راہول گاندھی نوجوانوں کو متاثر نہ کر پائے

غزل کا لغوی مطلب ’’عورتوں سے بات چیت کرنا‘‘ پڑھایا گیا تھا۔ غزل لکھنے کی توفیق تو کیا صلاحیت بھی کبھی خود میں ...


Nusrat Javeed May 29, 2014
[email protected]

امریکا اور یورپ سے پاکستان یا بھارت میں کچھ مہینے یا سال رہ کر اپنے اپنے صحافتی اداروں کے لیے رپورٹنگ کرنے والوں میں ہر نوعیت کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ بیشتر کا مسئلہ مگر یہی رہا کہ یہاں اپنے قیام کے دوران وہ Man Bites Dogقسم کی خبریں ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ بھارت میں انھیں مندر اور سادھو وغیرہ بہت ساری ''خبریں'' دے دیتے ہیں۔ پاکستان میں مذہبی انتہاء پسندی اور افغانستان کے معاملات سے اس کا گہرا تعلق کافی مزے کی کہانیاں فراہم کر ڈالتا ہے۔

1990ء کی دہائی سے خاتون صحافیوں کی ایک ایسی مخلوق بھی یہاں آیا کرتی ہے جسے اس کے اپنے دعوے کے مطابق پاکستان کا ہر مرد کسی نہ کسی طرح لبھانا چاہتا ہے۔ یہاں سے وطن لوٹنے کے بعد وہ اپنے ان ''تجربات'' کو ایک کتاب کی شکل دے ڈالتی ہیں۔ وہ کتاب کافی بک جاتی ہے اور بس۔ ایسی کتابیں لکھنے والی ایک دو خواتین کو میں بھی اسلام آباد میں کئی بار ملا ہوں۔ خوب صورت خواتین کے حوالے سے کئی برسوں سے اپنا عالم غالب والے ''گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے'' جیسا ہوچکا ہے۔

غزل کا لغوی مطلب ''عورتوں سے بات چیت کرنا'' پڑھایا گیا تھا۔ غزل لکھنے کی توفیق تو کیا صلاحیت بھی کبھی خود میں دریافت نہ کر پایا۔ ہاں اس کے لغوی پہلو کو عملی زندگی میں ضرور برتنا چاہتا ہوں۔ اپنی اس عادت کے باوجود پاکستان سے وطن لوٹ جانے کے بعد یہاں کے مردوں کے بارے میں چسکے دار داستانیں لکھنے والی صحافی خواتین سے گھنٹوں چند محافل میں بیٹھنے کے بعد بھی گفتگو بڑھانے کی کبھی جستجو نہ ہوئی۔ اس سے زیادہ حد ِادب کے مارے کچھ اور لکھ نہیں سکتا۔

ویسے بھی ذکر مجھے ان صحافیوں کا کرنا ہے جو پاکستان اور بھارت میں اپنے قیام کے دوران بڑے خلوص اور کھلے ذہن کے ساتھ ان ممالک کی تاریخ، تہذیب اور سیاسی ومعاشی مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے۔ William Dalrympleاور Owen Bennett-Jonesکا شمار میں ایسے ہی لوگوں میں کرتا ہوں۔ ان کا لکھا ایک ایک لفظ بہت غور سے پڑھ کر اس سے کوئی سبق حاصل کرنا یا وہ جسے انگریزی میں Insight Develop کرنے کی کوشش کہا جاتا ہے۔ نریندر مودی کے بارے میں امریکی اور یورپی صحافی کئی برسوں سے بہت کچھ لکھ رہے تھے۔ لیکن اس ضمن میں پہلی ٹھوس کاوش Robert D Kaplanنے کی۔

اس کے مضامین کے ایک مجموعے کا نام ہے ''مون سون''۔ اس کتاب کے ذریعے کپلان نے اس بات پر اصرار کیا کہ سن 2000ء سے آغاز ہونے والی صدی میں عالمی تجارت ایک بار پھر بحرہند کے ساحلوں کو چھونے والے ممالک پر مرکوز ہوجائے گی۔ اس کی وجہ سے دُنیا شاید ایک بار ویسے ہی حیران کن تبدیلیوں کا تجربہ کرے جو آج سے تین صدی پہلے واسکو ڈی گاما کے پرتگال سے گوا پہنچ جانے کے بعد شروع ہوئیں۔ انجام اس کا برطانوی سامراج کے عروج پر ہوا۔ مگر پھر یورپ دو عالمی جنگوں میں مبتلا ہوکر خود کو تباہ کر بیٹھا۔ ساری طاقت سات سمندر پار امریکا کے ہاں منتقل ہوگئی۔

