سال 2023 پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت میں 55 فیصد کمی
پرزہ جات بنانے والے کارخانوں میں بھی پیداوار 70 فیصد تک گھٹ گئی
سال 2023 میں بھی پاکستان میں آٹو انڈسٹری مشکلات کا شکار رہی، گاڑیوں کی فروخت 55 فیصد تک کم ہوگئی۔
زرمبادلہ کے بحران کی وجہ سے گزشتہ سال تک درآمدات پر عائد قدغن سے گاڑیوں کی پیداوار بری طرح متاثر رہی اور گاڑیاں بنانے والی تمام او ای ایمز نے پیداوار معطل رکھی۔ پرزہ جات بنانے والے کارخانوں میں بھی پیداوار 70 فیصد تک کم رہی۔ گاڑیوں کی فروخت کم ہونے سے قومی خزانے کو بھی محصولات میں نمایاں کمی کا سامنا رہا۔
ایل سیز کھولنے میں مشکلات اور زرمبادلہ کے انتظام میں دشواری کی وجہ سے اہم پرزہ جات کی درآمد بند رہی اسی طرح مقامی سطح پر تیار ہونے والے پرزہ جات کے لیے خام میٹریل بھی درآمد نہ ہوسکا۔ درآمدات پر عائد قدغن کے خاتمہ کے باوجود بلند شرح سود کی وجہ سے گاڑیوں کی طلب بحال نہ ہوسکی۔
روپے کی قدر میں کمی کے باعث گاڑیوں کی قیمت میں اضافہ کا سلسلہ 2023 کی آخری سہ ماہی میں جاری نہ رہ سکا روپے کی قدر میں کسی حد تک استحکام کے باعث گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں نے اپنی قیمتوں میں کسی حد تک کمی کی تاہم بحران سے پہلے کی سطح کے مقابلے میں کمی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے فروخت میں اضافہ نہ ہوسکا۔
پاکستان کی آٹو انڈسٹری کم قیمت گاڑیاں متعارف کرانے اور پاکستان میں تیار کردہ گاڑیاں ایکسپورٹ کرنے کے پالیسی اہداف حاصل کرنے میں بھی ناکام رہیں۔ گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چھوٹی اور کم قیمت گاڑیاں متعارف کرانے کا کوئی ارادہ نہیں زیادہ تر ایس یو وی گاڑیوں کے ماڈلز متعارف کرائے گئے۔
مارکیٹ میں داخل ہونے والے نئے پلیئرز کے ساتھ پرانے پلیئرز بھی تیزی سے مقبول ہوتی ایس یو وی گاڑیاں متعارف کرارہے ہیں اور سیڈان سمیت ہیچ بیک گاڑیوں میں عوام کے پاس استعمال شدہ ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کے علاوہ کوئی انتخاب نہیں بچا۔
سال کے دوران استعمال شدہ درآمدی گاڑیوں کی قیمت میں بھی اضافے کا سلسلہ جاری رہا تاہم کار ڈیلرز کے مطابق پرانی گاڑیوں کی قیمت بڑھنے سے بھی فروخت میں نمایاں کمی کا سامنا ہے۔
آٹو انڈسٹری نے سال 2024 سے امیدیں باندھ لی ہیں۔ آٹو انڈسٹری کو امید ہے کہ نیا سال ہائی برڈ ٹیکنالوجی کے فروغ کا سال ہوگا جو بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی راہ ہموار کریگی۔
آٹو انڈسٹری کو امید ہے کہ عام انتخابات کے بعد مستحکم حکومت کے قیام سے سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہوگا جس کا اثر معاشی سرگرمیوں پر پڑے گا جس سے نئے سال کے آغاز پر گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہوگا انڈسٹری کو امید ہے کہ پاکستان کی مارکیٹ 2030 تک پانچ لاکھ گاڑیوں تک پہنچ جائیگی تاہم اس کے لیے پالیسی کے تسلسل اور شرح سود میں کمی ناگزیر ہے۔
زرمبادلہ کے بحران کی وجہ سے گزشتہ سال تک درآمدات پر عائد قدغن سے گاڑیوں کی پیداوار بری طرح متاثر رہی اور گاڑیاں بنانے والی تمام او ای ایمز نے پیداوار معطل رکھی۔ پرزہ جات بنانے والے کارخانوں میں بھی پیداوار 70 فیصد تک کم رہی۔ گاڑیوں کی فروخت کم ہونے سے قومی خزانے کو بھی محصولات میں نمایاں کمی کا سامنا رہا۔
ایل سیز کھولنے میں مشکلات اور زرمبادلہ کے انتظام میں دشواری کی وجہ سے اہم پرزہ جات کی درآمد بند رہی اسی طرح مقامی سطح پر تیار ہونے والے پرزہ جات کے لیے خام میٹریل بھی درآمد نہ ہوسکا۔ درآمدات پر عائد قدغن کے خاتمہ کے باوجود بلند شرح سود کی وجہ سے گاڑیوں کی طلب بحال نہ ہوسکی۔
روپے کی قدر میں کمی کے باعث گاڑیوں کی قیمت میں اضافہ کا سلسلہ 2023 کی آخری سہ ماہی میں جاری نہ رہ سکا روپے کی قدر میں کسی حد تک استحکام کے باعث گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں نے اپنی قیمتوں میں کسی حد تک کمی کی تاہم بحران سے پہلے کی سطح کے مقابلے میں کمی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے فروخت میں اضافہ نہ ہوسکا۔
پاکستان کی آٹو انڈسٹری کم قیمت گاڑیاں متعارف کرانے اور پاکستان میں تیار کردہ گاڑیاں ایکسپورٹ کرنے کے پالیسی اہداف حاصل کرنے میں بھی ناکام رہیں۔ گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چھوٹی اور کم قیمت گاڑیاں متعارف کرانے کا کوئی ارادہ نہیں زیادہ تر ایس یو وی گاڑیوں کے ماڈلز متعارف کرائے گئے۔
مارکیٹ میں داخل ہونے والے نئے پلیئرز کے ساتھ پرانے پلیئرز بھی تیزی سے مقبول ہوتی ایس یو وی گاڑیاں متعارف کرارہے ہیں اور سیڈان سمیت ہیچ بیک گاڑیوں میں عوام کے پاس استعمال شدہ ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کے علاوہ کوئی انتخاب نہیں بچا۔
سال کے دوران استعمال شدہ درآمدی گاڑیوں کی قیمت میں بھی اضافے کا سلسلہ جاری رہا تاہم کار ڈیلرز کے مطابق پرانی گاڑیوں کی قیمت بڑھنے سے بھی فروخت میں نمایاں کمی کا سامنا ہے۔
آٹو انڈسٹری نے سال 2024 سے امیدیں باندھ لی ہیں۔ آٹو انڈسٹری کو امید ہے کہ نیا سال ہائی برڈ ٹیکنالوجی کے فروغ کا سال ہوگا جو بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی راہ ہموار کریگی۔
آٹو انڈسٹری کو امید ہے کہ عام انتخابات کے بعد مستحکم حکومت کے قیام سے سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہوگا جس کا اثر معاشی سرگرمیوں پر پڑے گا جس سے نئے سال کے آغاز پر گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہوگا انڈسٹری کو امید ہے کہ پاکستان کی مارکیٹ 2030 تک پانچ لاکھ گاڑیوں تک پہنچ جائیگی تاہم اس کے لیے پالیسی کے تسلسل اور شرح سود میں کمی ناگزیر ہے۔