پاکستان کا ’پانچواں رنگ‘…
ہمیں ساری تمہید پاکستان کی ’پانچویں قوم‘ سے متعلق باندھنی پڑی
کیا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ کسی چیز کی بنیاد کو چھوڑ کر صرف اس کی سطح کی بات کرتے رہیں اور اس پر اصرار بھی کریں؟ یا یہ کہیں کہ گنتی ایک، دو کے بہ جائے، تین، چار سے شروع ہوگی، یا وہاں سے شروع ہوگی، جہاں سے آپ چاہیں گے؟
یا پھر یہ کہ ہم تاریخ کی تو بات کریں لیکن اس کے صرف من چاہے اور مخصوص حقائق ہی پیش کریں اور دانستہ طور پر کچھ سچائیوں سے گریزاں رہیں؟ یقینا نہیں، لیکن ہمارا مشاہدہ ہے کہ اس ملک کے ساتھ اکثر ایسا رویہ اپنایا جاتا ہے اور اس ملک کے قیام اور اس کے لیے کی جانیوالی جدوجہد کے 'پسندیدہ حقائق' کا تو خوب پرچار کیا جاتا ہے، لیکن جو حقائق مَن پر گراں گزریں، ان سے کترا کر گزر جایا جاتا ہے۔
ہمیں ساری تمہید پاکستان کی 'پانچویں قوم' سے متعلق باندھنی پڑی۔ وہ قوم، جس کی سب سے واضح اور پہلی پہچان یہی وطن عزیز 'پاکستان' بنا۔ بقول قتیل شفائی:
ایک یہی پہچان تھی اپنی اس پہچان سے پہلے بھی
پاکستان کا شہری تھا میں پاکستان سے پہلے بھی!
یہی وہ لوگ ہیں، جن کے آبا و اجداد اس ملک کے لیے اتنے جذباتی ہوئے تھے کہ مسلمان کے بعد اگر ان کے لیے اور کوئی شناخت تھی، تو فقط پاکستان ہی تھا، ہرچند کہ منطقی اعتبار سے اس رویے پر جذباتیت غالب تھی، کیونکہ مذہبی اور 'پاکستانی' شناخت کے درمیان ایک درجہ قومی شناخت کا بھی ہے۔
پھر ہوا یوں کہ جوں جوں وقت گزرا، ویسے ویسے اس 'خالی شناخت' پر سوال اٹھے، مختلف حالات اور وجوہ کی بنا پر ایسے مسائل بھی پیدا ہوئے کہ یہ سوال مضبوط تر ہوتا چلا گیا کہ آخر ان ہجرت کرنیوالوں کی شناخت اب کیا ہوگی؟ کیونکہ انھوں نے نہ صرف قربانیاں پاکستان کے لیے دی تھیں بلکہ ہجرت بھی صرف پاکستان ہی کی خاطر تھی، اس لیے یہ کسی بھی صورت میں کوئی دوسری شناخت نہیں اپنا سکتے تھے۔ وہ بھی ایسی صورت میں کہ جب ثقافتی لوازمات کے لحاظ سے بھی وہ کسی دوسری لسانی یا صوبائی ثقافت کا حصہ نہ ہوں۔
سو یہ ان کا بنیادی انسانی حق تھا کہ وہ اپنی شناخت اور اپنی ثقافت کی بنیاد پر پہچانے جائیں، سو انھوں نے 'ہجرت' کی مناسبت سے فخر سے خود کو نسل درنسل 'مہاجر' کہلوایا اور تاریخ گواہ ہے کہ یہ کراچی کی کسی سیاسی جماعت کے قیام سے بھی پہلے کا واقعہ ہے کہ جب کراچی میں 1960کی دہائی میں 'پنجابی، پختون مہاجر اتحاد' کے نام سے ایک اکٹھ وجود میں آیا۔
