مَوتُ العَالِم مَوتُ العَالَم آہ استادِگرامی مفتی اطہر نعیمی مرحوم
مفتی صاحب بھی نے اپنے استاد نعیم الدین مرادآبادی اور والد عمر نعیمی کی طرح تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا
آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصرو!
جب بھی اُن کو دھیان آئے گا، تم نے فراقؔ کو دیکھا ہے
فراقؔ گورکھپوری (28 اگست 1896ء تا 3مارچ 1982ء ) کے اس تعلّیٰ پر کوئی تنقید کیے بغیر عرض کرتا ہوں کہ بندہ یہ دعویٰ آج اُس ہستی کی روح کی طرف سے کررہا ہے جو میرے لیے روحانی باپ کی حیثیت رکھتی تھی۔
صاحبو! لفظ ساتھ نہیں دے رہے، ہرچند کہ آنکھیں خشک ہوچکی ہیں، کسی کے استفسار پر بات شروع کروں تو اَزخود اشک بار ہوجاتی ہیں اور کسی کی وفات پر بمشکل رونے والا یہ ڈھیٹ انسان (مضبوط نہیں) گلوگیر لہجے میں بات مختصر کردیتا ہے۔ المیہ یہ نہیں کہ خستہ حالی میں روز اَفزوں اضافے نے کمرِہمت توڑ دی ہے، المیہ یہ ہے کہ میری عمر بھر کی ''زباں فہمی'' کو سہارا دینے والا آخری بڑا ستون بھی ساتھ چھوڑ گیا ہے۔
میری والدہ میرے لیے سب سے بڑی 'زباں فہم' تھیں، پھر دادا اور والد گرامی سے بھی کچھ کچھ سیکھا اور اساتذہ کرام میں جن سے، تعلیم کے ساتھ ساتھ، سب سے بڑھ کر، تربیت حاصل کی تو وہ عظیم انسان تھے، یادگارِاسلاف، صدرالافاضل حضرت مفتی حکیم سید نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ (خلیفہ مُجاز اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ) کے خلیفہ، تحریک پاکستان کے کارکن، پاکستان کے بزرگ ترین عالِم دین، مفتی اور سب سے زیادہ کُہنہ مشق دینی نشریات کار [Broadcaster]، مفتی محمد اطہرنعیمی رحمۃ اللہ علیہ (پ: 1928ء) جنھوں نے 19دسمبر 2023ء کی شب گیارہ بجے کے لگ بھگ، داعی اجل کو لبیک کہا۔
پچانوے برس کی عمر میں اپنے والد 'تاج العلماء' مفتی محمد عمر نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کے قدیم مکان (واقع ناظم آباد چارنمبر، کراچی) میں ایک طویل مدت مستقل قیام کرنے اور گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر ایک دنیا کو اپنے علم سے سیراب کرنے والا یہ چشمہ خشک ہوگیا۔
مفتی صاحب نے مارچ 1950ء میں پاکستان آمد کے بعد کوئی ایک ماہ لاہور میں قیام کیا اور پھر کراچی تشریف لاکر ایک نجی ادارے میں ملازم ہوئے جہاں سیٹھ نے اُن کی نمازِظہر کی اَدائی کے لیے وقفہ کرنے پر اعتراض کیا تو انھوں نے فوراً ملازمت چھوڑدی۔ بعداَزآں وہ محکمہ ڈاک میں ملازم ہوگئے اور ایک طویل عرصے تک خدمات انجام دینے کے بعد، قبل اَز وقت سبکدوش ہوئے تو علمی خدمات انجام دینے کے لیے دارالعلوم نعیمیہ سے منسلک ہوگئے۔
