آج کا پاکستان اور قائد اعظم ؒ

قائد اعظم ایک حقیقت پسند انسان تھے، اصولوں کے پابند اور جھوٹ تصنع بناوٹ سے بہت دور تھے

nasim.anjum27@gmail.com

قائد اعظم کا یوم پیدائش 25 دسمبر 1876 بمقام کراچی ہے، وہ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد قانون کی تعلیم کے لیے انگلستان روانہ ہوئے اور بیرسٹری کی تعلیم حاصل کرکے اپنے وطن لوٹ آئے، بمبئی میں وکالت کا آغازکیا اور دادا بھائی نوروجی کے پرائیویٹ سیکریٹری مقرر ہوئے۔

1906میں دادا بھائی نوروجی کے ہمراہ کلکتہ کانگریس کے اجلاس میں شرکت کی، آپ کی پوری زندگی جہد مسلسل اور اعلیٰ افکار اور پاکستان کی تخلیق کے گرد گھومتی ہے، ان کی مخلصانہ کاوشوں کی بدولت کامیابی ان کے قدم چومتی رہی اور لوگ ان کے گرویدہ ہوتے چلے گئے، اپنی جان و مال قربان کرنے کے لیے ہردم تیار، مسلم لیگ کی شاندارکامیابی پر ''یوم فتح'' منانے کا اعلان کیا اور بیان جاری کیا ''میں مسلمانوں کو پہلی فتح پر مبارکباد دیتا ہوں، دنیا کے کسی گوشہ اور قوم میں ایسی سو فیصد کامیابی کی مثال نہیں ملتی، مجھے خوشی ہے کہ مسلمانوں نے پاکستان بنانے کا عزم کر لیا ہے۔''

1937میں مسلم لیگ کا اجلاس لکھنؤ میں منعقد ہوا، قائد اعظم اس اجلاس میں شرکت کے لیے بمبئی سے تشریف لائے، آپ کی ٹرین کانپور اسٹیشن پر پہنچی تو مسلمانوں کے جم غفیر نے ڈبے کو گھیر لیا اور نعرے لگاتے رہے کہ ''ہم آپ کے اشارے پر اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے ہر لمحہ تیار ہیں''، دوسرے دن زندگی میں پہلی مرتبہ اور جب پاجامہ شیروانی اور سیاہ استر خوانی ٹوپی پہنے اسٹیج پر تشریف لائے، انھی دنوں قوم نے انھیں قائد اعظم کے خطاب سے نواز ا اور انگریزوں نے انھیں خوش کرنے کے لیے ''سر'' کا خطاب دیا، لیکن اسے آپ نے لینے سے انکار کردیا۔

قائد اعظم کو شہرت، دولت کی قطعی خواہش نہیں تھی وہ ایک سچے مسلمان، اللہ اور اس کے رسول پاک ﷺ سے سچی محبت اور عقیدت رکھتے تھے، انھیں معلوم تھا ایمان کا تقاضا ہے اور قرآن کی تعلیم یہ ہی ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کی جائے اور عفو ودرگزر سے کام لیا جائے، پاکستان بنانے کا مقصد بھی دو قومی نظریہ تھا، اس ہی وجہ سے قائد اعظم نے جدوجہد پاکستان کا آغازکیا تھا، قائد اعظم کی جب ہم ہر سال یاد تازہ کرتے ہیں تو اس بات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ ہم ان بنیادی اصولوں اور پاکستان کی نظریاتی حقیقتوں کو مد نظر رکھیں۔

