پولیس تجاوزات ختم نہیں کر سکتی آدھا کراچی تو گوٹھ بنا دیا ہے سپریم کورٹ
گجر، اورنگی اور محمود آباد نالہ متاثرین کو متبادل گھر دینے کی درخواست پر 15دن میں عبوری رپورٹ پیش کرنے کا حکم
سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے ہیں کہ پولیس تجاوزات ختم نہیں کرا سکتی، آدھا کراچی تو گوٹھ بنا دیا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے گجر، اورنگی اور محمود آباد نالہ متاثرین کو متبادل گھر دینے سے متعلق درخواست پر 15دن میں حکام کو عبوری رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔
جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل 3 رکنی بینچ کے روبرو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں گجر، اورنگی اور محمود آباد نالہ متاثرین کو متبادل گھر دینے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔
اس موقع پر میئر کراچی مرتضیٰ وہاب، چیف سیکرٹری، کمشنر کراچی اور دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے متبادل گھر دینے کے حکم پر عمل درآمد نہ ہونے پر اظہار برہمی کیا۔ جسٹس سید حسین اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ یہاں تو گوٹھ بنا دیے جاتے ہیں۔ آدھا کراچی تو گوٹھ بنادیا ہے۔ آپ کی پولیس تجاوزات ختم نہیں کرسکتی تو پرائیویٹ سکیورٹی گارڈ لے آئیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ متبادل گھروں کا معاملہ کہاں پہنچا؟ آپ لوگ بتائیں کیا ہوا؟ چیف سیکرٹری نے بتایا کہ صرف کابینہ کی منظوری باقی ہے تھوڑی مہلت دی جائے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کابینہ کے چکر میں پڑیں یا کچھ اور کریں، یہ عدالت کا حکم ہے اس پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔
میئر کراچی بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا کہ متبادل دینے کے حوالے سے 2 آپشنز پر غور کیا جارہا ہے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ کہیں زمین کی نشاندہی کی گئی ہے اور وہاں کیا ہے؟۔ مرتضی وہاب نے کہا کہ زمین مختص کردی گئی ہے، وہاں تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے وقت دیا جائے، یہ تجویز چیف سیکرٹری کی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایک کو ہٹا دیں گے دوسرا آجائے گا۔ آپ کی ذمے داری ہے زمین خالی کروا کردیں۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے مؤقف دیا کہ زمین دستیاب ہے، صرف تعمیر کی رقم اور مکان تعمیر کرکے دینے کا معاملہ زیر غور ہے۔
فوکل پرسن نے بتایا کہ 6 سو سے زائد متاثرین کو چیکس نہیں دیے جاسکے۔ کچھ لوگوں نے رابطہ نہیں کیا، کچھ لوگوں کے شناختی کارڈز بلاک ہیں کچھ انتقال کرگئے۔ عدالت نے متاثرین کی فہرست متاثرین کے وکیل کو فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔
جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا کہ امید ہے معاملہ مزید آگے بڑھے گا۔ یہاں تک آگئے ہیں۔ چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ۔ مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ متاثرین کے 491 چیکس باقی ہیں وہ بھی دے دیے جائیں گے۔ عدالت نے بقیہ متاثرین کو چیکس دینے کی ہر ممکنہ کوشش کرنے کی ہدایت کردی۔
دوران سماعت سرکاری وکیل اور متاثرین کے وکیل کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے مؤقف دیا کہ لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں یہ کوئی مذاق ہے؟سرکاری وکیل یہاں کھڑے ہوکر ہنس رہے ہیں اور لوگ دربدر ہیں۔ عدالت نے وکلا کو خاموش کراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپس میں بات نہ کریں۔
عدالت نے متبادل گھروں کی فراہمی کے لیے دونوں تجاویز پر غور کرکے معاملہ حل کرنے کا حکم دیدیا۔ سپریم کورٹ نے صوبائی حکومت کو کابینہ کی منظوری کے لیے مہلت دیتے ہوئے 15دن میں حکام کو عبوری رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔
عدالت عظمیٰ نے گجر، اورنگی اور محمود آباد نالہ متاثرین کو متبادل گھر دینے سے متعلق درخواست پر 15دن میں حکام کو عبوری رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔
جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل 3 رکنی بینچ کے روبرو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں گجر، اورنگی اور محمود آباد نالہ متاثرین کو متبادل گھر دینے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔
اس موقع پر میئر کراچی مرتضیٰ وہاب، چیف سیکرٹری، کمشنر کراچی اور دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے متبادل گھر دینے کے حکم پر عمل درآمد نہ ہونے پر اظہار برہمی کیا۔ جسٹس سید حسین اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ یہاں تو گوٹھ بنا دیے جاتے ہیں۔ آدھا کراچی تو گوٹھ بنادیا ہے۔ آپ کی پولیس تجاوزات ختم نہیں کرسکتی تو پرائیویٹ سکیورٹی گارڈ لے آئیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ متبادل گھروں کا معاملہ کہاں پہنچا؟ آپ لوگ بتائیں کیا ہوا؟ چیف سیکرٹری نے بتایا کہ صرف کابینہ کی منظوری باقی ہے تھوڑی مہلت دی جائے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کابینہ کے چکر میں پڑیں یا کچھ اور کریں، یہ عدالت کا حکم ہے اس پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔
میئر کراچی بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا کہ متبادل دینے کے حوالے سے 2 آپشنز پر غور کیا جارہا ہے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ کہیں زمین کی نشاندہی کی گئی ہے اور وہاں کیا ہے؟۔ مرتضی وہاب نے کہا کہ زمین مختص کردی گئی ہے، وہاں تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے وقت دیا جائے، یہ تجویز چیف سیکرٹری کی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایک کو ہٹا دیں گے دوسرا آجائے گا۔ آپ کی ذمے داری ہے زمین خالی کروا کردیں۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے مؤقف دیا کہ زمین دستیاب ہے، صرف تعمیر کی رقم اور مکان تعمیر کرکے دینے کا معاملہ زیر غور ہے۔
فوکل پرسن نے بتایا کہ 6 سو سے زائد متاثرین کو چیکس نہیں دیے جاسکے۔ کچھ لوگوں نے رابطہ نہیں کیا، کچھ لوگوں کے شناختی کارڈز بلاک ہیں کچھ انتقال کرگئے۔ عدالت نے متاثرین کی فہرست متاثرین کے وکیل کو فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔
جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا کہ امید ہے معاملہ مزید آگے بڑھے گا۔ یہاں تک آگئے ہیں۔ چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ۔ مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ متاثرین کے 491 چیکس باقی ہیں وہ بھی دے دیے جائیں گے۔ عدالت نے بقیہ متاثرین کو چیکس دینے کی ہر ممکنہ کوشش کرنے کی ہدایت کردی۔
دوران سماعت سرکاری وکیل اور متاثرین کے وکیل کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے مؤقف دیا کہ لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں یہ کوئی مذاق ہے؟سرکاری وکیل یہاں کھڑے ہوکر ہنس رہے ہیں اور لوگ دربدر ہیں۔ عدالت نے وکلا کو خاموش کراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپس میں بات نہ کریں۔
عدالت نے متبادل گھروں کی فراہمی کے لیے دونوں تجاویز پر غور کرکے معاملہ حل کرنے کا حکم دیدیا۔ سپریم کورٹ نے صوبائی حکومت کو کابینہ کی منظوری کے لیے مہلت دیتے ہوئے 15دن میں حکام کو عبوری رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