روس یوکرین تنازعہ

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ چھڑنے سے مشرق وسطیٰ میں امریکا کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ چھڑنے سے مشرق وسطیٰ میں امریکا کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ فوٹو: فائل

روس اور یوکرین کے درمیان جنگ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ سے پہلے شروع ہوئی تھی ۔یہ دونوں جنگیں عالمی امن کے لیے تاحال خطرہ بنی ہوئی ہیں' امن کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت بھی متاثر ہو رہی ہے۔

روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کو ایک برس سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے' عالمی میڈیا کی اطلاع کے مطابق گزشتہ روز بھی روسی فوج نے یوکرین کے دارالحکومت کیف پر28 ڈرون حملے کیے ہیں 'ان حملوں میںبھاری نقصانات ہوئے ہیں۔ یوکرینی فوج نے چوبیس ڈرونز کو فضاء میں ہی تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

ان اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ روسی ڈرونز جھنڈ کی شکل میںآئے اور اپنے ٹارگٹس کو نشانہ بناتے رہے۔ یوکرینی حکام کے مطابق دسمبر کے مہینے میں دارالحکومت کیف پر اس طرح کا یہ چھٹا روسی حملہ تھا۔

ادھریہ اطلاعات بھی ہیں کہ یوکرین نے بھی روسی فوجوں کے خلاف ڈرون حملے کیے ہیں۔عالمی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق روس نے بھی یوکرین کے 10 ڈرونز حملے ناکام بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔

امریکا کے ترجمان برائے قومی سلامتی کونسل جان کِربی نے کہا ہے کہ امریکا رواں سال یوکرین کو فنڈنگ ختم ہونے سے پہلے صرف ایک اور امدادی پیکیج فراہم کرے گا۔ نیدرلینڈز نے یوکرین کو 18 ایف 16 جنگی طیارے دینے کا اعلان کیا ہے۔یوکرین کو امریکا 'برطانیہ اور یورپی یونین مسلسل امداد فراہم کر رہے ہیں'یہی وجہ ہے کہ یوکرین اب تک روس کے سامنے ڈٹا ہوا ہے۔ روس اور یو کرین کے درمیان تنازعہ جنگ سے پہلے شروع تھا۔

یو کرین کے صدر نیٹو کا رکن بننا چاہتے تھے جب کہ روس اس کے خلاف تھا۔ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن اور ان کے قریبی ساتھیوں کا موقف تھا کہ یو کرین نیٹو اتحاد کا رکن بنتا ہے تو اس کا مطلب ہو گا کہ امریکا اور نیٹو روس کی سرحدوں تک پہنچ گئے ہیں' اس تنازع میں امریکا' برطانیہ اور یورپی یونین یو کرین کے موقف کے ساتھ کھڑے ہو گئے' یوں روس اور یو کرین کے درمیان تناؤ اور کشیدگی میں ضافہ ہونے لگا۔

روسی حکومت کو لگ رہا ہے کہ امریکا ' برطانیہ اور نیٹو روس کو محدود کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ مشرقی یورپ کے کئی ممالک یورپی یونین میں شامل ہو کر نیٹو اتحاد کے قریب جا چکے ہیں۔ سکینڈے نیویا کے ممالک ایک غیر جانبدار پوزیشن میں ضرور ہیں لیکن سسٹم اور اسٹرٹیجک ترجیحات کے لحاظ سے وہ امریکا اورنیٹو کے قریب ہیں۔

رومانیہ 'ہنگری اور پولینڈ جیسے ممالک بھی نیٹو اور امریکا کے قریب ہو رہے ہیں' ان وجوہات کی بنا پر روسی قیادت کے خدشات اتنے غلط بھی نہیں' روس نے انھی خدشات کو مدنظر رکھ کر یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ روسی قیادت کو یقین تھا کہ وہ دو تین روز میں یوکرینی حکومت کا خاتمہ کر کے وہاں اپنی حمایتی حکومت قائم کر دیں گے۔ لیکن ان کے اندازے غلط ثابت ہو گئے ہیں۔

روس اور یو کرین کے درمیان جنگ طویل ہو گئی ہے' یوکرین کو تو امریکا 'برطانیہ اور یورپی یونین امداد دے رہے ہیں ' جاپان' آسٹریلیا' کینیڈا اور جنوبی کوریا بھی یو کرین کو مالی مدد فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس روس اس جنگ میں اپنے وسائل استعمال کر رہا ہے' تاتارستان 'بیلوروس اور قازقستان روس کے ساتھ ہیں تاہم ان کی معیشت زیادہ مضبوط نہیں ہے' اس لیے یوکرین جنگ روسی معیشت کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے۔

عوامی جمہوریہ چین اس جنگ میں محتاط پالیسی کے تحت چل رہا ہے ' چین روسی حکومت کے موقف کی بھی تائید کرتا ہے جب کہ یوکرین کو بھی ایک ہمدرد کا تاثر دینے کی کوشش کرتا' چینی قیادت نے امریکا اور سابق سوویت یونین کے درمیان جاری سرد جنگ میں بڑی حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے'خود کو سرد جنگ کے اثرات سے بچا کر رکھا۔


اس دوران چینی قیادت نے اپنا سارا فوکس معاشی اور سائنسی ترقی پر رکھا جب کہ خارجہ پالیسی پر پوری توجہ مرکز رکھی' چینی قیادت نے افغانستان میں لڑی جانے والی سرد جنگ کے دوران امریکا اور مغرب کے ساتھ بہتر تعلقات رکھے' جس کے نتیجے میں چین کے لیے امریکا اور یورپ کی اقتصادی مارکیٹ کو کھول دیا گیا' یوں چین میںصنعتی اور کاروباری گرم بازاری کا دور شروع ہوا ہے جو اب تک جاری ہے۔

