’’سائفر ‘‘ کی موشگافیاں
بانی تحریک انصاف اور ان کی سوشل میڈیا ٹیم ’’سائفر بیانیے اور سازش‘‘ کو مسلسل عوام کے سامنے رکھتی رہی
یہ ہماری سیاسی تاریخ کی وہ بد قسمتی ہے جو اب تک عوام کی جمہوری ،سیاسی اور معاشی آزادی میں تبدیل نہیں ہوئی،جو ایک ایسا جان لیوا المیہ بن چکی ہے جس کے نتیجے میں سماج اجتماعی طور پر شکست و ریخت کا ایسا نشان بن چکا ہے جس پر جمہوری سوچ کے سر ہی جھکے رہتے ہیں،اب عوام کی جمہوری آزادی کے یہ سر اور کتنی قربانیاں چاہتے ہیں۔
اس تمام سے بے خبر ہم یا ہماری ریاست اب تک اپنی سمت متعین نہیں کر پائے ہیں ،جو کسی بھی طرح نئی نسل کے سیاسی شعور کے لیے نیک شگون نہیں ہیں،موجودہ سیاسی منظر نامے میں جہاں انتخابات کی ہا ہا کار اور تیاریاں جاری و ساری ہیں وہیں سیاسی منظر نامے میں موجودہ سپریم کورٹ کے فیصلے بھی انصاف کے نئے پیمانے طے کر رہے ہیں۔
پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں 2018کے انتخابات کے نتائج پر آج تک نہ صرف انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں بلکہ RTS SYSTEM کے بیٹھ جانے پر بھی اٹھنے والے سوالات کا جواب ہنوز نہیں دیا جا رہا ہے۔
یہ بات ہم سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ ہم اپنی ماضی کی تلخ حقیقتوں کے اظہار اور ان کے اعترافات کو جب تک نہیں مانیں گے تو اس وقت تک جمہوریت، سیاست اور معیشت کی درست سمت کرنے کے تمام دعوے محض صرف کھوکھلے ہونگے، جس سے منتشر ذہن کی ایک ایسی بے سمت و بے راہ رو نسل جنم لے گی جو آخر کار سیاسی،تہذیب اور سیاسی برداشت کے تمام تقاضوں کو جلا کر راکھ کر دیگی اس سلسلے میں ہم کتنے سنجیدہ ہیں یہ آج کی سیاسی ہلچل سے سمجھنا بہت آسان ہے۔
ہمارے ملک کی سیاست میں پہلی مرتبہ عوام اس بات سے واقف ہوئے کہ دوسرے ممالک میں متعین سفیر روزانہ کی بنیاد پر اپنے ملک کو صورتحال سے''سائفر'' نامی مراسلے کے ذریعے نہ صرف آگاہ کرتے ہیں بلکہ اس ملک کی سیاسی صورتحال کے نتیجے میں اپنے تاثرات اپنے ملک کی وزارت خارجہ کو روانہ کرتے ہیں ،جن کی روشنی میں وزارت خارجہ عالمی تعلقات کے امور اور سمت کو متعین کرتی ہے یا اپنے خارجہ امور کی گائیڈ لائن تیار کرتی ہے، اور کہ ملکی سلامتی اور ''سائفر'' کی حساسیت کے پیش نظر یہ معلومات عوام تک نہیں پہنچائی جاتیں تاکہ راز میں رکھنے والی چیزیں عوام میں کسی بھی قسم کا ہیجان بپا کرنے کا سبب بنیں،اس ''سائفر ''دستاویزات کے لیے ملکی سطح پر ایک ''کوڈ'' اور وہ زبان لکھی جاتی ہے جس کی رپورٹنگ متعلقہ وزارت کے وہی حکام پڑھ یا سمجھ سکیں جو اس سے متعلقہ ہوں۔
''سائفر کی اس اہمیت کے پیش نظر حکومتی امور چلانے والے اہم ذمے داران کی یہ آئینی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اس دستاویز کو دیکھ کر اس کا کوئی بھی حصہ عوام میں نہ لائیں تاکہ دیگر ممالک سے تعلقات کی ہم آہنگی متاثر نہ ہو اور ملکی خارجہ امور کی پالیسی بنانے میں دقت یا مشکل نہ کھڑی ہو سکے۔
