نو آبادیاتی تسلط کل اور آج پہلا حصہ
آج تک کبھی ایسانہیں ہواکہ اگرکوئی ملک مغربی بینک کوقرض واپس نہ کرسکے توان قرضوں کوBad Debt قراردے کرختم کردیا گیا ہو
یورپ میں صنعتی انقلاب کے برپا ہونے کے بعد انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ واقعہ ظہور پذیر ہوا کہ یورپ کے چند ملکوں نے تقریباً پوری دنیا پر براہ راست قبضہ کر لیا۔
سولہویں صدی میں تجارت کی غرض سے آنے اور چند تجارتی کوٹھیوں کے قیام کے لیے مغل دربار میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے دست بستہ کھڑے ہونے والے ملازمین نے ہوسِ اقتدار پوری کرنے اور آتش انتقام سرد کرنے کے لیے 22ستمبر 1857 کو بہادر شاہ کے دو بیٹوں اور ایک جواں سال پوتے کو برسر عام گولیاں مار کر ہلاک کیا، بچ رہنے والے بادشاہ کو اس کے چند اہل خانہ کے ساتھ ''باغی'' اور '' غدار'' قرار دے کر جلا وطن کیا گیا اور رنگون بھیج دیا گیا جہاں نہایت عسرت اور قابلِ عبرت زندگی گزار کر آخری مغل بادشاہ اور اردو کے بے مثل اور بے بدل شاعر بہادر شاہ ظفر نے 7 نومبر 1862 کو بہ عمر 89 برس جان، جان آفریں کے سپرد کی۔
ہندوستان کی حکومت اور اس کے وسائل پر قبضہ کرنے اور کروڑوں کی مال و دولت کو لوٹنے کے واقعات تاریخی کتابوں میں محفوظ ہیں لیکن اس سے کہیں بڑا معاملہ وہ مقدمہ ہے جو ہندوستان کے جائز اور قانونی حکمران پر غاصب انگریزی فوج کے اعلیٰ حکام نے بنایا اور چلایا۔ بہادر شاہ ظفر پر چلنے والے اس مقدمے نے ''عدل و انصاف '' کا سر جس طور ''بلند'' کیا،اس کی تفصیل سے برطانوی اور ہندوستانی مصنفین کی متعدد کتابیں بھری ہوئی ہیں۔
خواجہ حسن نظامی دہلوی اور مرزا حیرت دہلوی نے اس مقدمے کی 280 صفحات پر مشتمل جو روداد نقل کی ہے، اس کے مطابق 27 جنوری 1858کو بہ مقام دہلی، دن کے گیارہ بجے لال قلعہ کے دربار خاص میں اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں مغل بادشاہ پر جو الزامات لگائے گئے وہ درج ذیل ہیں۔
(1) باوجود سلطنت برطانیہ ہند کا پنشن خوار ہونے کے 10 مئی و یکم اکتوبر 1857کے درمیانی زمانہ میں مختلف اوقات پر اس نے محمد بخت خان توپخانہ کی رجمنٹ کے صوبہ دار و مختلف اشخاص و ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کے ہندوستانی کمیشنڈ افسروں اور نامعلوم سپاہیوں کو سلطنت کے خلاف غدر و بلوہ کرنے میں جرأت و امداد دی اور اعانت کی۔
(2)10 مئی و یکم اکتوبر 1857کے درمیانی زمانہ میں مختلف اوقات پر بہ مقام دہلی اپنے بیٹے مرزا مغل و حکومت برطانیہ ہند اور دیگر نامعلوم اشخاص باشندگان دہلی و صوبہ ممالک مغربی و مشرقی ہند کو جو نیز حکومت برطانیہ مذکورکی رعایا تھے، سلطنت کے خلاف بلوہ کرنے اور لڑنے میں جرأت و امداد دی اور اعانت کی۔
(3) درصورت رعایا حکومت برطانیہ ہند ہونے کے حق اطاعت کا خیال نہ کیا اور بہ مقام دہلی 11 مئی 1857 یا اس کے قریب کی کسی تاریخ میں سلطنت سے نمک حرامی کر کے اپنے تیئں بادشاہ و شہنشاہ ہند مشہور و ظاہر کیا اور دغا بازی سے شہر دہلی پر بے ضابطہ قبضہ کر لیا اور علاوہ ازیں 10 مئی 1857کے درمیانی زمانہ میں مختلف اوقات پر مثل نمک حراموں کے مرزا مغل و محمد بخت خان صوبہ دار رجمنٹ توپخانہ اور مختلف دیگر نامعلوم مفسدہ پروازوں کے ساتھ سلطنت کے برخلاف سرکشی کرنے اور لڑائی لڑنے میں مفسدانہ سازش و مشورہ اور اتفاق کیا اور نیز سلطنت برطانیہ ہند کے انہدام اور غارت کرنے اور اپنے مفسدانہ منصوبے پورے کرنے کے لیے مسلح فوج کو جمع کیا اور سلطنت برطانیہ مذکورہ کے خلاف لڑنے کے لیے روانہ کیا۔
(4)یہ کہ 16 مئی 1857 کی قریب کی تاریخ پر بہ مقام دہلی، قلعہ کی چار دیواری کے اندر 49 آدمیوں کو قتل کرادیا اور قتل میں مدد دی جن میں خاص کر انگریز عورتیں و بچے اور دوغلے انگریز شامل تھے اور مزید برآں 10 مئی و یکم اکتوبر 1857 کے درمیانی زمانہ میں مختلف سپاہیوں اور دیگر اشخاص کو انگریزی افسروں اور دیگر انگریزی رعایا کو جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے قتل کرنے کی جرأت دی اور اعانت کی اور اس کام کے لیے قاتلوں کو ملازمت، ترقی وخطابات دیے اور وعدہ کیا اور نیز یہ کہ ہندوستان کے مختلف خود مختار دیسی رئیسوں کو احکامات بھی دیے کہ عیسائیوں اور انگریزوں کو اپنے حدود اور علاقہ میں جب اور جہاں پائیں قتل کردیں۔ یہ فعل یا اس کا کوئی جزو ہندوستان کی قانونی کونسل کے ایکٹ 16 مصدرہ 1857کے مطابق جرم عظیم ہے۔
یہ مقدمہ 27 جنوری 1858کو شروع ہوا، اس کا تفصیلی فیصلہ سنانے کے لیے 9 مارچ 1857کو ''عدالت'' اپنی تجویز پر غور کرنے کے لیے بند ہوئی اور 2 اپریل 1858کو مقدمے کا فیصلہ یوں سنایا گیا کہ:
''جو شہادت عدالت کے روبرو ہے، اس کی رو سے اس کی رائے یہ ہے کہ قیدی محمد بہادر شاہ، دہلی کا خارج شدہ باد شاہ، ان کل اور جزو الزامات کا جو اس پر لگائے گئے، مجرم ہے۔ ''
دوسری جنگ عظیم کے بعد غلام ملک جب براہ راست نو آبادیاتی تسلط سے آزاد ہونے لگے تو یہ امید پیدا ہوئی کہ انسانی تاریخ کا ایک ڈراؤنا خواب اب ختم ہونے والا ہے، لیکن کچھ عرصے بعد ہی یہ نظر آگیا کہ دنیا سے نو آبادیاتی نظام کے محض ایک دورکا خاتمہ ہوا ہے، اب پرانے سامراج کی جگہ ایک جدید نوآبادیاتی سامراجی نظام نے لے لی ہے۔ اس جدید نوآبادیاتی نظام کی خاصیت یہ ہے کہ یہ کسی بھی ملک کو براہ راست اپنی نوآبادی نہیں بناتا لیکن بالواسطہ طور پر اس کا معاشی اعتبار سے ایسا استحصال کرتا ہے جس کی مثال ماضی کے سامراجی نظام میں بھی ملنی مشکل ہے۔