یہاں ایک لطیف نکتہ سُوجھا ہے کہ عمر خواہ کتنی ہی ہو، انسان زندگی کی ناثباتی پر یہ کہے بغیر نہیں رہتا کہ دنیا چار دن کی ہے، مگر بہت کم لوگ یہ سوچتے ہیں کہ یہ چاردن بھی کچھ کر دکھانے والوں کے لیے کم نہیں:
یہ مانا زندگی ہے چار دن کی
بہت ہوتے ہیں یارو! چار دن بھی
(فراقؔ گورکھپوری)
مفتی اطہرنعیمی صاحب نے اپنے استاد ومرشد علامہ نعیم الدین مرادآبادی اور والد گرامی مفتی عمر نعیمی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جو اُن کے عہدشباب میں تحریک پاکستان بن چکی تھی (ممتاز علمی، ادبی وسیاسی ادبی جریدے 'السواداعظم' کے بانی ومدیر، جس کے ذریعے اعلیٰ حضرت اور اِن بزرگ شخصیات کا پیش کردہ، دوقومی نظریہ سیاسی اُفُق پر اُبھرا)۔ انھوں نے 1946ء کی تاریخی آل انڈیا سُنّی کانفرنس (بنارس) میں بطور مندوب شرکت کی اور وہ اس عظیم اجتماع علماء میں شامل مندوبین میں وفات پانے والے سب سے آخری عالم تھے۔
استادگرامی مفتی محمد اطہرنعیمی اشرفی نے قرآن مجید ناظرہ کی تعلیم اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی (جن کا انتقال ماضی قریب میں ہوا)۔ اُن کے اساتذہ میں اُن کے والد شیخ الحدیث والتفسیر مفتی محمد عمر، صدرالافاضل حضرت مفتی حکیم سید نعیم الدین مرادآبادی' مولانا سید وصی احمد صاحب اور مولانا محمد یونس صاحب سنبھلی شامل تھے۔ انھیں تصوف کے چاروں سلاسل میں اپنے والد گرامی سے بیعت واجازت حاصل ہوئی، نیز سلسلہ عالیہ قادریہ میں شیخ المشائخ پیر سید طاہر علاؤ الدین گیلانی نے انھیں خلافت عطا کی۔
مفتی صاحب نے مروجہ انگریزی تعلیم اعلیٰ ثانوی درجے تک حاصل کی، مگر وہ بہت سے موجودہ انگریزی خواں افراد سے زیادہ فرنگی زبان پر قدرت کے حامل تھے، ہرچند کہ اُنھیں عربی داں، فارسی داں عالم دین کی حیثیت سے شہرت ملی۔ آگے چل کر اس بابت بھی کچھ عرض کروں گا۔ مفتی صاحب نے جو بات مجھ سے چھُپائی اور پھر آخری دور میں جناب حامد علیمی (تلمیذ ڈاکٹر مفتی ناصر الدین صدیقی، سابق صدرنشیں شعبہ اصول الدین، جامعہ کراچی اور میرے اُستاد بھائی) کو انٹرویو دیتے ہوئے ظاہر کردی کہ وہ نہ صرف جگرؔ مرادآبادی کے مداحین میں شامل تھے، بلکہ شاعری بھی فرماتے تھے جو مابعد نعت گوئی تک محدود کرلی تھی۔
میرے لیے ناممکن ہے کہ اپنے منفرد، بلکہ فردِفرید اُستاد کی شان میں کچھ بیان کروں اور وہ نجی تعلقات کے اس طرح ذکر سے خالی ہو کہ اُس میں خاکسار کی ستائش کا پہلو نہ نکلے، اس لیے کہ مفتی صاحب مرحوم نے مجھے ہر موقع پر یوں سراہا ، یوں بڑھا وا دیا کہ کسی بچے کے والدین اور گھر کے بزرگ بھی نہیں دیتے۔ وہ بلامبالغہ ہزاروں علماء کے استاد اور چنیدہ مریدِین کے پیرومرشد تھے، مگر اُنھوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ اُن کا چہیتا شاگرد کوئی عالم نہیں، بلکہ دین مذہب، زبان وادب کا یہ ادنیٰ خادم ، خاکسارطالب علم تھا۔