یہ بھی ہماری سیاسی تاریخ میں عجب طور چل نکلا ہے کہ بانی تحریک انصاف و دیگر سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کی آڑ میں ایسے گمراہ کن پروپیگنڈے کی مشین بنا دی گئی ہیں جن سے ''صحافت کی آزادی'' اور اس کی سمت کو درست رکھنے کی تمام کوششیں غیر موثر ثابت ہو رہی ہیں،یہ سوشل میڈیا کے گمراہ کن پروپیگنڈے میں سب سے اول جماعت پاکستان تحریک انصاف رہی ہے، جس کو سوشل میڈیا کے استعمال کے وہ تمام گر سکھائے گئے، جو کسی بھی منفی پروپیگنڈے کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کو منفی چلانے کے رجحان نے اس وقت شدت اختیار کر لی جب بانی تحریک انصاف کی حکومت کو ایک ''آئینی تحریک اعتماد'' کے نتیجے میں اقتدار سے محروم کیا گیا،گو کہ آئینی اور قانونی طور سے تحریک انصاف اور اس کی قیادت کو ''تحریک عدم اعتماد'' کا سیاسی اور آئینی طور سے دفاع کرنا چاہیے تھا۔
مگر تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم بانی تحریک انصاف تحریک عدم اعتماد کا سیاسی جواب دینے کے بجائے منفی اور پر تشدد بیانیے کا سہارا لیتے ہوئے نظر آئے اور بانی تحریک انصاف نے اقتدار سے فراغت کے بعد اپنے جلسوں اور جلوسوں میں ''سائفر نامی'' دستاویز کو عوام کے سامنے ان کی حکومت کے خلاف ایک سازش کے طور پر پیش کیا،جو کہ بانی تحریک انصاف کے حلف وفاداری کی نہ صرف ضد تھا بلکہ ملکی سلامتی کے لیے بھی ایک خطرناک انداز تھا۔
مگر بانی تحریک انصاف اور ان کی سوشل میڈیا ٹیم ''سائفر بیانیے اور سازش'' کو مسلسل عوام کے سامنے رکھتی رہی بلکہ اسی سائفر بیانیے کی مدد سے ریاست کے خلاف بانی تحریک انصاف کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کرتی رہی،جس کا مشہور و معروف نعرہ''ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان'' نے عوام میں پذیرائی حاصل کی اور یوں منفی پروپیگنڈے کے ذریعے بانی تحریک انصاف کو عوام کا نجات دہندہ بنایا گیا،اب عوام کس قدر اس ''سائفر بیانیے'' کی صداقت پر یقین رکھتی ہے یہ تو انتخابات کے نتائج میں طے ہو جائے گا۔
مگر ریاست کی جانب سے ملکی راز افشا کرنے یا اہم خفیہ دستاویز کے مندرجات عوام کے سامنے رکھنے کی پاداش میں سائفر کیس میں بانی تحریک انصاف اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف مقدمہ درج کیا اورملکی راز کو منظر عام پر لانے کے جرم میں ''سائفر کیس'' کی حساسیت کے پیش نظر اس کا ٹرائل جیل میں رکھا،دوسری جانب تحریک انصاف نے ''سائفر کیس'' میں بانی تحریک انصاف کی ضمانت کے لیے مختلف عدالتوں سے رجوع کیا مگر بانی تحریک انصاف اور شاہ محمود کی ضمانت نہ ہو سکی۔
''سائفر کیس'' میں مطلوب ملزمان بانی تحریک انصاف اور شاہ محمود قریشی کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے بانی تحریک انصاف اور شاہ محمود کی ضمانتیں منظور کر لیں ،آخری اطلاعات تک مچلکے جمع کروانے کے باوجود دونوں رہنما رہا نہیں ہو پائے ہیں،بانی تحریک انصاف اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی ضمانت سنجیدہ قانون دان اور سیاسی تجزیہ کاروں میں موضوع بنی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی بانی تحریک انصاف معصوم ہیں؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں قانون دان، کورٹ رپورٹر اور تجزیہ کار اپنی اپنی رائے رکھتے ہیں۔
