’’تاج محل آگرہ ‘‘
تاج محل کودھویں کی آلودگی سے بچانے کے لیے گاڑیوں کو محل سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر روک لیا جاتا ہے
بھارت میں قیام کے دوران آگرہ میں تاج محل دیکھنے کا موقع ملا۔ دریائے جمنا کے کنارے فن تعمیر کے اس نادر شاہکار کو دنیا کے سات عجوبوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
مغلیہ بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی ملکہ ممتاز محل کی موت کے بعد اس کی اور اپنی لا زوال محبت کی نشانی کے طور پر تعمیر کرایا۔ممتاز محل نے مرنے سے پہلے شاہ جہاں سے تین وعدے لیے۔
-I میری موت کے بعد شاندارمقبرہ بنوانا۔ -IIشادی نہ کرنا۔-IIIبچوں پر مہربان رہنا۔
ممتاز محل، شاہ جہاں کی دوسری بیوی تھی لیکن اس نے اپنی دانائی، حسن اور حکمت کی بنا پر شاہ جہاں کو گھائل کر رکھا تھا۔ممتاز محل ایرانی النسل تھی، اس کے والد آصف خان، جہانگیر بادشاہ کے وزیر اعظم تھے۔ آصف خان بادشاہ جہانگیر کی ملکہ نور جہاں کا بھائی تھا ۔ شاہ جہاں نے ملکہ ممتاز محل کو امانتاً برھان پور (جہاں اس کا انتقال ہوا) میں دفن کیا ،آگرہ میں تاج محمل کی تعمیر کے بعد اس کے جسد خاکی کو یہاں منتقل کیا گیا۔
تاج محل کودھویں کی آلودگی سے بچانے کے لیے گاڑیوں کو محل سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر روک لیا جاتا ہے۔ سیاح وہاں سے تاج محل کے صدر دروازے تک بیٹری سے چلنے والی آگرہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی بس کے ذریعے جاتے ہیں، ان گاڑیوں میں 96KVکی الیکٹرک بیٹری نصب ہے ، اس وقت اس بس کا کرایہ انڈین دو روپے تھا۔تاج محل میں داخلے کے لیے بھارتی شہری بیس روپے جب کہ غیر ملکی کے لیے 750روپے ٹکٹ ہے۔
تاج محل کا مین گیٹ سرخ پتھر کی مٹی سے بنایا گیا ہے اس عالیشان گیٹ پر کالے سنگ مر مر سے آیات کریمہ کندہ ہیں۔ مین گیٹ اور تاج محل کے درمیان پانی کی گزر گائیں اور فوارے نصب ہیں۔ صبح کا سورج طلوع ہونے سے لے کر رات دس بجے تک تاج محل کھلا رہتا ہے۔ تاج محل کے صحن میں داخل ہونے والے پہلے دروازے کی ڈیوڑھی کے درمیان اگر کھڑا ہو کر تاج محل کی طرف دیکھیں تو کوئی مینار نظر نہیں آتا۔
لیکن اگر آپ ایک قدم دائیں اٹھائیں تو بایاں مینار نظر آئے گا اور اگر ایک قدم بائیں اٹھائیں تو دایاں مینار نظر آئے گا۔ اگر آپ ڈیوڑھی سے آگے کی طرف (تاج محل کی طرف) قدم اٹھائیں تو تاج محل دور بھاگتا ہوا محسوس ہوگا لیکن اگر آپ الٹے پائوں چلنے لگیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاج محل آپ کے پیچھے آ رہا ہے۔یہ سب کچھ فن تعمیر کا کمال ہے جو ایک عجوبے سے کم نہیں ہے۔