تبھی سے بہت سے مہاجر اکابرین 'مہاجروں' کی پانچویں قومیت کہلانے پر اتفاق کر چکے تھے جس کے بعد سیاسی ضرورتوں نے ملک کے تمام ہی راہ نمائوں سے مختلف مواقع پر اس شناخت کو قبول بھی کروایا، لیکن اس کے باوجود آج بھی یہی احساس ہوتا ہے کہ اب دوبارہ اس حوالے سے تامل پایا جاتا ہے۔
ایک طرف لاعلمی ہے، تو کہیں تجاہل عارفانہ بھی، جب کہ بہت سے بے رحمی سے اِس شناخت سے علی الاعلان دل شکن رویے بھی اپناتے ہیں، جس میں 'پانچویں قوم' کی شناخت، ان کی ہجرت اور ان کے بزرگوں کی قربانیوں تک کو بہ یک جنبشِ قلم جھٹلا دیا جاتا ہے اور انھیں شناخت اور مساوات کے مطالبے پر ہتک آمیز تبصروں اور عرفیتوں سے نوازا جاتا ہے۔
کیا پاکستان کی تاریخ سے یہ حقیقت نکالی جا سکتی ہے کہ اس ملک کو بنانے کے لیے برصغیر کے مسلمانوں کی 30 مخصوص نشستوں میں سے 57 فیصد نشستیں (یعنی 17) مسلم اقلیتی صوبوں، یوپی، سی پی، بہار، دلی مدراس اور آسام وغیرہ کی تھیں؟ کیا بانیانِِ پاکستان کا یہ اعزاز چھینا جا سکتا ہے کہ انھوں نے بابائے قوم کی صدا پر لبیک کہا اور ایک ایسے ملک کو کام یابی سے چلا کر دکھایا، جسے چند ماہ کے اندر ختم کردینے کے تمام ہتھ کنڈے آزمائے جا رہے تھے؟
کیا قائداعظم نے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوستانی مسلمانوں کو یہاں نہیں بلایا تھا کہ وہ آکر اس ملک میں مختلف شعبوں میں ماہرین کی کمی ختم کریں؟ کیا صرف اسی لیے کہ ان کی اولادیں اگر یہاں صرف اپنی شناخت پر اصرار کریں تو ان کی دل آزاری کی جائے؟
'مہاجر' شناخت تو اس ملک کی وہ قومی شناخت ہے کہ جس کا وجود ہی دراصل اس ملک کے قیام کی خبر دیتا ہے۔ ورنہ یہ ہندوستان بھر کے اقلیتی صوبوں کے لوگ وہاں نسلاً 'ہندوستانی' کہلاتے ہیں یا کچھ بہاری، مدراسی، گجراتی اور حیدرآبادی قوم سے ہیں، انھیں اس ہجرت کے صدقے ہی یہ 'مہاجر' شناخت ملی، گویا یہ وہ نعرۂ تحسین ہے، کہ جس کی تشریح ''پاکستان زندہ باد'' کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی۔
'مہاجر قوم' بہ آسانی یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ ان کی قربانیاں اور جدوجہد اس ملک کی بنیاد ہی میں نہیںِ، بلکہ خود ان کا تشخص اور وجود بھی اس ملک کی خاطر ہے۔ ورنہ ہندوستان میں رہ جانے والے انھی علاقوں کے مسلمانوں کی شناخت تو یہ نہیں۔ مہاجر قوم فخر سے یہ دعویٰ بھی کر سکتی ہے کہ وہ اپنی اس شناخت کے ساتھ نہ سیکڑوں سالوں سے ہے اور نہ ہزاروں سالوں سے، بلکہ اس کے وجود سے اس کی شناخت تک، سبھی کچھ اس پاکستان کے ساتھ ساتھ ہے!
