مودی کی ناکام خارجہ پالیسی
جس دن بھارتی سپریم کورٹ 370 کا فیصلہ کر رہی تھی پوری وادی میں کرفیو کا سماں تھا
''جموں کشمیر جائے جہنم میں'' کے الفاظ کہنے پر بھارتی صحافی نے پلٹ کر فاروق عبداللہ سے کہا کہ جب آپ خود جموں کشمیر کو جہنم میں ڈال رہے ہیں تو پھر آپ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پرکیوں ناراض ہیں؟
فاروق عبداللہ نے کہا کہ جموں کشمیر کو تو آپ کی حکومت اور اب بھارتی سپریم کورٹ نے جہنم میں ڈال دیا ہے۔ جب سے مودی سرکار نے آرٹیکل 370 کو ہٹایا ہے کیا جموں کشمیر جہنم نہیں بن گیا ہے؟ یہاں کے تمام حقوق سلب کر لیے گئے ہیں۔ کشمیری لیڈروں کو نظر بند کردیا گیا ہے اور جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ وہ سب آزاد ہیں۔ فاروق عبداللہ کی غصہ آمیز اس گفتگو کے آگے صحافی خاموش ہوگیا۔
بھارت نواز محبوبہ مفتی نے بھی کہا ہے کہ ہم بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے سے بہت رنجیدہ ہیں، اس نے کشمیریوں کے ساتھ ناانصافی ہی نہیں سخت زیادتی کی ہے، مگر ہم ہارے نہیں ہیں ہم پھر اپنا کیس لڑیں گے اور ہم لڑتے ہی رہیں گے۔ یہ تو وہ کشمیری لیڈر ہیں جو بھارت نواز کہلاتے ہیں، انھیں بھی بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے سے تکلیف پہنچی ہے تو پھر جموں کشمیر کے حریت پسند لیڈروں پر کیا گزری ہوگی۔
جس دن بھارتی سپریم کورٹ 370 کا فیصلہ کر رہی تھی پوری وادی میں کرفیو کا سماں تھا۔ اس سے پتا لگتا ہے کہ بھارتی حکومت کو اچھی طرح پتا ہے کہ کشمیری عوام کیا چاہتے ہیں۔ کیا بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے سے مسئلہ کشمیر ختم ہو گیا؟ ہرگز نہیں۔ جموں کشمیر کا مسئلہ کوئی یک طرفہ نہیں ہے کہ اس کا صرف ایک بھارت ہی فریق ہو، اس کا دوسرا فریق پاکستان ہے۔ دونوں مل کر ہی اس مسئلے کا پائیدار حل نکال سکتے ہیں۔ یہ بھارت کا کوئی گھریلو مسئلہ نہیں ہے۔
یہ ایک عالمی متنازع مسئلہ ہے جس کا فیصلہ وہاں کے عوام کو کرنا ہے کہ آیا وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پھر پاکستان کے ساتھ۔یہ مسئلہ آج بھی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر پاکستانی دفتر خارجہ نے تو سخت احتجاج کیا ہی ہے چینی وزارت خارجہ نے تو اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کر دیا ہے اور بھارت کو جتا دیا ہے کہ وہ اکسائی چین کو اپنے نقشے سے فوراً خارج کر دے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکمرانوں کی ہوس ملک گیری کی عادت نے بھارت کے تمام ہی پڑوسیوں کو شروع سے ہی ناراض رکھا ہے۔ گوکہ نیپال ایک ہندو اکثریتی ملک ہے مگر وہاں سیکولر حکومت قائم ہے۔ مودی نے اپنا جیسا ہندو توا کا نظام نافذ کرانے کے لیے وہاں کی حکومت پر زبردست دباؤ بنایا تھا مگر وہاں کی حکومت نے مودی کی بات ماننے سے صاف انکار کردیا تھا جس کی پاداش میں مودی نے نیپال کی بھارت کے راستے بیرونی تجارت پر پابندی عائد کردی تھی۔