امریکا اور مغربی یورپ کے ملک آج کے اسی نئے سامراجی نظام کے نمایندے ہیں۔ جدید سامراج کی نمایندگی کرنے والے یہ ملک عالمی مالیاتی اداروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور فوجی قوت کے بل پر تیسری دنیا کے ملکوں پر کس طرح اپنا تسلط قائم کرتے ہیں، اس حوالے سے بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ یہ کہ دنیا پر مسلط جدید یا نوآبادیاتی نظام کی اصل شکل کیا ہے اور وہ دنیا پرکس طرح تسلط قائم کیے ہوئے ہے اس کی چند بڑی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
آج کا جدید نوآبادیاتی نظام عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے اپنے سرمایہ داروں کے مفادات کا کس طرح تحفظ کرتا ہے اس کی ایک مثال وہ قرضے ہیں جو ترقی یافتہ ملکوں کے بینک اور مالیاتی ادارے ترقی پذیر ملکوں کو دیتے ہیں۔ یہ قرضے زیادہ شرح سود پر دیے جاتے ہیں، اگرکوئی ملک قرض ادا نہ کرسکے تو اصولاً اس مسئلے کو قرض دینے والے بینک اور قرض حاصل کرنے والے ملک کا باہمی معاملہ ہونا چاہیے۔ اس میں غیر ملکی حکومتوں کو دخل اندازی نہیں کرنا چاہیے، لیکن ہوتا اس کے بالکل برعکس ہے۔
آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اگر کوئی ملک مغربی بینک کو قرض واپس نہ کرسکے تو ان قرضوں کو Bad Debt قرار دے کر ختم کردیا گیا ہو۔ ہوتا یہ ہے کہ سامراجی ملک ہر قیمت پر یہ قرضے اپنے بینکوں کو واپس دلواتے ہیں۔ مشرقی ایشیا کے بینکوں کے قرضے اگر مغربی کمپنیاں نہ واپس کریں تو انھیں ایسا کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جاتا بلکہ ایشیا کے بینکوں کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ان قرضوں کو ناقابل واپسی قرار دے کر اسے معاف کردیں، لیکن اس اصول کا اطلاق سامراجی ملکوں کے بینکوں پر نہیں ہوتا۔ (جاری ہے)
سولہویں صدی میں تجارت کی غرض سے آنے اور چند تجارتی کوٹھیوں کے قیام کے لیے مغل دربار میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے دست بستہ کھڑے ہونے والے ملازمین نے ہوسِ اقتدار پوری کرنے اور آتش انتقام سرد کرنے کے لیے 22ستمبر 1857 کو بہادر شاہ کے دو بیٹوں اور ایک جواں سال پوتے کو برسر عام گولیاں مار کر ہلاک کیا، بچ رہنے والے بادشاہ کو اس کے چند اہل خانہ کے ساتھ ''باغی'' اور '' غدار'' قرار دے کر جلا وطن کیا گیا اور رنگون بھیج دیا گیا جہاں نہایت عسرت اور قابلِ عبرت زندگی گزار کر آخری مغل بادشاہ اور اردو کے بے مثل اور بے بدل شاعر بہادر شاہ ظفر نے 7 نومبر 1862 کو بہ عمر 89 برس جان، جان آفریں کے سپرد کی۔
ہندوستان کی حکومت اور اس کے وسائل پر قبضہ کرنے اور کروڑوں کی مال و دولت کو لوٹنے کے واقعات تاریخی کتابوں میں محفوظ ہیں لیکن اس سے کہیں بڑا معاملہ وہ مقدمہ ہے جو ہندوستان کے جائز اور قانونی حکمران پر غاصب انگریزی فوج کے اعلیٰ حکام نے بنایا اور چلایا۔ بہادر شاہ ظفر پر چلنے والے اس مقدمے نے ''عدل و انصاف '' کا سر جس طور ''بلند'' کیا،اس کی تفصیل سے برطانوی اور ہندوستانی مصنفین کی متعدد کتابیں بھری ہوئی ہیں۔