افغانستان اور عراق کی جنگوں میں اُلجھنے کے بعد امریکا اب اتنا طاقتور نہیں رہا۔ کم از کم معاشی حوالوں سے چین اور بھارت دو اُبھرتی ہوئی طاقتیں ہیں اور ان دونوں کی ترقی کا سارا دارومدار اب بحر ہند کے ذریعے ہونے والی تجارت پر ہوگا۔ پاکستان کا گوادر اسی تناظر میں بڑی اہمیت کا حامل ہے اور ''مون سون'' کے لیے تحقیق کرتے ہوئے کپلان نے ہی سب سے پہلے بھارتی صوبے گجرات اور اس کے وزیر اعلیٰ کو مستقبل میں ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے بہت اہم گردانا۔ حالیہ بھارتی انتخابات نے اسے اس ضمن میں اب سچا ثابت کردیا ہے۔

کپلان کے بعد ولیم وہ دوسرا شخص ہے جس کے ایک حالیہ طویل مضمون نے مجھے نریندر مودی کی اصل شخصیت کو سمجھنے میں بڑی مدد دی۔ میرے لیے اس کالم کے حوالے سے مگر اہم ترین وہ تقابل تھا جو اس نے مودی اور راہول گاندھی کے درمیان کیا۔ ولیم مودی کے عروج سے خوش نہیں بلکہ خوفزدہ تھا۔ مگر اس کے خیال میں مودی کے عروج کو صرف راہول گاندھی روک سکتا تھا جو اس قابل ثابت نہ ہوا۔

راہول کی ناکامی کو اس نے برصغیر میں Dynastic Politicsکا اختتام بھی تصور کیا اور ایسا کرتے ہوئے اس نے باتوں باتوں میں ایک بہت ہی تخلیقی اصطلاح بھی گھڑ ڈالی۔ ہمارے انگریزی دان قاری خوب جانتے ہیں کہ ایڈز جیسی ہولناک بیماریوں کا شمار Sexually Transmitted Diseasesمیں ہوتا ہے۔ یعنی جنسی تعلق کے ذریعے پھیلی بیماریاں۔ STDاس اصطلاح کا مخفف ہے۔ ولیم نے Dynastic Politicsکو Sexually Transmitted Democracyبیان کرتے ہوئے میرا تو دل موہ لیا۔

ولیم ہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اب Owen Bennett-Jonesنے ایک کالم لکھا ہے۔موصوف بہت عرصہ پاکستان میں بی بی سی کے نمایندے کے طور پر قیام پذیر رہے۔ ہماری سیاست پر ان کی ایک کتاب بھی مارکیٹ میں موجود ہے جسے پڑھنا ضروری ہے۔ اب اسی Owen نے اپنے تازہ کالم میں پاکستان پیپلز پارٹی اور خاص طورپر اس کے رہنما بلاول بھٹو زرداری کو بڑے خلوص سے مشورہ دیا ہے کہ وہ بہت سنجیدگی سے اس بات پر غور کریں کہ راہول گاندھی ایک شاندار خاندانی پسِ منظر اور بھارت کی قدیم ترین سیاسی جماعتوں میں سے ایک یعنی کانگریس کی رہ نمائی کرتے ہوئے اپنی کم عمری کے باوجود بھارتی متوسط طبقے کے نوجوانوں کی اکثریت کو کیوں متاثر نہ کرپائے۔

میں بلاول بھٹو زرداری کو ہرگز نہیں جانتا۔ مگر مجھے یقین ہے کہ انھوں نے Owen Bennett-Jonesکا یہ کالم ضرور پڑھا ہوگا۔ دیسی اخباروں میں اُردو زبان میں چھپے کالم تو ان کے چند برگر مارکہ معاون پڑھ کر ان کی تخلیص اپنے ''باس'' تک پہنچایا کرتے ہیں۔ اپنے ایک ذاتی تجربے کی بناء پر میں یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ بلاول بھٹو زرداری کے اُردو زبان میں لکھے کالموں کی تلخیص سنانے والے مصاحبین کو اس زبان کی باریکیوں اور تلمیحات وغیرہ کی خاک سمجھ نہیں۔

جو لکھا ہوتا ہے اس کے بالکل برعکس انھیں بتاتے ہیں اور ظاہر ہے صرف اپنی جہالت کی وجہ سے نہیں۔ مقصد ایسی تلخیصوں کا بلاول بھٹو زرداری کو پیپلز پارٹی کے ''مخالفین'' سے دور رکھنا ہوتا ہے۔ خیر بلاول بھٹو زرداری جانیں اور ان کے اُردو زبان کے ماہر بنے مصاحب۔ میری خواہش بس اتنی ہے کہ انھوں نے Owen Bennett-Jonesکا حالیہ کالم نہ صرف پڑھ لیا ہو بلکہ وہ اس پر خوب غور کے بعد اب کوئی حکمت عملی بھی بنا رہے ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں