عوامی معیشت کا ماضی‘ حال اور مستقبل
لیاقت علی خان نے سامراج سے معاشی آزادی کے برقرار رکھنے کا جو طریقہ اختیار کیا تھا ...
کسی بھی ملک کی اصل قوت معیشت ہوتی ہے۔ معیشت کے حوالے سے ملک کے مقام کا تعین کیا جاتا ہے۔ جس طرح مستقل یکساں رفتار سے چلنے والی ریل گاڑی کے لیے یہ اندازہ کرنا آسان ہوتا ہے کہ فلاں وقت میں فلاں مقام پر ہو گی۔ معیشت کا اندازہ بھی اسی طرح کیا جا سکتا ہے۔ ستمبر 1949ء میں وزیر اعظم خان لیاقت علی خان پر امریکی دباؤ آیا کہ روپے کی قیمت میں ڈالر کے مقابلے میں کمی کر دی جائے۔ وزیر اعظم نے سختی سے منع کر دیا۔ تباہ حال ملک کو وزیر اعظم نے مزید تباہی سے بچا لیا۔
آج مئی 2014ء میں پاکستان کی معیشت بری طرح تباہ حالی کا شکار ہے۔ اگر ماضی اور حال کا موازنہ یورپی ملکوں کی معیشت سے کیا جائے تو بڑا فرق نظر آتا ہے۔ حالانکہ تمام یورپ براہ راست پہلی اور دوسری عالمی جنگ ستمبر 1939ء سے اگست 1945ء تک بری طرح تباہ ہو گیا تھا۔پاکستان 14 اگست 1947ء کو دو سال بعد تباہ حالی میں وجود میں آیا تھا۔ اس کے باوجود یورپی ممالک نے جو غلبہ حاصل کیا اس کے پیچھے یورپی لیڈروں، یورپی قیادتوں کا عمل دخل ہے۔ یورپی لیڈر عوام اور ملک کے غدار نہیں تھے۔ ماضی کی معیشت کی تاریخ کو پرکھنے سے یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے۔
کتاب International Financial Statistics. Year Book 1979-80 کے صفحات 140 اور 74 سے 80 تک Commodity Pricesکیمطابق 1950 میں آٹا (Wheat) کی قیمت آسٹریلیا میں ایک ڈالر کا آٹا 11.60 کلوگرام، کینیڈا میں آٹا ایک ڈالر کا 14.90 کلوگرام، ارجنٹائن میں ایک ڈالر کا 16.80 کلوگرام تھا۔ تینوں ملکوں میں اوسطاً قیمت ایک ڈالر 14.433 کلوگرام تھی اور 17 مئی 2014ء کو شکاگو بورڈ آف ٹریڈ کے حوالے سے عالمی مارکیٹ میں Wheat کی قیمت ایک ڈالر کا 3.30 کلوگرام تھا۔ اس طرح 64 سالوں میں یورپ و امریکا میں آٹا کی قیمت میں 337 فیصد اضافہ ہوا۔ کتاب Pakistan Statistical. Year Book 1955ء جسے منسٹری آف اکنامک آفیسرز حکومت پاکستان کراچی نے شایع کیا۔
اس کے صفحے 84 پر آٹا کی قیمت 1950ء میں (4 آنے) موجودہ 25 پیسے کا ایک سیر تھا۔ 17 مئی 2014ء کو آٹا 48 روپے کا ایک کلو گرام تھا۔ آٹے کی قیمت میں اضافہ 19100 فیصد کر دیا گیا۔ چینی یورپ و امریکا میں 1950ء میں ایک ڈالر کی 9.106 کلوگرام تھی۔ 2014ء کو ایک ڈالر کی 2.058 کلوگرام ہوئی۔ سفید چینی کی قیمت میں 342 فیصد اضافہ ہوا۔ پاکستان میں 1950ء میں 37.54 روپے 40 سیر تھی۔ مئی 2014 ء کو 2200.0 روپے 40 کلوگرام ہو گئی چینی کی قیمت میں اضافہ 5760 فیصد کر دیا گیا۔بناسپتی تیل Vegetable Oil یورپ و امریکا میں 1950ء میں ایک ڈالر کا 3.182 کلو گرام تھا۔ مئی 2014ء میں ایک ڈالر کا 1.052 کلوگرام ہو گیا۔ اس کی قیمت میں اضافہ 202 فیصد ہوا۔