خواجہ حسن نظامی دہلوی اور مرزا حیرت دہلوی نے اس مقدمے کی 280 صفحات پر مشتمل جو روداد نقل کی ہے، اس کے مطابق 27 جنوری 1858کو بہ مقام دہلی، دن کے گیارہ بجے لال قلعہ کے دربار خاص میں اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں مغل بادشاہ پر جو الزامات لگائے گئے وہ درج ذیل ہیں۔
(1) باوجود سلطنت برطانیہ ہند کا پنشن خوار ہونے کے 10 مئی و یکم اکتوبر 1857کے درمیانی زمانہ میں مختلف اوقات پر اس نے محمد بخت خان توپخانہ کی رجمنٹ کے صوبہ دار و مختلف اشخاص و ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کے ہندوستانی کمیشنڈ افسروں اور نامعلوم سپاہیوں کو سلطنت کے خلاف غدر و بلوہ کرنے میں جرأت و امداد دی اور اعانت کی۔
(2)10 مئی و یکم اکتوبر 1857کے درمیانی زمانہ میں مختلف اوقات پر بہ مقام دہلی اپنے بیٹے مرزا مغل و حکومت برطانیہ ہند اور دیگر نامعلوم اشخاص باشندگان دہلی و صوبہ ممالک مغربی و مشرقی ہند کو جو نیز حکومت برطانیہ مذکورکی رعایا تھے، سلطنت کے خلاف بلوہ کرنے اور لڑنے میں جرأت و امداد دی اور اعانت کی۔
(3) درصورت رعایا حکومت برطانیہ ہند ہونے کے حق اطاعت کا خیال نہ کیا اور بہ مقام دہلی 11 مئی 1857 یا اس کے قریب کی کسی تاریخ میں سلطنت سے نمک حرامی کر کے اپنے تیئں بادشاہ و شہنشاہ ہند مشہور و ظاہر کیا اور دغا بازی سے شہر دہلی پر بے ضابطہ قبضہ کر لیا اور علاوہ ازیں 10 مئی 1857کے درمیانی زمانہ میں مختلف اوقات پر مثل نمک حراموں کے مرزا مغل و محمد بخت خان صوبہ دار رجمنٹ توپخانہ اور مختلف دیگر نامعلوم مفسدہ پروازوں کے ساتھ سلطنت کے برخلاف سرکشی کرنے اور لڑائی لڑنے میں مفسدانہ سازش و مشورہ اور اتفاق کیا اور نیز سلطنت برطانیہ ہند کے انہدام اور غارت کرنے اور اپنے مفسدانہ منصوبے پورے کرنے کے لیے مسلح فوج کو جمع کیا اور سلطنت برطانیہ مذکورہ کے خلاف لڑنے کے لیے روانہ کیا۔
(4)یہ کہ 16 مئی 1857 کی قریب کی تاریخ پر بہ مقام دہلی، قلعہ کی چار دیواری کے اندر 49 آدمیوں کو قتل کرادیا اور قتل میں مدد دی جن میں خاص کر انگریز عورتیں و بچے اور دوغلے انگریز شامل تھے اور مزید برآں 10 مئی و یکم اکتوبر 1857 کے درمیانی زمانہ میں مختلف سپاہیوں اور دیگر اشخاص کو انگریزی افسروں اور دیگر انگریزی رعایا کو جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے قتل کرنے کی جرأت دی اور اعانت کی اور اس کام کے لیے قاتلوں کو ملازمت، ترقی وخطابات دیے اور وعدہ کیا اور نیز یہ کہ ہندوستان کے مختلف خود مختار دیسی رئیسوں کو احکامات بھی دیے کہ عیسائیوں اور انگریزوں کو اپنے حدود اور علاقہ میں جب اور جہاں پائیں قتل کردیں۔ یہ فعل یا اس کا کوئی جزو ہندوستان کی قانونی کونسل کے ایکٹ 16 مصدرہ 1857کے مطابق جرم عظیم ہے۔
