لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا الزام درست ہے پی ٹی آئی امیدواروں کو تنگ نہ کیا جائے سپریم کورٹ
ایک سیاسی جماعت کو کیوں الگ سے ڈیل کیا جا رہا ہے؟ تمام آئی جیز پی ٹی آئی امیدواروں کو تنگ کرنا بند کریں، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے حکومت، پولیس کے تمام آئی جیز اور الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کے انتخابی امیدواروں کو تنگ نہ کرنے اور شکایات دور کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے کہا ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا الزام درست ہے، پی ٹی آئی امیدواروں کو تنگ نہ کیا جائے اور کاغذات نامزدگی جمع کرانے دیے جائیں۔
پی ٹی آئی کی لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوئی۔ ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی کی کاغذات نامزدگی چھیننے کی کوئی درخوست نہیں ملی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اخبارات میں سب آ رہا ہے الیکشن کمیشن نے کیا کیا ہے؟ عثمان ڈار کی والدہ کے ساتھ جو ہوا نگران حکومت اور الیکشن کمیشن نے کچھ نہیں کیا، بظاہر لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا الزام درست ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ الیکشن شیڈول جاری ہوچکا ہے اب بھی ایم پی او کے آرڈر جاری ہو رہے ہیں، پی ٹی آئی امیدواروں کو نہ کاغذات دیے جا رہے ہیں اور نہ جمع کرانے دیتے ہیں۔
قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایم پی او کے آرڈر کیوں نہیں رکوا رہا؟ ابھی حکم نامہ لکھ کر بھجواتے ہیں تمام شکایات کا جائزہ لے کر حل کریں۔ شعیب شاہین نے کہا کہ ریٹرننگ افسران کاغذات وصول نہیں کرتے تو الیکشن کمیشن کو جمع کرانے کی اجازت دی جائے۔
سپریم کورٹ کا پولیس اور الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی امیدواروں کے تحفظات دور کرنے کا حکم
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو شکایات ہیں تو الیکشن کمیشن کام نہیں کر رہا، ایک سیاسی جماعت کو کیوں الگ ڈیل کیا جا رہا ہے؟ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہی لیول پلیئنگ فیلڈ ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن فوری طور پر سیاسی جماعتوں سے ملاقات کرے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی امیدواروں کی شکایات دور کی جائیں، الیکشن کمیشن کا چیف سیکریٹریز اور آئی جیز کو خط
عدالت نے تحریک انصاف رہنماؤں کو آج ہی الیکشن کمیشن سے ملاقات کی ہدایت کردی اور کہا کہ الیکشن کمیشن تمام شکایات سن کر ازالہ کرے اس پر الیکشن کمیشن اور اٹارنی جنرل نے تعاون کی یقین دہانی کروادی۔
قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ تمام آئی جیز کو کہیں کہ تحریک انصاف کے امیدواروں کو تنگ نہ کیا جائے، وکلاء کو بھی ریٹرننگ افسران کے دفتر سے گرفتار کیا جا رہا ہے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی درخواست نمٹا دی۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اس وقت چھٹیوں پر ہیں.