یہی نہیں مہاجر قوم کی زبان، تہذیب وتمدن، رکھ رکھائو اور مختلف ثقافتی لوازمات سبھی کچھ غیر منقسم ہندوستان کے زمانے ہی سے تمام مسلمانوں کا مشترکہ اثاثہ رہا ہے، یہی ہندوستان میں 'مسلم شناخت' میں ریڑھ کی ہڈی بنا، یہی ثقافتی تشخص تھا، جس نے مسلمانوں کو جداگانہ مملکت کے لیے پختہ بنیادیں فراہم کیں۔
آج بھی یہ پاکستان کی وہ واحد قوم ہے جو یہ انفرادیت بھی رکھتی ہے کہ اس قوم کے سو فی صد افراد مسلمانوں ہی پر مشتمل ہیں، کیوں کہ اس کی تشکیل پاکستان کی جانب ہجرت سے عمل میں آئی۔'مہاجر قوم' کی تاریخ پاکستان کی بھی قومی تاریخ کی حیثیت رکھتی ہے، جس پر بجا طور پر کوئی بھی پاکستانی فخر کر سکتا ہے۔
ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ ہمارے قومی دنوں پر علی گڑھ، سرسید احمد خان، محمد علی جوہر، بی اماں، نواب وقار الملک، نواب محسن الملک اور نواب سلیم اللہ خان وغیرہ کے تذکروں سے لے کر 1947 کی ہجرت کی تاریخ کے خوب تذکرے ہوتے تھے لیکن نہ جانے کیوں آج ہمارے تعلیمی اور ثقافتی اداروں میں 'مہاجر ثقافت' کے لیے وسعت ہی باقی نہیں رہی!
ہمارے بہت سے دانشور یہ نہیں مانتے کہ لفظ مہاجر اب فقط لغوی معنوں میں نہیں برتا جاتا بلکہ یہ ایک مکمل شناخت ہے، جسے کسی بھی دوسری شناخت سے تبدیل کیا جانا ممکن نہیں۔
پاکستان ایک خوب صورت گل دستہ ہے، اس کی ہر قوم محبت کرنے والی ہے، بالکل ایسے ہی پاکستان کی پانچویں قوم بھی علم و تہذیب اور وضع داری کی پیام بر ہے۔ کیا ہم آج 24 دسمبر کو 'یوم مہاجر ثقافت' کے موقع پر یہ توقع کر سکتے ہیں کہ ملک کی نمایاں شخصیات اور مختلف راہ برانِِ قوم دیگر قوموں کے 'یوم ثقافت' کی طرح 'یوم مہاجر ثقافت' کی بھی مبارک باد دیں گے؟ آخر ہم کب کھلے دل کے ساتھ ایک دوسرے کو انفرادی شناختوں کے ساتھ اپنا پاکستانی بھائی سمجھ سکیں گے؟
یا پھر یہ کہ ہم تاریخ کی تو بات کریں لیکن اس کے صرف من چاہے اور مخصوص حقائق ہی پیش کریں اور دانستہ طور پر کچھ سچائیوں سے گریزاں رہیں؟ یقینا نہیں، لیکن ہمارا مشاہدہ ہے کہ اس ملک کے ساتھ اکثر ایسا رویہ اپنایا جاتا ہے اور اس ملک کے قیام اور اس کے لیے کی جانیوالی جدوجہد کے 'پسندیدہ حقائق' کا تو خوب پرچار کیا جاتا ہے، لیکن جو حقائق مَن پر گراں گزریں، ان سے کترا کر گزر جایا جاتا ہے۔
ہمیں ساری تمہید پاکستان کی 'پانچویں قوم' سے متعلق باندھنی پڑی۔ وہ قوم، جس کی سب سے واضح اور پہلی پہچان یہی وطن عزیز 'پاکستان' بنا۔ بقول قتیل شفائی:
ایک یہی پہچان تھی اپنی اس پہچان سے پہلے بھی
پاکستان کا شہری تھا میں پاکستان سے پہلے بھی!
