جونہی موقع ملے فوراً بھلائی کریں
یاد رکھو، جب بھی کسی کے ساتھ بھلائی کا موقع ملے فوراً اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھلائی کر دو
سمندر کے کنارے ایک شخص کسی اونچی سمندری موج سے باہر پھینکی اور تڑپتی ہوئی بے شمار مچھلیوں کو ایک ایک کر کے سمندر میں واپس پھینک رہا تھا۔ پاس سے گزرنے والے ایک شخص کو اس کی بے وقوفی پر ہنسی آٓ گئی۔
اس نے طنزیہ لہجے میں کہا،اس طرح کیا فرق پڑتا ہے۔کتنی بچا پاؤ گے۔یہ سُن کر وہ شخص نیچے جھکا۔ایک تڑپتی مچھلی کو اٹھایا اور سمندر میں اچھال دیا۔وہ مچھلی پانی میں جاتے ہی تیزی سے تیرتی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔مچھلیاں بچانے کی کوشش کرنے والے شخص نے سکون سے طنز کرنے والے شخص کو کہا کہ اس مچھلی کو تو بہرحال فرق پڑا،اور اپنا کام جاری رکھا۔
سرکاری ملازمت کے ابتدائی سالوں میں مارشل لاء حکومت نے احکامات جاری کیے کہ وہ تمام ملازمین جن کی سروس25سال یا اس سے زیادہ ہو چکی ہے ان کے ریکارڈ کا بغور جائزہ لیا جائے اور برے ریکارڈ کے حامل ملازمین کو جبری ریٹائر کر دیا جائے۔میں اس وقت کراچی میں تعینات تھا۔ہمارے دفتر میں بھی یہ کارروائی عمل میں لائی گئی۔ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے تین افراد کو ملازمت سے فارغ کرنے کی سفارش کی گئی۔
میرے ایک سینیئر اس بورڈ کے سربراہ تھے اور دو ممبران میں سے ایک میں تھا۔وہ تین ملازمین جن کی جبری ریٹائرمنٹ کی سفارش کی گئی تھی ان میں سے ایک تو اپنی زندگی کی 55بہاریں دیکھ بیٹھا تھا،اس نے خود ہی ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کر لیا لیکن باقی دونوں ملازمین پر جبری ریٹائرمنٹ کا خوف ایک برے ڈرائونے خواب کی صورت میں سامنے آیا حالانکہ ان کا ریکارڈ بہت برا تھا اور ان کو خود ہی اس کا اندازہ ہونا چاہیے تھا۔
ابھی فائنل آرڈر نہیں ہوئے تھے کہ ایک دن میرے سینئر نے مجھے اور میرے ساتھ دوسرے ممبر کو چائے کے لیے بلایا۔ابھی ہم چائے پی ہی رہے تھے کہ ہمارے سینئر نے ان دونوں ملازمین کو بلوا بھیجا۔وہ کمرے میں یوں سہمے ہوئے داخل ہوئے جیسے کہ ان کے جسموں میں جان نہ ہو۔وہ شاید یہ سمجھ کر آئے تھے کہ انھیں فارغ کرنے کے آرڈر تھمائے جائیں گے۔
ہمارے سینئر نے ان کی خوب کلاس لی کہ تم بہت کرپٹ ہو،بہت چھٹیاں کرتے ہو،کام نہیں کرتے۔بہت نکمے ہو۔تمھیں تو شرم نہیں آتی لیکن دیکھو تمھارے یہ دونوں افسران میرے پاس بیٹھے تمھاری وکالت کر رہے ہیں۔تمھاری سفارش کر رہے ہیں کہ ان کو ایک موقع اور دیا جائے ۔یہ سدھر جائیں گے،لہذا ان کو فارغ نہ کیا جائے۔اگر تمھیں اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا خیال نہیں تو اپنے ان ہمدرد افسروں کا ہی خیال کر لو۔ان کی عزت کا ہی خیال کر لو۔دیکھو یہ کتنی دیر سے میرے پاس بیٹھے تمھارے لیے میری منت کر رہے ہیں۔ان کو خوب ڈانٹ ڈپٹ کر اور آیندہ ڈھنگ سے ملازمت کرنے کا کہہ کر جانے دیا۔
جب وہ کمرے سے نکل گئے تو ہمیں کہنے لگے کہ دیکھو کام تو یہ نہیں کرتے لیکن اگر ان کو فارغ کر دیا تو سزا ان کے بیوی بچوں اور بوڑھے والدین کو ملے گی۔ان کو کوئی اور نوکری تو اس عمر میں ملنے سے رہی اس لیے ان کے گھر اجڑ جائیں گے۔میں چاہتا تھا کہ ان کو تنبیہ ہو اور یہ آیندہ محتاط ہو کر سروس کریں۔ان کو فارغ نہیں کرتے۔
میرے ان سینئر کا خاندان شاید آگرے سے ہجرت کر کے آیا تھا۔خاصی پڑھی لکھی فیملی تھی۔ان کے بڑے بھائی اس وقت ایڈیشنل سیکریٹری تھے اور بعد میں فیڈرل سیکریٹری کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے۔ان کے والد صاحب قیامِ پاکستان سے پہلے شاید جج تھے۔خود انھوں نے اعلیٰ تعلیم پائی۔بیرونِ ملک گئے اور پی ایچ ڈی کی۔اس زمانے میں سی ایس ایس کا امتحان لندن میں بھی ہوتا تھا۔
یہ وہیں مقابلے کے امتحان میں بیٹھے اور سیلیکٹ ہوئے۔میرے اس سینئر نے اس روز کچھ دیر کے لیے ہمیں بٹھائے رکھا اور فرمانے لگے کہ میں آپ کو ایک حقیقی واقعہ سناتا ہوں تاکہ ان دونوں ملازمین کے سلسلے میں ہم نے جو کچھ کیا ہے اس کو سامنے لا سکوں۔کہنے لگے میں تعلیم کے لیے بیرونِ ملک جانے سے پہلے اپنے شہر کے کالج میں پڑھتا تھا۔ادارے میں ہمارا تعلیمی سال اختتام پذیر ہو رہا تھا۔
ساری کلاس نے مشورے سے طے کیا کہ ایک بڑا الوداعی فنکشن کیا جائے جس میں کلاس کے تمام طلبا اور فیکلٹی کے تمام ممبران شریک ہوں۔تین افراد کی ایک کمیٹی بنائی گئی جس کے ذمے فنکشن منعقد کرنے کی ساری ذمے داری تھی۔ کہنے لگے کمیٹی کا میں بھی ممبر تھا۔اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا۔کلاس کے تمام طلبا نے فنڈز جمع کیے۔
تعلیمی ادارے میں ایک ٹک شاپ تھی جس سے ہم کھاتے پیتے رہتے تھے اور جب گھر سے پیسے آتے تھے تو ٹک شاپ والے کا ادھار چکا دیا جاتا تھا۔یوں ٹک شاپ کے مالک کے ساتھ ہمارا ایک مسلسل رابطہ رہتا تھا۔کبھی ایسے بھی ہوتا تھا کہ گھر سے پیسے آنے میں دیر ہو جاتی تھی لیکن ٹک شاپ کا مالک صبر دکھاتا تھا۔
جب فنڈز جمع ہو گئے اور فنکشن کی تاریخ آ گئی تو ہم نے اشیا کی ایک فہرست تیار کی،تانگہ لیا اور بازار روانہ ہو گئے۔اس سے پہلے ہم نے ٹک شاپ سے خریداری کا بھی جائزہ لیا تھا۔ ہم بازار گئے۔فہرست کے مطابق تمام اشیاء خریدیں۔اس زمانے کے حساب سے ہمیں تین روپے کی بچت ہوئی۔