پی ٹی آئی کی لیول پلئنگ فیلڈ کی درخواست پر تحریری فیصلہ
بعدازاں سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی لیول پلئنگ فیلڈ کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کیا۔ جس میں کہا گیا کہ انتخابی پروگرام میں خلل ڈالے بغیر الیکشن کمیشن شکایات دور کرے۔
تحریری فیصلے کے مطابق ایمانداری سے منصفانہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، منصفانہ انتخابات منتخب حکومت کو قانونی حیثیت فراہم کرتے ہیں، شفاف انتخابات جمہوری عمل پر عوام کا اعتماد برقرار رکھتے ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ صحت مند مقابلے کے لیے برابری کا میدان ضروری ہے، انتخابات جبری کے بجائے عوام کی رضا کے حقیقی عکاس ہونے چاہیں، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد نتائج سے زیادہ اہم ہے۔
سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن جمہوری عمل میں میں اہم کردار ادا کرتا ہے، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے انتخابات کو بدعنوانی سے بچائے، آئین کے آرٹیکل 220 کے تحت تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابند ہیں۔
تحریری فیصلے کے مطابق انتخابات جمہوری اصولوں کے مطابق کرائے جائیں جو اثر و رسوخ اور جبر سے پاک ہوں، الیکشن کمیشن یقینی بنائے تمام جماعتوں کو انتخابی عمل میں مساوی موقع ملے، جمہوریت کی کامیابی کے لیے ووٹرز کو انتخابی عمل پر اعتماد ہونا چاہیے۔
پی ٹی آئی کی لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوئی۔ ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی کی کاغذات نامزدگی چھیننے کی کوئی درخوست نہیں ملی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اخبارات میں سب آ رہا ہے الیکشن کمیشن نے کیا کیا ہے؟ عثمان ڈار کی والدہ کے ساتھ جو ہوا نگران حکومت اور الیکشن کمیشن نے کچھ نہیں کیا، بظاہر لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا الزام درست ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ الیکشن شیڈول جاری ہوچکا ہے اب بھی ایم پی او کے آرڈر جاری ہو رہے ہیں، پی ٹی آئی امیدواروں کو نہ کاغذات دیے جا رہے ہیں اور نہ جمع کرانے دیتے ہیں۔
قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایم پی او کے آرڈر کیوں نہیں رکوا رہا؟ ابھی حکم نامہ لکھ کر بھجواتے ہیں تمام شکایات کا جائزہ لے کر حل کریں۔ شعیب شاہین نے کہا کہ ریٹرننگ افسران کاغذات وصول نہیں کرتے تو الیکشن کمیشن کو جمع کرانے کی اجازت دی جائے۔
سپریم کورٹ کا پولیس اور الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی امیدواروں کے تحفظات دور کرنے کا حکم
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو شکایات ہیں تو الیکشن کمیشن کام نہیں کر رہا، ایک سیاسی جماعت کو کیوں الگ ڈیل کیا جا رہا ہے؟ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہی لیول پلیئنگ فیلڈ ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن فوری طور پر سیاسی جماعتوں سے ملاقات کرے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی امیدواروں کی شکایات دور کی جائیں، الیکشن کمیشن کا چیف سیکریٹریز اور آئی جیز کو خط
عدالت نے تحریک انصاف رہنماؤں کو آج ہی الیکشن کمیشن سے ملاقات کی ہدایت کردی اور کہا کہ الیکشن کمیشن تمام شکایات سن کر ازالہ کرے اس پر الیکشن کمیشن اور اٹارنی جنرل نے تعاون کی یقین دہانی کروادی۔
قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ تمام آئی جیز کو کہیں کہ تحریک انصاف کے امیدواروں کو تنگ نہ کیا جائے، وکلاء کو بھی ریٹرننگ افسران کے دفتر سے گرفتار کیا جا رہا ہے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی درخواست نمٹا دی۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اس وقت چھٹیوں پر ہیں.
پی ٹی آئی کی لیول پلئنگ فیلڈ کی درخواست پر تحریری فیصلہ
بعدازاں سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی لیول پلئنگ فیلڈ کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کیا۔ جس میں کہا گیا کہ انتخابی پروگرام میں خلل ڈالے بغیر الیکشن کمیشن شکایات دور کرے۔
تحریری فیصلے کے مطابق ایمانداری سے منصفانہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، منصفانہ انتخابات منتخب حکومت کو قانونی حیثیت فراہم کرتے ہیں، شفاف انتخابات جمہوری عمل پر عوام کا اعتماد برقرار رکھتے ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ صحت مند مقابلے کے لیے برابری کا میدان ضروری ہے، انتخابات جبری کے بجائے عوام کی رضا کے حقیقی عکاس ہونے چاہیں، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد نتائج سے زیادہ اہم ہے۔
سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن جمہوری عمل میں میں اہم کردار ادا کرتا ہے، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے انتخابات کو بدعنوانی سے بچائے، آئین کے آرٹیکل 220 کے تحت تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابند ہیں۔
تحریری فیصلے کے مطابق انتخابات جمہوری اصولوں کے مطابق کرائے جائیں جو اثر و رسوخ اور جبر سے پاک ہوں، الیکشن کمیشن یقینی بنائے تمام جماعتوں کو انتخابی عمل میں مساوی موقع ملے، جمہوریت کی کامیابی کے لیے ووٹرز کو انتخابی عمل پر اعتماد ہونا چاہیے۔