قیدیوں کے حقوق ومراعات اور اسلامی نقطۂ نظر
دین اسلام نے انسان ہونے کے اعتبار سے قیدیوں کے ساتھ بھی حتی الامکان حسنِ سلوک روا رکھنے کا درس دیا
دین اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہ نمائی فراہم کی ہے۔
عبادات ہوں یا معاملات، تجارت ہو یا سیاست، عدالت ہو یا قیادت، اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔ اسلام کی یہی عالم گیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔
اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان، سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔ اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے، جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔ اسلام نے جہاں اعلٰی اخلاقیات کا حکم دیا ہے وہیں مجرموں اور قیدیوں کے حقوق بھی بیان کردیے ہیں تاکہ کسی کے ساتھ کوئی ظلم نہ ہوسکے۔
دین اسلام نے انسان ہونے کے اعتبار سے قیدیوں کے ساتھ بھی حتی الامکان حسنِ سلوک روا رکھنے کا درس دیا، کیوںکہ قیدیوں سے انسانیت باطل نہیں ہوگی۔
وما کان مِن خواصِ الآدمِیۃِ فِی الرقِیقِ لا یبطل بل یبقی علی اصلِ الحرِیۃِ۔ (فتح القدیر: 198/4)
ایک انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے، اسے بہرحال فراہم کی جائیں گی، جیسے پیٹ بھر کھانا، پیاس بجھا نے کے لیے پانی فراہم کرنا، تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا مہیا کرنا وغیرہ، لہٰذا قیدیوں کو بھوکا، پیاسا رکھنا یا بے لباس کرنا جائز نہیں۔
قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی حرکت
رسولِ اکرمﷺ نے بنی قریظہ کے قیدیوں کے بارے میں اپنے صحابہ کرامؓ کو ہدایت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا:
انھیں خوش اسلوبی سے اور حسن سلوک سے قیدکرو، انہیں آرام کا موقع دو، کھلاؤ پلا ؤ اور تلوار اور اس دن کی گرمی دونوں کو یکجا مت کرو (الموسوعۃ الفقھیۃ4: 198/)۔
جن دنوں میں بنوقریظہ کے قیدیوں کو قید کیا گیا تھا، وہ گرمی کے ایام تھے، تپش زیادہ تھی؛ اس لیے آپﷺ نے بہ طور خاص دن کی گرمی اور دھوپ میں قیلولہ کے لیے مواقع فراہم کر نے کی تاکید فرمائی؛ کیوںکہ گرمی کے ایام میں قیدیوں کی گرمی کا خیال نہ رکھنا، انھیں دھوپ میں چھوڑ دینا؛ بلکہ آرام کا موقع نہ دینا بھی غیرانسانی حرکت ہے اور قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی حرکت جائز نہیں۔ معلوم ہوا کہ قیدیوں کو الیکٹرک شاک لگانا، ان پر کتے چھوڑنا، انھیں سخت ٹھنڈک میں بر ف کی سلوں پر ڈال دینا، حد سے زیادہ مار پیٹ کرنا، مسلسل جاگنے پر مجبور کرنا یا ان کی جائے رہائش میں تیز روشنی یا تیز آواز کا انتظام کرنا، شرعاً درست نہیں ہے۔
غیرانسانی فعل
قتل وغارت گری، چوری، زنا کاری، شراب نوشی، ظلم وزیادتی اور اس طرح کے دیگر جرائم یقیناً اسلام کی نظر میں بھی انتہائی شنیع اور قابل مذمت ہیں، ان کے مرتکبین سخت سے سخت سزا کے مستحق ہیں؛ لیکن شریعت نے اس کی بھی حدود متعین کی ہیں اور ان میں اہم چیز انسانیت کا احترام ہے۔
ہر وہ سزا جس سے آدمیت کی توہین ہوتی ہو جائز نہیں ہے۔ اسیرانِ بدر میں ایک شخص سہیل بن عمرو تھا جو نہایت فصیح اللسان تھا اور عام مجمعوں میں آنحضرت ﷺ کے خلاف تقریریں کیا کرتا تھا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! اس کے دونیچے کے دانت اکھڑوادیجے کہ پھر اچھا نہ بول سکے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اگر اس کے عضو بگاڑوں تو گو نبی ہوں؛ لیکن خدا اس کی جزا میں میرے اعضاء بھی بگاڑ ے گا۔ (تاریخ طبری صفحہ1344)
