روایتی اور مضبوط گھرانوں کی سیاسی اجارہ داری
کیا نوجوان ووٹرز 60فیصد سے زیادہ تعداد میں باہر نکل کر انتخابی عمل میں بطور ووٹر حصہ بنے گا
ایک عمومی رائے ہماری انتخابی سیاست میں روایتی اور مضبوط سیاسی خاندانوں یا گھرانوں کی سیاسی اجارہ داری کے گرد گھومتی ہے۔
منطق یہ دی جاتی ہے کہ ایک کمزور سے سیاسی و جمہوری نظام اور سیاسی جماعتوں کی اپنی داخلی کمزوریوں کی وجہ سے سیاسی خاندان انتخابی میدان میں ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا سیاسی ، جمہوری اور انتخابی نظام ان ہی طاقت ور خاندانوں کے گرد گھومتا ہے اور سیاسی جماعتیں پسند کریں یا نہ کریں ان کو اپنی انتخابی سیاسی حکمت عملی میں اب بڑے خاندانوں یا گھرانوں کی سیاست کے سامنے ہی سرنڈر کرنا پڑتا ہے ۔
سیاسی محاذ پر بڑے خاندانوں کے مضبوط افراد سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں سے زیادہ ان کی اہمیت ہے اور اسی اہمیت کی بنیاد پر وہ سیاسی جماعتوں اور ان کے فیصلوں پر بالادستی حاصل کرتے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں اگرچہ ان مضبوط خاندانوں پر تنقید تو کرتی ہیں لیکن جب انتخابی معرکہ ہوتا ہے تو یہ ہی جماعتیں اپنی ماضی کی تنقید کو بھول کران ہی مضبوط خاندانوں سے سیاسی سمجھوتوں کرکے سیاسی و جمہوری اصولوں کی نفی کرتی ہیں۔
خود تحریک انصاف کی سیاسی تبدیلی میں ہم نے 2018کے انتخابات میں ان ہی مضبوط خاندانوں کو پی ٹی آئی کا حصہ بنتے دیکھا یا ان کو پی ٹی آئی کی طرف دھکیل دیا گیا اور چیئرمین تحریک انصاف بھی اسی سیاسی سمجھوتے کا شکار ہوئے جیسے دیگر بڑی جماعتیں ہوتی ہیں ۔ حالانکہ چیئرمین تحریک انصاف کا موقف ہوتا تھا کہ وہ مضبوط خاندانوں کے مقابلے میں پی ٹی آئی کو ہی فیصلہ کن حیثیت دیں گے جہاں افراد کے مقابلے میں سیاسی جماعت اہم ہوگی ، مگر ایسا نہ ہوسکا۔
اس وقت قومی سیاست میں عام انتخابات کا معرکہ ہے ۔ 8فروری 2024کو ملک میں عام انتخابات کی بنیاد پر نئی حکومت کی تشکیل ممکن ہوگی ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت سیاسی جماعتوں میں بہت زیادہ سیاسی جوڑ توڑ دیکھنے کو مل رہا ہے اور مضبوط سیاسی خاندانوں کو بنیاد بنا کر تمام بڑی سیاسی جماعتیں ان کو اپنی طرف مائل کرنے یا حمایت کے حصو ل میں سرگرداں ہیں۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی پوری کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ مضبوط گھرانوں کے مضبوط خاندان اور افراد کو اپنی اپنی جماعت کا حصہ بنائیں ان کو پارٹی ٹکٹ دیں تاکہ ان کے اقتدار کے کھیل کی راہ ہموار ہوسکے۔اگرچہ میں اس منطق سے مکمل اتفاق نہیں کرتا کہ یہ مضبوط خاندان خود ہی انتخاب جیتتے ہیں۔
میرے خیال میں ان کی جیت میں ایک بڑا کردار ان کی جماعت کے ووٹرز کا بھی ہوتا ہے وگرنہ یہ لوگ اگر خود ہی تنہا انتخابات جیت سکتے تو ان کو سیاسی جماعت کے ٹکٹ کی ضرورت نہ ہوتی ۔یہ جو ہمارے دیہی اور قصبوں یا فیوڈل یا جاگیردارانہ علاقے ہیں وہاں افراد ان ہی بڑے خاندانوں کے آگے بے بس اور لاچار ہوتے ہیں اور ان ہی کو بنیاد بناکر اور کچھ سیاسی جماعت کے ووٹ کی بنیاد پر انتخابی معرکہ جیت جاتے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان بڑے خاندانوں کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
اگر ہم نے ایک مضبوط سیاسی اور جمہوری نظام کی طرف بڑھنا ہے توہمیں سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں خاندانوں کی سیاست اور بڑے افراد کی سیاسی اجارہ داری کو کمزور کرنا ہوگا ۔لیکن یہ کام سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگا اور نہ ہی یہ کام کسی قانون سازی سے ہونا ہے۔ اس وقت 2024کے انتخابات کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ انتخاب ایسے ماحول میں ہورہا ہے جب ووٹرز کی سطح پر سیاسی تقسیم بہت ہی گہری ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق اس وقت کل ووٹرز کی تعداد 12کروڑ 85لاکھ 85ہزار 760ہے۔ ان میں 18تا35برس کے جو نوجوان ووٹرز ہیں ان کی تعداد 46فیصد بنتی ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج ہمارے سیاسی ماحول میں جو نوجوانوں میں پرجوشیت اور ردعمل کی سیاست ہے اور جس طرح ان میں ریاستی وحکومتی نظام کے بارے میں شدید تحفظات اور اپنے مستقبل کے بارے میں غیریقینی کا ہی سامنا ہے وہاں وہ ان مضبوط اور بڑے خاندانوں کی سیاست کو انتخابی میدان میں چیلنج کرسکیں گے۔
اس وقت ایک ہی نقطہ سیاسی محاذ پر بحث طلب ہے کہ کیا نوجوان ووٹرز 60فیصد سے زیادہ تعداد میں باہر نکل کر انتخابی عمل میں بطور ووٹر حصہ بنے گا اور اس روایتی ، خاندانی اور مضبوط گھرانوں کی سیاست کو چیلنج کرے گا۔کیونکہ اگر مضبوط خاندانوں کی سیاست کو کوئی ضرب لگنی ہے تو وہ نوجوان طبقہ ہی لگاسکتا ہے۔ وہ ان بڑے خاندانوں کی سیاست سے بھی نالاں ہے جو تواتر کے ساتھ اپنی پارٹی وفاداریاں تبدیل کرکے سیاسی نظام پر بوجھ بن گیا ہے۔