پنجگور کا حال
انسانوں کی سب سے بڑی دشمن جہالت ہے۔ ...
بلوچستان سے دلچسپی رکھنے والے احباب نے کیچ مکران کا نام تو سنا ہو گا۔ سندھ کے سب سے بڑے رہنما شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی نے بھی سسی پنوں کی داستان میں اس علاقے کو اسی اصطلاح سے یاد کیا ہے۔ لیکن بہت کم ہی احباب جانتے ہوں گے کہ کیچ اور مکران میں بہت ہی معمولی فرق ہے۔ مکران سے مراد موجودہ بلوچستان کی ساحلی پٹی سے منسلک وہ ڈویژن ہے، جس میں تین اہم اضلاع تربت، گوادر اور پنجگور شامل ہیں۔ لیکن جب کیچ کہیں گے تو گویا آپ تربت سے گوادر تک کا ذکر کر رہے ہیں۔ پنجگور اس میں شامل نہیں۔
مکران کی ڈیموگرافی میں پنجگور کو ایک الگ ہی مقام حاصل ہے۔ اس کے طبعی موسم سے لے کر افراد کے مزاج تک، سبھی کچھ کیچ سے الگ تھلگ ہے۔ تربت اور گودار کی نسبت یہاں پانی کی فراوانی کے باعث زمینداری وافر ہوتی ہے۔ سبزہ زیادہ ہے۔ سردیاں سخت ہوتی ہیں۔ بلوچستان کے تعلیمی شعبے میں بھی پنجگور سرمائی زون میں شامل ہے۔ معاشی خوش حالی نسبتاً زیادہ ہے۔ ماضی میں پنجگور ریاست مکران کا پایہ تخت بھی رہا ہے۔ بلوچوں کے خانِ اعظم میر نصیر خان نے یہاں کئی حملے کیے۔ جن کا جواز ذکریوں کا قلع قمع کرنا بتایا جاتا ہے۔
حال ہی میں نوری نصیر خان پہ مکمل کتاب تحریر کرنے والے فاروق بلوچ لکھتے ہیں، ''مکران پہ مسلسل چھٹے حملے کے بعد سیاسی بصیرت اور دانائی سے بھرے ہوئے نصیرخان نے پنجگور کے شہ عمر نامی شخص کو مکران کا سردار بنا دیا۔ اس طرح سردار پنجگور (جو کہ خان کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا تھا) مکران کا طاقتور سردار بن گیا۔'' گچکی یہاں کے آخری سردار تھے، جس کے بعد پھر اس علاقے میں سرداری کبھی سر نہ اٹھا سکی۔ بلکہ جدید عہد میں کیچ مکران کے لوگ اکثر اپنے علاقے کے تعارف اس فخر کے ساتھ کرواتے ہیں کہ بلوچستان کا واحد علاقہ ہے، جہاں سرداری نظام وجود نہیں رکھتا۔ لیکن یہ بھی تاریخ کا دلچسپ تضاد ہے کہ سرداروں کے سب سے زیادہ چاہنے والے بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور جدید عہد میں سرداری نظام کے حق میں سب سے زیادہ آوازیں بھی وہیں سے سنائی دیتی ہیں۔
تو اپنی مختلف و منفرد ڈیمو گرافی اور نایاب کھجور کے لیے معروف پنجگور کا حال یہ ہے کہ یہ مستقبل کا خضدار بننے کی جانب رواں ہے۔ آج سے کوئی ڈیڑھ، دو عشرہ قبل خضدار علمی و ثقافتی معاملے میں اس قدر مالامال تھا کہ بیلہ ،آواران اور مکران کے لوگ وہاں پڑھنے آیا کرتے تھے۔ یہ کوئٹہ کے بعد بلوچستان کا دوسرا بڑی شہری مرکز تھا، جہاں رات گئے تک ہوٹل کھلے ہوئے ملتے تھے، جہاں جوانوں کی ٹولیاں محفلیں سجاتی تھیں۔
پھر اسی خضدار میں آگ و خون کا وہ کھیل شروع ہوا، جس نے اس کے حسن کو گہنا کے رکھ دیا۔ ہاتھیوں کی لڑائی میں سبزہ کیا، پورا سبزہ زار ہی خاک میں مل گیا۔ خضدار کے پڑھے لکھے افراد، اساتذہ، صحافی، سماجی کارکن، ڈاکٹر، چن چن کر قتل کر دیے گئے۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں معمول بن کر رہ گئیں۔ ہفتے میں چار دن ہڑتال معمول کا حصہ ہو گئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج خضدار کی ستر فی صد سے زیادہ آبادی نقل مکانی کر چکی ہے۔ اور محض وہی لوگ نہیں نکل سکے، جنھیں اور کوئی چارہ نہ تھا۔