اس تمام سے بے خبر ہم یا ہماری ریاست اب تک اپنی سمت متعین نہیں کر پائے ہیں ،جو کسی بھی طرح نئی نسل کے سیاسی شعور کے لیے نیک شگون نہیں ہیں،موجودہ سیاسی منظر نامے میں جہاں انتخابات کی ہا ہا کار اور تیاریاں جاری و ساری ہیں وہیں سیاسی منظر نامے میں موجودہ سپریم کورٹ کے فیصلے بھی انصاف کے نئے پیمانے طے کر رہے ہیں۔
پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں 2018کے انتخابات کے نتائج پر آج تک نہ صرف انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں بلکہ RTS SYSTEM کے بیٹھ جانے پر بھی اٹھنے والے سوالات کا جواب ہنوز نہیں دیا جا رہا ہے۔
یہ بات ہم سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ ہم اپنی ماضی کی تلخ حقیقتوں کے اظہار اور ان کے اعترافات کو جب تک نہیں مانیں گے تو اس وقت تک جمہوریت، سیاست اور معیشت کی درست سمت کرنے کے تمام دعوے محض صرف کھوکھلے ہونگے، جس سے منتشر ذہن کی ایک ایسی بے سمت و بے راہ رو نسل جنم لے گی جو آخر کار سیاسی،تہذیب اور سیاسی برداشت کے تمام تقاضوں کو جلا کر راکھ کر دیگی اس سلسلے میں ہم کتنے سنجیدہ ہیں یہ آج کی سیاسی ہلچل سے سمجھنا بہت آسان ہے۔
ہمارے ملک کی سیاست میں پہلی مرتبہ عوام اس بات سے واقف ہوئے کہ دوسرے ممالک میں متعین سفیر روزانہ کی بنیاد پر اپنے ملک کو صورتحال سے''سائفر'' نامی مراسلے کے ذریعے نہ صرف آگاہ کرتے ہیں بلکہ اس ملک کی سیاسی صورتحال کے نتیجے میں اپنے تاثرات اپنے ملک کی وزارت خارجہ کو روانہ کرتے ہیں ،جن کی روشنی میں وزارت خارجہ عالمی تعلقات کے امور اور سمت کو متعین کرتی ہے یا اپنے خارجہ امور کی گائیڈ لائن تیار کرتی ہے، اور کہ ملکی سلامتی اور ''سائفر'' کی حساسیت کے پیش نظر یہ معلومات عوام تک نہیں پہنچائی جاتیں تاکہ راز میں رکھنے والی چیزیں عوام میں کسی بھی قسم کا ہیجان بپا کرنے کا سبب بنیں،اس ''سائفر ''دستاویزات کے لیے ملکی سطح پر ایک ''کوڈ'' اور وہ زبان لکھی جاتی ہے جس کی رپورٹنگ متعلقہ وزارت کے وہی حکام پڑھ یا سمجھ سکیں جو اس سے متعلقہ ہوں۔
''سائفر کی اس اہمیت کے پیش نظر حکومتی امور چلانے والے اہم ذمے داران کی یہ آئینی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اس دستاویز کو دیکھ کر اس کا کوئی بھی حصہ عوام میں نہ لائیں تاکہ دیگر ممالک سے تعلقات کی ہم آہنگی متاثر نہ ہو اور ملکی خارجہ امور کی پالیسی بنانے میں دقت یا مشکل نہ کھڑی ہو سکے۔