شاہ جہاں نے تاج محل کے اوپربتیس من سونے کا ایک چاند لگوایا تھا، ہندوستان میں بدامنی، انتشار اور باہمی جنگوں کے دوران یہ سونا لوٹ لیا گیا، اب پیتل کے چاند پر سونے کا پانی ملمع کر کے لگایا گیا ہے۔ تاج محل کی تعمیر ایک اتنے اونچے چبوترے پر کی گئی ہے کہ اگر جمنا میں کبھی شدید سیلاب بھی آئے جائے تب بھی تاج محل کو نقصان نہیں پہنچ سکتا۔
تاج محل کی تعمیر میں جو پتھر استعمال کیے گئے ہیں ان میں جسپر، جیڈ،کرسٹل،فیروزہ، لاجورد، مرجان، نیلم اور اونیکس جیسے قیمتی اور خوبصورت پتھراستعمال کیے گئے ہیں، یہ تمام پتھر روشنی میں چمکتے ہیں۔ ان پتھروں کی وجہ سے صبح، دوپہر، شام اور رات میں مختلف طرح کے منظر تبدیل ہوتے ہیں اور ہر منظر اپنی جگہ منفرد دل کشی رکھتا ہے۔ تاج محل کا حسن چاند کی چودھویں رات ناقابل بیان ہوتا ہے۔مقبرے کی چاروں دیواروں پر قرآن پاک کے پارے تحریر ہیں ۔ مقبرے کے چبوترے پر قبر پر تحریر ہے۔
''المرقد منورا رجمند بانو بیگم مخاطب بہ ممتاز محل1630''۔ اسی کے ساتھ شاہ جہاں کی قبر ہے۔شاہ جہاں کی پہلی بیوی'' سرہندی بیگم''بھی تاج محل کے مغربی دروازے کے گنبد کے نیچے دفن ہے۔ ممتاز محل کی کنیز خاص''ستی النساء'' کو بھی مغربی دروازے کے قریب دفن کیا گیا ہے۔مقبرے کے اندر ہلکی سے آواز بھی ایک ایسی گونج پیدا کرتی ہے جس سے یہاں موجود ہر شخص پر ایک خاص قسم کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔اس گونج میں آواز کی تہہ در تہہ پانچ لہریں پیدا ہوتی ہیں۔
ممتاز محل اور شاہ جہاں کی قبر کے گرد سنگ مر مر کی جو جالی لگی ہوئی ہے اس میں مختلف قیمتی پتھروں اور جواہر سے پھول بنائے گئے ہیں اور ایک پھول کی چونسٹھ پتیاں ہیں۔ابتداء میں شاہ جہاں نے ممتاز محل کی قبر کے گرد چالیس ہزار تولے سونے کی ایک ریلنگ بھی لگوائی تھی لیکن بعد میں اسے اتار دیا گیا۔
تاج محل کی تعمیر17سال میں مکمل ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق بیس ہزار مزدوروں اور کاریگروں نے تعمیر کے کام میں حصہ لیا۔تعمیر کا منتظم ایرانی نژاد ڈیزائنر اور فن تعمیر کا ماہر استاد یحییٰ تھا۔ ہندوستان کے علاوہ ایران، وسطی ایشیا، عرب اور اٹلی کے ماہرین فن تعمیر نے بھی معاونت کی۔ کچھ تاریخی حوالے یہ بھی بتاتے ہیں کہ تاج محل کی تعمیر کا نگران احمد لاہوری تھا۔اس زمانے میں تاج محل کی تعمیر پر چار کروڑ گیارہ لاکھ اڑتالیس ہزار آٹھ سو چھبیس روپے سات آنے اور چھ پائی خرچ ہوئے۔
شاہ جہاں،تاج محل کے مقابل دریائے جمنا کے دوسرے کنارے پر سیاہ سنگ مر مر سے ایک اور تاج محل بھی بنوانا چاہتا تھا اور اس کی یہ خواہش بھی تھی کہ ان دونوں کو ایک کازوے(دریائی راستہ) کے ذریعے ملایا جائے لیکن شاہ جہاں کے بیٹے اورنگزیب نے اسے معزول کر کے نظر بند کر دیا۔ تاج محل آگرہ کے قریب واقع شاہی قلعے میں شاہ جہاں نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے وہ جس کمرے میں مقیم تھا اس کے جھروکے سے اسے تاج محل ہر وقت نظر آتا تھا۔