اگر ہم ساری چیزیں ٹک شاپ سے خریدتے تو ہمارے تین روپے زیادہ خرچ ہوتے۔یہ بہت سستا زمانہ تھا۔خریداری پیسوں اور آنوں میں اور بہت کم روپوں میں ہوتی تھی۔تین روپے تو بڑی رقم تھی۔ہم اس بچت پر پھولے نہیں سما رہے تھے۔خیر ہمارا فنکشن بہت بھرپور رہا۔فیکلٹی ممبران نے بہت تعریف کی اور شاباش دی۔فنکشن کے اگلے دن جناب پرنسپل صاحب نے ہمیں اپنے دفتر میں باریابی کا شرف بخشا۔کامیاب فنکشن پر اپنی خوشی اور مسرت کا اظہار کیا۔
پھر فرمانے لگے،آپ طلباء نے جو کچھ کیا ،کسی بھی عام آدمی کو یہی کرنا چاہیے لیکن آپ طلبا کے سامنے ایک لمبا روشن مستقبل ہے۔آپ کو بڑی اہم ذمے داریاں ملیں گی۔اس لیے آپ کی تربیت کی خاطر بتاتا ہوں کہ آپ اس سے بہتر کر سکتے تھے۔ٹک شاپ کا مالک اپنا کاروبار تو کرتا ہے لیکن ساتھ ہی آپ لوگوں کی مدد اور خدمت بھی کرتا ہے۔وہ اس بات پر ضد نہیں کرتا کہ آپ سے فوراً رقم کی ادائیگی کا تقاضا کرے۔
آپ لوگ مہینہ بھر اس کی فیاضی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔اگر آپ لوگوں کو ادائیگی میں دیر سویر ہو جائے تو آپ کے پیچھے نہیں پڑتا۔یوں وہ آپ کے لیے سہولت میسر کرتا ہے۔آپ کے اوپر احسان کرتا ہے۔اگر وہ بازار کے مقابلے میں چند پیسے زیادہ لے لیتا ہے تو کیا ہوا اس کو بھی یہ تمام اشیاء اپنی شاپ میں رکھنے کے لیے بازار سے ہی خرید کر لانی پڑتی ہیں۔اس کو نقد ادائیگی نہیں ہوتی بلکہ ادھار چلتا ہے۔وہ آپ لوگوں کے تمام قیام کے عرصے میں آپ کے ساتھ احسان کی روش اپناتا ہے۔
پرنسپل صاحب نے فرمایا کہ فنکشن کے موقع پر آپ لوگوں کے پاس ایک سنہری موقع آیا تھا کہ آپ اس کے احسان کے بدلے میں اس کے ساتھ احسان کریں یعنی احسان کے بدلے میں احسان کریں۔آپ اس کو بھلے طریقے سے بتا سکتے تھے کہ ہم یہ اشیاء بازار سے بھی لا سکتے تھے لیکن ہم تو آپ سے ہی لیں گے۔یوں وہ اگر تین روپے کما لیتا تو اس کا دل خوشی سے بھر جاتا۔اسے محسوس ہوتا کہ یہ نوجوان طلبا اس کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔
پرنسپل صاحب نے ہمیں رخصت ہونے کے لیے اجازت مرحمت فرماتے ہوئے کہا کہ یاد رکھو، جب بھی کسی کے ساتھ بھلائی کا موقع ملے فوراً اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھلائی کر دو۔کیا معلوم آپ اگلے لمحے وہ بھلائی کرنے کی پوزیشن کھو دیں۔بھلائی کرنے کا موقع ہمیشہ موجود نہیں رہتا۔ ہر کسی کی زندگی میں یہ مواقعے آتے ہیں،یاد رکھنا بھلائی کرنے کا موقع کبھی ضایع نہیں ہونے دینا۔