مکران میں پنجگور کو وہی مقام حاصل رہا جو اس ریجن میں خضدار کو تھا۔ آج کے پڑھے لکھے مکران میں پہلے نجی تعلیمی ادارے کی بنیاد پنجگور میں پڑی۔ پہلا انگلش لینگوئج سینٹر بھی پنجگور میں ہی کھلا۔ پہلی اینٹ پڑی، تو عمارتیں بنتے دیر نہ لگی۔ چونکہ سرداری، نوابی کا ٹنٹنا تھا نہیں، سو عوام نے ان اداروں کو خوب پذیرائی بخشی۔ محض ایک عشرے میں ان اداروں نے پنجگور کی تعلیمی اور سماجی تصویر بدل کر رکھ دی۔ عام آدمی کے بچے پڑھ لکھ گئے تو علم کی اہمیت کا راز کھلا۔ اور یہ راز ایک بار عام آدمی پہ کھل جائے تو پھر کوئی طاقت اسے آگے بڑھنے سے روک نہیں سکتی۔ اعلیٰ تعلیم کا شوق و ذوق بھی بڑھنے لگا۔ یہاں کے جوان تیزی سے کراچی اور کوئٹہ کے تعلیمی اداروں کی اَور بڑھنے اور وہاں سے اعلیٰ ڈگریاں لے کر اعلیٰ اداروں میں اعلیٰ عہدوں پہ فائز ہونے لگے۔ بعد ازاں کیچ بھی اسی راہ پہ چل نکلا۔
انسانوں کی سب سے بڑی دشمن جہالت ہے۔ ایک بار انسان اس پر قابو پا لے تو پھر ہر دشمن پہ قابو پانا سیکھ جاتا ہے۔ اس لیے اس کو مطیع رکھنے والی قوتیں ہمیشہ علم کو اس سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ بلوچوں کی سب سے بڑی دشمنی جہالت کے ساتھ ہے۔ وہ اس کے خلاف لڑنے لگتے ہیں تو انھیں مطیع بنائے رکھنے والی قوتیں راہ کی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی جب بھی تعلیمی ڈگر پہ آ جائے، اسے طلبہ سیاست کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ ڈگری کالج میں بلوچ طلبہ کی کھیپ ہزاروں کی صورت میں آنے لگی تو اسے کھنڈر بنا دیا گیا۔ بلوچوں نے کوئٹہ کے بعد خضدار کو تعلیمی مرکز بنایا تو خضدار کو مستقلاً آگ و خون کے دریا میں دھکیل دیا گیا۔ پھر یہ زمام کیچ نے سنبھالی تو تربت کی درگت بنا دی گئی۔ اب پنجگور کی باری ہے۔
پنجگور میں حال ہی میں نجی تعلیمی اداروں کو ایک نئے نام سے سامنے آنے والی بظاہر مذہبی شدت پسند تنظیم کی جانب سے مسلسل دھمکایا جا رہا ہے۔ ابتدائی طور پر بعض اسکولوں کو اس طرح کے پیغامات بھیجے گئے۔ پھر شہر کی دیواروں پہ نجی تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ بعدازاں اسی مطالبے (بلکہ دھمکی) پہ مبنی پمفلٹ ان اداروں میں بھیجا گیا۔ اور تازہ خبر یہ ہے کہ مسلح افراد نے ان اداروں میں گھس کر طلبہ اور اساتذہ کو تشدد کو نشانہ بنایا۔ اور اب اعلان کیا ہے کہ ان اداروں کے سربراہان کو نشانہ بنایا جائے گا۔
دلچسپ بات یہ کہ جس روز ایک تعلیمی ادارے پہ حملہ ہوا، اسی روز قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک اعلیٰ اہلکار کی گاڑی کو بھی نذرِ آتش کیا گیا، جس کی ذمے داری مبینہ طور پر مذکورہ تنظیم نے ہی قبول کی۔ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود اس واقعے پہ نہ تو حساس ادارے کا کوئی بیان سامنے آیا نہ ہی کوئی کارروائی ہوئی۔ تربت میں ہونے والے پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام نجی تعلیمی ادارے غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیے جائیں۔
