کتابوں کی خوشبو
اندرون سندھ نوجوان سندھی کے علاوہ اردو اور انگریزی کی کتابیں پڑھنے میں دلچسپی لیتے ہیں
ایکسپو سینٹر کراچی ایسٹ،گلشن اقبال کی حدود میں واقع ہے۔ شاہراہ فیصل سے آنے والی سر شاہ سلیمان شاہراہ جو سوک سینٹرکو جاتی ہے ایکسپو سینٹر کا ایک دروازہ اس طرف اور ایک دروازہ یونیورسٹی روڈ پرکھلتا ہے۔ ایکسپو سینٹر میں دفاعی اشیاء کی ہر سال نمائش ہوتی ہے۔
گاڑیوں، گارمنٹس، کمپیوٹر، گھریلو اشیاء اورکھانے پینے کی اشیاء کی مختلف ممالک کی مصنوعات کی نمائش کا سب سے بڑا مرکز بھی ایکسپو سینٹر ہے۔
جب بھی گھریلو اشیائ، گارمنٹس یا خواتین کی مصنوعات کی نمائش ہوتی ہے تو یونیورسٹی روڈ اور سر شاہ سلیمان روڈ پر ٹریفک ضرور جام ہوتا ہے مگر اس دفعہ ایک عجیب نظارہ علاقے کے مکینوں اورگزرنے والوں نے ملاحظہ کیا کہ عالمی کتب میلہ کے موقعے پر کثیر تعداد میں لوگوں کی شرکت کے باعث سڑکوں پر ٹریفک جام ہوگیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد افراد نے اس کتب میلہ میں شرکت کی۔ اس عالمی کتب میلے میں ایک لاکھ 40 ہزار سے زائد کتب رکھی گئیں۔ ایکسپو سینٹر کے تین بڑے ہال میں 330 کے قریب اسٹال لگائے گئے۔ اس کتب میلے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ مختلف پبلشرز نے کئی کتابوں کی رونمائی کی تقاریب سجائیں اورکتب بینی کے کئی موضوعات پر سیمینار منعقد کیے گئے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ صرف بچوں کی کتابوں کے تیس اسٹال لگائے گئے۔
ایکسپو سینٹرکے اس میلے میں ایک چھت تلے تمام تدریسی علاوہ علم وفنون، ادب، سائنس، فکشن، تاریخ ، مذاہب اور مختلف ممالک میں شایع ہونے والے کلاسیکل ادبی ناولزکے علاوہ جدید ٹیکنالوجی کے اسٹال لگائے گئے تھے۔
اس دفعہ کے اس میلے کی خاص بات یہ تھی کہ بچوں کی بہت بڑی تعداد آئی تھی۔ شہر کے مختلف اسکولوں کے بچوں کے لیے خصوصی بسوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس میلے کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ 83 سالہ سینئر صحافی و ادیب محمود شام پانچوں دن اپنے اسٹال پر موجود تھے۔
کراچی کے سیاسی رہنماؤں نے بھی اس میلے میں خصوصی دلچسپی لی۔ وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے تو میلہ کا افتتاح کیا مگر نئے صوبائی وزیر سید احمد شاہ میلہ میں آئے اور بغیر کسی پروٹوکول ہر اسٹال پرگئے۔
احمد شاہ نے اس موقع پر بالکل درست کہا کہ کتب میلہ نے کراچی کو لوٹ لیا۔ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور ایم کیو ایم کی معمر رہنما نسرین جلیل بھی میلے میں آئیں۔
خالد مقبول صدیقی نے اس میلہ کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کا عالمی کتب میلہ ایک خدمت ہے اور عبادت بھی، جو لوگ اس کا انعقاد کر رہے ہیں وہ لائق تحسین ہیں۔ یہ صدی کتابوں کی خوشبو کی آخری صدی ہے۔ اس کی جتنی خوشبو سمیٹی جاسکتی ہے سمیٹ لی جائے۔
جماعت اسلامی ہمیشہ سے اس کتب میلہ میں گہری دلچسپی لیتی ہے۔ جماعت اسلامی کی کئی ذیلی تنظیموں کے اسٹال میلہ میں موجود ہوتے ہیں۔ اس دفعہ بھی کئی اسٹالز موجود تھے اور جماعت اسلامی کے رہنما ڈاکٹر معراج الہدیٰ اور حافظ نعیم الرحمن میلہ میں آئے۔
سابق صوبائی وزیر تعلیم سردار علی شاہ نے بھی میلہ کا دورہ کیا اور کہا کہ عالمی کتب میلہ کا دائرہ وسیع ہونا چاہیے۔ اس میلہ میں حیدرآباد سے بھی بسیں آئی تھیں۔ اس میلہ کی خاص بات یہ ہے کہ تمام سیلانی پس منظر رکھنے والی شخصیتیں میلہ میں آئی تھیں اور تمام زبانوں کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔
گزشتہ دو برسوں سے شدید معاشی بحران کی بناء پر زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں کے دوران شہر میں پٹرول مہنگا ہونے کی بناء پر ٹریفک کا بہاؤ کم ہونے کا بھی مشاہدہ ہو رہا تھا۔ گزشتہ سال عید کے موقعے پر خریدار ناپید تھے۔ یوں گزشتہ سال کتب میلہ میں مندی کا رجحان تھا مگر اس دفعہ ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔
ڈالر مہنگا ہونے سے نیوز پرنٹ کی قیمت میں دگنا سے زیادہ اضافہ ہوا تھا۔ بجلی کے نرخ آسمان تک پہنچ گئے، یوں ہر کتاب پر ہونے والی لاگت بڑھ گئی جس کے نتیجے میں کتابوں کی قیمتوں میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ کسی بھی حکومت نے نیوز پرنٹ پر ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز پرکوئی سنجیدہ کارروائی نہیں کی، یوں جو لوگ کتاب خریدنا چاہتے ہیں وہ صرف کتاب خریدنے کی خواہش کرنے تک محدود ہوئے۔
انسانی حقوق کی تحریک کے اہم کارکن سینئر صحافی حسین نقی کہتے ہیں کہ المیہ یہ ہے کہ ملک میں نیوز پرنٹ بنانے کا کوئی کارخانہ موجود نہیں ہے۔ رائے عامہ کا سروے کرنے والی تنظیم گیلپ پاکستان نے کتب بینی کے حوالے سے ایک سروے کیا تھا تو یہ حقائق سامنے آئے کہ صرف 27 فیصد افراد نے اس سروے کے دوران بتایا کہ وہ نصابی کتابوں کے علاوہ مذہبی اور معلومات عامہ سے متعلق کتابیں پڑھتے ہیں۔
اس سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 73فیصد لوگ کتابیں نہیں پڑھتے۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر عشرت حسین نے اپنی ایک کتاب کی تقریب اجراء کے موقع پر یہ انکشاف کیا تھا کہ لاکھوں پڑھے لکھے لوگوں نے ساری زندگی کوئی کتاب نہیں پڑھی ہے ۔ اس معاملے میں اپنے پڑوسی ملک بھارت میں 447.0 ملین افراد کتابیں پڑھتے ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ کتابیں بھارت میں پڑھی جاتی ہیں۔ اسی طرح امریکا کے بارے میں جو اعداد وشمار ظاہر ہوئے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک عام امریکی شہری اوسطاً سال میں 12کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے، یوں تقریباً 75 فیصد امریکی شہری اب بھی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔
اسی طرح برطانیہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ پتا چلتا ہے کہ تقریباً 41 فیصد افراد کہتے ہیں کہ ایک گھنٹے سے کم وقت کتب بینی کے لیے وقف کرتے ہیں۔
اسی طرح ہر برطانوی شہری پورے سال اوسطاً 12کتابیں ضرور پڑھتا ہے۔ اسی طرح ایک اور ترقی یافتہ ملک جرمنی میں 14 سال سے زیادہ عمر کے 14.4 ملین افراد ہفتہ میں کئی دفعہ کتابیں پڑھنے کے لیے وقت نکالتے ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ کتابیں بلوچستان میں پڑھی جاتی ہیں۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں گوادر، تربت اور خضدار وغیرہ میں ہر سال کتابوں کے میلے لگتے ہیں اور غربت کے باوجود لاکھوں روپے کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔
اندرون سندھ کتاب پڑھنے کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے۔ اندرون سندھ نوجوان سندھی کے علاوہ اردو اور انگریزی کی کتابیں پڑھنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ایک سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ کمیونسٹ دانشور سبط حسن کی کتابیں اندرون سندھ اور بلوچستان میں اب بھی سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہیں۔ سبط حسن کا انتقال 1985ء میں ہوا تھا۔
