پانی کا شدید ہوتا بحران
المیہ یہ ہے کہ حکمرانوں میں سیاسی عزم وبصیرت کے فقدان کے نتیجے میں پہلے توانائی کا بحران پیدا ہوا جوہنوزجاری ہے
آج پاکستان پانی کے شدید بحران کی طرف بڑھ رہاہے ۔خدشہ ہے کہ آنے والے چند برس اس حوالے سے بہت اہم ہیں ۔ پانی کی قلت زرعی زمینوں کو بنجر کرنے اور زراعت کو تباہ کرنے کا سبب ہوتی ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ابھی سے منصوبہ بندی نہیں کی گئی توآنے والوں برسوں میں زراعت کو پہنچنے والے نقصان کے نتیجے میں ملک بدترین غذائی قلت کا شکار ہوسکتا ہے ۔لیکن ریاستی منصوبہ ساز جس رفتار اور جس انداز میں چلتے ہیں ، اسے دیکھتے ہوئے اس بحرانی کیفیت اختیار کرتے مسئلے کے بروقت حل کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک تمام تر دعوئوں کے باوجود نہ تو بجلی کے بحران پر قابو پایا جاسکا ہے اور نہ قدرتی گیس کی قلت کوکم کرنے کے لیے متبادل ذرایع پر توجہ دی جاسکی ہے ۔
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ خطہ جو آج پاکستان ہے ، کبھی یہاں چھوٹے بڑے دریائوں کے باعث پانی کی فراوانی ہوا کرتی تھی ۔مگر آج بدترین خشک سالی سے دو چار ہوتا جارہا ہے ۔کبھی اہلِ پنجاب کو اپنے پنج آب ہونے پر فخر تھا ، حالانکہ چھ دریا اس کے سینے کو چیرتے ہوئے گذرتے ہیں ۔ اسی طرح ہم سندھیوں کو اپنے دریا سندھو پر فخر ہے ، جو کئی علاقوں سے گذر کر ہم تک پہنچتا ہے ، مگر ہم صرف اسے اپنا ہی دریا سمجھتے ہیں۔
یہ بھی کہاوت ہے کہ اگر نگہداشت نہ کی جائے تو دریا بھی روٹھ جاتے ہیں ۔ کبھی یہ راستہ بدل لیتے ہیں کبھی خشک ہوکر اپنی خفگی کا اظہار کرتے ہیں ۔لیکن ہم نے تو خود اپنے ہاتھوں اپنے پیروں پہ کلہاڑی ماری ہے ۔ پہلے ایوب خان نے عالمی بینک کے دبائو میں آ کر تین دریا بھارت کے ہاتھ فروخت کردیے ۔ پھر ہمارے منصوبہ سازوں نے اپنی کوتاہ بینی کے سبب دریائوں کے ساتھ سوتیلی مائوں سے بھی بدتر سلوک کیا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہم پانی کی بوند بوند کو ترسنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔
پانی کے حالیہ بحران کوسمجھنے میں آب پاشی کے ایک اہم انجینئر ولی محمد انصاری مرحوم کی اس گفتگو سے مدد مل سکتی ہے ، جو انھوں نے 1994 میںایک سندھی اخبار میں انٹرویو کے دوران کی ۔ولی محمد انصاری مرحوم وہ نادرِ روزگار ہستی تھے، جو 1932 میں سکھر بیراج کے قیام کے وقت بطوراسسٹنٹ انجینئر بھرتی ہوئے اور پھر 1970 میں بحیثیت چیف انجینئر ریٹائر ہوئے ۔ انھوں نے ان تمام دستاویزات کا مطالعہ کیا تھا، جو بیراج کی تعمیر کے وقت تیار کیے گئے تھے ۔ انھوں نے جو کچھ بتایا وہ ہماری لاپرواہی کی المناک داستان ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب پنجاب حکومت نے 1888 میں پنجاب میں آب پاشی کے لیے نہری نظام شروع کیا، تو سندھ جو اس وقت بمبئی پریسیڈنسی کا حصہ ہوا کرتا تھا ، اس کے کمشنر نے گورنر کو ایک خط کے ذریعے مطلع کیا کہ پنجاب میں نہری نظام کے قیام کے بعد سندھ عملاً ریگستان میں تبدیل ہوجائے گا اور اس کی زرعی زمینیں تباہ ہوجائیں گی ۔