نجی تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے والی شدت پسند تنظیم کا بظاہر اعتراض یہ ہے کہ ان اسکولوں میں مخلوط نظام تعلیم رائج ہے، جس سے شعارِ اسلام کی خلاف ورزی ہوتی ہے، نیز یہ کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی بجائے گھروں پہ رہ کر گھریلو امور سرنجام دینے چاہئیں۔ واضح رہے کہ مکران کے نہ صرف نجی بلکہ بعض سرکاری اداروں میں بھی مخلوط تعلیم ایک عرصے سے جاری ہے۔ بالخصوص ایسے علاقے جہاں اساتذہ کی کمی ہے، وہاں مقامی آبادی نے متفقہ طور پر بچوں اور بچیوں کو ایک ہی اسکول میں بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہیں تا کہ ان کی تعلیم کا حرج نہ ہو۔ چونکہ اکثر اسٹاف بھی مقامی ہے، اس لیے کبھی کوئی شکایت سننے میں نہیں آئی۔ اور اگر حقیقی مسئلہ مخلوط نظام تعلیم ہی ہے، تو پھر بلوچستان میں تو اس کے سب سے زیادہ اسکول صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں ہیں (جہاں طالبان شوریٰ کی موجودگی کی خبریں بھی ایک عرصے سے گرم ہیں۔)
افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود بلوچستان میں تعلیمی اصلاحات اور انقلاب کا دعویٰ کرنے والی صوبائی حکومت کی جانب سے اس ضمن میں کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ صوبائی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں اس کا تذکرہ ضرور چھڑا لیکن صوبائی وزرا نے محض احتجاج پہ ہی اکتفا کیا۔ سمجھ نہیں آتا کہ جب حکومتی وزرا خود کسی معاملے پہ احتجاج کریں تو آخر وہ کس سے احتجاج کررہے ہوتے ہیں۔ ایسے بے بس ایوان سے انصاف کی توقع اپنا ہی مضحکہ اڑانے کے مترادف ہو گی۔
پنجگور کے نام کی ایک وجہ تسمیہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ یہ اصل میں پنج، گور ہے۔ روایت ہے کہ یہاں پانچ صحابہ کرام کی قبریں واقع ہیں، اسی کی نسبت سے اس علاقے کا یہ نام پڑا۔ گو کہ آج تک ایسی کسی قبروں کا حتمی اور مستند سراغ نہیں مل سکا، لیکن موجودہ عہد میں اس علاقے کے ساتھ جو سلوک ہونے جا رہا ہے، اس کے بعد یہاں قبروں کا شمار ممکن نہ ہو گا۔ عین ممکن ہے پنج، گور کے بجائے اس کا نام 'گورستان' (قبرستان) ہی پڑ جائے۔ ایک ابھرتی ہوئی تہذیب کا قبرستان...ایک بے بس قوم کی امنگوں کا قبرستان...نئے عہد کے خوابوں کا قبرستان۔
مکران کی ڈیموگرافی میں پنجگور کو ایک الگ ہی مقام حاصل ہے۔ اس کے طبعی موسم سے لے کر افراد کے مزاج تک، سبھی کچھ کیچ سے الگ تھلگ ہے۔ تربت اور گودار کی نسبت یہاں پانی کی فراوانی کے باعث زمینداری وافر ہوتی ہے۔ سبزہ زیادہ ہے۔ سردیاں سخت ہوتی ہیں۔ بلوچستان کے تعلیمی شعبے میں بھی پنجگور سرمائی زون میں شامل ہے۔ معاشی خوش حالی نسبتاً زیادہ ہے۔ ماضی میں پنجگور ریاست مکران کا پایہ تخت بھی رہا ہے۔ بلوچوں کے خانِ اعظم میر نصیر خان نے یہاں کئی حملے کیے۔ جن کا جواز ذکریوں کا قلع قمع کرنا بتایا جاتا ہے۔
حال ہی میں نوری نصیر خان پہ مکمل کتاب تحریر کرنے والے فاروق بلوچ لکھتے ہیں، ''مکران پہ مسلسل چھٹے حملے کے بعد سیاسی بصیرت اور دانائی سے بھرے ہوئے نصیرخان نے پنجگور کے شہ عمر نامی شخص کو مکران کا سردار بنا دیا۔ اس طرح سردار پنجگور (جو کہ خان کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا تھا) مکران کا طاقتور سردار بن گیا۔'' گچکی یہاں کے آخری سردار تھے، جس کے بعد پھر اس علاقے میں سرداری کبھی سر نہ اٹھا سکی۔ بلکہ جدید عہد میں کیچ مکران کے لوگ اکثر اپنے علاقے کے تعارف اس فخر کے ساتھ کرواتے ہیں کہ بلوچستان کا واحد علاقہ ہے، جہاں سرداری نظام وجود نہیں رکھتا۔ لیکن یہ بھی تاریخ کا دلچسپ تضاد ہے کہ سرداروں کے سب سے زیادہ چاہنے والے بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور جدید عہد میں سرداری نظام کے حق میں سب سے زیادہ آوازیں بھی وہیں سے سنائی دیتی ہیں۔