مغلیہ بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی ملکہ ممتاز محل کی موت کے بعد اس کی اور اپنی لا زوال محبت کی نشانی کے طور پر تعمیر کرایا۔ممتاز محل نے مرنے سے پہلے شاہ جہاں سے تین وعدے لیے۔
-I میری موت کے بعد شاندارمقبرہ بنوانا۔ -IIشادی نہ کرنا۔-IIIبچوں پر مہربان رہنا۔
ممتاز محل، شاہ جہاں کی دوسری بیوی تھی لیکن اس نے اپنی دانائی، حسن اور حکمت کی بنا پر شاہ جہاں کو گھائل کر رکھا تھا۔ممتاز محل ایرانی النسل تھی، اس کے والد آصف خان، جہانگیر بادشاہ کے وزیر اعظم تھے۔ آصف خان بادشاہ جہانگیر کی ملکہ نور جہاں کا بھائی تھا ۔ شاہ جہاں نے ملکہ ممتاز محل کو امانتاً برھان پور (جہاں اس کا انتقال ہوا) میں دفن کیا ،آگرہ میں تاج محمل کی تعمیر کے بعد اس کے جسد خاکی کو یہاں منتقل کیا گیا۔
تاج محل کودھویں کی آلودگی سے بچانے کے لیے گاڑیوں کو محل سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر روک لیا جاتا ہے۔ سیاح وہاں سے تاج محل کے صدر دروازے تک بیٹری سے چلنے والی آگرہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی بس کے ذریعے جاتے ہیں، ان گاڑیوں میں 96KVکی الیکٹرک بیٹری نصب ہے ، اس وقت اس بس کا کرایہ انڈین دو روپے تھا۔تاج محل میں داخلے کے لیے بھارتی شہری بیس روپے جب کہ غیر ملکی کے لیے 750روپے ٹکٹ ہے۔
تاج محل کا مین گیٹ سرخ پتھر کی مٹی سے بنایا گیا ہے اس عالیشان گیٹ پر کالے سنگ مر مر سے آیات کریمہ کندہ ہیں۔ مین گیٹ اور تاج محل کے درمیان پانی کی گزر گائیں اور فوارے نصب ہیں۔ صبح کا سورج طلوع ہونے سے لے کر رات دس بجے تک تاج محل کھلا رہتا ہے۔ تاج محل کے صحن میں داخل ہونے والے پہلے دروازے کی ڈیوڑھی کے درمیان اگر کھڑا ہو کر تاج محل کی طرف دیکھیں تو کوئی مینار نظر نہیں آتا۔
لیکن اگر آپ ایک قدم دائیں اٹھائیں تو بایاں مینار نظر آئے گا اور اگر ایک قدم بائیں اٹھائیں تو دایاں مینار نظر آئے گا۔ اگر آپ ڈیوڑھی سے آگے کی طرف (تاج محل کی طرف) قدم اٹھائیں تو تاج محل دور بھاگتا ہوا محسوس ہوگا لیکن اگر آپ الٹے پائوں چلنے لگیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاج محل آپ کے پیچھے آ رہا ہے۔یہ سب کچھ فن تعمیر کا کمال ہے جو ایک عجوبے سے کم نہیں ہے۔
شاہ جہاں نے تاج محل کے اوپربتیس من سونے کا ایک چاند لگوایا تھا، ہندوستان میں بدامنی، انتشار اور باہمی جنگوں کے دوران یہ سونا لوٹ لیا گیا، اب پیتل کے چاند پر سونے کا پانی ملمع کر کے لگایا گیا ہے۔ تاج محل کی تعمیر ایک اتنے اونچے چبوترے پر کی گئی ہے کہ اگر جمنا میں کبھی شدید سیلاب بھی آئے جائے تب بھی تاج محل کو نقصان نہیں پہنچ سکتا۔