یہ مقدمہ 27 جنوری 1858کو شروع ہوا، اس کا تفصیلی فیصلہ سنانے کے لیے 9 مارچ 1857کو ''عدالت'' اپنی تجویز پر غور کرنے کے لیے بند ہوئی اور 2 اپریل 1858کو مقدمے کا فیصلہ یوں سنایا گیا کہ:
''جو شہادت عدالت کے روبرو ہے، اس کی رو سے اس کی رائے یہ ہے کہ قیدی محمد بہادر شاہ، دہلی کا خارج شدہ باد شاہ، ان کل اور جزو الزامات کا جو اس پر لگائے گئے، مجرم ہے۔ ''
دوسری جنگ عظیم کے بعد غلام ملک جب براہ راست نو آبادیاتی تسلط سے آزاد ہونے لگے تو یہ امید پیدا ہوئی کہ انسانی تاریخ کا ایک ڈراؤنا خواب اب ختم ہونے والا ہے، لیکن کچھ عرصے بعد ہی یہ نظر آگیا کہ دنیا سے نو آبادیاتی نظام کے محض ایک دورکا خاتمہ ہوا ہے، اب پرانے سامراج کی جگہ ایک جدید نوآبادیاتی سامراجی نظام نے لے لی ہے۔ اس جدید نوآبادیاتی نظام کی خاصیت یہ ہے کہ یہ کسی بھی ملک کو براہ راست اپنی نوآبادی نہیں بناتا لیکن بالواسطہ طور پر اس کا معاشی اعتبار سے ایسا استحصال کرتا ہے جس کی مثال ماضی کے سامراجی نظام میں بھی ملنی مشکل ہے۔
امریکا اور مغربی یورپ کے ملک آج کے اسی نئے سامراجی نظام کے نمایندے ہیں۔ جدید سامراج کی نمایندگی کرنے والے یہ ملک عالمی مالیاتی اداروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور فوجی قوت کے بل پر تیسری دنیا کے ملکوں پر کس طرح اپنا تسلط قائم کرتے ہیں، اس حوالے سے بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ یہ کہ دنیا پر مسلط جدید یا نوآبادیاتی نظام کی اصل شکل کیا ہے اور وہ دنیا پرکس طرح تسلط قائم کیے ہوئے ہے اس کی چند بڑی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
آج کا جدید نوآبادیاتی نظام عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے اپنے سرمایہ داروں کے مفادات کا کس طرح تحفظ کرتا ہے اس کی ایک مثال وہ قرضے ہیں جو ترقی یافتہ ملکوں کے بینک اور مالیاتی ادارے ترقی پذیر ملکوں کو دیتے ہیں۔ یہ قرضے زیادہ شرح سود پر دیے جاتے ہیں، اگرکوئی ملک قرض ادا نہ کرسکے تو اصولاً اس مسئلے کو قرض دینے والے بینک اور قرض حاصل کرنے والے ملک کا باہمی معاملہ ہونا چاہیے۔ اس میں غیر ملکی حکومتوں کو دخل اندازی نہیں کرنا چاہیے، لیکن ہوتا اس کے بالکل برعکس ہے۔
آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اگر کوئی ملک مغربی بینک کو قرض واپس نہ کرسکے تو ان قرضوں کو Bad Debt قرار دے کر ختم کردیا گیا ہو۔ ہوتا یہ ہے کہ سامراجی ملک ہر قیمت پر یہ قرضے اپنے بینکوں کو واپس دلواتے ہیں۔ مشرقی ایشیا کے بینکوں کے قرضے اگر مغربی کمپنیاں نہ واپس کریں تو انھیں ایسا کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جاتا بلکہ ایشیا کے بینکوں کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ان قرضوں کو ناقابل واپسی قرار دے کر اسے معاف کردیں، لیکن اس اصول کا اطلاق سامراجی ملکوں کے بینکوں پر نہیں ہوتا۔ (جاری ہے)