یہی وہ لوگ ہیں، جن کے آبا و اجداد اس ملک کے لیے اتنے جذباتی ہوئے تھے کہ مسلمان کے بعد اگر ان کے لیے اور کوئی شناخت تھی، تو فقط پاکستان ہی تھا، ہرچند کہ منطقی اعتبار سے اس رویے پر جذباتیت غالب تھی، کیونکہ مذہبی اور 'پاکستانی' شناخت کے درمیان ایک درجہ قومی شناخت کا بھی ہے۔
پھر ہوا یوں کہ جوں جوں وقت گزرا، ویسے ویسے اس 'خالی شناخت' پر سوال اٹھے، مختلف حالات اور وجوہ کی بنا پر ایسے مسائل بھی پیدا ہوئے کہ یہ سوال مضبوط تر ہوتا چلا گیا کہ آخر ان ہجرت کرنیوالوں کی شناخت اب کیا ہوگی؟ کیونکہ انھوں نے نہ صرف قربانیاں پاکستان کے لیے دی تھیں بلکہ ہجرت بھی صرف پاکستان ہی کی خاطر تھی، اس لیے یہ کسی بھی صورت میں کوئی دوسری شناخت نہیں اپنا سکتے تھے۔ وہ بھی ایسی صورت میں کہ جب ثقافتی لوازمات کے لحاظ سے بھی وہ کسی دوسری لسانی یا صوبائی ثقافت کا حصہ نہ ہوں۔
سو یہ ان کا بنیادی انسانی حق تھا کہ وہ اپنی شناخت اور اپنی ثقافت کی بنیاد پر پہچانے جائیں، سو انھوں نے 'ہجرت' کی مناسبت سے فخر سے خود کو نسل درنسل 'مہاجر' کہلوایا اور تاریخ گواہ ہے کہ یہ کراچی کی کسی سیاسی جماعت کے قیام سے بھی پہلے کا واقعہ ہے کہ جب کراچی میں 1960کی دہائی میں 'پنجابی، پختون مہاجر اتحاد' کے نام سے ایک اکٹھ وجود میں آیا۔
تبھی سے بہت سے مہاجر اکابرین 'مہاجروں' کی پانچویں قومیت کہلانے پر اتفاق کر چکے تھے جس کے بعد سیاسی ضرورتوں نے ملک کے تمام ہی راہ نمائوں سے مختلف مواقع پر اس شناخت کو قبول بھی کروایا، لیکن اس کے باوجود آج بھی یہی احساس ہوتا ہے کہ اب دوبارہ اس حوالے سے تامل پایا جاتا ہے۔
ایک طرف لاعلمی ہے، تو کہیں تجاہل عارفانہ بھی، جب کہ بہت سے بے رحمی سے اِس شناخت سے علی الاعلان دل شکن رویے بھی اپناتے ہیں، جس میں 'پانچویں قوم' کی شناخت، ان کی ہجرت اور ان کے بزرگوں کی قربانیوں تک کو بہ یک جنبشِ قلم جھٹلا دیا جاتا ہے اور انھیں شناخت اور مساوات کے مطالبے پر ہتک آمیز تبصروں اور عرفیتوں سے نوازا جاتا ہے۔
کیا پاکستان کی تاریخ سے یہ حقیقت نکالی جا سکتی ہے کہ اس ملک کو بنانے کے لیے برصغیر کے مسلمانوں کی 30 مخصوص نشستوں میں سے 57 فیصد نشستیں (یعنی 17) مسلم اقلیتی صوبوں، یوپی، سی پی، بہار، دلی مدراس اور آسام وغیرہ کی تھیں؟ کیا بانیانِِ پاکستان کا یہ اعزاز چھینا جا سکتا ہے کہ انھوں نے بابائے قوم کی صدا پر لبیک کہا اور ایک ایسے ملک کو کام یابی سے چلا کر دکھایا، جسے چند ماہ کے اندر ختم کردینے کے تمام ہتھ کنڈے آزمائے جا رہے تھے؟
کیا قائداعظم نے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوستانی مسلمانوں کو یہاں نہیں بلایا تھا کہ وہ آکر اس ملک میں مختلف شعبوں میں ماہرین کی کمی ختم کریں؟ کیا صرف اسی لیے کہ ان کی اولادیں اگر یہاں صرف اپنی شناخت پر اصرار کریں تو ان کی دل آزاری کی جائے؟