تو اپنی مختلف و منفرد ڈیمو گرافی اور نایاب کھجور کے لیے معروف پنجگور کا حال یہ ہے کہ یہ مستقبل کا خضدار بننے کی جانب رواں ہے۔ آج سے کوئی ڈیڑھ، دو عشرہ قبل خضدار علمی و ثقافتی معاملے میں اس قدر مالامال تھا کہ بیلہ ،آواران اور مکران کے لوگ وہاں پڑھنے آیا کرتے تھے۔ یہ کوئٹہ کے بعد بلوچستان کا دوسرا بڑی شہری مرکز تھا، جہاں رات گئے تک ہوٹل کھلے ہوئے ملتے تھے، جہاں جوانوں کی ٹولیاں محفلیں سجاتی تھیں۔
پھر اسی خضدار میں آگ و خون کا وہ کھیل شروع ہوا، جس نے اس کے حسن کو گہنا کے رکھ دیا۔ ہاتھیوں کی لڑائی میں سبزہ کیا، پورا سبزہ زار ہی خاک میں مل گیا۔ خضدار کے پڑھے لکھے افراد، اساتذہ، صحافی، سماجی کارکن، ڈاکٹر، چن چن کر قتل کر دیے گئے۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں معمول بن کر رہ گئیں۔ ہفتے میں چار دن ہڑتال معمول کا حصہ ہو گئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج خضدار کی ستر فی صد سے زیادہ آبادی نقل مکانی کر چکی ہے۔ اور محض وہی لوگ نہیں نکل سکے، جنھیں اور کوئی چارہ نہ تھا۔
مکران میں پنجگور کو وہی مقام حاصل رہا جو اس ریجن میں خضدار کو تھا۔ آج کے پڑھے لکھے مکران میں پہلے نجی تعلیمی ادارے کی بنیاد پنجگور میں پڑی۔ پہلا انگلش لینگوئج سینٹر بھی پنجگور میں ہی کھلا۔ پہلی اینٹ پڑی، تو عمارتیں بنتے دیر نہ لگی۔ چونکہ سرداری، نوابی کا ٹنٹنا تھا نہیں، سو عوام نے ان اداروں کو خوب پذیرائی بخشی۔ محض ایک عشرے میں ان اداروں نے پنجگور کی تعلیمی اور سماجی تصویر بدل کر رکھ دی۔ عام آدمی کے بچے پڑھ لکھ گئے تو علم کی اہمیت کا راز کھلا۔ اور یہ راز ایک بار عام آدمی پہ کھل جائے تو پھر کوئی طاقت اسے آگے بڑھنے سے روک نہیں سکتی۔ اعلیٰ تعلیم کا شوق و ذوق بھی بڑھنے لگا۔ یہاں کے جوان تیزی سے کراچی اور کوئٹہ کے تعلیمی اداروں کی اَور بڑھنے اور وہاں سے اعلیٰ ڈگریاں لے کر اعلیٰ اداروں میں اعلیٰ عہدوں پہ فائز ہونے لگے۔ بعد ازاں کیچ بھی اسی راہ پہ چل نکلا۔
انسانوں کی سب سے بڑی دشمن جہالت ہے۔ ایک بار انسان اس پر قابو پا لے تو پھر ہر دشمن پہ قابو پانا سیکھ جاتا ہے۔ اس لیے اس کو مطیع رکھنے والی قوتیں ہمیشہ علم کو اس سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ بلوچوں کی سب سے بڑی دشمنی جہالت کے ساتھ ہے۔ وہ اس کے خلاف لڑنے لگتے ہیں تو انھیں مطیع بنائے رکھنے والی قوتیں راہ کی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی جب بھی تعلیمی ڈگر پہ آ جائے، اسے طلبہ سیاست کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ ڈگری کالج میں بلوچ طلبہ کی کھیپ ہزاروں کی صورت میں آنے لگی تو اسے کھنڈر بنا دیا گیا۔ بلوچوں نے کوئٹہ کے بعد خضدار کو تعلیمی مرکز بنایا تو خضدار کو مستقلاً آگ و خون کے دریا میں دھکیل دیا گیا۔ پھر یہ زمام کیچ نے سنبھالی تو تربت کی درگت بنا دی گئی۔ اب پنجگور کی باری ہے۔