1946میں بہار میں ہونیوالے المیہ نے یہ بات بالکل واضح کر دی کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔ اس طرح قائد اعظم کا مؤقف ان کی سوچ، ان کے افکار تازہ بالکل صحیح ثابت ہوئے، ایک موقع پر انھوں نے لیفٹیننٹ کرنل الٰہی کو جواب دیا کہ ''میں اپنا فرض ادا کرچکا ہوں، پاکستان بن گیا ہے، اس کی بنیادیں مضبوط ہیں، آپ یہ قوم کا کام ہے کہ وہ اس کی تعمیر کرے، اسے ناقابل تسخیر اور ترقی یافتہ ملک بنادے، حکومت کا نظم و نسق دیانت داری اور محنت سے چلائے، میں طویل سفر کے بعد تھک چکا ہوں، میں نے خدا کے بھروسے پر انتھک محنت اور کوشش کی ہے اور اپنے جسم کے خون کا آخری قطرہ تک حصول پاکستان کے لیے صرف کر دیا ہے، میں آرام چاہتا ہوں مجھے اب زندگی سے کوئی دلچسپی نہیں، ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور انھوں نے آنکھیں موند لیں۔

آج کا پاکستان قائد اعظم کا مضبوط پاکستان نہیں بن سکا، 75سال میں حکمرانوں کی غفلت اور دولت کی طمع نے پاکستان کو کمزور اور بھکاری بنادیا اور آئی ایم ایف کا غلام وہ جو حکم دیتا ہے پاکستان کے حکمران اپنا سر جھکا دیتے ہیں، قائد نے آپ کو ایک علیحدہ اور آزاد وطن دے دیا، یہ وہ وطن ہے جو قدرتی وسائل سے مالامال ہے، سونا، چاندی، تانبہ، زراعت، پھل، سبزیاں، سمندر، جھیلیں، ندیاں، خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے دوسرے ملکوں کے سیاح آتے ہیں اور حکومت پاکستان کو سیروتفریح اور جنگلات و باغات، برفباری جیسے خوبصورت مناظر کو دیکھنے کے لیے باقاعدہ ایک بھاری رقم ادا کرتے ہیں۔

اگر حکومت پاکستان ان تمام چیزوں اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں سے فائدہ اٹھا رہی ہے تو پھر عوام کو کچھ حصہ دے ان کی بھی بدحالی کو ختم کرنے کے لیے اقدام کرے اور اپنے ہاتھ میں پکڑے کشکول کو ہمیشہ کے لیے توڑ دے، قائد اعظم نے تو ملک کو خود کفیل بنانے کے لیے بہت سے اہم مشورے دیے تھے، مشرقی پاکستان کا نام جب سامنے آتا ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے، قائد اعظم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ایک دن اپنوں کی لاپرواہی، وطن سے غداری اور اپنی جانوں کی حفاظت کے تحت مشرقی پاکستان جدا ہوجائے گا۔


قائد اعظم نے جب مشرقی پاکستان کا دورہ کیا، 19مارچ 1948 کا تاریخی دن تھا، اس روز شام کو پانچ بجے قائد اعظم کا خاص ہوائی جہاز کراچی سے آنے والا تھا، چٹا گانگ کھلنا، مہمن سنگھ، راج شاہی، سلہٹ اور مرشد آباد اور دوسرے دور دراز کے علاقوں سے لوگ ڈھاکا میں استقبال کے لیے جمع ہوگئے تھے، فلک بوس نعروں سے فضا معمور تھی، ابر رحمت چھایا ہوا تھا، ہر بچہ، بوڑھا، مرد، عورتیں، خوشی اور جوش جذبات سے سر شار تھے، عوام کے علاوہ خواص بھی موجود تھے، پولیس، فوج، سرکاری حکام قائد اعظم کا استقبال کرنے کے لیے جمع ہوگئے تھے، بنگال کے قیام کے دوران قائد اعظم نے فوجی جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

''بنگال کا مردم خیز خطہ اسلامی شان اور بہادری کے نشان بلند کیے رہا ہے، پچھلے دور میں بیرونی طاقتوں اور اغیار کی سازشوں نے ان کی بہادرانہ اسپرٹ اور سپاہیانہ خوبیوں کوکچلنے کی کوشش کی تھی، اب وہ آزاد پاکستان کے آزاد دلاور ہیں اور وہ اپنی پارینہ عظمت کو تازہ کر کے دکھا دیں گے کہ وہ شجاع، قوم کے سربلند فرزند ہیں۔

