خون مسلم کی ارزانی بھی دیکھ

بم باری دشمن کے کسی ٹھکانے پر نہیں ہو رہی ہے بلکہ آبادیوں پر، بے گناہ افراد پر اور بے طاقت حریفوں پر کی جا رہی ہے

چند روز کی جنگ بندی کے بعد اسرائیل نے غزہ پر حملے شروع کر دیے ہیں، یہ جو چند روزہ جنگ بندی تھی یہ دراصل یہ کہنا تھا کہ آگے چلیں کے دم لے کر۔

ان چند دنوں کے سیز فائر میں بھی اسرائیل کا رویہ آقائی تھا۔ ذرا ذرا سی بات پر وہ جنگ بندی ختم کرنے کی دھمکی دیتا رہا اور دوران جنگ اگر اسے جنگ کہا جا سکے اس نے چند فوجیوں کے بدلے بہت سے غزہ کے سویلین واپس کیے اس طرح اس نے یہ تاثر دینا چاہا کہ ہمارے چند سپاہی تمہارے درجنوں آدمیوں سے زیادہ قیمتی ہیں۔ یہ ایک طرح اپنے دشمن کو اپنی طاقت و قوت دکھانا اور منوانا تھا اور چند فوجیوں کو حاصل کرنے کے بعد پھر وہی بم باری۔

اول تو یہ بات ذہن نشین کیجیے کہ یہ سرے سے جنگ ہے ہی نہیں۔ ایک طرف چند بندوق بردار جرأت مند اور ثابت قدم لوگ ہیں تو دوسری طرف اعلیٰ درجے کی فضائیہ، بم باری کی صلاحیت اور میزائل کی بھرمار اور ٹینکوں کی یلغار۔جہاں تک فضائیہ کا تعلق ہے وہ اسرائیلی بے ہمتی اور اس کے صدیوں پر محیط کارکردگی کو ظاہر کرتی ہے، اسرائیل آسمان سے بم برسا رہا ہے ان لوگوں پر جن کے پاس ایک بھی جنگی جہاز نہیں ہے۔

یہ بم باری دشمن کے کسی ٹھکانے پر نہیں ہو رہی ہے بلکہ آبادیوں پر، بے گناہ افراد پر اور بے طاقت حریفوں پر کی جا رہی ہے۔ یہ بمباری جنگ سے متاثرہ لوگوں کے کیمپوں پر ہو رہی ہے، یہ غزہ میں نسل کشی اور منظم نسل کشی کا مظاہرہ ہے۔مگر اسرائیل جس کو بہادری سمجھ رہا ہے دراصل وہ اس کی بزدلی ہے۔

اب اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک حماس کا آخری آدمی بھی ختم نہ کردیں۔ دراصل وہ غزہ میں آباد عربوں کے آخری آدمی کی بات کر رہا ہے وہ غزہ کو تباہ و برباد، ویران، بے آسرا اور انسانوں سے خالی کر دینا چاہتا ہے۔

جب جنگ چھڑی تھی تو یہود کے سرپرست امریکا بہادر نے کہا تھا کہ دراصل یہ جنگ اسرائیل اپنے دفاع کے لیے کر رہا ہے۔ ایسا بے رحمی کا اظہار وہ امریکا کر رہا ہے جو دراصل اسرائیل کا سرپرست ہے۔ غیرت کی بات یہ ہے کہ جنگ کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔


اکھاڑے میں اترنے والے پہلوان قد وقامت، وزن، ہیئت میں برابر ہوتے ہیں اور بعض اصولوں کے تحت لڑتے ہیں لیکن یہاں لاکھوں بے آسرا بے قصور لوگوں پر مہلک ہتھیاروں کے ذریعے زندگی کو بس ایک خواب بنا کر رکھ دیا ہے۔

اب بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہٹلر نے ٹھیک کیا تھا۔ یہاں اکھاڑے میں 300 پونڈ وزن کا پہلوان ایک سو پونڈ کے ناتواں اور کمزور مدمقابل سے مقابلہ نہیں کر رہا بس اسے سبق سکھا رہا ہے۔

امریکیوں نے آج تک بہت جگہ ہزیمت اٹھائی ہے اس لیے وہ ہار اور جیت دونوں کا مفہوم سمجھتا ہے، لیکن ایک عالمی طاقت ہونے کے ناتے اس کا جو کردار ہونا چاہیے تھا وہ دور دور تک نظر نہیں آیا البتہ خود اس کا اخلاقی زوال نظر آنے لگا ہے اور جب کسی قوم کا اخلاقی زوال شروع ہو جائے تو اسے '' زوال مکمل'' سے کوئی نہیں روک سکتا۔

اس یکطرفہ جنگ کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ کی حفاظتی کونسل میں جو قرارداد پیش کی گئی اسے امریکا نے ویٹو کر دیا۔ یہ ویٹو کا خود ساختہ اختیار ہی تو ہے جس نے چند یورپی طاقتوں کو دے رکھا ہے بیسویں صدی میں برطانیہ نے '' نئے عالمی نظام '' کا جو خواب دیکھا تھا وہ یہی ہے۔

اب برطانیہ جیسے چھوٹے سے ملک کو بڑے بڑے ایشیائی ممالک پر برتری اور اقتصادی حکمرانی مل جائے گی بلکہ مل چکی ہے۔ یہ امریکی ویٹو بھی بڑی بے شرمی کی بات تھی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل دنیا کے متعدد '' غیر مسلم'' ممالک اسرائیل کی اس نسل کشی کے خلاف میدان میں آئے تو خدا خدا کر کے جنگ بندی کی قرارداد منظور ہوئی۔

ظاہر ہے اب قرارداد کے مسودے میں اسرائیل اور امریکا کے حق یا ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے چند شقیں ضرور ہوں گی اور اب دیکھیے کہ جنگ بندی کب ہوتی ہے ، غزہ کے معصوم بچوں، اسپتالوں میں پڑے مریضوں، ناتواں خواتین کے قاتلوں کے بارے میں البتہ کچھ نہیں ہوگا۔اب اہل دنیا یہ جان گئے ہیں کہ اگر اسرائیل کی پشت پناہی کے لیے امریکا مستعد نہ ہوتا تو یہ خوں ریزی اور ہلاکت نہ ہوتی۔ امریکا اسرائیل کی پشت سے اپنا ہاتھ اٹھا لے تو ہم دیکھیں گے:

نہ خنجر اُٹھے گا نہ تلوار ان سے
Load Next Story