جہد مسلسل کی چند جھلکیاں
پاکستان کا حصول بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک انتہائی زندگی موت جیسی تحریک تھی
تاریخ انتہائی دلچسپ اور ناگزیر مضمون ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر اگلے وقتوں میں بادشاہ اور فاتحین خود اپنی سرپرستی میں تاریخ لکھواتے۔ بعدازاں یہ کام منظم انداز میں طاقت ور گروہ یا مقتدر طبقات نے جاری رکھا۔
یوں تاریخ کی بے تحاشا نامی گرامی کتابیں یک رخی مناظر کی تفصیل ہیں۔ رد عمل کے طور پر عوامی تاریخ لکھنے کی تحریک شروع ہوئی۔
اپنے علمی پس منظر اور پیش منظر کے مطابق امریکا، یورپ، بھارت، پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں عوامی تاریخ کا متبادل لٹریچر وجود میں آیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ تاریخ کے اس لٹریچر میں گراں قدر اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان کی تاریخ نویسی کے ساتھ بھی یہ معاملات درپیش رہے۔ سرکاری سطح پر پاکستان کی تاریخ کا آغاز محمد بن قاسم سے جوڑا گیا۔ بر صغیر پر حملہ آوروں کو بالعموم عزت اور عقیدت کا لبادہ اوڑھا کر پیش کیا۔ بار بار کی لشکر کشی کے ہاتھوں مقامی آبادیوں پر کیا گذرتی رہی، فاتحین کی تاریخ میں یہ پہلو کم ہی جگہ پا سکے۔
پاکستان بننے کے بعد سرکاری سطح پر تاریخ کی نصابی کتابوں میں تاریخ کی من چاہی تحریف کے ساتھ حقائق اور واقعات کا سیاق و سباق کچھ اور ہی رنگ اختیار کر گیا۔
معروف تاریخ دان ڈاکٹر کے کے عزیز نے 70 کی دہائی میں ایک معرکتہ الآرا کتاب لکھی؛ .Murder of History. چند سال قبل " تاریخ کا قتل" کے عنوان سے ترجمہ بھی شایع ہوا۔ اس شاہکار کتاب میں نصابی کتابوں کی تفصیلی جانچ پرکھ کے بعد انھوں نے کتابوں میں درج اور اصل حقائق مستند حوالہ جات کے ساتھ پیش کرکے علمی بددیانتی اور تحریف کو واضح کرکے ایک قومی خدمت انجام دی۔
اپنی ذاتی حد تک سکہ بند تاریخ کے معروف لٹریچر سے ہٹ کر متبادل ماخذ کے مطالعے کی عادت ثانیہ کئی سالوں سے پختہ ہو چکی ہے۔ اس سفر میں متبادل اور عوامی سطح کے معروف اور کئی غیر معروف مصنفین کی شاندار کتابیں پڑھنے کا موقع ملا۔ تقسیم ہند سے پہلے کے چالیس پچاس سال کے دوران ہندوستان میں سیاسی بیداری اور مذہبی آویزش کیا کیا کروٹیں لے رہی تھی؟
عام مسلمان اور عام آدمی کو شب و روز کن مسائل سے واسطہ پڑتا؟ ان کتابوں کے سرسری مطالعے کے بعد پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان کے قیام کے جواز پر اٹھائے جانے والے سوالات کا جو فیشن چل نکلا ہے، ان کتابوں کے مطالعے سے ان سوالات کا شافی و کافی جواب مل جاتا ہے بشرطیکہ ذہن تعصب سے آزاد ہو۔
حیدر آباد دکن تقسیم ہند سے پہلے اور بعد میں مسلمانوں کے لیے دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ اس موضوع پر اعجاز الحق قدوسی کی خود نوشت کچھ عرصہ قبل پڑھنے کا موقع ملا۔ علم اور مشاہدے کی سرشاری تادیر ذہن پر طاری رہی۔ چند ماہ قبل عقیل مسلم جو ایک بڑے بینک کے عہدے پر فائز ہیں، نے ہمیں دو کتابیں عنایت کیں۔
تقسیم ہند اور پاکستان؛ ایک جہد مسلسل اور ریاست حیدرآباد دکن؛ ایک ڈائری۔ مصنف سید سلطان شاہ کے نام سے شناسائی نہ تھی۔ معلوم ہوا کہ ضلع نارووال کی تحصیل شکرگڑھ کے ایک معروف گاؤں چک قاضیاں کے سپوت تھے۔
اس گاؤں کا ایک معروف حوالہ ایس ایم ظفر کا بھی ہے۔ کتابیں پڑھیں تو انداز تحریر اور احوال زمانہ پڑھ کر کچھ وہ کیفت رہی یعنی وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ ان کی صاحبزادی ڈاکٹر فلیحہ عقیل نے ان تحریروں کو مرتب کیا ( فرید پبلشرز کراچی).