پاکستان میں بناسپتی تیل 1955ء میں 1.25 روپے فی سیر اور مئی 2014ء میں اس کی قیمت 160.00 روپے فی کلوگرام ہو گئی۔ اس کی قیمت میں اضافہ 12700 فیصد ہوا۔ دیگر تمام اشیاء کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا۔ اس طرح یہ بات صحیح ثابت ہوتی ہے کہ یورپی ملکوں کی قیادت نے ''مستقل رفتار'' سے ترقی کا معیار قائم رکھا اور معاشی غلام پاکستان کے حکمرانوں نے اپنے ٹرائیکی (جاگیردار، سرمایہ کار، اعلیٰ بیوروکریٹس) معاشی مفادات کو عوام اور ملکی دفاعی اصولوں سے مقدم رکھا۔ ٹرائیکا نے عوامی سرمایہ لوٹ کر سوئس بینکوں، برطانیہ، اسپین ودیگر ملکوں میں سرمایہ کاری پر لگایا ہوا ہے۔ عوام کے نام پر ڈالر قرضے لے کر ٹرائیکا اپنے اوپر خرچ کرتی آ رہی ہے۔ بیرونی ملکوں کے پرائیویٹ، سرکاری دورے، علاج و معالجے کے اخراجات، عوامی سرمائے سے ادا کیے جاتے ہیں۔
لیاقت علی خان نے سامراج سے معاشی آزادی کے برقرار رکھنے کا جو طریقہ اختیار کیا تھا، ملک غلام محمد، اسکندر مرزا، محمد علی بوگرہ ، چوہدری محمد علی، ملک فیروز خان نون، جنرل ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو (مئی 1972ء میں آئی ایم ایف کے حکم پر روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں 132 فیصد کم کر دی تھی) اور اب تک بننے والے تمام نگران و دیگر حکمرانوں نے عوام کی خوشحالی کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ بلکہ الٹا سامراجی حکم پر اداروں کی نجکاری کرنی شروع کر دی گئی۔ ٹرائیکا کے ''معاشی جرائم'' کی سزا عوام کو دی جا رہی ہے۔ مالی سال 2011-12ء کی ریونیو (آمدنی)25 کھرب 68 ارب 6 کروڑ روپے تھا۔
اس میں سے ملکی و غیر ملکی قرضے کی ادائیگی کا بوجھ عوام سے 10 کھرب 37 ارب 20 کروڑ 50 لاکھ روپے وصول کیا گیا۔ جو ریونیو کا 40 فیصد بنتا ہے۔ کیا حکمران عوام کو اس طریقے سے خوشحالی دے سکیں گے؟ ٹرائیکا نے ملکی معیشت پر سامراجی غیر اعلانیہ ڈالر ٹیکس 2882 فیصد لگوایا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان کا صنعتی کلچر آئے روز تباہ ہو رہا ہے۔ اور سامراجی صنعتی کلچر ملکی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔ ملکی تجارتی خسارہ اس کی گواہی دے رہا ہے۔ مالی سال 2005-06 تجارتی خسارہ 12130.0 ملین ڈالر، 2006-07 میں 135064.0 ملین ڈالر خسارہ، 2007-08 میں 20914.0 ملین ڈالر خسارہ، 2011-12 میں خسارہ 21271.0 ملین ڈالر کا خسارہ ہوا۔
پاکستان کی قیادتیں 1951 کے بعد سے آج تک بدعنوان،کرپٹ چلی آ رہی ہیں۔ تو عوام کی ترقی کے لیے مستقل منصوبہ بندی کیسے ہو سکتی ہے۔ آئین میں عوام کے لیے سب کچھ تو ٹرائیکا نے رکھا ہے۔ لیکن اس پر عمل حکمران نہیں کرتے ہیں۔ اس لیے عوام کے لیے بے ثمر آئین اور سپریم کورٹ اب تک معاشی محرومیوں کے شکار عوام کے لیے کچھ نہیں کر سکے ہیں۔ عوام آئے روز مزید معاشی بدحالی کے کنوؤں میں گرتے جا رہے ہیں، سپریم کورٹ آف پاکستان سے مودبانہ گزارش ہے کہ اسمبلیوں میں موجود تمام اراکین سے یہ Affidavit لکھوائے کہ اگر منتخب ہونے والے ممبران مہنگائی کا خاتمہ، بے روزگاری کا خاتمہ نہیں کر سکیں گے تو انھیں نشان عبرت بنا دیا جائے گا ۔ کیونکہ ان ہی لوگوں نے معیشت کو تباہ اور ملکی سلامتی کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔
چند روز میں حکومت بجٹ کا اعلان کرنے والی ہے۔ اس سے عوام کو کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ عوام کی قوت خرید میں اضافہ ہوگا بلکہ عوام کی قوت خرید مزید کمی کر دی جائے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ 1951 کے بعد سے آج تک ملکی معیشت مسلسل غیر یقینی کا شکار ہے اور جس ملک کی معیشت غیر یقینیت سے دوچار ہو اس کے پیچھے دو عوامل ہوتے ہیں۔ غیر ملکی مالیاتی مداخلت جو ہم امپورٹ کے مسلسل بڑھنے کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ روپے (کرنسی) کی قیمت کو ڈالر کے مقابلے گراتے جانا۔ حالانکہ ڈالر بیرونی ملکوں میں 128 معاشی غلام ملکوں کے علاوہ مار کھا رہا ہے۔ پاکستان کے حکمران ڈالر یا امریکا سے خوف زدہ کیوں ہیں؟ اس کے پیچھے یہی وجہ ہے ان کے اثاثے، رقوم سامراجی ملکوں میں ہیں۔
یہ سامراج کے سامنے آنکھ اٹھاکر بھی دیکھ نہیں سکتے اور وہ منظر ابھی عوام کے ذہنوں سے محو نہیں ہوا کہ برطانوی وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے جانے والے تمام منسٹرز روڈ پر جنگلے سے لگے قطار میں کھڑے تھے ۔ یہ ہمارے لیڈر ہونے کے قابل ہی نہیں ہیں ۔ دوسری وجہ سامراجی آئی ایم ایف کے نمایندے پاکستان میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اور جن ٹرائیکا کے لوگوں کو ہم نے منتخب کیا ہے جن کو ووٹ دیے ہیں یہ ووٹ لینے والے سامراج سے ہدایات لے کر پاکستان کی معاشی پالیسیاں بناتے ہیں ۔ کیا اس کے بعد کوئی گنجائش رہ جاتی ہے کہ عوام کا خواب خوشحالی پورا ہو سکے؟ عوام کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ معاشی خوشحالی کیسے حاصل کرتے ہیں۔ اور پھر معاشی آزادی کے بغیر ترقی اور آنیوالی نسلوں کا محفوظ معاشی مستقبل تب ہی ممکن ہے کہ عوام جابروں سے اپنی معاشی آزادی چھین لیں ۔ آج یا کل آخر کار ایک دن یہ کرنا ہی ہو گا ۔
آج مئی 2014ء میں پاکستان کی معیشت بری طرح تباہ حالی کا شکار ہے۔ اگر ماضی اور حال کا موازنہ یورپی ملکوں کی معیشت سے کیا جائے تو بڑا فرق نظر آتا ہے۔ حالانکہ تمام یورپ براہ راست پہلی اور دوسری عالمی جنگ ستمبر 1939ء سے اگست 1945ء تک بری طرح تباہ ہو گیا تھا۔پاکستان 14 اگست 1947ء کو دو سال بعد تباہ حالی میں وجود میں آیا تھا۔ اس کے باوجود یورپی ممالک نے جو غلبہ حاصل کیا اس کے پیچھے یورپی لیڈروں، یورپی قیادتوں کا عمل دخل ہے۔ یورپی لیڈر عوام اور ملک کے غدار نہیں تھے۔ ماضی کی معیشت کی تاریخ کو پرکھنے سے یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے۔
کتاب International Financial Statistics. Year Book 1979-80 کے صفحات 140 اور 74 سے 80 تک Commodity Pricesکیمطابق 1950 میں آٹا (Wheat) کی قیمت آسٹریلیا میں ایک ڈالر کا آٹا 11.60 کلوگرام، کینیڈا میں آٹا ایک ڈالر کا 14.90 کلوگرام، ارجنٹائن میں ایک ڈالر کا 16.80 کلوگرام تھا۔ تینوں ملکوں میں اوسطاً قیمت ایک ڈالر 14.433 کلوگرام تھی اور 17 مئی 2014ء کو شکاگو بورڈ آف ٹریڈ کے حوالے سے عالمی مارکیٹ میں Wheat کی قیمت ایک ڈالر کا 3.30 کلوگرام تھا۔ اس طرح 64 سالوں میں یورپ و امریکا میں آٹا کی قیمت میں 337 فیصد اضافہ ہوا۔ کتاب Pakistan Statistical. Year Book 1955ء جسے منسٹری آف اکنامک آفیسرز حکومت پاکستان کراچی نے شایع کیا۔