آپ ﷺ کی شانِ اقدس میں توہین آمیز کلمات کہنا یقیناً بڑا جرم ہے؛ لیکن اس کے باوجود اس کے عوض میں دانت اکھاڑنے کی رائے قبول نہیں کی گئی؛ اس لیے کہ یہ مثلہ کے دائرے میں آتا ہے۔
اس طرح وہ دانت اکھاڑنے سے ایک عضو سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجاتا جو انسانی ضرورت ہے، اس سے انسان مستفید ہوتا ہے۔ چناں چہ پتا چلا کہ قیدیوں کو اس طرح بے تحاشہ نہیں مارا جائے گا اور نہ کوئی ایسی سزا دی جائے گی جس کے سبب ان کا کوئی عضو شل اور ضائع ہوجائے یا ان کے کسی عضو کی منفعت ختم ہوجائے؛ کیوں کہ یہ غیرانسانی فعل اور رحم وکرم کے خلاف ہے۔
صحابہ کرام ؓ کا قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک
اسلام میں حقوقِ انسانی اور بنیادی آزادی کے تحفظ کا مکمل لحاظ رکھا گیا ہے، غیرانسانی یا ذلت آمیز سلوک کی قطعاً گنجائش نہیں، آج کل دنیا کے مختلف ممالک میں قیدیوں کے ساتھ جو نارواسلوک کیا جاتا ہے، وہ نا مناسب، بلکہ ناجائز ہے، جیسے قیدیوں پر تشدد کرنا، تفتیش وتحقیق کے نام پر الٹا لٹکا دینا، ایسی جگہ قید کرنا، جہاں بیٹھنے، لیٹنے اور آرام کرنے کی گنجائش نہ ہو، بے لباس کرنا وغیرہ۔ ابوغریب جیل میں جو سزائیں دی جاتی ہیں۔
کون سا دل ہے جو ان سزاؤں کی کیفیت سن کر تڑ پتا نہ ہو اور ان سزاؤں کی تصویر دیکھ کر رونگٹے کھڑے نہ ہوجاتے ہوں، دیگر شعبہ ہائے حیات کی طرح اس شعبے میں بھی اسلام نے عدل واحسان پر مبنی تعلیمات اور اصول پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں جنگِ بدر کے قیدیوں کے احوال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ مشہور سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی اسیرانِ بدر کے ساتھ صحابہ کرامؓ کے سلوک کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
صحابہ کرام ؓنے ان کے ساتھ یہ برتاؤ کیا کہ ان کو کھانا کھلاتے تھے اور خود کھجور کھاکر رہ جاتے تھے۔ ان قیدیوں میں ابو عزیز بھی تھے جو حضرت مصعب بن عمیرؓ کے بھائی تھے، ان کا بیان ہے کہ مجھ کو جن انصاریوں نے اپنے گھر میں قید کر رکھا تھا، جب صبح یا شام کا کھانا لاتے تو روٹی میرے سامنے رکھ دیتے اور خود کھجوریں اٹھالیتے، مجھ کو شرم آتی اور میں روٹی ان کے ہاتھ میں دیتا، لیکن وہ ہاتھ بھی نہ لگاتے اور مجھ کو واپس دے دیتے اور یہ اس بنا پر تھا کہ آنحضرتﷺ نے تاکید کی تھی کہ قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیاجائے۔ (سیرۃ النبی:1 330/)
قیدیوں کو ہتھکڑیاں، بیڑیاں لگانا اور زنجیروں سے جکڑنا
ایسے لوگ جو جنت میں جائیں گے، ان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ایک وصف یہ بھی بیان کیا کہ وہ لوگ قیدیوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ ارشاد باری ہے ویطعِمون الطعام علی حبِہ مِسکِینا ویتِیما واسِیرا (سور الدھر، آیت8 ) ''اور کھلاتے ہیں کھانا اس کی محبت پر محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو۔'' قیدی سے مراد ظاہر ہے کہ وہ قیدی ہے جس کو اصولِ شرعیہ کے مطابق قید میں رکھا گیا ہو، خواہ وہ کافر ہو یا مسلمان مجرم۔ چوں کہ مجرم قیدیوں کو کھانا کھلانا حکومت کی ذمے داری ہے۔
اگر کوئی شخص قیدیوں کو کھلاتا ہے تو گویا اسلامی بیت المال کی اعانت کرتا ہے۔ بالخصوص ابتدائے اسلام میں جب کہ بیت المال کا کوئی منظم نظام نہیں تھا، اس لیے صحابہ کرامؓ میں قیدیوں کو تقسیم کرکے ان کے کھانے پینے اور ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کی جاتی تھی۔