میرے سینئر کہنے لگے کہ جناب پرنسپل صاحب کی نصیحت پلے باندھنے کے قابل تھی اور میں یہ نصیحت کبھی نہیں بھولا۔جب تک آپ کے ہاتھ سے خیر اور بھلائی تقسیم ہو رہی ہے،آپ کے اوپر زوال نہیں آ سکتا۔خیر اور بھلائی کا کام چاہے کتنا ہی چھوٹا ہو،کسی نہ کسی کی زندگی میں فرق ضرور ڈالتا ہے۔اس لیے جب بھی اس کے اہل ہوں، فوراً بھلائی کریں۔
اس نے طنزیہ لہجے میں کہا،اس طرح کیا فرق پڑتا ہے۔کتنی بچا پاؤ گے۔یہ سُن کر وہ شخص نیچے جھکا۔ایک تڑپتی مچھلی کو اٹھایا اور سمندر میں اچھال دیا۔وہ مچھلی پانی میں جاتے ہی تیزی سے تیرتی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔مچھلیاں بچانے کی کوشش کرنے والے شخص نے سکون سے طنز کرنے والے شخص کو کہا کہ اس مچھلی کو تو بہرحال فرق پڑا،اور اپنا کام جاری رکھا۔
سرکاری ملازمت کے ابتدائی سالوں میں مارشل لاء حکومت نے احکامات جاری کیے کہ وہ تمام ملازمین جن کی سروس25سال یا اس سے زیادہ ہو چکی ہے ان کے ریکارڈ کا بغور جائزہ لیا جائے اور برے ریکارڈ کے حامل ملازمین کو جبری ریٹائر کر دیا جائے۔میں اس وقت کراچی میں تعینات تھا۔ہمارے دفتر میں بھی یہ کارروائی عمل میں لائی گئی۔ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے تین افراد کو ملازمت سے فارغ کرنے کی سفارش کی گئی۔
میرے ایک سینیئر اس بورڈ کے سربراہ تھے اور دو ممبران میں سے ایک میں تھا۔وہ تین ملازمین جن کی جبری ریٹائرمنٹ کی سفارش کی گئی تھی ان میں سے ایک تو اپنی زندگی کی 55بہاریں دیکھ بیٹھا تھا،اس نے خود ہی ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کر لیا لیکن باقی دونوں ملازمین پر جبری ریٹائرمنٹ کا خوف ایک برے ڈرائونے خواب کی صورت میں سامنے آیا حالانکہ ان کا ریکارڈ بہت برا تھا اور ان کو خود ہی اس کا اندازہ ہونا چاہیے تھا۔
ابھی فائنل آرڈر نہیں ہوئے تھے کہ ایک دن میرے سینئر نے مجھے اور میرے ساتھ دوسرے ممبر کو چائے کے لیے بلایا۔ابھی ہم چائے پی ہی رہے تھے کہ ہمارے سینئر نے ان دونوں ملازمین کو بلوا بھیجا۔وہ کمرے میں یوں سہمے ہوئے داخل ہوئے جیسے کہ ان کے جسموں میں جان نہ ہو۔وہ شاید یہ سمجھ کر آئے تھے کہ انھیں فارغ کرنے کے آرڈر تھمائے جائیں گے۔
ہمارے سینئر نے ان کی خوب کلاس لی کہ تم بہت کرپٹ ہو،بہت چھٹیاں کرتے ہو،کام نہیں کرتے۔بہت نکمے ہو۔تمھیں تو شرم نہیں آتی لیکن دیکھو تمھارے یہ دونوں افسران میرے پاس بیٹھے تمھاری وکالت کر رہے ہیں۔تمھاری سفارش کر رہے ہیں کہ ان کو ایک موقع اور دیا جائے ۔یہ سدھر جائیں گے،لہذا ان کو فارغ نہ کیا جائے۔اگر تمھیں اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا خیال نہیں تو اپنے ان ہمدرد افسروں کا ہی خیال کر لو۔ان کی عزت کا ہی خیال کر لو۔دیکھو یہ کتنی دیر سے میرے پاس بیٹھے تمھارے لیے میری منت کر رہے ہیں۔ان کو خوب ڈانٹ ڈپٹ کر اور آیندہ ڈھنگ سے ملازمت کرنے کا کہہ کر جانے دیا۔