کتاب سے چند اقتباسات سے پہلے مصنف کا تعارف خود ان کی زبانی۔ بندہ حیدرآباد دکن میں 1933میں فوج میں سپاہی بھرتی ہوا تھا اور 1946 میں نائب صوبیدار کے عہدے سے علیحدہ ہوا تھا۔ فوجی ڈاکٹر مجھے سمجھاتے رہے کہ تم اس عمر میں ملازمت نہ چھوڑو لیکن قدرت نے یہ دن دیکھنا نصیب کیا کہ میں نے دولت خداداد مملکت پاکستان کے41 سال دیکھ لیے۔بندہ نے محلاتی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔
دوران تعلیم لاہور کے تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کی حالت ملاحظہ ہو؛ 'میں 1931 میں لاہور تعلیم حاصل کرتا تھا۔ لاہور جتنے کالج ہندوستان کے کسی بھی شہر میں نہیں تھے۔ ڈی اے وی کالج ( آریہ سماج) کے اسٹاف کا ایثار بے مثال تھا. سنتا دھرم کالج کا معیار اتنا بلند نہ تھا۔ گورنمنٹ کالج, ایف سی کالج اور دیال سنگھ کالج تینوں پر عملی طور پر ہندوؤں کا قبضہ تھا۔
گورنمنٹ کالج میں چند مسلمان آفیسروں کے لڑکے داخل تھے ,ورنہ وہاں داخلہ ملنا محال تھا۔ لے دے کر اسلامیہ کالج لاہور تھا ہاں 80 فیصد مسلمان طلباء تھرڈ ڈویژن میٹرک پاس داخلہ لیتے تھے۔ چند پروفیسر یہاں بھی اپنے اصل حق سے کم تنخواہ حاصل کرتے تھے۔ ہندوؤں نے اپنے عروج کے زمانے میں صرف ڈی اے وی کالج فنڈ میں 96 کروڑ روپیہ جمع کروا دیا تھا۔'
'اس زمانے میں جب ساہو کارہ اپنے عروج پر تھا مقامی عدالتوں سے ہندو ساہو کار اپنے حق میں فیصلہ لینے کے لیے لالچ کا حربہ اختیار کرتا تھا۔ جج اور میجر زیادہ تر ہندو ہوتے تھے، مسلمانوں کو وہ خرید لیتے تھے۔'
دوسری جنگ عظیم کے دوران ہندوستان سے لاکھوں فوجی برطانوی مہم جوئی کا حصہ رہے اور بے شمار میدان جنگ میں کام آئے۔ فوجی بھرتی کرنے کی برطانوی پلاننگ کا ذکر کچھ یوں ہے؛ انگریزوں نے اس علاقے سے سستے سپاہی حاصل کرنے کے لیے اس علاقے کو پسماندہ رکھا۔ ادھر انگریز نے 50 سال سے زیادہ عرصہ بنگالی انارکسٹ کے حملے برداشت کیے لیکن مسلمان علاقے میں ایک بھی کارخانہ نہیں لگنے دیا۔
ہمارے علماء نے تقریبا سو سال تک انگریزی تعلیم حاصل کرنے کی مخالفت کی۔ سر سید بھی اس خلا کو پر نہ کر سکے۔مسلمانوں کے اعلیٰ دماغ اپنے اپنے نظریات کی اشاعت میں لگے ہوئے تھے ، مناظروں اور مباحثوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ ادھر سرکاری ملازمتوں پر ہندوؤں کا قبضہ تھا۔ اناج کی تمام منڈیاں ان کے قبضے میں تھیں۔ سکھ کاشت کار بہت کم مقروض تھے کیونکہ سکھوں کے پاس پنجاب کی بہترین زمینیں تھیں۔
پاکستان کا حصول بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک انتہائی زندگی موت جیسی تحریک تھی۔ متحدہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان آج تک بعد از تقسیم کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ جب کہ پاکستان میں بسنے والے ہم میں سے بیشتر لوگ پاکستان کی وہ قدرنہیں کر پائے جو اس کا حق تھا۔ آسودہ حال کئی لوگ تو عافیت کا ڈکار لیتے ہوئے پاکستان بنانے کے جواز پر ہی سوالات اٹھانے کو ایک فیشن سمجھتے ہیں۔
تاریخ کے یہ جھروکے دکھاتی کتابیں اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ متحدہ ہندوستان میں برطانوی استعمار کے ہاتھوں زندگی اور معاملات سادہ نہ تھے۔