اسی طرح اردو میں عوامی تاریخ تحریر کرنے کی روایت ڈالنے والے ڈاکٹر مبارک علی کی کتابیں بلوچستان اور اندرون سندھ سب سے زیادہ مقبول سمجھی جاتی ہیں۔ اب مذہبی کتابوں کے پڑھنے کا رجحان بھی بڑھا ہے۔ کراچی کے کتب میلہ میں مذہبی کتابوں کے خاصے اسٹال موجود تھے اور مختلف مدارس کے طالب علم گروپوں کی شکل میں مختلف ہالز میں نظر آرہے تھے۔
مکتبہ بدلتی دنیا کے نگراں حسن جاوید نے بتایا کہ مدارس کے طالب علم مذہبی کتابوں کے علاوہ ترقی پسند ادب کی خریداری میں بھی دلچسپی لیتے ہیں۔ پاکستان پبلشرز اینڈ بک پبلشرز ایسوسی ایشن گزشتہ 18 برسوں سے اس میلہ کا انعقاد کر رہی ہے، جب اس میلہ کا آغاز ہوا تھا تو بھارت اور پاکستان کے تعلقات معمول کے مطابق تھے، یوں بہت سے بھارتی پبلشرز اس میلہ میں شرکت کرنے کے لیے آتے تھے۔
یہ پبلشرز سائنس،ٹیکنالوجی، میڈیکل، انجنیئرنگ اور زراعت اور دیگر موضوعات کے علاوہ انگریزی اور اردو میں شایع ہونے والی کتابیں بھی لاتے ہیں، اگرچہ بھارتی کرنسی کی قیمت پاکستانی روپے کے مقابلے میں اس وقت بھی زیادہ تھی مگر بھارتی کتب کی قیمتیں برطانیہ، امریکا اور سنگاپور سے درآمد کی جانے والی کتابوں سے کم ہوتی تھیں۔
بھارت سے جو پبلشرز آئے تھے اس میں سرکاری اور غیر سرکاری دونوں پبلشرز شامل ہوتے تھے، یوں ایک پاکستانی قاری کو یہ اندازہ ہوتا تھا کہ بھارت کے سرکاری ادارے بھی اردو ادب، تاریخ، صحافت اورکھیلوں وغیرہ کے بارے میں معیاری کتابیں شایع کرتے ہیں۔
راقم کو دس سال قبل جموں وکشمیر حکومت کے اسٹال سے انتہائی سستی اردو میں ایک کتاب ملی تھی جس کے ہندو مصنف نے کشمیرکے بارے میں بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی پالیسی پر سخت تنقید کی تھی۔
اس میلہ میں شرکت کرنے والے تمام افراد اس بات پر متفق ہیں کہ نیوز پرنٹ پر ہر قسم کی ڈیوٹی ختم ہونی چاہیے اور بھارت سے رسائل اور کتابوں کی درآمد پر عائد تمام پابندیاں ختم ہونی چاہئیں۔ بہرحال کراچی کی پر آشوب فضاء میں کتب میلہ میں لاکھوں افراد کی شرکت زندگی کی نوید سنا رہی ہے۔
گاڑیوں، گارمنٹس، کمپیوٹر، گھریلو اشیاء اورکھانے پینے کی اشیاء کی مختلف ممالک کی مصنوعات کی نمائش کا سب سے بڑا مرکز بھی ایکسپو سینٹر ہے۔
جب بھی گھریلو اشیائ، گارمنٹس یا خواتین کی مصنوعات کی نمائش ہوتی ہے تو یونیورسٹی روڈ اور سر شاہ سلیمان روڈ پر ٹریفک ضرور جام ہوتا ہے مگر اس دفعہ ایک عجیب نظارہ علاقے کے مکینوں اورگزرنے والوں نے ملاحظہ کیا کہ عالمی کتب میلہ کے موقعے پر کثیر تعداد میں لوگوں کی شرکت کے باعث سڑکوں پر ٹریفک جام ہوگیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد افراد نے اس کتب میلہ میں شرکت کی۔ اس عالمی کتب میلے میں ایک لاکھ 40 ہزار سے زائد کتب رکھی گئیں۔ ایکسپو سینٹر کے تین بڑے ہال میں 330 کے قریب اسٹال لگائے گئے۔ اس کتب میلے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ مختلف پبلشرز نے کئی کتابوں کی رونمائی کی تقاریب سجائیں اورکتب بینی کے کئی موضوعات پر سیمینار منعقد کیے گئے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ صرف بچوں کی کتابوں کے تیس اسٹال لگائے گئے۔
ایکسپو سینٹرکے اس میلے میں ایک چھت تلے تمام تدریسی علاوہ علم وفنون، ادب، سائنس، فکشن، تاریخ ، مذاہب اور مختلف ممالک میں شایع ہونے والے کلاسیکل ادبی ناولزکے علاوہ جدید ٹیکنالوجی کے اسٹال لگائے گئے تھے۔
اس دفعہ کے اس میلے کی خاص بات یہ تھی کہ بچوں کی بہت بڑی تعداد آئی تھی۔ شہر کے مختلف اسکولوں کے بچوں کے لیے خصوصی بسوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس میلے کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ 83 سالہ سینئر صحافی و ادیب محمود شام پانچوں دن اپنے اسٹال پر موجود تھے۔