اس کے صفحے 84 پر آٹا کی قیمت 1950ء میں (4 آنے) موجودہ 25 پیسے کا ایک سیر تھا۔ 17 مئی 2014ء کو آٹا 48 روپے کا ایک کلو گرام تھا۔ آٹے کی قیمت میں اضافہ 19100 فیصد کر دیا گیا۔ چینی یورپ و امریکا میں 1950ء میں ایک ڈالر کی 9.106 کلوگرام تھی۔ 2014ء کو ایک ڈالر کی 2.058 کلوگرام ہوئی۔ سفید چینی کی قیمت میں 342 فیصد اضافہ ہوا۔ پاکستان میں 1950ء میں 37.54 روپے 40 سیر تھی۔ مئی 2014 ء کو 2200.0 روپے 40 کلوگرام ہو گئی چینی کی قیمت میں اضافہ 5760 فیصد کر دیا گیا۔بناسپتی تیل Vegetable Oil یورپ و امریکا میں 1950ء میں ایک ڈالر کا 3.182 کلو گرام تھا۔ مئی 2014ء میں ایک ڈالر کا 1.052 کلوگرام ہو گیا۔ اس کی قیمت میں اضافہ 202 فیصد ہوا۔
پاکستان میں بناسپتی تیل 1955ء میں 1.25 روپے فی سیر اور مئی 2014ء میں اس کی قیمت 160.00 روپے فی کلوگرام ہو گئی۔ اس کی قیمت میں اضافہ 12700 فیصد ہوا۔ دیگر تمام اشیاء کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا۔ اس طرح یہ بات صحیح ثابت ہوتی ہے کہ یورپی ملکوں کی قیادت نے ''مستقل رفتار'' سے ترقی کا معیار قائم رکھا اور معاشی غلام پاکستان کے حکمرانوں نے اپنے ٹرائیکی (جاگیردار، سرمایہ کار، اعلیٰ بیوروکریٹس) معاشی مفادات کو عوام اور ملکی دفاعی اصولوں سے مقدم رکھا۔ ٹرائیکا نے عوامی سرمایہ لوٹ کر سوئس بینکوں، برطانیہ، اسپین ودیگر ملکوں میں سرمایہ کاری پر لگایا ہوا ہے۔ عوام کے نام پر ڈالر قرضے لے کر ٹرائیکا اپنے اوپر خرچ کرتی آ رہی ہے۔ بیرونی ملکوں کے پرائیویٹ، سرکاری دورے، علاج و معالجے کے اخراجات، عوامی سرمائے سے ادا کیے جاتے ہیں۔
لیاقت علی خان نے سامراج سے معاشی آزادی کے برقرار رکھنے کا جو طریقہ اختیار کیا تھا، ملک غلام محمد، اسکندر مرزا، محمد علی بوگرہ ، چوہدری محمد علی، ملک فیروز خان نون، جنرل ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو (مئی 1972ء میں آئی ایم ایف کے حکم پر روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں 132 فیصد کم کر دی تھی) اور اب تک بننے والے تمام نگران و دیگر حکمرانوں نے عوام کی خوشحالی کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ بلکہ الٹا سامراجی حکم پر اداروں کی نجکاری کرنی شروع کر دی گئی۔ ٹرائیکا کے ''معاشی جرائم'' کی سزا عوام کو دی جا رہی ہے۔ مالی سال 2011-12ء کی ریونیو (آمدنی)25 کھرب 68 ارب 6 کروڑ روپے تھا۔
اس میں سے ملکی و غیر ملکی قرضے کی ادائیگی کا بوجھ عوام سے 10 کھرب 37 ارب 20 کروڑ 50 لاکھ روپے وصول کیا گیا۔ جو ریونیو کا 40 فیصد بنتا ہے۔ کیا حکمران عوام کو اس طریقے سے خوشحالی دے سکیں گے؟ ٹرائیکا نے ملکی معیشت پر سامراجی غیر اعلانیہ ڈالر ٹیکس 2882 فیصد لگوایا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان کا صنعتی کلچر آئے روز تباہ ہو رہا ہے۔ اور سامراجی صنعتی کلچر ملکی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔ ملکی تجارتی خسارہ اس کی گواہی دے رہا ہے۔ مالی سال 2005-06 تجارتی خسارہ 12130.0 ملین ڈالر، 2006-07 میں 135064.0 ملین ڈالر خسارہ، 2007-08 میں 20914.0 ملین ڈالر خسارہ، 2011-12 میں خسارہ 21271.0 ملین ڈالر کا خسارہ ہوا۔
