ایک سے زائد قومی زبانیں ممکن ہیں…
آج کل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی دیگر پاکستانی زبانوں کو بھی قومی زبان کا درجہ دینے کے لیے سر جوڑے بیٹھی ہے ...
KARACHI:
ریاستوں کے امور آئین کے تابع ہوتے ہیں اور آئین ریاستوں کے مقاصد پر استوار۔۔۔ آئین میں ریاست کی بنیاد کو چھیڑنے کی اجازت نہیں ہوتی، کیوں کہ آئین سے پہلے ریاست وجود میں آتی ہے، جس کا کچھ پس منظر ہوتا ہے۔ پاکستان کا شمار باقاعدہ رائے شماری کے ذریعے وجود میں آنے والی ریاستوں میں ہوتا ہے۔ جب ریاست ایک ضابطے کے تحت وجود میں آئی، تو پھر اس کی بنیاد سے انحراف مناسب نہیں۔
بنیادی طور اس کے قیام میں مذہب کو دخل تھا۔ تاہم اب اس حوالے سے دو مختلف نظریات ہیں۔ پہلا گروہ مذہب کے دخل کو ریاست میں اسلامی نظام سے منسلک کرتا ہے، جب کہ دوسرا مکتبہ فکر اس کا مقصد مسلمانوں کی ایک غیر مذہبی ریاست قرار دیتا ہے۔ مذہب کے بعد دوسری اہم چیز زبان تھی۔ برصغیر میں مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کی تحریک کے دوران ہمیشہ دو ٹوک انداز میں اردو کو نئی ریاست کی زبان قرار دیا گیا۔ گویا زبان، مذہب کے ساتھ ریاستی نظریے کی دوسری بڑی بنیاد ہے۔
اگرچہ ریاست کی اس بنیاد سے اختلاف کرنے والوں کی بھی کمی نہیں، لیکن انھیں تحریک پاکستان سے کوئی ایسا حوالہ نہیں ملتا، جس سے وہ اردو کے سوا کسی دوسری زبان کو قومی زبان کے طور پر ثابت کر سکیں۔ البتہ وہ یہ کہتے ہیں کہ قائداعظم نے 1948 میں ڈھاکا میں اردو کو قومی زبان قرار دیا تو کچھ اسے بنگالیوں سے ان کی زبان چھیننے کے مترادف قرار دیا، جب کہ قائداعظم نے واضح طور پر صوبائی سطح پر بنگالی زبان اپنانے کے اختیار کا ذکر بھی کیا۔ اردو مسلمانان برصغیر کے علیحدہ وطن کے خواب کا ایک لازمی جزو ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے سب ہی متفق تھے کہ اس مملکت کی زبان اردو ہوگی۔ 1948 میں بھی قائداعظم نے تحریک پاکستان کے اسی موقف کو دُہرایا، نہ کہ کوئی نئی بات کی۔
اردو اور ہندی کے تنازع نے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں میں شدید تشویش کی لہر پیدا کی۔ یہی وجہ ہے کہ 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کے وقت سے ہی اردو کو مسلمانوں کے ثقافتی ورثے کی حیثیت سے اپنے منشور میں شامل کیے رکھا۔ 1946 میں پاک و ہند کی پہلی عبوری حکومت میں سردار عبدالرب نشتر وزیر ڈاک وتار بنائے گئے تو پہلی بار ریلوے کے نظام الاوقات، ٹکٹوں اور فارم پر اردوکو اختیار کیا گیا۔
1946 میں مسلم لیگ کے اجلاس میں فیروز خان نون نے انگریزی میں تقریر شروع کی تو ہر طرف سے ''اردو۔۔۔ اردو'' کی آوازیں آئیں۔ جس پر انھوں نے چند جملے اردو میں کہے اور پھر انگریزی میں شروع ہو گئے، مجمعے سے پھر اردو اردو کا مطالبہ ہوا، تو انھوں نے کہا کہ ''مسٹر جناح بھی تو انگریزی میں تقریر کرتے ہیں۔'' یہ سننا تھا کہ قائداعظم کھڑے ہوئے اور فرمایا ''فیروز خان نون نے میرے پیچھے پناہ لی ہے، لہٰذا میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی زبان اردو ہو گی۔ ''
قیام پاکستان کے فقط چھ ماہ بعد فروری 1948 میں مرکزی اسمبلی میں رکن اسمبلی دھرمیندر ناتھ دت نے اردو کے ساتھ بنگالی کو قومی زبان بنانے کی تجویز پیش کی، جس سے پہلی بار قومی زبان پر اختلاف ہوا۔ اس ضمن میں شیر بنگال مولوی فضل الحق کا بیان دل چسپی سے خالی نہیں، جو انھوں نے 1939 میں متحدہ بنگال کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے دیا کہ''اردو زبان کی اہمیت بیان کیے جانے کی محتاج نہیں۔ میں اردو کو کم سے کم بنگال کے لیے لازمی مضمون بنانے کا عزم صمیم کر چکا ہوں، لیکن جذباتی ہندوئوں کی اجارہ دار ٹولی نہیں چاہتی کہ مسلمانوں کی یہ خواہش پوری ہو۔''