جب وہ کمرے سے نکل گئے تو ہمیں کہنے لگے کہ دیکھو کام تو یہ نہیں کرتے لیکن اگر ان کو فارغ کر دیا تو سزا ان کے بیوی بچوں اور بوڑھے والدین کو ملے گی۔ان کو کوئی اور نوکری تو اس عمر میں ملنے سے رہی اس لیے ان کے گھر اجڑ جائیں گے۔میں چاہتا تھا کہ ان کو تنبیہ ہو اور یہ آیندہ محتاط ہو کر سروس کریں۔ان کو فارغ نہیں کرتے۔
میرے ان سینئر کا خاندان شاید آگرے سے ہجرت کر کے آیا تھا۔خاصی پڑھی لکھی فیملی تھی۔ان کے بڑے بھائی اس وقت ایڈیشنل سیکریٹری تھے اور بعد میں فیڈرل سیکریٹری کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے۔ان کے والد صاحب قیامِ پاکستان سے پہلے شاید جج تھے۔خود انھوں نے اعلیٰ تعلیم پائی۔بیرونِ ملک گئے اور پی ایچ ڈی کی۔اس زمانے میں سی ایس ایس کا امتحان لندن میں بھی ہوتا تھا۔
یہ وہیں مقابلے کے امتحان میں بیٹھے اور سیلیکٹ ہوئے۔میرے اس سینئر نے اس روز کچھ دیر کے لیے ہمیں بٹھائے رکھا اور فرمانے لگے کہ میں آپ کو ایک حقیقی واقعہ سناتا ہوں تاکہ ان دونوں ملازمین کے سلسلے میں ہم نے جو کچھ کیا ہے اس کو سامنے لا سکوں۔کہنے لگے میں تعلیم کے لیے بیرونِ ملک جانے سے پہلے اپنے شہر کے کالج میں پڑھتا تھا۔ادارے میں ہمارا تعلیمی سال اختتام پذیر ہو رہا تھا۔
ساری کلاس نے مشورے سے طے کیا کہ ایک بڑا الوداعی فنکشن کیا جائے جس میں کلاس کے تمام طلبا اور فیکلٹی کے تمام ممبران شریک ہوں۔تین افراد کی ایک کمیٹی بنائی گئی جس کے ذمے فنکشن منعقد کرنے کی ساری ذمے داری تھی۔ کہنے لگے کمیٹی کا میں بھی ممبر تھا۔اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا۔کلاس کے تمام طلبا نے فنڈز جمع کیے۔
تعلیمی ادارے میں ایک ٹک شاپ تھی جس سے ہم کھاتے پیتے رہتے تھے اور جب گھر سے پیسے آتے تھے تو ٹک شاپ والے کا ادھار چکا دیا جاتا تھا۔یوں ٹک شاپ کے مالک کے ساتھ ہمارا ایک مسلسل رابطہ رہتا تھا۔کبھی ایسے بھی ہوتا تھا کہ گھر سے پیسے آنے میں دیر ہو جاتی تھی لیکن ٹک شاپ کا مالک صبر دکھاتا تھا۔
جب فنڈز جمع ہو گئے اور فنکشن کی تاریخ آ گئی تو ہم نے اشیا کی ایک فہرست تیار کی،تانگہ لیا اور بازار روانہ ہو گئے۔اس سے پہلے ہم نے ٹک شاپ سے خریداری کا بھی جائزہ لیا تھا۔ ہم بازار گئے۔فہرست کے مطابق تمام اشیاء خریدیں۔اس زمانے کے حساب سے ہمیں تین روپے کی بچت ہوئی۔