'مہاجر' شناخت تو اس ملک کی وہ قومی شناخت ہے کہ جس کا وجود ہی دراصل اس ملک کے قیام کی خبر دیتا ہے۔ ورنہ یہ ہندوستان بھر کے اقلیتی صوبوں کے لوگ وہاں نسلاً 'ہندوستانی' کہلاتے ہیں یا کچھ بہاری، مدراسی، گجراتی اور حیدرآبادی قوم سے ہیں، انھیں اس ہجرت کے صدقے ہی یہ 'مہاجر' شناخت ملی، گویا یہ وہ نعرۂ تحسین ہے، کہ جس کی تشریح ''پاکستان زندہ باد'' کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی۔
'مہاجر قوم' بہ آسانی یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ ان کی قربانیاں اور جدوجہد اس ملک کی بنیاد ہی میں نہیںِ، بلکہ خود ان کا تشخص اور وجود بھی اس ملک کی خاطر ہے۔ ورنہ ہندوستان میں رہ جانے والے انھی علاقوں کے مسلمانوں کی شناخت تو یہ نہیں۔ مہاجر قوم فخر سے یہ دعویٰ بھی کر سکتی ہے کہ وہ اپنی اس شناخت کے ساتھ نہ سیکڑوں سالوں سے ہے اور نہ ہزاروں سالوں سے، بلکہ اس کے وجود سے اس کی شناخت تک، سبھی کچھ اس پاکستان کے ساتھ ساتھ ہے!
یہی نہیں مہاجر قوم کی زبان، تہذیب وتمدن، رکھ رکھائو اور مختلف ثقافتی لوازمات سبھی کچھ غیر منقسم ہندوستان کے زمانے ہی سے تمام مسلمانوں کا مشترکہ اثاثہ رہا ہے، یہی ہندوستان میں 'مسلم شناخت' میں ریڑھ کی ہڈی بنا، یہی ثقافتی تشخص تھا، جس نے مسلمانوں کو جداگانہ مملکت کے لیے پختہ بنیادیں فراہم کیں۔
آج بھی یہ پاکستان کی وہ واحد قوم ہے جو یہ انفرادیت بھی رکھتی ہے کہ اس قوم کے سو فی صد افراد مسلمانوں ہی پر مشتمل ہیں، کیوں کہ اس کی تشکیل پاکستان کی جانب ہجرت سے عمل میں آئی۔'مہاجر قوم' کی تاریخ پاکستان کی بھی قومی تاریخ کی حیثیت رکھتی ہے، جس پر بجا طور پر کوئی بھی پاکستانی فخر کر سکتا ہے۔
ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ ہمارے قومی دنوں پر علی گڑھ، سرسید احمد خان، محمد علی جوہر، بی اماں، نواب وقار الملک، نواب محسن الملک اور نواب سلیم اللہ خان وغیرہ کے تذکروں سے لے کر 1947 کی ہجرت کی تاریخ کے خوب تذکرے ہوتے تھے لیکن نہ جانے کیوں آج ہمارے تعلیمی اور ثقافتی اداروں میں 'مہاجر ثقافت' کے لیے وسعت ہی باقی نہیں رہی!
ہمارے بہت سے دانشور یہ نہیں مانتے کہ لفظ مہاجر اب فقط لغوی معنوں میں نہیں برتا جاتا بلکہ یہ ایک مکمل شناخت ہے، جسے کسی بھی دوسری شناخت سے تبدیل کیا جانا ممکن نہیں۔
پاکستان ایک خوب صورت گل دستہ ہے، اس کی ہر قوم محبت کرنے والی ہے، بالکل ایسے ہی پاکستان کی پانچویں قوم بھی علم و تہذیب اور وضع داری کی پیام بر ہے۔ کیا ہم آج 24 دسمبر کو 'یوم مہاجر ثقافت' کے موقع پر یہ توقع کر سکتے ہیں کہ ملک کی نمایاں شخصیات اور مختلف راہ برانِِ قوم دیگر قوموں کے 'یوم ثقافت' کی طرح 'یوم مہاجر ثقافت' کی بھی مبارک باد دیں گے؟ آخر ہم کب کھلے دل کے ساتھ ایک دوسرے کو انفرادی شناختوں کے ساتھ اپنا پاکستانی بھائی سمجھ سکیں گے؟