نیپالی حکومت کی اپیل پر بھی مودی نے بھارتی راہداری نہیں کھولی آخر چین کو نیپال کی مدد کے لیے آنا پڑا تھا۔ تب سے نیپال اور چین کے تعلقات انتہائی دوستانہ ہوگئے ہیں جس پر مودی بہت برہم ہے مگر نیپال کو اب مودی کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ نیپال نے پاکستان سے بھی اچھے تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ ادھر بھوٹان نے بھی بھارتی تسلط کو تسلیم کرنے سے گریز کیا ہے، اس وقت بھوٹان کا پورا جھکاؤ چین کی طرف ہے مگر مودی اس نئی دوستی پر بھوٹان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیوں کہ اب چین اس کی پشت پر ہے۔
مالدیپ ایک اہم جزائر پر مشتمل ملک ہے مودی نے اس کی اقتصادی مدد کے بہانے اس کی سیکیورٹی کو ناکافی قرار دے کر اپنی فوجوں کو وہاں تعینات کردیا تھا وہاں ابھی حال ہی میں نئے انتخابات ہوئے ہیں اور نئے وزیر اعظم نے بھارت کو وارننگ دی ہے کہ وہ فوراً اپنے فوجیوں کو مالدیپ سے ہٹا لے ورنہ وہ اس سلسلے میں خود کارروائی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
بھارت نے روس سے اس کا جدید دفاعی نظام S-40 بھی حاصل کر لیا ہے۔ اس پر امریکی حکومت نے اپنا رویہ بدلا اور اس وقت دونوں کے درمیان انتہائی سرد تعلقات قائم ہیں۔ ان تعلقات کو سکھوں کی آزادی کے مسئلے نے اور زیادہ نقصان پہنچا دیا ہے۔
کینیڈا میں سکھ رہنما نجار کو قتل کرنے اور ایک اور سکھ رہنما پنّوں کے امریکا میں اقدام قتل پر امریکا بھارت سے سخت ناراض ہے اور اس کی اس نے بھارت سے وضاحت بھی مانگ لی ہے۔ ایسے حالات میں اب مودی حکومت بہت پریشانی میں پھنس گئی ہے کیونکہ اب تو لگتا ہے کشمیریوں کے ساتھ ساتھ سکھوں کو بھی اپنا الگ ملک بنانے کی اجازت دینا ہوگی، کیونکہ مغربی ممالک سکھوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں، یوں مودی حکومت کی معاشی پالیسی تو ضرور کامیاب ہے مگر خارجہ پالیسی مکمل ناکام ہوگئی ہے ۔
فاروق عبداللہ نے کہا کہ جموں کشمیر کو تو آپ کی حکومت اور اب بھارتی سپریم کورٹ نے جہنم میں ڈال دیا ہے۔ جب سے مودی سرکار نے آرٹیکل 370 کو ہٹایا ہے کیا جموں کشمیر جہنم نہیں بن گیا ہے؟ یہاں کے تمام حقوق سلب کر لیے گئے ہیں۔ کشمیری لیڈروں کو نظر بند کردیا گیا ہے اور جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ وہ سب آزاد ہیں۔ فاروق عبداللہ کی غصہ آمیز اس گفتگو کے آگے صحافی خاموش ہوگیا۔
بھارت نواز محبوبہ مفتی نے بھی کہا ہے کہ ہم بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے سے بہت رنجیدہ ہیں، اس نے کشمیریوں کے ساتھ ناانصافی ہی نہیں سخت زیادتی کی ہے، مگر ہم ہارے نہیں ہیں ہم پھر اپنا کیس لڑیں گے اور ہم لڑتے ہی رہیں گے۔ یہ تو وہ کشمیری لیڈر ہیں جو بھارت نواز کہلاتے ہیں، انھیں بھی بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے سے تکلیف پہنچی ہے تو پھر جموں کشمیر کے حریت پسند لیڈروں پر کیا گزری ہوگی۔
جس دن بھارتی سپریم کورٹ 370 کا فیصلہ کر رہی تھی پوری وادی میں کرفیو کا سماں تھا۔ اس سے پتا لگتا ہے کہ بھارتی حکومت کو اچھی طرح پتا ہے کہ کشمیری عوام کیا چاہتے ہیں۔ کیا بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے سے مسئلہ کشمیر ختم ہو گیا؟ ہرگز نہیں۔ جموں کشمیر کا مسئلہ کوئی یک طرفہ نہیں ہے کہ اس کا صرف ایک بھارت ہی فریق ہو، اس کا دوسرا فریق پاکستان ہے۔ دونوں مل کر ہی اس مسئلے کا پائیدار حل نکال سکتے ہیں۔ یہ بھارت کا کوئی گھریلو مسئلہ نہیں ہے۔
یہ ایک عالمی متنازع مسئلہ ہے جس کا فیصلہ وہاں کے عوام کو کرنا ہے کہ آیا وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پھر پاکستان کے ساتھ۔یہ مسئلہ آج بھی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر پاکستانی دفتر خارجہ نے تو سخت احتجاج کیا ہی ہے چینی وزارت خارجہ نے تو اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کر دیا ہے اور بھارت کو جتا دیا ہے کہ وہ اکسائی چین کو اپنے نقشے سے فوراً خارج کر دے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکمرانوں کی ہوس ملک گیری کی عادت نے بھارت کے تمام ہی پڑوسیوں کو شروع سے ہی ناراض رکھا ہے۔ گوکہ نیپال ایک ہندو اکثریتی ملک ہے مگر وہاں سیکولر حکومت قائم ہے۔ مودی نے اپنا جیسا ہندو توا کا نظام نافذ کرانے کے لیے وہاں کی حکومت پر زبردست دباؤ بنایا تھا مگر وہاں کی حکومت نے مودی کی بات ماننے سے صاف انکار کردیا تھا جس کی پاداش میں مودی نے نیپال کی بھارت کے راستے بیرونی تجارت پر پابندی عائد کردی تھی۔
نیپالی حکومت کی اپیل پر بھی مودی نے بھارتی راہداری نہیں کھولی آخر چین کو نیپال کی مدد کے لیے آنا پڑا تھا۔ تب سے نیپال اور چین کے تعلقات انتہائی دوستانہ ہوگئے ہیں جس پر مودی بہت برہم ہے مگر نیپال کو اب مودی کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ نیپال نے پاکستان سے بھی اچھے تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ ادھر بھوٹان نے بھی بھارتی تسلط کو تسلیم کرنے سے گریز کیا ہے، اس وقت بھوٹان کا پورا جھکاؤ چین کی طرف ہے مگر مودی اس نئی دوستی پر بھوٹان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیوں کہ اب چین اس کی پشت پر ہے۔
مالدیپ ایک اہم جزائر پر مشتمل ملک ہے مودی نے اس کی اقتصادی مدد کے بہانے اس کی سیکیورٹی کو ناکافی قرار دے کر اپنی فوجوں کو وہاں تعینات کردیا تھا وہاں ابھی حال ہی میں نئے انتخابات ہوئے ہیں اور نئے وزیر اعظم نے بھارت کو وارننگ دی ہے کہ وہ فوراً اپنے فوجیوں کو مالدیپ سے ہٹا لے ورنہ وہ اس سلسلے میں خود کارروائی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
بھارت نے روس سے اس کا جدید دفاعی نظام S-40 بھی حاصل کر لیا ہے۔ اس پر امریکی حکومت نے اپنا رویہ بدلا اور اس وقت دونوں کے درمیان انتہائی سرد تعلقات قائم ہیں۔ ان تعلقات کو سکھوں کی آزادی کے مسئلے نے اور زیادہ نقصان پہنچا دیا ہے۔
کینیڈا میں سکھ رہنما نجار کو قتل کرنے اور ایک اور سکھ رہنما پنّوں کے امریکا میں اقدام قتل پر امریکا بھارت سے سخت ناراض ہے اور اس کی اس نے بھارت سے وضاحت بھی مانگ لی ہے۔ ایسے حالات میں اب مودی حکومت بہت پریشانی میں پھنس گئی ہے کیونکہ اب تو لگتا ہے کشمیریوں کے ساتھ ساتھ سکھوں کو بھی اپنا الگ ملک بنانے کی اجازت دینا ہوگی، کیونکہ مغربی ممالک سکھوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں، یوں مودی حکومت کی معاشی پالیسی تو ضرور کامیاب ہے مگر خارجہ پالیسی مکمل ناکام ہوگئی ہے ۔