کمشنر نے اپنے خط میں مزید لکھا کہ جو نہری نظام سندھ میں قائم کیا گیا تھا ، وہ بھی شکستگی کا شکار ہے اور اس سے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے ۔ اس لیے سندھ میں ایک بیراج کی تعمیر انتہائی ضروری ہوچکی ہے ۔ تمام ضروری سرکاری کارروائی کے بعد سکھر کے مقام پر1923 میں بیراج کی تعمیر کا کام شروع ہوا،جو1932 میں تکمیل پذیر ہوا ۔
اس بیراج کے دائیں حصے سے تین اور بائیں حصہ سے چار نہریں نکالی گئیں ۔ بیراج میں 66 دروازے رکھے گئے ، جن میں سے صرف چند سال بھر کھلے رہتے ہیں ، سیلاب کے دنوں میں چند مزید دروازے کھول دیے جاتے ہیں تاکہ سیلاب کی صورت میں بیراج اور لاڑکانہ وغیرہ کو تباہی سے بچایا جاسکے ۔ ولی محمد مرحوم کا کہنا تھا کہ اس وقت تیار کردہ دستاویز کے مطابق ہر 10 برس بعد دریا کی صفائی کی جانی تھی، تاکہ اوپری علاقوں سے آنے والی ریت اور پتھروں سے دریا کا بہائو متاثر نہ ہونے پائے ۔ اسی طرح یہ پابندی عائد کی گئی کہ پنجند سے سکھر تک دریا کے دونوں اطراف میں موجود کچھے کے علاقے کی زمینیں کسی بھی صورت کسی اور مقصد کیلیے استعمال نہ کی جائیں ۔کیوں اس علاقے میں موجود خود رو درخت اطراف کے علاقوں کوسیلاب کی تباہ کاریاں سے بچانے کا سبب بنیں گے۔
ولی محمد انصاری مرحوم کا کہنا تھا کہ بیراج کی صفائی1942 میں ہونا تھی۔ دوسری عالمی جنگ کی وجہ سے صفائی کا یہ کام نہیں ہوسکا ۔ 1947 میں پاکستان بن گیا۔ 1952 میں ضابطے کے مطابق صفائی ہونا تھی ۔ اس وقت وہ ایگزیکٹو انجینئر تھے ۔ انھوں نے چیف انجینئر کو خط لکھ کر یاد دہانی کرائی کہ بیراج کی صفائی کیلیے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا جائے ۔ انصاری مرحوم کا کہنا تھا کہ معاملہ اس وقت کے گورنر جنرل ملک غلام محمد کے سامنے پیش کیا گیا ۔ انھوں نے یہ کہہ کر صفائی کو مؤخر کردیا کہ پاکستان نیا نیا قائم ہوا ہے ، حکومت کے پاس رقم نہیں ہے کہ دریا کی صفائی پر''ضایع'' کرے ۔
1962 میں وہ خود چیف انجینئرہوگئے تھے ۔ انھوں نے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا، مگر انھیں جواب دیا گیا کہ 1960 میں سکھر اور روہڑی کے درمیان دریا پر ریلوے کا پل تعمیر کیا گیا ہے ، جس پر خطیر رقم خرچ ہوچکی ہے ، اس لیے مزید رقم مختص کرنا ممکن نہیں ۔ 1970 میں وہ ریٹائر ہوگئے اور1972 میں انھوں نے سکھر سرکٹ ہائوس میں بھٹو مرحوم سے ملاقات کی اور ان سے بیراج کی صفائی کے بارے میں گفتگو کی۔