تاہم قرآن واحادیث سے قیدیوں کو زنجیروں سے جکڑ نے، ہتھکڑیاں لگانے اور پاؤں میں بیڑیاں لگانے کی اجازت معلوم ہوتی ہے کہ مجرم کی شوکت ختم ہوجائے اور اس کے شر سے لوگ محفوظ رہیں۔ ارشاد باری ہے، فاِذالقِیتم الذِین کفرو افضرب الرِقابِ حتی اِذا اثخنتموھم فشدو الوثاق (سورہ محمد، آیت 4)
''سو جب تمہارا مقابلہ کافروں سے ہوجائے تو ان کی گردنیں مار چلو، یہاں تک کہ جب ان کی خوب خونریزی کر چکو تو خوب مضبوط باندھ لو۔''
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فوج کا ایک دستہ قبیلہ نجد کی طرف روانہ فرمایا، ان لوگوں نے یمامہ کے رئیس ثمامہ بن اثال کو گرفتار کرلیا، ان کو مدینہ لے کر آئے اور مسجدِ نبوی کے ایک ستون سے اچھی طرح باندھ دیا۔ رسول اللہﷺ نے اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی، بلکہ جب ان کے پاس سے آپ ﷺکا گذر ہوتا تو سوال کرتے ''ماذا عِندک یا ثمامۃ؟'' یعنی ''تمہارا میرے بار ے میں کیا خیال ہے؟'' وہ جواب میں کہتے،''آپ ﷺ کے بارے میں میرا اچھا اور بہتر خیال ہے۔
اگر آپﷺ قتل کریں تو ایک واجب القتل کو قتل کریں گے اور اگر آپ ﷺ چھوڑ دیں تو ایک شکرگزار شخص کو چھوڑیں گے اور اگر آپﷺ کو مال ودولت مطلوب ہے تو فرمائیے مال حاضر کردوں گا۔'' ایمان قبول نہ کرنے کی بنیاد پر مصلحتاً آپ ﷺ نے ان کو تین دن تک اسی طرح ستون سے بندھا ہوا رکھا اور یہی سوال وجواب ہوتا رہا۔ تیسرے دن آپ ﷺ نے ان کو چھوڑ دینے کی ہدایت دی۔ وہ قید سے آزاد ہوئے، دل میں آپ ﷺ کی محبت اور ایمان کی الفت گھر کرچکی تھی۔ غسل کے بعد ایمان قبول کرلیا۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 2331)
اس زمانے میں باضابطہ کوئی قیدخانہ نہیں تھا، قیدیوں کو اسی طرح باندھ کر بے بس کیا کرتے تھے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیدیوں کو باندھنا، ہتھکڑیاں پہنانا اور پاؤں میں بیڑیاں ڈالنا جائز ہے۔
اگر قیدیوں کے بھاگنے یا ان کے بے بس نہ ہونے کا اندیشہ ہو تو ان کو تصرفات سے روکنے کے لیے قید کرنے کے ساتھ آنکھوں پر پٹی باندھی جاسکتی ہے یا تنہا کسی مکان میں قید کیا جاسکتا ہے۔
قیدکا اصل مقصد قیدیوں کو اپنے تصرفات اور شرارت سے روکنا ہے اور یہ چاہے جس طرح بھی حاصل ہوجائے، اس کے ساتھ معاملہ ویسا کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے تمام قیدیوں کو ان کے ذاتی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔ ہر قیدی کا مزاج، قوت وطاقت اور منصوبے الگ الگ ہوتے ہیں، اگر کسی قید ی کے بارے میں اطمینان ہوکہ یہ نہیں بھاگے گا تو اسے ہتھکڑی یا بیڑی لگا نے کی ضرورت نہیں اور اگر کوئی قیدی طاقت ور ہو اور اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا ہو، فرار ہونے کا احتمال ہو تو اس کی آنکھوں پر پٹی بھی باندھی جاسکتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ کہ اصل مقصد قیدیوں کو زیر کرنا اور ان کی شوکت کو ختم کرنا ہے، اس کے لیے جیل میں ڈالنا ضروری نہیں، یہ مقصد جس طرح بھی حاصل ہو وہ قید شرعی میں داخل ہے۔
قیدیوں کو جسمانی اذیت دینا
سرکش قیدیوں کو معمولی جسمانی اذیت بھی دی جا سکتی ہے، اس کے جواز پر عہد نبوی ﷺ کے اس واقعے سے روشنی پڑتی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے غزوۂ بدر کے موقع پر قریش کے حالات معلوم کر نے کے لیے بعض صحابہؓ کو مامور کیا، ان حضرات نے معلومات اکٹھا کرنے کی غرض سے ایک غلام کو گرفتار کرلیا اور اس کی پٹا ئی بھی کرتے رہے۔
آپﷺ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو غلام کی پٹائی پر کسی ناراضی کا اظہار نہیں فرمایا، بلکہ فرمایا کہ غلام صحیح کہتا ہے، اس کو ابوسفیان کا علم نہیں۔ (ابوداؤد حدیث نمبر 2332)
