دشت غم میں یار کا محمل
پاکستانی عوام کی اکثریت جانتی ہے کہ یہاں ہر فیصلہ ’’کہیں اور سے ہوتا ہے‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک قول ہے کہ ''اگر کوئی ایک تھپڑ تمہارے گال پر مارے، تو دوسرا گال خود پیش کردو۔'' اس قول میں بڑی دانائی اور حکمت چھپی ہے۔ یعنی عدم تشدد کا فلسفہ۔ یعنی تشدد کا جواب تشدد سے دینے سے نفرتیں بڑھتی ہیں۔ بغض وعناد پرورش پاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر گالی کے جواب میں خاموش رہا جائے اور تشدد کا جواب مثبت رویے سے دیا جائے تو بات اگلی نسلوں کی دشمنی تک نہیں پہنچتی۔ یہی صورت حال ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی پیش آتی ہے۔ دنیا کو اس وقت امن و شانتی کی اشد ضرورت ہے۔
خاص کر پاکستان کو۔ لیکن افسوس کہ نہایت طاقت ور نادیدہ قوتوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس بدنصیب ملک کو کن خطرات نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ ہم اب تک فروعی مسائل میں الجھے ہوئے ہی نہیں ہیں بلکہ جان بوجھ کر قوم کو الجھایا جا رہا ہے تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل کی طرف سے ہٹ جائے۔ یہ کام بڑے پیمانے پر اور بڑے بڑے ٹھیکیداروں کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ سب سے زیادہ تباہ کن رویہ ''فتوؤں'' کا اجراء ہے۔
من پسند فتوے کیسے حاصل کیے جاتے ہیں اس کی تفصیل بتانے کی اجازت کم ازکم مجھ جیسے کسی کالم نگار کو نہیں ہے جس کی جیب میں کسی مذہبی، سیاسی یا خفیہ قوتوں کا جاری کردہ رکنیت کا شناختی کارڈ نہ ہو۔ اپنی بات کہنے کا حق یوں تو سبھی کو حاصل ہے اور اپنے اپنے کارڈ استعمال کرکے ہر لکھاری اپنی جماعت کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے اور فیض اٹھا رہا ہے۔ لیکن اپنے ضمیر کی آواز کے تحت لکھنے والے جن عذابوں سے گزر رہے ہیں اس کا ادراک قارئین کو نہیں ہے۔ بس یہ سوچ کر پریشان ہوجاتی ہوں کہ جبر و استحصال اور تشدد کا پرچار یوں ہی ہوتا رہا۔ امن کی جگہ جنگ و جدل کی باتیں ہوتی رہیں۔
بات نفرت اور تشدد کو ختم کرنے سے چلی تھی۔ لڑائیاں گھروں میں بھی ہوتی ہیں، گہرے دوستوں اور قریبی رشتے داروں میں بھی تعلقات خراب ہوجاتے ہیں۔ قبائلی کلچر کی پہچان ہی صدیوں تک زندہ اور جاری رہنے والی دشمنیاں ہیں اور ان کا زیور بھی خطرناک ہتھیار ہیں۔ پاکستان اس لحاظ سے بھی بدنام ہو رہا ہے کہ پشاور دنیا کے دس خطرناک شہروں میں شامل ہوگیا ہے۔ ہتھیار اٹھاکر بات کرنے والے اس ''اعزاز'' پر بہت خوش ہو رہے ہیں۔ لیکن سول سوسائٹی اس بات پہ رنجیدہ بھی ہے اور شرمندہ بھی۔
مہذب اور تعلیم یافتہ خاندانوں میں اس بات کو معیوب سمجھا جاتا ہے کہ عزیز رشتے دار زیادہ عرصے تک ایک دوسرے سے ناراض ہیں۔ اس لیے ایسے مواقعے تلاش کیے جاتے ہیں جب کوئی ایک بڑھ کر اس رنجش کو ختم کرنے میں پہل کرے۔ ہمارے پیارے نبیؐ کا ارشاد بھی یہی ہے کہ ''رنجش کا خاتمہ سلام میں پہل کرنے سے ہے''۔ ''ہر ایک کے ساتھ نیکی کرو، خواہ وہ بد ہی کیوں نہ ہو۔ اگر وہ نیکی کرنے کے قابل نہیں، مگر تم تو اس لائق ہوکہ نیکی کرسکو۔'' ان احادیث میں سمجھنے والے کے لیے بہت کچھ ہے۔
عام طور پر خاندانوں کے بڑے ان رشتے داروں میں صلح کرا دیا کرتے تھے جو کسی سبب ایک دوسرے سے ترک تعلق کیے بیٹھے ہیں۔ یا پھر کسی خوشی کے موقع پر ناراض خاندان کو دوسرا فریق اپنے گھر آنے کی دعوت دیتا تھا۔ اس طرح برسوں کی کدورتیں گلے ملنے اور مبارک باد دینے سے ختم ہوجاتی تھیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ دو خاندان تو ہر قیمت پر رنجش بھلاکر دوبارہ سے ایک ہونا چاہتے ہیں لیکن کچھ دوسرے رشتہ داروں کو جو بزعم خود اپنے آپ کو خاندان کا حکمران یا سربراہ سمجھتے ہیں انھیں امن کا یہ ایجنڈا سوٹ نہیں کرتا۔ کیونکہ اس عمل سے ان کی چوہدراہٹ خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ دو ناراض خاندان ایک ہوگئے تو ان کی حیثیت دو کوڑی کی ہوجائے گی۔