یہ خودسِتائی یا ''اپنے منہ میاں مٹھو آپ'' والا معاملہ نہیں، بلکہ متعدد بار حضرتِ والا نے دارالعلوم نعیمیہ اور اپنے دولت کدے پر حاضرین بشمول علمائے کرام کے رُوبرو اپنے حسن ِعمل سے راقم کو یہ کہنے کا موقع دیا۔ ایک مرتبہ بندہ اُن کے گھر حاضرِخدمت تھا۔ کوئی عالم آئے ہوئے تھے، مفتی صاحب قبلہ اُن سے بات چیت کے ساتھ ساتھ کبھی میری طرف بھی نظر ِالتفات فرماتے جاتے اور خاکسار حسبِ معمول، اُن کی خصوصی اجازت کے باعث، سامنے موجود، اُن کے نجی کتب خانے کی کتب کی گویا 'سیاحت ' کررہا تھا۔
تھوڑی دیربعد، میں وہاں سے رخصت ہوگیا تو اُن مہمان عالم نے گویا اعتراض جڑتے ہوئے استاد گرامی سے استفسار کیا کہ کیوں حضرت! آپ ہمیں تو اپنی کتابوں کو ہاتھ لگانے نہیں دیتے اور یہ نوجوان لڑکا کیسے بے تکلفی سے کتب اُٹھا اُٹھا کر دیکھ رہا تھا۔ مفتی صاحب اپنی جگہ سے اُٹھے اور ایک کتاب (اُسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ از امام علامہ ابن اثیررحمۃ اللہ علیہ) کی ایک جلد اُٹھاکر اُس کے اوراق پر خاکسار کی پینسل سے کی گئی حاشیہ نگاری دکھاتے ہوئے فرمایا کہ یہ وجہ ہے۔ یہ اُس لڑکے نے کی ہے جس پر آپ معترض تھے۔ وہ عالم ششدر ہوگئے۔ یہ واقعہ تو بہت بعد کا ہے، مگر مفتی صاحب سے مراسم کی ابتداء ہی میں ایسے واقعات پیش آچکے تھے۔
میری مفتی اطہر نعیمی صاحب سے اولین ملاقات 1985ء میں دارالعلوم نعیمیہ میں واقع اُن کے دفتر میں ہوئی جب خاکسار اُن سے فارسی کی تعلیم کے لیے درخواست پیش کرنے حاضر ہوا۔ انھوں نے دیگر علمائے کرام بشمول مفتی منیب الرحمٰن و مفتی جمیل احمد نعیمی (مرحوم) کی طرف سے مجھے اُن سے رجوع کرنے کا صائب مشورہ دیکھا اور فوراً میری استدعا قبول فرمائی۔ یہ سلسلہ شروع ہوا تو ایک عرصے تک دارالعلوم ہی میں حاضر ہوتا رہا، پھر اُن کے گھر پر مستفیض ہوتا رہا۔ انھوں نے مجھے بلامعاوضہ، فی سبیل اللہ فارسی کی تعلیم دی اور مجھے اپنے چھوٹے بیٹے زبیر نعیمی کی تعلیم کے لیے ٹیوٹر مقرر فرمایا، پھر اُن کی پوتی اور آخرش اُن کے بھتیجے عفان بن حافظ اظہر نعیمی (مرحوم) کو پڑھانے پر مامور ہوا۔ مجھے اس خدمت کا مشاہرہ ملتا تھا۔
مفتی صاحب کی ایک عادت بہت متاثرکن تھی کہ مجھ جیسے چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہتے۔ ایک مرتبہ اُن کا پوتا عمربن اَنفس نعیمی، ننھی سی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ حج کرکے واپس آیا تو خاکسار نے اُسے پیار سے 'حاجی صاحب' کہہ کر پکارا۔ مفتی صاحب نے اسے مستقل حاجی صاحب ہی کا نام دے دیا اور شاذ ہی کبھی اصل نام سے مخاطب کرتے۔ اسی طرح ایک جلیل القدرعالم سے میری کچھ شکررنجی ہوئی تو میں نے انھیں ''ناراض مولانا'' قرار دیا۔ مفتی صاحب جب بھی موڈ میں ہوتے تو کہتے، بھئی وہ آپ کے (یا کبھی تمھارے) ناراض مولانا نے یہ کیا، یہ فرمایا۔