لیکن یاد رہے کہ کوئی بات اقرار کرانے یا کسی معلومات کے حصول کے لیے صرف معمولی ضرب ہی لگائی جا سکتی ہے، غیرانسانی مار، جیسے ضربِ شدید، تشدد کرنا، کرنٹ لگانا وغیرہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں۔ ایسے قیدیوں کو زیادہ سے زیادہ طویل عرصے تک کے لیے قیدخانے میں ڈالا جا سکتا ہے یا مصلحت دیکھی جائے اور شروفساد زیادہ ہوتو قتل کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ باغیوں کے قتل کی اجازت ہے۔
قیدیوں کے بنیادی حقوق
اسلام انسانی حقوق اور بنیادی آزادی کے تحفظ کا پابند کرتا ہے اور کسی ایسے عمل کی اجازت نہیں دیتا جو حقوق انسانی اور بنیادی آزادی کو متاثر کرتا ہو، جیسے انسان کے زندہ رہنے کے لیے مناسب غذا، صاف پانی کی ضرورت ہے، قیدیوں کو اس سے محروم نہیں رکھا جائے گا۔ اسی طرح علاج ومعالجہ، حفظانِ صحت کے لیے ورزش وتفریح، بیوی سے جنسی تعلق وغیرہ ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کی انہیں مکمل اجازت ہو گی کہ یہ چیزیں انسانی حقوق میں داخل ہیں۔
مذہبی امور میں بھی ان سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا، جس مذہب کو وہ مانتا ہے اس کی یا اس مذہب کے پیشواؤں اور کتابوں کی توہین نہیں کی جائے گی اور نہ دوسرے مذہب کے قبول کرنے پر انہیں مجبور کیا جائے گا۔
مذہبی کتابوں کے مطالعے کی اجازت، مذہبی تعلیمات کے مطابق غذا فراہم کرنا، دوسرے قیدیوں کے درمیان دعوتِ دین یہ سب مذہبی امور ہیں جو انسان کے بنیادی حقوق اور بنیادی آزادی میں شامل ہیں۔ کسی جرم کے سبب ان کے یہ حقوق ختم نہیں ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ عام حالات میں مشرک سے اور ذمی ومستامن سے ان کے عقائد ومذہب سے تعرض کرنے سے رسولِ اکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے، جب کہ شرک بہت بڑا جرم ہے، اس کے باوجود آپﷺ نے ان کے انسانی اور بنیادی حقوق سے کوئی تعرض نہیں فرمایا۔
بنیادی حقوق میں اخبار ات پڑھنا، ریڈیو سننا، فون پر احباب واقارب سے گفتگو کرنا، دوسرے قیدیوں سے ملاقات، تعلیم اور ہنر سیکھنا بھی داخل ہیں۔ ان حقوق سے انہیں محروم نہیں کیا جائے گا، البتہ فون پر بات چیت میں اگر اندیشہ ہو کہ اس کے ذریعے وہ سازش کرسکتا ہے تو اسے روک دیا جائے گا، ورنہ عام حالات میں اس کی اجازت ہو گی۔
قیدیوں کو قیدخانے سے فرار ہونے کے خوف سے نکلنے کی اجازت تو نہ ہوگی، البتہ فون پر بات چیت یا رشتہ داروں سے ملاقات سے نہیں روکا جائے گا۔ اسی طرح حکومت کو چاہیے کہ اخلاقی امور کی طرف بہ طور خاص توجہ دے، مثلاً مردوں اور عورتوں کو الگ الگ قیدخانے میں رکھیں؛ تاکہ دونوں کے باہم اختلاط کے سبب مسائل پیدا نہ ہوں، اسی طرح بالغ اور نابالغ بچوں کے قیدخانے بھی الگ کیے جائیں؛ تاکہ جنسی استحصال وہراسانی کی شکایت کا موقع نہ ہو۔ یہ تمام امور یعنی مذہبی امور، اخلاقی امور، عام سماجی حقوق جسمانی ضروریات وغیرہ انسانی حقوق میں شامل ہیں، جن کی فراہمی کی شریعت نے نہ صرف اجازت دی ہے؛ بلکہ مختلف نوعیتوں سے ان کی تاکید کی گئی ہے۔
چوںکہ انسان کو آزادی جیسی عظیم نعمت سے محروم رکھنا ہی ایک سخت سزا ہے، قید فی نفسہ بہت سے حقوق سے بے انتہا محرومی کا نام ہے؛ اس لیے شریعت نے مخصوص حالات ہی میں قیدوبند کی سزا کی اجازت دی ہے۔ جب یہ سزا دے دی گئی تو قید یوں کے لیے یہی سزا کافی ہے۔ اب مزید حقوقِ انسانی یا بنیادی آزادی سے محروم رکھنے کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہی یہ عمل شرعاً جائز ہے۔ لہٰذا ارباب اقتدار کو چاہیے کہ وہ جیلوں کے انتظامات کو بہتر سے بہتر بنائیں اور قیدیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم نہ رکھیں۔