بس اس تناظر میں بھارت اور پاکستان کے حوالے سے موجودہ صورت حال دیکھیے۔ نریندر مودی کی دعوت پر نواز شریف کا ان کی تقریب حلف برداری میں جانا۔ خیرسگالی اور حق ہمسائیگی میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ 99 فی صد پاکستانی عوام اس پالیسی سے خوش ہیں۔ ہمارے انتہائی اہم خطے کو اس وقت امن کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ دونوں طرف بھوک ہے، افلاس ہے، غربت ہے۔ ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے۔ نریندر مودی نے جو بیانات پاکستان کے بارے میں دیے تھے وہ ماضی تھا۔ ہمیں آج کی بات کرنی چاہیے۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک چائے بیچنے والے کا لڑکا وہاں کا وزیر اعظم صرف ووٹ کی بناء پر منتخب ہوگیا۔ کیا پاکستان میں کبھی آیندہ سو سال تک بھی اس کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ متوسط یا غریب طبقے کا کوئی شخص وزیر اعظم تو درکنار کسی صوبے کا وزیر اعلیٰ بھی بن سکتا ہے؟ الیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد نریندر مودی کو اپنی غلطی کا احساس ہونا ہی تھا۔ کیونکہ ان کا موجودہ عہدہ اس بات کا متقاضی تھا کہ وہ اپنی پچھلی منفی شخصیت کا تاثر زائل کریں۔
انھوں نے پاکستانی وزیر اعظم کو دعوت دی اور ہمارے وزیر اعظم نے کھلے دل سے اس دعوت کو قبول بھی کیا۔ یہ ان کا بڑا پن ہے۔ وہ پہلے بھی اس رویے کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ لیکن ہمیشہ کچھ ایسی قوتیں ان کے آڑے آتی رہی ہیں۔ دونوں ممالک کا امن ان قوتوں کے لیے گھاٹے کا سودا ہے۔ یہ وہ عناصر ہیں جن کے ہاتھوں میں مہلک ہتھیار ہیں۔ انھیں عام آدمی کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ انھیں ہمیشہ وہی مناظر اچھے لگتے ہیں جہاں خون میں لتھڑے ہوئے، معذور، مردہ جسموں کا انبار لگا ہو۔ خون کے دریا جم چکے ہوں تو انھیں پگھلانے کے لیے مزید تازہ انسانی خون چاہیے۔
جب یہ کالم چھپے گا نواز شریف وطن واپس آچکے ہوں گے۔ یہ ان کا امن اور دوستی کی طرف بڑھنے والا ایک بار پھر پہلا قدم ہے۔ وہ بنیادی طور پر صنعت کار ہیں۔ اس لیے جانتے ہیں کہ معیشت کسی بھی ملک کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ دونوں ملکوں کے تجارتی، سفارتی تعلقات بہتر ہوں گے تو عام آدمی کو فائدہ پہنچے گا۔ پاکستانی کاٹن، لان پرنٹ، پشاوری چپلوں، ٹالکم پاؤڈر اور جیولری کی بہت ڈیمانڈہے۔ اسی طرح وہاں کی بعض اشیا کی پاکستان میں بڑی کھپت ہے۔ دونوں ممالک کھلے دل سے ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے نہ صرف تجارتی اور سفارتی تعلقات بحال کریں بلکہ بھارت کو چاہیے کہ پاکستانی ٹی وی چینلز کو اپنے شہروں میں دکھانے کی اجازت دے۔
مجھے افسوس بھی ہوتا ہے اور ہنسی بھی آتی ہے ان غیر سنجیدہ Non State Actors پر جو چاہتے ہیں کہ ایک ہی دن میں تمام معاملات طے ہوجائیں۔ ایسا نہیں ہوتا۔ راتوں رات مسائل حل نہیں ہوتے۔ قدم بہ قدم چلنا پڑتا ہے۔ جس ملک میں نمایندہ اور ''سوکالڈ'' منتخب حکومتیں پانچ پانچ سالوں میں لوڈشیڈنگ ختم نہ کرسکیں۔ بے روزگاری کا مداوا نہ کرسکیں۔ میرٹ کا قتل بند نہ کرسکیں۔ لوگوں کی بنیادی ضرورتیں پوری نہ کرسکیں تو دو ملکوں کے درمیان پیدا شدہ مسائل ایک دن میں کیسے حل ہوسکتے ہیں۔ دراصل یہ مطالبہ صرف ان کی مرضی کے خلاف نواز شریف کا بھارت جانا ہے۔ اور کچھ نہیں۔ کیونکہ یہ امن اور دوستی ان کے ایجنڈے کے خلاف ہے۔ جس کا اظہار وہ ریلیاں نکال کر، مظاہرے کرکے اور چینلز پر تشدد اور نفرت بھرے بیانات دے کر کرتے رہتے ہیں۔
پاکستانی عوام کی اکثریت جانتی ہے کہ یہاں ہر فیصلہ ''کہیں اور سے ہوتا ہے'' جو حکومتوں کو لاتے ہیں، ان کی باری پوری کرواتے ہیں۔ وہی اپنی مرضی کے فیصلے کروانے کی طاقت بھی رکھتے ہیں اور اکثر و بیشتر پاکستانی وزرائے اعظم کو حساس معاملات میں ''بریفنگ'' بھی دیتے ہیں۔اور ''منتخب'' وزیر اعظم بریفنگ میں کیے گئے فیصلوں کا پابند ہوتا ہے۔ بہرحال امن اور شانتی کے لیے جو بھی قدم کسی بھی جانب سے اٹھایا جائے گا ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کالم کے چھپتے ہی میرے موبائل فون پر SMS آنے شروع ہوجائیں گے کہ آپ بھارتی ایجنٹ ہیں ۔ مگر ہم سب ان ''محب وطن'' دشمن عناصر کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
نگاہ منظر کب تک کرے گی آئینہ بندی
کہیں تو دشت غم میں یار کا محمل ٹھہر جائے