پاکستان کے قیام کے ذریعے مسلمانان برصغیر نے ایک ایسی ریاست کی جدوجہد کی، جس کی زبان اردو تھی۔ 1945 کے انتخابات میں حاصل مسلمانوں کی30 نشستوں پر مسلم لیگ کی فتح اس کا واضح مظہر تھی۔
پاکستان بنانے والی ان30 نشستوں میں سے 17 نشستیں (56 فی صد) ان علاقوں کی تھیں، جو کبھی پاکستان میں شامل ہی نہ ہو سکے۔ یہ نشستیں بہار، مدراس، یوپی، سی پی، بمبئی اور دلی وغیرہ کی تھیں۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان بھی ایسی ہی نشستوں سے منتخب ہوئے، جب کہ باقی 13 نشستوں میں سے چھ، چھ نشستیں بنگال اور پنجاب کی، جب کہ ایک نشست سندھ کی تھی۔
اس لیے آج ریاست پر ان لوگوں کی جدوجہد کے مقصد کو پورا کرنے کی بھی ذمے داری عاید ہوتی ہے، جو کبھی اس ریاست کا حصہ نہ بن سکے، لیکن ان کی جدوجہد کی وجہ سے اس ریاست کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔
آئین کی دفعہ 251 کے تحت اردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان کا درجہ تو حاصل ہے، لیکن اسے آئین میں دی گئی مقررہ مدت (1988ء تک )میں نافذ نہیں کیا جا سکا، الٹا کچھ ناعاقبت اندیش اسے قومی زبان کے رتبے سے پیچھے دھکیلنے کے درپے ہیں۔ لوگوں کو جوڑنے والی اردو کو لوگوں میں دوریاں پیدا کرنے کا سبب قرار دیا جا رہا ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ بھی اردو کے سر ڈال دیا جاتا ہے، جب کہ اگر زبان مسئلہ ہوتی تو پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا کیوں کہ ہم نے تو 1956 اور 1962 کے دساتیر میںاردو کے ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان تسلیم کر لیا تھا۔
آج کل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی دیگر پاکستانی زبانوں کو بھی قومی زبان کا درجہ دینے کے لیے سر جوڑے بیٹھی ہے اور انتہائی غیر مناسب طور پر اردو کو بھی دیگر زبانوں کی طرح لوگوں کی ایک مادری زبان قرار دیا گیا ہے۔ ماہرین لسانیات کا ماننا ہے کہ آج گھر وں میں اردو بولنے والوں میں بہت کم لوگوں کا پس منظر اردو کا ہے۔ اردو کے ساتھ ان کا ناتا فقط چند نسلوں پرانا ہے۔
اس کے علاوہ اردو ہی وہ زبان ہے جسے تقریباً ہر فرد ہی اپنی مادری زبان کے بعد سب سے زیادہ بہتر طریقے سے بول، سمجھ اور لکھ سکتا ہے، لہٰذا اردو کو محض مادری زبان قرار دے کر محدود کرنا نرم سے نرم الفاظ میں نا عاقبت اندیشی کے سوا کچھ نہیں۔ایک سے زائد قومی زبانوں کے لیے ہندوستان اور امریکا کی مثال دی جارہی ہے، لیکن یہاں اردو کو ریاست کی بنیاد کی حیثیت حاصل ہے، اس لیے کسی بھی دوسرے ملک کی مثال کا اطلاق یہاں کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اگر اردو کی قومی حیثیت کو تبدیل کیا جاتا ہے، تو مولانا ابوالکلام آزاد اور ان جیسے دیگر تقسیم مخالف رہنمائوں کے مزید خدشات درست ثابت ہو جائیں گے، کیوں کہ پاکستان بننے کے بعد ہندوستان میں اردو کو شدید نقصان پہنچا۔
ادھر بنگلہ دیش بننے کے بعد وہاں سے بھی پاکستان دشمنی میں اردو کو دیس نکالا مل گیا اور اب بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک بار پھر قومی زبان اردو کو اس کے تاریخی اور آئینی مقام سے بے دخل کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں، جو نہایت تشویش ناک امر ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اگر وہ ایک قومی زبان سے انحراف کرنا چاہتی ہے، تو پھر علی الاعلان ریاستی سطح پر پاکستانیت کا پرچار بھی ترک کر دے، تاکہ واضح ہو جائے کہ ریاستی اساس اب وہ نہیں رہی، بس فریب نظر تھا جس کا پس منظر 1947 کی تحریک میں ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے۔