عبادات ہوں یا معاملات، تجارت ہو یا سیاست، عدالت ہو یا قیادت، اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔ اسلام کی یہی عالم گیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔
اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان، سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔ اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے، جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔ اسلام نے جہاں اعلٰی اخلاقیات کا حکم دیا ہے وہیں مجرموں اور قیدیوں کے حقوق بھی بیان کردیے ہیں تاکہ کسی کے ساتھ کوئی ظلم نہ ہوسکے۔
دین اسلام نے انسان ہونے کے اعتبار سے قیدیوں کے ساتھ بھی حتی الامکان حسنِ سلوک روا رکھنے کا درس دیا، کیوںکہ قیدیوں سے انسانیت باطل نہیں ہوگی۔
وما کان مِن خواصِ الآدمِیۃِ فِی الرقِیقِ لا یبطل بل یبقی علی اصلِ الحرِیۃِ۔ (فتح القدیر: 198/4)
ایک انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے، اسے بہرحال فراہم کی جائیں گی، جیسے پیٹ بھر کھانا، پیاس بجھا نے کے لیے پانی فراہم کرنا، تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا مہیا کرنا وغیرہ، لہٰذا قیدیوں کو بھوکا، پیاسا رکھنا یا بے لباس کرنا جائز نہیں۔
قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی حرکت
رسولِ اکرمﷺ نے بنی قریظہ کے قیدیوں کے بارے میں اپنے صحابہ کرامؓ کو ہدایت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا:
انھیں خوش اسلوبی سے اور حسن سلوک سے قیدکرو، انہیں آرام کا موقع دو، کھلاؤ پلا ؤ اور تلوار اور اس دن کی گرمی دونوں کو یکجا مت کرو (الموسوعۃ الفقھیۃ4: 198/)۔
جن دنوں میں بنوقریظہ کے قیدیوں کو قید کیا گیا تھا، وہ گرمی کے ایام تھے، تپش زیادہ تھی؛ اس لیے آپﷺ نے بہ طور خاص دن کی گرمی اور دھوپ میں قیلولہ کے لیے مواقع فراہم کر نے کی تاکید فرمائی؛ کیوںکہ گرمی کے ایام میں قیدیوں کی گرمی کا خیال نہ رکھنا، انھیں دھوپ میں چھوڑ دینا؛ بلکہ آرام کا موقع نہ دینا بھی غیرانسانی حرکت ہے اور قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی حرکت جائز نہیں۔ معلوم ہوا کہ قیدیوں کو الیکٹرک شاک لگانا، ان پر کتے چھوڑنا، انھیں سخت ٹھنڈک میں بر ف کی سلوں پر ڈال دینا، حد سے زیادہ مار پیٹ کرنا، مسلسل جاگنے پر مجبور کرنا یا ان کی جائے رہائش میں تیز روشنی یا تیز آواز کا انتظام کرنا، شرعاً درست نہیں ہے۔
غیرانسانی فعل
قتل وغارت گری، چوری، زنا کاری، شراب نوشی، ظلم وزیادتی اور اس طرح کے دیگر جرائم یقیناً اسلام کی نظر میں بھی انتہائی شنیع اور قابل مذمت ہیں، ان کے مرتکبین سخت سے سخت سزا کے مستحق ہیں؛ لیکن شریعت نے اس کی بھی حدود متعین کی ہیں اور ان میں اہم چیز انسانیت کا احترام ہے۔
ہر وہ سزا جس سے آدمیت کی توہین ہوتی ہو جائز نہیں ہے۔ اسیرانِ بدر میں ایک شخص سہیل بن عمرو تھا جو نہایت فصیح اللسان تھا اور عام مجمعوں میں آنحضرت ﷺ کے خلاف تقریریں کیا کرتا تھا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! اس کے دونیچے کے دانت اکھڑوادیجے کہ پھر اچھا نہ بول سکے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اگر اس کے عضو بگاڑوں تو گو نبی ہوں؛ لیکن خدا اس کی جزا میں میرے اعضاء بھی بگاڑ ے گا۔ (تاریخ طبری صفحہ1344)
آپ ﷺ کی شانِ اقدس میں توہین آمیز کلمات کہنا یقیناً بڑا جرم ہے؛ لیکن اس کے باوجود اس کے عوض میں دانت اکھاڑنے کی رائے قبول نہیں کی گئی؛ اس لیے کہ یہ مثلہ کے دائرے میں آتا ہے۔