شروع دور میں یوں ہوا کہ ایک دن مولانا منظورعلی خاں، سابق خطیب وپیش امام پاکستان اسٹیل ملز (عبیداللہ بیگ مرحوم کے برادرِنسبتی) مفتی اطہر نعیمی صاحب کے پاس، دارالعلوم میں حاضر ہوئے، یہ خاکسار فارسی کا درس لینے کو موجود تھا۔ انھوں نے بہت جھجکتے ہوئے شکستہ لہجے میں ایک مسئلے کا جواب دریافت کیا۔ موصوف مجھ سے کچھ سال بڑے یعنی اُن دنوں بھرپور جوان تھے۔ حضرت کی بارعب شخصیت کے آگے لب کُشائی محال لگ رہی تھی۔
مفتی صاحب نے اُن کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کیا فرماتے ہیں، وہ بے چارے بولتے ہوئے شرمارہے تھے، پھر مفتی صاحب نے میری طرف متوجہ ہوکر پوچھا، آپ کا کیا فتویٰ ہے۔ میں نے بلاجھجک عرض کی کہ ''طلاقِ بائن واقع ہوگئی''۔ جواب میں ارشاد فرمایا، تو لکھ دیجے، میں دستخط کردوں گا۔ اب تو جناب مولانا منظور کی حالت دیکھنے والی تھی۔ عاجزی سے گڑگڑائے، نہیں حضرت! آپ لکھ دیجے (میں نے تو لکھنا شروع کر بھی دیا تھا)۔ مفتی صاحب نے تبسم فرماکر جواب لکھا اور دستخط فرمادیے۔ یہ تھا اُن کا عالمانہ طرزِعمل جو دیگر سے جُدا اور ممتاز کرنے کو کافی تھا۔ بخدا وہ عالم نہیں، عالم گر تھے۔
مفتی صاحب نے بے شمار علماء اور کچے پکے مولویوں کو تقاریر اور کتب لکھ کر دیں۔ ایک مرتبہ ایک صاحب گھر پر اِسی مقصد سے تشریف لائے اور باوجودیکہ مجھ سے تعارف ہوچکا تھا، مفتی صاحب کے ذرا دیر کو گھر کے اندر جانے پر اُن کی نہایت بیہودہ الفاظ میں غیبت کردی۔ مجھے ضبط کرنا محال ہوگیا۔ اگلی ملاقات میں شکایت کردی، مفتی صاحب نے مناسب الفاظ میں بات آئی گئی کردی اور کچھ دن بعد وہ صاحب پھر اپنے لیے تقریر لکھوانے آدھمکے۔ مفتی صاحب شاذ ہی کسی سے معذرت کرتے کہ فُلاں علمی کام میں مصروف ہوں، آپ کا کام نہیں کرسکتا۔ ہرچند مجھ جیسا بے باک شاگرد اُن سے یہ کہتا کہ آپ صاف منع کیوں نہیں کرتے، مگر وہ اپنی سرشت سے مجبور تھے۔
یہ جو آج ہم دوسروں کی تحسین آمیز گفتگو پر کہتے ہیں کہ آپ کی تعریف نے تو سیروں خون بڑھا دیا، درحقیقت استاد ِگرامی کے معاملے میں ایسا ہی تھا جو کسی بھی موقع پر، کسی بھی معاملے میں، اپنے مختصر وجامع بیان، قول، ردّعمل، حتیٰ کہ محض مسکراہٹ یا بے اختیار ہنسی سے مُرجھائی ہوئی کلی کو دوبارہ تروتازہ کردیتے تھے۔ کاش وہ زندہ ہوتے تو اس تحریر کی داد فقط اُن سے وصول کرتا، مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