مذہبی منافرت، علاقائی تعصب اور سیاسی منافرت کے ہولناک میدان سے جو راستہ نکلا ، اس کے نتیجے میں آج پاکستان اور بنگلہ دیش آزاد ممالک ہیں۔ ہمیں اس زمانے کے ماحول اور مشکل چوائسز کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک پاکستان کے تناظر کو سمجھنے پرکھنے میں یہ اور اس جیسی دیگر کتابیں بہت معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔
یوں تاریخ کی بے تحاشا نامی گرامی کتابیں یک رخی مناظر کی تفصیل ہیں۔ رد عمل کے طور پر عوامی تاریخ لکھنے کی تحریک شروع ہوئی۔
اپنے علمی پس منظر اور پیش منظر کے مطابق امریکا، یورپ، بھارت، پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں عوامی تاریخ کا متبادل لٹریچر وجود میں آیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ تاریخ کے اس لٹریچر میں گراں قدر اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان کی تاریخ نویسی کے ساتھ بھی یہ معاملات درپیش رہے۔ سرکاری سطح پر پاکستان کی تاریخ کا آغاز محمد بن قاسم سے جوڑا گیا۔ بر صغیر پر حملہ آوروں کو بالعموم عزت اور عقیدت کا لبادہ اوڑھا کر پیش کیا۔ بار بار کی لشکر کشی کے ہاتھوں مقامی آبادیوں پر کیا گذرتی رہی، فاتحین کی تاریخ میں یہ پہلو کم ہی جگہ پا سکے۔
پاکستان بننے کے بعد سرکاری سطح پر تاریخ کی نصابی کتابوں میں تاریخ کی من چاہی تحریف کے ساتھ حقائق اور واقعات کا سیاق و سباق کچھ اور ہی رنگ اختیار کر گیا۔
معروف تاریخ دان ڈاکٹر کے کے عزیز نے 70 کی دہائی میں ایک معرکتہ الآرا کتاب لکھی؛ .Murder of History. چند سال قبل " تاریخ کا قتل" کے عنوان سے ترجمہ بھی شایع ہوا۔ اس شاہکار کتاب میں نصابی کتابوں کی تفصیلی جانچ پرکھ کے بعد انھوں نے کتابوں میں درج اور اصل حقائق مستند حوالہ جات کے ساتھ پیش کرکے علمی بددیانتی اور تحریف کو واضح کرکے ایک قومی خدمت انجام دی۔
اپنی ذاتی حد تک سکہ بند تاریخ کے معروف لٹریچر سے ہٹ کر متبادل ماخذ کے مطالعے کی عادت ثانیہ کئی سالوں سے پختہ ہو چکی ہے۔ اس سفر میں متبادل اور عوامی سطح کے معروف اور کئی غیر معروف مصنفین کی شاندار کتابیں پڑھنے کا موقع ملا۔ تقسیم ہند سے پہلے کے چالیس پچاس سال کے دوران ہندوستان میں سیاسی بیداری اور مذہبی آویزش کیا کیا کروٹیں لے رہی تھی؟
عام مسلمان اور عام آدمی کو شب و روز کن مسائل سے واسطہ پڑتا؟ ان کتابوں کے سرسری مطالعے کے بعد پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان کے قیام کے جواز پر اٹھائے جانے والے سوالات کا جو فیشن چل نکلا ہے، ان کتابوں کے مطالعے سے ان سوالات کا شافی و کافی جواب مل جاتا ہے بشرطیکہ ذہن تعصب سے آزاد ہو۔
حیدر آباد دکن تقسیم ہند سے پہلے اور بعد میں مسلمانوں کے لیے دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ اس موضوع پر اعجاز الحق قدوسی کی خود نوشت کچھ عرصہ قبل پڑھنے کا موقع ملا۔ علم اور مشاہدے کی سرشاری تادیر ذہن پر طاری رہی۔ چند ماہ قبل عقیل مسلم جو ایک بڑے بینک کے عہدے پر فائز ہیں، نے ہمیں دو کتابیں عنایت کیں۔
تقسیم ہند اور پاکستان؛ ایک جہد مسلسل اور ریاست حیدرآباد دکن؛ ایک ڈائری۔ مصنف سید سلطان شاہ کے نام سے شناسائی نہ تھی۔ معلوم ہوا کہ ضلع نارووال کی تحصیل شکرگڑھ کے ایک معروف گاؤں چک قاضیاں کے سپوت تھے۔
اس گاؤں کا ایک معروف حوالہ ایس ایم ظفر کا بھی ہے۔ کتابیں پڑھیں تو انداز تحریر اور احوال زمانہ پڑھ کر کچھ وہ کیفت رہی یعنی وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ ان کی صاحبزادی ڈاکٹر فلیحہ عقیل نے ان تحریروں کو مرتب کیا ( فرید پبلشرز کراچی).