بھٹو بہت محبت سے ملے چائے پر کافی دیر گفتگو کرتے رہے، پھر فرمایا کام تو چل رہا ہے نا۔ جنگ میں بہت نقصان ہوا ہے ، ملک بھی ٹوٹ چکا ہے۔ معیشت کی حالت بہت خراب ہے، اس لیے کچھ دن اور انتظار کرلو ۔1982 میں انصاری مرحوم فائلوں کے پلندے کے ساتھ جنرل ضیاء سے ملنے اسلام آباد گئے ۔ جنرل ضیاء نے انھیں پر تکلف لنچ دیا، مگر بیراج کی صفائی کے معاملہ کو یہ کہہ کرٹال دیا کہ افغانستان کی جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں ، اس لیے فی الوقت اتنی بڑی رقم کا بندوبست کرنا ممکن نہیں ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ اس کے بعد انھوں نے پھر کسی سے رابطہ نہیں کیا ۔ ویسے بھی وہ بوڑھے ہوچکے تھے اور شدید مایوس بھی ۔
آج بیراج کی تعمیر کو82 برس ہوچکے ہیں، اس کی ہر 10 برس بعد ہونے والی صفائی کی کہانی آپ کے سامنے ہے ، جو تادم تحریر نہیں ہوسکی ۔جب کہ حکمرانوں نے مقامی سیاسی رہنمائوں کو رشوت کے طور پر دریا کے اطراف کی کچے کی زمینیں الاٹ کرکے سیلاب کی تباہ کاریوں میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے ۔ اس کے علاوہ 1888 میں پنجاب کی صوبائی حکومت نے ممبئی پریزیڈینسی کے انتباہ کو نظر انداز کرتے ہوئے نہری نظام تشکیل دیا تھا ، جس کی وجہ سے سندھ کی زمینیں سیم وتھور کا شکار ہوگئی ہیں ۔ آج ایک بار پھر سندھ اور پختونخواہ کے تحفظات کو نظر انداز کرتے ہوئے کالا باغ ڈیم بنانے پر اصرار کیا جا رہاہے، جس سے سندھ کے بنجر اور پختونخوا کے تباہ ہونے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح دریائے سندھ پر مختلف ڈیموں کی تعمیر کے نتیجے میں ڈیلٹا کے علاقے میں دریا تقریباً خشک ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے سمندر اوپر کی طرف بڑھ آیا ہے ۔ نتیجتاً ٹھٹھہ اور بدین کی زرعی زمینیں جو دریائی پانی کی وجہ سے آباد تھیں اور عمدہ کاشتکاری ہوتی تھی، وہ رفتہ رفتہ ختم ہوچکی ہے ۔اس علاقے میں مچھلیوں کی افزائش بھی رک گئی ہے ، کیونکہ کراچی، حیدرآباد اور کوٹری کی صنعتوں کا آلودہ پانی دریا کے ذریعے اس علاقے میں پہنچ کر پانی کوزہر آلود کر رہا ہے، جس کی وجہ سے آبی حیات بری طرح متاثر ہو رہی ہے ۔
المیہ یہ ہے کہ حکمرانوں میں سیاسی عزم وبصیرت کے فقدان کے نتیجے میں پہلے توانائی (بجلی) کا بحران پیدا ہوا ، جو ہنوز جاری ہے ۔ اس کے بعد ملک قدرتی گیس کی قلت سے دوچار ہوگیا ۔ اس بحران پر بھی ابھی تک قابو نہیں پایا جاسکا ہے ۔اب مستقبل قریب میںپانی کی قلت بھی ایک بحرانی شکل اختیار کرتی نظر آرہی ہے ۔ یہ مسئلہ آنے والے دنوں میں گمبھیر صورتحال اختیار کرتا نظر آرہا ہے جس کے نتیجے میں پہلے سے تباہ ہوتی زراعت اور معیشت کے مزید تباہی کے دہانے تک پہنچنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر پورے ملک میں مختلف سائز کے ڈیم اورReserviors تعمیرکیے جائیں ، تاکہ پانی کو خشک سالی کے دنوں کے لیے محفوظ کیا جاسکے ۔اس کے علاوہ دنیا میں بارشوں سے حاصل ہونے والے پانی کو بھی محفوظ کرنے کے کئی طریقے ایجاد ہوچکے ہیں، ان سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ لہٰذا حکومت اور منصوبہ سازوں کو پانی کے ممکنہ بحران سے بچنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ وگرنہ بصورت دیگر ہم شدید نوعیت کے آبی بحران کا شکار ہونے جارہے ہیں ۔