اس طرح وہ دانت اکھاڑنے سے ایک عضو سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجاتا جو انسانی ضرورت ہے، اس سے انسان مستفید ہوتا ہے۔ چناں چہ پتا چلا کہ قیدیوں کو اس طرح بے تحاشہ نہیں مارا جائے گا اور نہ کوئی ایسی سزا دی جائے گی جس کے سبب ان کا کوئی عضو شل اور ضائع ہوجائے یا ان کے کسی عضو کی منفعت ختم ہوجائے؛ کیوں کہ یہ غیرانسانی فعل اور رحم وکرم کے خلاف ہے۔
صحابہ کرام ؓ کا قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک
اسلام میں حقوقِ انسانی اور بنیادی آزادی کے تحفظ کا مکمل لحاظ رکھا گیا ہے، غیرانسانی یا ذلت آمیز سلوک کی قطعاً گنجائش نہیں، آج کل دنیا کے مختلف ممالک میں قیدیوں کے ساتھ جو نارواسلوک کیا جاتا ہے، وہ نا مناسب، بلکہ ناجائز ہے، جیسے قیدیوں پر تشدد کرنا، تفتیش وتحقیق کے نام پر الٹا لٹکا دینا، ایسی جگہ قید کرنا، جہاں بیٹھنے، لیٹنے اور آرام کرنے کی گنجائش نہ ہو، بے لباس کرنا وغیرہ۔ ابوغریب جیل میں جو سزائیں دی جاتی ہیں۔
کون سا دل ہے جو ان سزاؤں کی کیفیت سن کر تڑ پتا نہ ہو اور ان سزاؤں کی تصویر دیکھ کر رونگٹے کھڑے نہ ہوجاتے ہوں، دیگر شعبہ ہائے حیات کی طرح اس شعبے میں بھی اسلام نے عدل واحسان پر مبنی تعلیمات اور اصول پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں جنگِ بدر کے قیدیوں کے احوال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ مشہور سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی اسیرانِ بدر کے ساتھ صحابہ کرامؓ کے سلوک کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
صحابہ کرام ؓنے ان کے ساتھ یہ برتاؤ کیا کہ ان کو کھانا کھلاتے تھے اور خود کھجور کھاکر رہ جاتے تھے۔ ان قیدیوں میں ابو عزیز بھی تھے جو حضرت مصعب بن عمیرؓ کے بھائی تھے، ان کا بیان ہے کہ مجھ کو جن انصاریوں نے اپنے گھر میں قید کر رکھا تھا، جب صبح یا شام کا کھانا لاتے تو روٹی میرے سامنے رکھ دیتے اور خود کھجوریں اٹھالیتے، مجھ کو شرم آتی اور میں روٹی ان کے ہاتھ میں دیتا، لیکن وہ ہاتھ بھی نہ لگاتے اور مجھ کو واپس دے دیتے اور یہ اس بنا پر تھا کہ آنحضرتﷺ نے تاکید کی تھی کہ قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیاجائے۔ (سیرۃ النبی:1 330/)
قیدیوں کو ہتھکڑیاں، بیڑیاں لگانا اور زنجیروں سے جکڑنا
ایسے لوگ جو جنت میں جائیں گے، ان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ایک وصف یہ بھی بیان کیا کہ وہ لوگ قیدیوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ ارشاد باری ہے ویطعِمون الطعام علی حبِہ مِسکِینا ویتِیما واسِیرا (سور الدھر، آیت8 ) ''اور کھلاتے ہیں کھانا اس کی محبت پر محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو۔'' قیدی سے مراد ظاہر ہے کہ وہ قیدی ہے جس کو اصولِ شرعیہ کے مطابق قید میں رکھا گیا ہو، خواہ وہ کافر ہو یا مسلمان مجرم۔ چوں کہ مجرم قیدیوں کو کھانا کھلانا حکومت کی ذمے داری ہے۔
اگر کوئی شخص قیدیوں کو کھلاتا ہے تو گویا اسلامی بیت المال کی اعانت کرتا ہے۔ بالخصوص ابتدائے اسلام میں جب کہ بیت المال کا کوئی منظم نظام نہیں تھا، اس لیے صحابہ کرامؓ میں قیدیوں کو تقسیم کرکے ان کے کھانے پینے اور ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کی جاتی تھی۔
تاہم قرآن واحادیث سے قیدیوں کو زنجیروں سے جکڑ نے، ہتھکڑیاں لگانے اور پاؤں میں بیڑیاں لگانے کی اجازت معلوم ہوتی ہے کہ مجرم کی شوکت ختم ہوجائے اور اس کے شر سے لوگ محفوظ رہیں۔ ارشاد باری ہے، فاِذالقِیتم الذِین کفرو افضرب الرِقابِ حتی اِذا اثخنتموھم فشدو الوثاق (سورہ محمد، آیت 4)