جب راقم نے اپنی اولین کتاب 'اسلامی معلومات۔ سوالاً جواباً' کے لیے استادگرامی سے تقریظ کی درخواست کی تو انھوں نے بکمال مہربانی، مسودہ دیکھ کر مختصرو جامع جواب عنایت فرمایا۔ یہ کتاب 1988ء میں منصہ شہود پر آئی۔ اس کے بعد جب ''اردو کے مشہور اشعار۔ ایک جائزہ'' نامی کتابچہ مرتب کرکے اُن کے نام انتساب کیا تو بہت خوش ہوئے۔ 2009ء میں خاکسار نے اسلامی معلومات پر مبنی اپنے ٹیلیوژن کوئز شو 'مشعل کوئز' میں تحقیق، ترتیب، تنصیف ومیزبانی کے ساتھ ساتھ مفتی صاحب کی تقاریر پروگرام کے شروع میں شامل کیں تو اُنھوں نے اپنی ہی کہی ہوئی ایک بات عمل سے غلط ثابت کردی ۔
ہوا یوں تھا کہ ایک دن میں نے اُن سے یونہی پوچھا کہ مفتی صاحب! آپ Orator(فی البدیہ خطیب) ہیں یا Debater (مقرر) تو انھوں نے جواب میں کہا کہ میں Orator نہیں ہوں۔ اب جو مجھ سمیت حاضرین نے اُنھیں متواتر کھڑے ہوکر تین ریکارڈنگز میں برجستہ تقریر کرتے ہوئے دیکھا تو سبھی حیران ہوئے، کیونکہ تکنیکی دشواریوں کے سبب، اسٹوڈیو میں سپہر سے رات ہوگئی تب جاکر ریکارڈنگ شروع ہوئی تھی۔ مفتی صاحب نے کمال ضبط کا مظاہرہ کیا۔
انگریزی دانی کے حوالے سے مفتی صاحب کے دو واقعات آپ کی نذر کرتا ہوں:
۱۔ پاکستان کے ایک مشہور ادارے نے برطانیہ سے لکھوائی ہوئی ایک درسی کتاب برائے اسلامیات (اولیول) اُن کی خدمت میں نظرِثانی کے لیے پیش کی تو اُنھوں نے اپنی مصروفیات کے باوجود، اُس کا غالب حصہ دیکھ لیا اور پھر میرا نام پیش کیا کہ یہ صاحب بھی دیکھیں گے، ساتھ ہی اپنے ایک اور شاگرد حافظ کا نام دیا کہ وہ اعراب دیکھیں گے۔
ادارے کے خسیس کرتا دھرتا اس بات پر راضی نہیں ہوئے کہ مفتی صاحب اور اُن شاگرد کے ساتھ ساتھ، راقم کو بھی کوئی حقیر نذرانہ پیش کریں تو مفتی صاحب نے مجھے روک دیا کہ جہاں تک میںنے دیکھا ہے، وہیں تک دیکھ لو، اپنے تاثرات رقم کرکے واپس کردو، چنانچہ یہی ہوا۔
۲۔ مفتی صاحب کا پوتا سعد بن مظہر نعیمی، اولیول میں پڑھ رہا تھا۔ ایک دن اُن کے پاس اسلامیات (بزبان انگریزی) لے کر آیا کہ والدین تو کسی وجہ سے نہیں سمجھاسکے، آپ ہی سمجھادیں۔ انھوں نے تبسم فرمایا اور اُس کی فرمائش پوری کردی۔
تنگی وقت و قرطاس مانع نہ ہوتی تو اپنے استاد گرامی کی شان میں مزید خامہ فرسائی کرتا، فی الحال تھوڑے لکھے کو بہت جانیں۔ بشرط ِزیست کبھی لکھوں گا تو مزید گوشے آشکار کروں گا۔
جب بھی اُن کو دھیان آئے گا، تم نے فراقؔ کو دیکھا ہے
فراقؔ گورکھپوری (28 اگست 1896ء تا 3مارچ 1982ء ) کے اس تعلّیٰ پر کوئی تنقید کیے بغیر عرض کرتا ہوں کہ بندہ یہ دعویٰ آج اُس ہستی کی روح کی طرف سے کررہا ہے جو میرے لیے روحانی باپ کی حیثیت رکھتی تھی۔