لیکن آج پاکستان کے عوام کس قدر مایوسی کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں، کوئی جائے اماں نہیں، جہاں پناہ لے لیں، پاکستان کے حکمران اقتدار کے حصول کے لیے تقریریں کر رہے ہیں، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں، ہر حربہ آزما رہے ہیں کہ جیت ان کا مقدر بنے، انھیں اس بات کی قطعی فکر نہیں کہ کراچی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہر روز قتل کیے جا رہے ہیں، کراچی میں چاروں طرف ڈاکو پھیل گئے ہیں، انھیں کوئی گرفتار نہیں کرتا، شہر کو بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہے، رواں سال ہلاکتوں کی تعداد 126ہوگئی، دن دہاڑے، اغوا اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے، کسی کو اس خونی وارداتوں کی پرواہ نہیں ہے، انصاف کا خون کیا جاتا ہے، تمام سہولتیں مقتدر حضرات اور امراء کے لیے ہے، یہ طریقہ اسلامی قوانین سے انحراف ہے۔

ایک وقت ایسا آیا جب سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش کے زیر عنوان مضامین کا سلسلہ شروع کیا تھا، انھیں ایام میں جب کبھی مولانا لکھنؤ تشریف لے گئے اور افہام و تفہیم کی مجالس کا انعقاد ہوا، 942 1میں ہونے والا آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس کراچی میں ہوا، بہت اہم باتیں زیر بحث آئیں کہ پاکستان میں کس قسم کا آئین ہونا چاہیے، اس موضوع پر چار حضرات نے اپنی تجاویز بھیجیں۔

پہلی تجویز یہ تھی کہ پاکستان میں جو حکومت بنے گی وہ خلافت راشدہ کے طرز کی ہوگی، دوسری تجویز یہ تھی کہ پاکستان کا آئین قرآن و سنت کے مطابق بنایا جائے گا، تیسری اور چوتھی تجویز کا بھی تقریبا یہ ہی معانی اور مطلب تھا، لہٰذا کونسل کے جلسے میں جب یہ تجاویز پیش کی گئیں تو قائد اعظم ؒ نے ہر مقررکوکھل کر بات کرنے کا موقع دیا، آخر میں قائد اعظم نے فرمایا جہاں تک اس تجویز کا تعلق ہے وہ ہر مسلمان کے دل کی پکار ہے اور قرارداد پاکستان کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ مسلم لیگ کا مشن اور پاکستان کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہے کہ پاکستان میں اللہ کے دین کا نظام قائم ہو۔

قائد اعظم ایک حقیقت پسند انسان تھے، اصولوں کے پابند اور جھوٹ تصنع بناوٹ سے بہت دور تھے، حیدرآباد کے ایک مشہور صحافی سید بادشاہ حسین نے قائد اعظم کی ایک سوانح حیات ''حیات جناح'' کے نام سے مرتب کرنے کا ارادہ کیا، اس کام کے حوالے سے وہ بمبئی گئے اور ملاقات کی، بادشاہ حسین کہتے ہیں جب میں آپ ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کچھ مواد کی فرمائش کی تو قائد اعظم ؒ نے فرمایا ''کیا مطلب ہے؟

میں اپنی سوانح حیات کے لیے خود تم کو مواد دوں، مجھے یہ طریقہ کار پسند نہیں، تمہارے پاس موزوں مواد ہو تو لکھو او ر اگر مواد ناکافی ہو تو نہ لکھو، اس کا فیصلہ تمہیں خود کرنا ہے، میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔''11ستمبر بروز ہفتہ آپ ایک عظیم کام کر کے ملکِ عدم روانہ ہوئے، 12ستمبر 4 لاکھ انسانوں نے نماز جنازہ پڑھی۔ اللہ غریق رحمت فرمائے۔ (آمین)
Load Next Story