کراچی کے سیاسی رہنماؤں نے بھی اس میلے میں خصوصی دلچسپی لی۔ وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے تو میلہ کا افتتاح کیا مگر نئے صوبائی وزیر سید احمد شاہ میلہ میں آئے اور بغیر کسی پروٹوکول ہر اسٹال پرگئے۔
احمد شاہ نے اس موقع پر بالکل درست کہا کہ کتب میلہ نے کراچی کو لوٹ لیا۔ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور ایم کیو ایم کی معمر رہنما نسرین جلیل بھی میلے میں آئیں۔
خالد مقبول صدیقی نے اس میلہ کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کا عالمی کتب میلہ ایک خدمت ہے اور عبادت بھی، جو لوگ اس کا انعقاد کر رہے ہیں وہ لائق تحسین ہیں۔ یہ صدی کتابوں کی خوشبو کی آخری صدی ہے۔ اس کی جتنی خوشبو سمیٹی جاسکتی ہے سمیٹ لی جائے۔
جماعت اسلامی ہمیشہ سے اس کتب میلہ میں گہری دلچسپی لیتی ہے۔ جماعت اسلامی کی کئی ذیلی تنظیموں کے اسٹال میلہ میں موجود ہوتے ہیں۔ اس دفعہ بھی کئی اسٹالز موجود تھے اور جماعت اسلامی کے رہنما ڈاکٹر معراج الہدیٰ اور حافظ نعیم الرحمن میلہ میں آئے۔
سابق صوبائی وزیر تعلیم سردار علی شاہ نے بھی میلہ کا دورہ کیا اور کہا کہ عالمی کتب میلہ کا دائرہ وسیع ہونا چاہیے۔ اس میلہ میں حیدرآباد سے بھی بسیں آئی تھیں۔ اس میلہ کی خاص بات یہ ہے کہ تمام سیلانی پس منظر رکھنے والی شخصیتیں میلہ میں آئی تھیں اور تمام زبانوں کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔
گزشتہ دو برسوں سے شدید معاشی بحران کی بناء پر زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں کے دوران شہر میں پٹرول مہنگا ہونے کی بناء پر ٹریفک کا بہاؤ کم ہونے کا بھی مشاہدہ ہو رہا تھا۔ گزشتہ سال عید کے موقعے پر خریدار ناپید تھے۔ یوں گزشتہ سال کتب میلہ میں مندی کا رجحان تھا مگر اس دفعہ ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔
ڈالر مہنگا ہونے سے نیوز پرنٹ کی قیمت میں دگنا سے زیادہ اضافہ ہوا تھا۔ بجلی کے نرخ آسمان تک پہنچ گئے، یوں ہر کتاب پر ہونے والی لاگت بڑھ گئی جس کے نتیجے میں کتابوں کی قیمتوں میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ کسی بھی حکومت نے نیوز پرنٹ پر ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز پرکوئی سنجیدہ کارروائی نہیں کی، یوں جو لوگ کتاب خریدنا چاہتے ہیں وہ صرف کتاب خریدنے کی خواہش کرنے تک محدود ہوئے۔
انسانی حقوق کی تحریک کے اہم کارکن سینئر صحافی حسین نقی کہتے ہیں کہ المیہ یہ ہے کہ ملک میں نیوز پرنٹ بنانے کا کوئی کارخانہ موجود نہیں ہے۔ رائے عامہ کا سروے کرنے والی تنظیم گیلپ پاکستان نے کتب بینی کے حوالے سے ایک سروے کیا تھا تو یہ حقائق سامنے آئے کہ صرف 27 فیصد افراد نے اس سروے کے دوران بتایا کہ وہ نصابی کتابوں کے علاوہ مذہبی اور معلومات عامہ سے متعلق کتابیں پڑھتے ہیں۔
اس سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 73فیصد لوگ کتابیں نہیں پڑھتے۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر عشرت حسین نے اپنی ایک کتاب کی تقریب اجراء کے موقع پر یہ انکشاف کیا تھا کہ لاکھوں پڑھے لکھے لوگوں نے ساری زندگی کوئی کتاب نہیں پڑھی ہے ۔ اس معاملے میں اپنے پڑوسی ملک بھارت میں 447.0 ملین افراد کتابیں پڑھتے ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ کتابیں بھارت میں پڑھی جاتی ہیں۔ اسی طرح امریکا کے بارے میں جو اعداد وشمار ظاہر ہوئے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک عام امریکی شہری اوسطاً سال میں 12کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے، یوں تقریباً 75 فیصد امریکی شہری اب بھی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔
اسی طرح برطانیہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ پتا چلتا ہے کہ تقریباً 41 فیصد افراد کہتے ہیں کہ ایک گھنٹے سے کم وقت کتب بینی کے لیے وقف کرتے ہیں۔
اسی طرح ہر برطانوی شہری پورے سال اوسطاً 12کتابیں ضرور پڑھتا ہے۔ اسی طرح ایک اور ترقی یافتہ ملک جرمنی میں 14 سال سے زیادہ عمر کے 14.4 ملین افراد ہفتہ میں کئی دفعہ کتابیں پڑھنے کے لیے وقت نکالتے ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ کتابیں بلوچستان میں پڑھی جاتی ہیں۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں گوادر، تربت اور خضدار وغیرہ میں ہر سال کتابوں کے میلے لگتے ہیں اور غربت کے باوجود لاکھوں روپے کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔
اندرون سندھ کتاب پڑھنے کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے۔ اندرون سندھ نوجوان سندھی کے علاوہ اردو اور انگریزی کی کتابیں پڑھنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ایک سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ کمیونسٹ دانشور سبط حسن کی کتابیں اندرون سندھ اور بلوچستان میں اب بھی سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہیں۔ سبط حسن کا انتقال 1985ء میں ہوا تھا۔
اسی طرح اردو میں عوامی تاریخ تحریر کرنے کی روایت ڈالنے والے ڈاکٹر مبارک علی کی کتابیں بلوچستان اور اندرون سندھ سب سے زیادہ مقبول سمجھی جاتی ہیں۔ اب مذہبی کتابوں کے پڑھنے کا رجحان بھی بڑھا ہے۔ کراچی کے کتب میلہ میں مذہبی کتابوں کے خاصے اسٹال موجود تھے اور مختلف مدارس کے طالب علم گروپوں کی شکل میں مختلف ہالز میں نظر آرہے تھے۔
مکتبہ بدلتی دنیا کے نگراں حسن جاوید نے بتایا کہ مدارس کے طالب علم مذہبی کتابوں کے علاوہ ترقی پسند ادب کی خریداری میں بھی دلچسپی لیتے ہیں۔ پاکستان پبلشرز اینڈ بک پبلشرز ایسوسی ایشن گزشتہ 18 برسوں سے اس میلہ کا انعقاد کر رہی ہے، جب اس میلہ کا آغاز ہوا تھا تو بھارت اور پاکستان کے تعلقات معمول کے مطابق تھے، یوں بہت سے بھارتی پبلشرز اس میلہ میں شرکت کرنے کے لیے آتے تھے۔
یہ پبلشرز سائنس،ٹیکنالوجی، میڈیکل، انجنیئرنگ اور زراعت اور دیگر موضوعات کے علاوہ انگریزی اور اردو میں شایع ہونے والی کتابیں بھی لاتے ہیں، اگرچہ بھارتی کرنسی کی قیمت پاکستانی روپے کے مقابلے میں اس وقت بھی زیادہ تھی مگر بھارتی کتب کی قیمتیں برطانیہ، امریکا اور سنگاپور سے درآمد کی جانے والی کتابوں سے کم ہوتی تھیں۔
بھارت سے جو پبلشرز آئے تھے اس میں سرکاری اور غیر سرکاری دونوں پبلشرز شامل ہوتے تھے، یوں ایک پاکستانی قاری کو یہ اندازہ ہوتا تھا کہ بھارت کے سرکاری ادارے بھی اردو ادب، تاریخ، صحافت اورکھیلوں وغیرہ کے بارے میں معیاری کتابیں شایع کرتے ہیں۔
راقم کو دس سال قبل جموں وکشمیر حکومت کے اسٹال سے انتہائی سستی اردو میں ایک کتاب ملی تھی جس کے ہندو مصنف نے کشمیرکے بارے میں بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی پالیسی پر سخت تنقید کی تھی۔
اس میلہ میں شرکت کرنے والے تمام افراد اس بات پر متفق ہیں کہ نیوز پرنٹ پر ہر قسم کی ڈیوٹی ختم ہونی چاہیے اور بھارت سے رسائل اور کتابوں کی درآمد پر عائد تمام پابندیاں ختم ہونی چاہئیں۔ بہرحال کراچی کی پر آشوب فضاء میں کتب میلہ میں لاکھوں افراد کی شرکت زندگی کی نوید سنا رہی ہے۔