تاج محل کی تعمیر میں جو پتھر استعمال کیے گئے ہیں ان میں جسپر، جیڈ،کرسٹل،فیروزہ، لاجورد، مرجان، نیلم اور اونیکس جیسے قیمتی اور خوبصورت پتھراستعمال کیے گئے ہیں، یہ تمام پتھر روشنی میں چمکتے ہیں۔ ان پتھروں کی وجہ سے صبح، دوپہر، شام اور رات میں مختلف طرح کے منظر تبدیل ہوتے ہیں اور ہر منظر اپنی جگہ منفرد دل کشی رکھتا ہے۔ تاج محل کا حسن چاند کی چودھویں رات ناقابل بیان ہوتا ہے۔مقبرے کی چاروں دیواروں پر قرآن پاک کے پارے تحریر ہیں ۔ مقبرے کے چبوترے پر قبر پر تحریر ہے۔
''المرقد منورا رجمند بانو بیگم مخاطب بہ ممتاز محل1630''۔ اسی کے ساتھ شاہ جہاں کی قبر ہے۔شاہ جہاں کی پہلی بیوی'' سرہندی بیگم''بھی تاج محل کے مغربی دروازے کے گنبد کے نیچے دفن ہے۔ ممتاز محل کی کنیز خاص''ستی النساء'' کو بھی مغربی دروازے کے قریب دفن کیا گیا ہے۔مقبرے کے اندر ہلکی سے آواز بھی ایک ایسی گونج پیدا کرتی ہے جس سے یہاں موجود ہر شخص پر ایک خاص قسم کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔اس گونج میں آواز کی تہہ در تہہ پانچ لہریں پیدا ہوتی ہیں۔
ممتاز محل اور شاہ جہاں کی قبر کے گرد سنگ مر مر کی جو جالی لگی ہوئی ہے اس میں مختلف قیمتی پتھروں اور جواہر سے پھول بنائے گئے ہیں اور ایک پھول کی چونسٹھ پتیاں ہیں۔ابتداء میں شاہ جہاں نے ممتاز محل کی قبر کے گرد چالیس ہزار تولے سونے کی ایک ریلنگ بھی لگوائی تھی لیکن بعد میں اسے اتار دیا گیا۔
تاج محل کی تعمیر17سال میں مکمل ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق بیس ہزار مزدوروں اور کاریگروں نے تعمیر کے کام میں حصہ لیا۔تعمیر کا منتظم ایرانی نژاد ڈیزائنر اور فن تعمیر کا ماہر استاد یحییٰ تھا۔ ہندوستان کے علاوہ ایران، وسطی ایشیا، عرب اور اٹلی کے ماہرین فن تعمیر نے بھی معاونت کی۔ کچھ تاریخی حوالے یہ بھی بتاتے ہیں کہ تاج محل کی تعمیر کا نگران احمد لاہوری تھا۔اس زمانے میں تاج محل کی تعمیر پر چار کروڑ گیارہ لاکھ اڑتالیس ہزار آٹھ سو چھبیس روپے سات آنے اور چھ پائی خرچ ہوئے۔
شاہ جہاں،تاج محل کے مقابل دریائے جمنا کے دوسرے کنارے پر سیاہ سنگ مر مر سے ایک اور تاج محل بھی بنوانا چاہتا تھا اور اس کی یہ خواہش بھی تھی کہ ان دونوں کو ایک کازوے(دریائی راستہ) کے ذریعے ملایا جائے لیکن شاہ جہاں کے بیٹے اورنگزیب نے اسے معزول کر کے نظر بند کر دیا۔ تاج محل آگرہ کے قریب واقع شاہی قلعے میں شاہ جہاں نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے وہ جس کمرے میں مقیم تھا اس کے جھروکے سے اسے تاج محل ہر وقت نظر آتا تھا۔