا چاہیے جس سے کسی خاص رنگ نسل فرقہ یا مذہب کو نشانہ بنایا جاتے یا کم تر ثابت کیا جاتے۔ آخر میں میری سائیں سے گزارش ہے کہ ملک میں اور بہت سے مسائل ہیں جن پر احتجاج اور ان کے حل کے لئے تجاویز کی ضرورت ہے۔ اگر وہ حقیقی معنوں میں ان مسائل کی طرف توجہ دیں تاکہ عوام انہیں بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