''سو جب تمہارا مقابلہ کافروں سے ہوجائے تو ان کی گردنیں مار چلو، یہاں تک کہ جب ان کی خوب خونریزی کر چکو تو خوب مضبوط باندھ لو۔''
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فوج کا ایک دستہ قبیلہ نجد کی طرف روانہ فرمایا، ان لوگوں نے یمامہ کے رئیس ثمامہ بن اثال کو گرفتار کرلیا، ان کو مدینہ لے کر آئے اور مسجدِ نبوی کے ایک ستون سے اچھی طرح باندھ دیا۔ رسول اللہﷺ نے اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی، بلکہ جب ان کے پاس سے آپ ﷺکا گذر ہوتا تو سوال کرتے ''ماذا عِندک یا ثمامۃ؟'' یعنی ''تمہارا میرے بار ے میں کیا خیال ہے؟'' وہ جواب میں کہتے،''آپ ﷺ کے بارے میں میرا اچھا اور بہتر خیال ہے۔
اگر آپﷺ قتل کریں تو ایک واجب القتل کو قتل کریں گے اور اگر آپ ﷺ چھوڑ دیں تو ایک شکرگزار شخص کو چھوڑیں گے اور اگر آپﷺ کو مال ودولت مطلوب ہے تو فرمائیے مال حاضر کردوں گا۔'' ایمان قبول نہ کرنے کی بنیاد پر مصلحتاً آپ ﷺ نے ان کو تین دن تک اسی طرح ستون سے بندھا ہوا رکھا اور یہی سوال وجواب ہوتا رہا۔ تیسرے دن آپ ﷺ نے ان کو چھوڑ دینے کی ہدایت دی۔ وہ قید سے آزاد ہوئے، دل میں آپ ﷺ کی محبت اور ایمان کی الفت گھر کرچکی تھی۔ غسل کے بعد ایمان قبول کرلیا۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 2331)
اس زمانے میں باضابطہ کوئی قیدخانہ نہیں تھا، قیدیوں کو اسی طرح باندھ کر بے بس کیا کرتے تھے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیدیوں کو باندھنا، ہتھکڑیاں پہنانا اور پاؤں میں بیڑیاں ڈالنا جائز ہے۔
اگر قیدیوں کے بھاگنے یا ان کے بے بس نہ ہونے کا اندیشہ ہو تو ان کو تصرفات سے روکنے کے لیے قید کرنے کے ساتھ آنکھوں پر پٹی باندھی جاسکتی ہے یا تنہا کسی مکان میں قید کیا جاسکتا ہے۔
قیدکا اصل مقصد قیدیوں کو اپنے تصرفات اور شرارت سے روکنا ہے اور یہ چاہے جس طرح بھی حاصل ہوجائے، اس کے ساتھ معاملہ ویسا کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے تمام قیدیوں کو ان کے ذاتی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔ ہر قیدی کا مزاج، قوت وطاقت اور منصوبے الگ الگ ہوتے ہیں، اگر کسی قید ی کے بارے میں اطمینان ہوکہ یہ نہیں بھاگے گا تو اسے ہتھکڑی یا بیڑی لگا نے کی ضرورت نہیں اور اگر کوئی قیدی طاقت ور ہو اور اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا ہو، فرار ہونے کا احتمال ہو تو اس کی آنکھوں پر پٹی بھی باندھی جاسکتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ کہ اصل مقصد قیدیوں کو زیر کرنا اور ان کی شوکت کو ختم کرنا ہے، اس کے لیے جیل میں ڈالنا ضروری نہیں، یہ مقصد جس طرح بھی حاصل ہو وہ قید شرعی میں داخل ہے۔
قیدیوں کو جسمانی اذیت دینا
سرکش قیدیوں کو معمولی جسمانی اذیت بھی دی جا سکتی ہے، اس کے جواز پر عہد نبوی ﷺ کے اس واقعے سے روشنی پڑتی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے غزوۂ بدر کے موقع پر قریش کے حالات معلوم کر نے کے لیے بعض صحابہؓ کو مامور کیا، ان حضرات نے معلومات اکٹھا کرنے کی غرض سے ایک غلام کو گرفتار کرلیا اور اس کی پٹا ئی بھی کرتے رہے۔
آپﷺ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو غلام کی پٹائی پر کسی ناراضی کا اظہار نہیں فرمایا، بلکہ فرمایا کہ غلام صحیح کہتا ہے، اس کو ابوسفیان کا علم نہیں۔ (ابوداؤد حدیث نمبر 2332)