پاکستان کی قیادتیں 1951 کے بعد سے آج تک بدعنوان،کرپٹ چلی آ رہی ہیں۔ تو عوام کی ترقی کے لیے مستقل منصوبہ بندی کیسے ہو سکتی ہے۔ آئین میں عوام کے لیے سب کچھ تو ٹرائیکا نے رکھا ہے۔ لیکن اس پر عمل حکمران نہیں کرتے ہیں۔ اس لیے عوام کے لیے بے ثمر آئین اور سپریم کورٹ اب تک معاشی محرومیوں کے شکار عوام کے لیے کچھ نہیں کر سکے ہیں۔ عوام آئے روز مزید معاشی بدحالی کے کنوؤں میں گرتے جا رہے ہیں، سپریم کورٹ آف پاکستان سے مودبانہ گزارش ہے کہ اسمبلیوں میں موجود تمام اراکین سے یہ Affidavit لکھوائے کہ اگر منتخب ہونے والے ممبران مہنگائی کا خاتمہ، بے روزگاری کا خاتمہ نہیں کر سکیں گے تو انھیں نشان عبرت بنا دیا جائے گا ۔ کیونکہ ان ہی لوگوں نے معیشت کو تباہ اور ملکی سلامتی کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔
چند روز میں حکومت بجٹ کا اعلان کرنے والی ہے۔ اس سے عوام کو کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ عوام کی قوت خرید میں اضافہ ہوگا بلکہ عوام کی قوت خرید مزید کمی کر دی جائے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ 1951 کے بعد سے آج تک ملکی معیشت مسلسل غیر یقینی کا شکار ہے اور جس ملک کی معیشت غیر یقینیت سے دوچار ہو اس کے پیچھے دو عوامل ہوتے ہیں۔ غیر ملکی مالیاتی مداخلت جو ہم امپورٹ کے مسلسل بڑھنے کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ روپے (کرنسی) کی قیمت کو ڈالر کے مقابلے گراتے جانا۔ حالانکہ ڈالر بیرونی ملکوں میں 128 معاشی غلام ملکوں کے علاوہ مار کھا رہا ہے۔ پاکستان کے حکمران ڈالر یا امریکا سے خوف زدہ کیوں ہیں؟ اس کے پیچھے یہی وجہ ہے ان کے اثاثے، رقوم سامراجی ملکوں میں ہیں۔
یہ سامراج کے سامنے آنکھ اٹھاکر بھی دیکھ نہیں سکتے اور وہ منظر ابھی عوام کے ذہنوں سے محو نہیں ہوا کہ برطانوی وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے جانے والے تمام منسٹرز روڈ پر جنگلے سے لگے قطار میں کھڑے تھے ۔ یہ ہمارے لیڈر ہونے کے قابل ہی نہیں ہیں ۔ دوسری وجہ سامراجی آئی ایم ایف کے نمایندے پاکستان میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اور جن ٹرائیکا کے لوگوں کو ہم نے منتخب کیا ہے جن کو ووٹ دیے ہیں یہ ووٹ لینے والے سامراج سے ہدایات لے کر پاکستان کی معاشی پالیسیاں بناتے ہیں ۔ کیا اس کے بعد کوئی گنجائش رہ جاتی ہے کہ عوام کا خواب خوشحالی پورا ہو سکے؟ عوام کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ معاشی خوشحالی کیسے حاصل کرتے ہیں۔ اور پھر معاشی آزادی کے بغیر ترقی اور آنیوالی نسلوں کا محفوظ معاشی مستقبل تب ہی ممکن ہے کہ عوام جابروں سے اپنی معاشی آزادی چھین لیں ۔ آج یا کل آخر کار ایک دن یہ کرنا ہی ہو گا ۔