اگر ہم ساری چیزیں ٹک شاپ سے خریدتے تو ہمارے تین روپے زیادہ خرچ ہوتے۔یہ بہت سستا زمانہ تھا۔خریداری پیسوں اور آنوں میں اور بہت کم روپوں میں ہوتی تھی۔تین روپے تو بڑی رقم تھی۔ہم اس بچت پر پھولے نہیں سما رہے تھے۔خیر ہمارا فنکشن بہت بھرپور رہا۔فیکلٹی ممبران نے بہت تعریف کی اور شاباش دی۔فنکشن کے اگلے دن جناب پرنسپل صاحب نے ہمیں اپنے دفتر میں باریابی کا شرف بخشا۔کامیاب فنکشن پر اپنی خوشی اور مسرت کا اظہار کیا۔
پھر فرمانے لگے،آپ طلباء نے جو کچھ کیا ،کسی بھی عام آدمی کو یہی کرنا چاہیے لیکن آپ طلبا کے سامنے ایک لمبا روشن مستقبل ہے۔آپ کو بڑی اہم ذمے داریاں ملیں گی۔اس لیے آپ کی تربیت کی خاطر بتاتا ہوں کہ آپ اس سے بہتر کر سکتے تھے۔ٹک شاپ کا مالک اپنا کاروبار تو کرتا ہے لیکن ساتھ ہی آپ لوگوں کی مدد اور خدمت بھی کرتا ہے۔وہ اس بات پر ضد نہیں کرتا کہ آپ سے فوراً رقم کی ادائیگی کا تقاضا کرے۔
آپ لوگ مہینہ بھر اس کی فیاضی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔اگر آپ لوگوں کو ادائیگی میں دیر سویر ہو جائے تو آپ کے پیچھے نہیں پڑتا۔یوں وہ آپ کے لیے سہولت میسر کرتا ہے۔آپ کے اوپر احسان کرتا ہے۔اگر وہ بازار کے مقابلے میں چند پیسے زیادہ لے لیتا ہے تو کیا ہوا اس کو بھی یہ تمام اشیاء اپنی شاپ میں رکھنے کے لیے بازار سے ہی خرید کر لانی پڑتی ہیں۔اس کو نقد ادائیگی نہیں ہوتی بلکہ ادھار چلتا ہے۔وہ آپ لوگوں کے تمام قیام کے عرصے میں آپ کے ساتھ احسان کی روش اپناتا ہے۔
پرنسپل صاحب نے فرمایا کہ فنکشن کے موقع پر آپ لوگوں کے پاس ایک سنہری موقع آیا تھا کہ آپ اس کے احسان کے بدلے میں اس کے ساتھ احسان کریں یعنی احسان کے بدلے میں احسان کریں۔آپ اس کو بھلے طریقے سے بتا سکتے تھے کہ ہم یہ اشیاء بازار سے بھی لا سکتے تھے لیکن ہم تو آپ سے ہی لیں گے۔یوں وہ اگر تین روپے کما لیتا تو اس کا دل خوشی سے بھر جاتا۔اسے محسوس ہوتا کہ یہ نوجوان طلبا اس کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔
پرنسپل صاحب نے ہمیں رخصت ہونے کے لیے اجازت مرحمت فرماتے ہوئے کہا کہ یاد رکھو، جب بھی کسی کے ساتھ بھلائی کا موقع ملے فوراً اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھلائی کر دو۔کیا معلوم آپ اگلے لمحے وہ بھلائی کرنے کی پوزیشن کھو دیں۔بھلائی کرنے کا موقع ہمیشہ موجود نہیں رہتا۔ ہر کسی کی زندگی میں یہ مواقعے آتے ہیں،یاد رکھنا بھلائی کرنے کا موقع کبھی ضایع نہیں ہونے دینا۔
میرے سینئر کہنے لگے کہ جناب پرنسپل صاحب کی نصیحت پلے باندھنے کے قابل تھی اور میں یہ نصیحت کبھی نہیں بھولا۔جب تک آپ کے ہاتھ سے خیر اور بھلائی تقسیم ہو رہی ہے،آپ کے اوپر زوال نہیں آ سکتا۔خیر اور بھلائی کا کام چاہے کتنا ہی چھوٹا ہو،کسی نہ کسی کی زندگی میں فرق ضرور ڈالتا ہے۔اس لیے جب بھی اس کے اہل ہوں، فوراً بھلائی کریں۔