عالمی میڈیا کی اطلاع کے مطابق گزشتہ دنوں امریکی اور چینی اعلیٰ فوجی حکام کے درمیان ایک سال میں پہلی گفتگو ہوئی ہے۔میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ اس بات چیت سے دونوںملکوں افواج کے درمیان وسیع تر تعلقات بحال ہونے کی امید ہے۔ امریکی فوجی سربراہ نے اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ گفتگو میں' غلط تجزیہ سے بچنے کے لیے بات چیت کی ضرورت پر زور دیاہے۔

امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے چیئرمین چارلس کیو براؤن نے پیپلز لبریشن آرمی کے جنرل لیو ڑینلی کے درمیان وڈیو ٹیلی کانفرنس کے ذریعے جمعرات کو ہونے والی یہ گفتگو ایک سال سے زیادہ عرصے میں پہلی بات چیت تھی۔ اگست 2022 میں اس وقت کی امریکی ایوان نمایندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے خود مختار تائیوان کے دورے کے بعد بیجنگ نے اس طرح کے اعلیٰ سطحی مذاکرات روک دیے تھے۔

تاہم گزشتہ ماہ امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ کے درمیان معاہدے کے بعد دونوں ممالک بالآخر یہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر رضامند ہو گئے تھے۔ اس بات چیت سے دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان وسیع تر تعلقات بحال ہونے کی امید ہے۔

براؤن کے دفتر کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، امریکی فضائیہ کے جنرل چارلس کیو براؤن اور چین کی پیپلز لبریشن آرمی(پی ایل اے) کے جنرل لیو ڑینلی نے وڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ اپنی گفتگو کے دوران ''عالمی اور علاقائی سلامتی کے حوالے سے متعدد مسائل'' پر بات کی۔ لیو سینٹرل ملٹری کمیشن (سی ایم سی) کے جوائنٹ اسٹاف ڈپارٹمنٹ کے سربراہ بھی ہیں۔ جس پر چین کی جنگی کارروائیوں اور منصوبہ بندی کی ذمے داری ہے۔

امریکی ترجمان کیپٹن جیریل ڈورسی نے ایک بیان میں کہا کہ براؤن نے ''مسابقت کا ذمے داری سے انتظام کرنے، غلط اندازوں سے بچنے اور بات چیت کے لیے کھلی اور براہ راست لائنوں کو برقراررکھنے کے لیے مل کر کام کرنے کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا۔

امریکا کو اس وقت چین کے تعاون کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ چھڑنے سے مشرق وسطیٰ میں امریکا کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ مشرق وسطیٰ کے اس تنازع میں روس اور ایران کھل کر حماس کے ساتھ ہیں' عرب اور دیگر مسلم ممالک بھی اس لڑائی میں اسرائیل اور امریکا کے موقف کے ساتھ نہیں ہیں جب کہ یورپی یونین بھی تقسیم ہے' اس لیے امریکا اسرائیل اور حماس تنازع میں دباؤ میں ہے۔

اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے امریکا اور برطانیہ کی کوشش ہے کہ کسی طرح چین کو اس معاملے میں غیر جانبدار رکھا جائے ' چین کی قیادت میں بڑے عالمی تنازعات میں غیر جانبدار رہ کر اپنے لیے مواقع پیدا کیے ہیں'سرد جنگ میں جب دنیا کی دو عالمی سپر طاقتیں ایک دوسر ے سے دست و گریباں تھیں' اس عرصے میں چینی قیادت نے عالمی صف بندی سے دو ررہ کر اقتصادی مواقع کو تلاش کیا اور خاموشی کے ساتھ عالمی تجارت میں اپنی جگہ بنانے میں لگی رہی 'یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ جنگ فریقین کی معیشت کو برباد کرتی ہے' اس کے ساتھ ساتھ معاشرت اور سیاست بھی خراب ہوتی ہے ' سرد جنگ میں دو ملک ایسے تھے' جن کے درمیان مقابلہ تھا ' ان میں ایک ہندوستان تھا جب کہ دوسرا چین تھا۔

لیکن ہندوستان سرد جنگ میں سو فیصد غیر جانبداری کا مظاہرہ نہیں کر سکا اور نہ ہی اپنے معاشی ماڈل کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوا ' اس عرصے کے دوران چین نے نہ صرف خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں کیں بلکہ اپنے معاشی ماڈل میں بھی تبدیلیاں کیں ' یوں چین امریکا اور یورپ کی سرمایہ دار معیشت کے قریب ہونے میں کامیاب ہوا۔

چین نے کاروبار دوست پالیسیاں بنائیں 'نتیجتاً سرد جنگ کے بھاری اخراجات کی تاب نہ لاتے ہوئے سوویت یونین کی معیشت تحلیل ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی سوویت یونین بھی تحلیل ہو گیا ۔اس خلا کو چین نے با آسانی پر کر لیا جب کہ بھارت دیکھتا رہ گیا۔

اب روس کی بھی کوشش ہے کہ وہ جلد از جلد یوکرین کے تنازعہ سے اپنی جان چھڑا 'روسی قیادت کے رویے میں بھی تبدیلی آ رہی ہے اور وہ ایسے بیانات دے رہے ہیں جس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکا اور یورپ اس کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھولیں تاکہ روس یوکرین کے تنازعہ سے ایسے نکلے کہ اس کے وقار میں بھی کمی نہ آئے۔
Load Next Story