یہ بھی ہماری سیاسی تاریخ میں عجب طور چل نکلا ہے کہ بانی تحریک انصاف و دیگر سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کی آڑ میں ایسے گمراہ کن پروپیگنڈے کی مشین بنا دی گئی ہیں جن سے ''صحافت کی آزادی'' اور اس کی سمت کو درست رکھنے کی تمام کوششیں غیر موثر ثابت ہو رہی ہیں،یہ سوشل میڈیا کے گمراہ کن پروپیگنڈے میں سب سے اول جماعت پاکستان تحریک انصاف رہی ہے، جس کو سوشل میڈیا کے استعمال کے وہ تمام گر سکھائے گئے، جو کسی بھی منفی پروپیگنڈے کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کو منفی چلانے کے رجحان نے اس وقت شدت اختیار کر لی جب بانی تحریک انصاف کی حکومت کو ایک ''آئینی تحریک اعتماد'' کے نتیجے میں اقتدار سے محروم کیا گیا،گو کہ آئینی اور قانونی طور سے تحریک انصاف اور اس کی قیادت کو ''تحریک عدم اعتماد'' کا سیاسی اور آئینی طور سے دفاع کرنا چاہیے تھا۔
مگر تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم بانی تحریک انصاف تحریک عدم اعتماد کا سیاسی جواب دینے کے بجائے منفی اور پر تشدد بیانیے کا سہارا لیتے ہوئے نظر آئے اور بانی تحریک انصاف نے اقتدار سے فراغت کے بعد اپنے جلسوں اور جلوسوں میں ''سائفر نامی'' دستاویز کو عوام کے سامنے ان کی حکومت کے خلاف ایک سازش کے طور پر پیش کیا،جو کہ بانی تحریک انصاف کے حلف وفاداری کی نہ صرف ضد تھا بلکہ ملکی سلامتی کے لیے بھی ایک خطرناک انداز تھا۔
مگر بانی تحریک انصاف اور ان کی سوشل میڈیا ٹیم ''سائفر بیانیے اور سازش'' کو مسلسل عوام کے سامنے رکھتی رہی بلکہ اسی سائفر بیانیے کی مدد سے ریاست کے خلاف بانی تحریک انصاف کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کرتی رہی،جس کا مشہور و معروف نعرہ''ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان'' نے عوام میں پذیرائی حاصل کی اور یوں منفی پروپیگنڈے کے ذریعے بانی تحریک انصاف کو عوام کا نجات دہندہ بنایا گیا،اب عوام کس قدر اس ''سائفر بیانیے'' کی صداقت پر یقین رکھتی ہے یہ تو انتخابات کے نتائج میں طے ہو جائے گا۔
مگر ریاست کی جانب سے ملکی راز افشا کرنے یا اہم خفیہ دستاویز کے مندرجات عوام کے سامنے رکھنے کی پاداش میں سائفر کیس میں بانی تحریک انصاف اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف مقدمہ درج کیا اورملکی راز کو منظر عام پر لانے کے جرم میں ''سائفر کیس'' کی حساسیت کے پیش نظر اس کا ٹرائل جیل میں رکھا،دوسری جانب تحریک انصاف نے ''سائفر کیس'' میں بانی تحریک انصاف کی ضمانت کے لیے مختلف عدالتوں سے رجوع کیا مگر بانی تحریک انصاف اور شاہ محمود کی ضمانت نہ ہو سکی۔
''سائفر کیس'' میں مطلوب ملزمان بانی تحریک انصاف اور شاہ محمود قریشی کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے بانی تحریک انصاف اور شاہ محمود کی ضمانتیں منظور کر لیں ،آخری اطلاعات تک مچلکے جمع کروانے کے باوجود دونوں رہنما رہا نہیں ہو پائے ہیں،بانی تحریک انصاف اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی ضمانت سنجیدہ قانون دان اور سیاسی تجزیہ کاروں میں موضوع بنی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی بانی تحریک انصاف معصوم ہیں؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں قانون دان، کورٹ رپورٹر اور تجزیہ کار اپنی اپنی رائے رکھتے ہیں۔