کتاب سے چند اقتباسات سے پہلے مصنف کا تعارف خود ان کی زبانی۔ بندہ حیدرآباد دکن میں 1933میں فوج میں سپاہی بھرتی ہوا تھا اور 1946 میں نائب صوبیدار کے عہدے سے علیحدہ ہوا تھا۔ فوجی ڈاکٹر مجھے سمجھاتے رہے کہ تم اس عمر میں ملازمت نہ چھوڑو لیکن قدرت نے یہ دن دیکھنا نصیب کیا کہ میں نے دولت خداداد مملکت پاکستان کے41 سال دیکھ لیے۔بندہ نے محلاتی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔
دوران تعلیم لاہور کے تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کی حالت ملاحظہ ہو؛ 'میں 1931 میں لاہور تعلیم حاصل کرتا تھا۔ لاہور جتنے کالج ہندوستان کے کسی بھی شہر میں نہیں تھے۔ ڈی اے وی کالج ( آریہ سماج) کے اسٹاف کا ایثار بے مثال تھا. سنتا دھرم کالج کا معیار اتنا بلند نہ تھا۔ گورنمنٹ کالج, ایف سی کالج اور دیال سنگھ کالج تینوں پر عملی طور پر ہندوؤں کا قبضہ تھا۔
گورنمنٹ کالج میں چند مسلمان آفیسروں کے لڑکے داخل تھے ,ورنہ وہاں داخلہ ملنا محال تھا۔ لے دے کر اسلامیہ کالج لاہور تھا ہاں 80 فیصد مسلمان طلباء تھرڈ ڈویژن میٹرک پاس داخلہ لیتے تھے۔ چند پروفیسر یہاں بھی اپنے اصل حق سے کم تنخواہ حاصل کرتے تھے۔ ہندوؤں نے اپنے عروج کے زمانے میں صرف ڈی اے وی کالج فنڈ میں 96 کروڑ روپیہ جمع کروا دیا تھا۔'
'اس زمانے میں جب ساہو کارہ اپنے عروج پر تھا مقامی عدالتوں سے ہندو ساہو کار اپنے حق میں فیصلہ لینے کے لیے لالچ کا حربہ اختیار کرتا تھا۔ جج اور میجر زیادہ تر ہندو ہوتے تھے، مسلمانوں کو وہ خرید لیتے تھے۔'
دوسری جنگ عظیم کے دوران ہندوستان سے لاکھوں فوجی برطانوی مہم جوئی کا حصہ رہے اور بے شمار میدان جنگ میں کام آئے۔ فوجی بھرتی کرنے کی برطانوی پلاننگ کا ذکر کچھ یوں ہے؛ انگریزوں نے اس علاقے سے سستے سپاہی حاصل کرنے کے لیے اس علاقے کو پسماندہ رکھا۔ ادھر انگریز نے 50 سال سے زیادہ عرصہ بنگالی انارکسٹ کے حملے برداشت کیے لیکن مسلمان علاقے میں ایک بھی کارخانہ نہیں لگنے دیا۔
ہمارے علماء نے تقریبا سو سال تک انگریزی تعلیم حاصل کرنے کی مخالفت کی۔ سر سید بھی اس خلا کو پر نہ کر سکے۔مسلمانوں کے اعلیٰ دماغ اپنے اپنے نظریات کی اشاعت میں لگے ہوئے تھے ، مناظروں اور مباحثوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ ادھر سرکاری ملازمتوں پر ہندوؤں کا قبضہ تھا۔ اناج کی تمام منڈیاں ان کے قبضے میں تھیں۔ سکھ کاشت کار بہت کم مقروض تھے کیونکہ سکھوں کے پاس پنجاب کی بہترین زمینیں تھیں۔
پاکستان کا حصول بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک انتہائی زندگی موت جیسی تحریک تھی۔ متحدہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان آج تک بعد از تقسیم کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ جب کہ پاکستان میں بسنے والے ہم میں سے بیشتر لوگ پاکستان کی وہ قدرنہیں کر پائے جو اس کا حق تھا۔ آسودہ حال کئی لوگ تو عافیت کا ڈکار لیتے ہوئے پاکستان بنانے کے جواز پر ہی سوالات اٹھانے کو ایک فیشن سمجھتے ہیں۔
تاریخ کے یہ جھروکے دکھاتی کتابیں اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ متحدہ ہندوستان میں برطانوی استعمار کے ہاتھوں زندگی اور معاملات سادہ نہ تھے۔
مذہبی منافرت، علاقائی تعصب اور سیاسی منافرت کے ہولناک میدان سے جو راستہ نکلا ، اس کے نتیجے میں آج پاکستان اور بنگلہ دیش آزاد ممالک ہیں۔ ہمیں اس زمانے کے ماحول اور مشکل چوائسز کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک پاکستان کے تناظر کو سمجھنے پرکھنے میں یہ اور اس جیسی دیگر کتابیں بہت معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