لیکن یاد رہے کہ کوئی بات اقرار کرانے یا کسی معلومات کے حصول کے لیے صرف معمولی ضرب ہی لگائی جا سکتی ہے، غیرانسانی مار، جیسے ضربِ شدید، تشدد کرنا، کرنٹ لگانا وغیرہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں۔ ایسے قیدیوں کو زیادہ سے زیادہ طویل عرصے تک کے لیے قیدخانے میں ڈالا جا سکتا ہے یا مصلحت دیکھی جائے اور شروفساد زیادہ ہوتو قتل کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ باغیوں کے قتل کی اجازت ہے۔
قیدیوں کے بنیادی حقوق
اسلام انسانی حقوق اور بنیادی آزادی کے تحفظ کا پابند کرتا ہے اور کسی ایسے عمل کی اجازت نہیں دیتا جو حقوق انسانی اور بنیادی آزادی کو متاثر کرتا ہو، جیسے انسان کے زندہ رہنے کے لیے مناسب غذا، صاف پانی کی ضرورت ہے، قیدیوں کو اس سے محروم نہیں رکھا جائے گا۔ اسی طرح علاج ومعالجہ، حفظانِ صحت کے لیے ورزش وتفریح، بیوی سے جنسی تعلق وغیرہ ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کی انہیں مکمل اجازت ہو گی کہ یہ چیزیں انسانی حقوق میں داخل ہیں۔
مذہبی امور میں بھی ان سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا، جس مذہب کو وہ مانتا ہے اس کی یا اس مذہب کے پیشواؤں اور کتابوں کی توہین نہیں کی جائے گی اور نہ دوسرے مذہب کے قبول کرنے پر انہیں مجبور کیا جائے گا۔
مذہبی کتابوں کے مطالعے کی اجازت، مذہبی تعلیمات کے مطابق غذا فراہم کرنا، دوسرے قیدیوں کے درمیان دعوتِ دین یہ سب مذہبی امور ہیں جو انسان کے بنیادی حقوق اور بنیادی آزادی میں شامل ہیں۔ کسی جرم کے سبب ان کے یہ حقوق ختم نہیں ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ عام حالات میں مشرک سے اور ذمی ومستامن سے ان کے عقائد ومذہب سے تعرض کرنے سے رسولِ اکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے، جب کہ شرک بہت بڑا جرم ہے، اس کے باوجود آپﷺ نے ان کے انسانی اور بنیادی حقوق سے کوئی تعرض نہیں فرمایا۔
بنیادی حقوق میں اخبار ات پڑھنا، ریڈیو سننا، فون پر احباب واقارب سے گفتگو کرنا، دوسرے قیدیوں سے ملاقات، تعلیم اور ہنر سیکھنا بھی داخل ہیں۔ ان حقوق سے انہیں محروم نہیں کیا جائے گا، البتہ فون پر بات چیت میں اگر اندیشہ ہو کہ اس کے ذریعے وہ سازش کرسکتا ہے تو اسے روک دیا جائے گا، ورنہ عام حالات میں اس کی اجازت ہو گی۔
قیدیوں کو قیدخانے سے فرار ہونے کے خوف سے نکلنے کی اجازت تو نہ ہوگی، البتہ فون پر بات چیت یا رشتہ داروں سے ملاقات سے نہیں روکا جائے گا۔ اسی طرح حکومت کو چاہیے کہ اخلاقی امور کی طرف بہ طور خاص توجہ دے، مثلاً مردوں اور عورتوں کو الگ الگ قیدخانے میں رکھیں؛ تاکہ دونوں کے باہم اختلاط کے سبب مسائل پیدا نہ ہوں، اسی طرح بالغ اور نابالغ بچوں کے قیدخانے بھی الگ کیے جائیں؛ تاکہ جنسی استحصال وہراسانی کی شکایت کا موقع نہ ہو۔ یہ تمام امور یعنی مذہبی امور، اخلاقی امور، عام سماجی حقوق جسمانی ضروریات وغیرہ انسانی حقوق میں شامل ہیں، جن کی فراہمی کی شریعت نے نہ صرف اجازت دی ہے؛ بلکہ مختلف نوعیتوں سے ان کی تاکید کی گئی ہے۔
چوںکہ انسان کو آزادی جیسی عظیم نعمت سے محروم رکھنا ہی ایک سخت سزا ہے، قید فی نفسہ بہت سے حقوق سے بے انتہا محرومی کا نام ہے؛ اس لیے شریعت نے مخصوص حالات ہی میں قیدوبند کی سزا کی اجازت دی ہے۔ جب یہ سزا دے دی گئی تو قید یوں کے لیے یہی سزا کافی ہے۔ اب مزید حقوقِ انسانی یا بنیادی آزادی سے محروم رکھنے کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہی یہ عمل شرعاً جائز ہے۔ لہٰذا ارباب اقتدار کو چاہیے کہ وہ جیلوں کے انتظامات کو بہتر سے بہتر بنائیں اور قیدیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم نہ رکھیں۔