صاحبو! لفظ ساتھ نہیں دے رہے، ہرچند کہ آنکھیں خشک ہوچکی ہیں، کسی کے استفسار پر بات شروع کروں تو اَزخود اشک بار ہوجاتی ہیں اور کسی کی وفات پر بمشکل رونے والا یہ ڈھیٹ انسان (مضبوط نہیں) گلوگیر لہجے میں بات مختصر کردیتا ہے۔ المیہ یہ نہیں کہ خستہ حالی میں روز اَفزوں اضافے نے کمرِہمت توڑ دی ہے، المیہ یہ ہے کہ میری عمر بھر کی ''زباں فہمی'' کو سہارا دینے والا آخری بڑا ستون بھی ساتھ چھوڑ گیا ہے۔
میری والدہ میرے لیے سب سے بڑی 'زباں فہم' تھیں، پھر دادا اور والد گرامی سے بھی کچھ کچھ سیکھا اور اساتذہ کرام میں جن سے، تعلیم کے ساتھ ساتھ، سب سے بڑھ کر، تربیت حاصل کی تو وہ عظیم انسان تھے، یادگارِاسلاف، صدرالافاضل حضرت مفتی حکیم سید نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ (خلیفہ مُجاز اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ) کے خلیفہ، تحریک پاکستان کے کارکن، پاکستان کے بزرگ ترین عالِم دین، مفتی اور سب سے زیادہ کُہنہ مشق دینی نشریات کار [Broadcaster]، مفتی محمد اطہرنعیمی رحمۃ اللہ علیہ (پ: 1928ء) جنھوں نے 19دسمبر 2023ء کی شب گیارہ بجے کے لگ بھگ، داعی اجل کو لبیک کہا۔
پچانوے برس کی عمر میں اپنے والد 'تاج العلماء' مفتی محمد عمر نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کے قدیم مکان (واقع ناظم آباد چارنمبر، کراچی) میں ایک طویل مدت مستقل قیام کرنے اور گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر ایک دنیا کو اپنے علم سے سیراب کرنے والا یہ چشمہ خشک ہوگیا۔
مفتی صاحب نے مارچ 1950ء میں پاکستان آمد کے بعد کوئی ایک ماہ لاہور میں قیام کیا اور پھر کراچی تشریف لاکر ایک نجی ادارے میں ملازم ہوئے جہاں سیٹھ نے اُن کی نمازِظہر کی اَدائی کے لیے وقفہ کرنے پر اعتراض کیا تو انھوں نے فوراً ملازمت چھوڑدی۔ بعداَزآں وہ محکمہ ڈاک میں ملازم ہوگئے اور ایک طویل عرصے تک خدمات انجام دینے کے بعد، قبل اَز وقت سبکدوش ہوئے تو علمی خدمات انجام دینے کے لیے دارالعلوم نعیمیہ سے منسلک ہوگئے۔
یہاں ایک لطیف نکتہ سُوجھا ہے کہ عمر خواہ کتنی ہی ہو، انسان زندگی کی ناثباتی پر یہ کہے بغیر نہیں رہتا کہ دنیا چار دن کی ہے، مگر بہت کم لوگ یہ سوچتے ہیں کہ یہ چاردن بھی کچھ کر دکھانے والوں کے لیے کم نہیں:
یہ مانا زندگی ہے چار دن کی
بہت ہوتے ہیں یارو! چار دن بھی
(فراقؔ گورکھپوری)
مفتی اطہرنعیمی صاحب نے اپنے استاد ومرشد علامہ نعیم الدین مرادآبادی اور والد گرامی مفتی عمر نعیمی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جو اُن کے عہدشباب میں تحریک پاکستان بن چکی تھی (ممتاز علمی، ادبی وسیاسی ادبی جریدے 'السواداعظم' کے بانی ومدیر، جس کے ذریعے اعلیٰ حضرت اور اِن بزرگ شخصیات کا پیش کردہ، دوقومی نظریہ سیاسی اُفُق پر اُبھرا)۔ انھوں نے 1946ء کی تاریخی آل انڈیا سُنّی کانفرنس (بنارس) میں بطور مندوب شرکت کی اور وہ اس عظیم اجتماع علماء میں شامل مندوبین میں وفات پانے والے سب سے آخری عالم تھے۔