پنجگور میں حال ہی میں نجی تعلیمی اداروں کو ایک نئے نام سے سامنے آنے والی بظاہر مذہبی شدت پسند تنظیم کی جانب سے مسلسل دھمکایا جا رہا ہے۔ ابتدائی طور پر بعض اسکولوں کو اس طرح کے پیغامات بھیجے گئے۔ پھر شہر کی دیواروں پہ نجی تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ بعدازاں اسی مطالبے (بلکہ دھمکی) پہ مبنی پمفلٹ ان اداروں میں بھیجا گیا۔ اور تازہ خبر یہ ہے کہ مسلح افراد نے ان اداروں میں گھس کر طلبہ اور اساتذہ کو تشدد کو نشانہ بنایا۔ اور اب اعلان کیا ہے کہ ان اداروں کے سربراہان کو نشانہ بنایا جائے گا۔
دلچسپ بات یہ کہ جس روز ایک تعلیمی ادارے پہ حملہ ہوا، اسی روز قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک اعلیٰ اہلکار کی گاڑی کو بھی نذرِ آتش کیا گیا، جس کی ذمے داری مبینہ طور پر مذکورہ تنظیم نے ہی قبول کی۔ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود اس واقعے پہ نہ تو حساس ادارے کا کوئی بیان سامنے آیا نہ ہی کوئی کارروائی ہوئی۔ تربت میں ہونے والے پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام نجی تعلیمی ادارے غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیے جائیں۔
نجی تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے والی شدت پسند تنظیم کا بظاہر اعتراض یہ ہے کہ ان اسکولوں میں مخلوط نظام تعلیم رائج ہے، جس سے شعارِ اسلام کی خلاف ورزی ہوتی ہے، نیز یہ کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی بجائے گھروں پہ رہ کر گھریلو امور سرنجام دینے چاہئیں۔ واضح رہے کہ مکران کے نہ صرف نجی بلکہ بعض سرکاری اداروں میں بھی مخلوط تعلیم ایک عرصے سے جاری ہے۔ بالخصوص ایسے علاقے جہاں اساتذہ کی کمی ہے، وہاں مقامی آبادی نے متفقہ طور پر بچوں اور بچیوں کو ایک ہی اسکول میں بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہیں تا کہ ان کی تعلیم کا حرج نہ ہو۔ چونکہ اکثر اسٹاف بھی مقامی ہے، اس لیے کبھی کوئی شکایت سننے میں نہیں آئی۔ اور اگر حقیقی مسئلہ مخلوط نظام تعلیم ہی ہے، تو پھر بلوچستان میں تو اس کے سب سے زیادہ اسکول صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں ہیں (جہاں طالبان شوریٰ کی موجودگی کی خبریں بھی ایک عرصے سے گرم ہیں۔)
افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود بلوچستان میں تعلیمی اصلاحات اور انقلاب کا دعویٰ کرنے والی صوبائی حکومت کی جانب سے اس ضمن میں کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ صوبائی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں اس کا تذکرہ ضرور چھڑا لیکن صوبائی وزرا نے محض احتجاج پہ ہی اکتفا کیا۔ سمجھ نہیں آتا کہ جب حکومتی وزرا خود کسی معاملے پہ احتجاج کریں تو آخر وہ کس سے احتجاج کررہے ہوتے ہیں۔ ایسے بے بس ایوان سے انصاف کی توقع اپنا ہی مضحکہ اڑانے کے مترادف ہو گی۔
پنجگور کے نام کی ایک وجہ تسمیہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ یہ اصل میں پنج، گور ہے۔ روایت ہے کہ یہاں پانچ صحابہ کرام کی قبریں واقع ہیں، اسی کی نسبت سے اس علاقے کا یہ نام پڑا۔ گو کہ آج تک ایسی کسی قبروں کا حتمی اور مستند سراغ نہیں مل سکا، لیکن موجودہ عہد میں اس علاقے کے ساتھ جو سلوک ہونے جا رہا ہے، اس کے بعد یہاں قبروں کا شمار ممکن نہ ہو گا۔ عین ممکن ہے پنج، گور کے بجائے اس کا نام 'گورستان' (قبرستان) ہی پڑ جائے۔ ایک ابھرتی ہوئی تہذیب کا قبرستان...ایک بے بس قوم کی امنگوں کا قبرستان...نئے عہد کے خوابوں کا قبرستان۔