استادگرامی مفتی محمد اطہرنعیمی اشرفی نے قرآن مجید ناظرہ کی تعلیم اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی (جن کا انتقال ماضی قریب میں ہوا)۔ اُن کے اساتذہ میں اُن کے والد شیخ الحدیث والتفسیر مفتی محمد عمر، صدرالافاضل حضرت مفتی حکیم سید نعیم الدین مرادآبادی' مولانا سید وصی احمد صاحب اور مولانا محمد یونس صاحب سنبھلی شامل تھے۔ انھیں تصوف کے چاروں سلاسل میں اپنے والد گرامی سے بیعت واجازت حاصل ہوئی، نیز سلسلہ عالیہ قادریہ میں شیخ المشائخ پیر سید طاہر علاؤ الدین گیلانی نے انھیں خلافت عطا کی۔
مفتی صاحب نے مروجہ انگریزی تعلیم اعلیٰ ثانوی درجے تک حاصل کی، مگر وہ بہت سے موجودہ انگریزی خواں افراد سے زیادہ فرنگی زبان پر قدرت کے حامل تھے، ہرچند کہ اُنھیں عربی داں، فارسی داں عالم دین کی حیثیت سے شہرت ملی۔ آگے چل کر اس بابت بھی کچھ عرض کروں گا۔ مفتی صاحب نے جو بات مجھ سے چھُپائی اور پھر آخری دور میں جناب حامد علیمی (تلمیذ ڈاکٹر مفتی ناصر الدین صدیقی، سابق صدرنشیں شعبہ اصول الدین، جامعہ کراچی اور میرے اُستاد بھائی) کو انٹرویو دیتے ہوئے ظاہر کردی کہ وہ نہ صرف جگرؔ مرادآبادی کے مداحین میں شامل تھے، بلکہ شاعری بھی فرماتے تھے جو مابعد نعت گوئی تک محدود کرلی تھی۔
میرے لیے ناممکن ہے کہ اپنے منفرد، بلکہ فردِفرید اُستاد کی شان میں کچھ بیان کروں اور وہ نجی تعلقات کے اس طرح ذکر سے خالی ہو کہ اُس میں خاکسار کی ستائش کا پہلو نہ نکلے، اس لیے کہ مفتی صاحب مرحوم نے مجھے ہر موقع پر یوں سراہا ، یوں بڑھا وا دیا کہ کسی بچے کے والدین اور گھر کے بزرگ بھی نہیں دیتے۔ وہ بلامبالغہ ہزاروں علماء کے استاد اور چنیدہ مریدِین کے پیرومرشد تھے، مگر اُنھوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ اُن کا چہیتا شاگرد کوئی عالم نہیں، بلکہ دین مذہب، زبان وادب کا یہ ادنیٰ خادم ، خاکسارطالب علم تھا۔
یہ خودسِتائی یا ''اپنے منہ میاں مٹھو آپ'' والا معاملہ نہیں، بلکہ متعدد بار حضرتِ والا نے دارالعلوم نعیمیہ اور اپنے دولت کدے پر حاضرین بشمول علمائے کرام کے رُوبرو اپنے حسن ِعمل سے راقم کو یہ کہنے کا موقع دیا۔ ایک مرتبہ بندہ اُن کے گھر حاضرِخدمت تھا۔ کوئی عالم آئے ہوئے تھے، مفتی صاحب قبلہ اُن سے بات چیت کے ساتھ ساتھ کبھی میری طرف بھی نظر ِالتفات فرماتے جاتے اور خاکسار حسبِ معمول، اُن کی خصوصی اجازت کے باعث، سامنے موجود، اُن کے نجی کتب خانے کی کتب کی گویا 'سیاحت ' کررہا تھا۔
تھوڑی دیربعد، میں وہاں سے رخصت ہوگیا تو اُن مہمان عالم نے گویا اعتراض جڑتے ہوئے استاد گرامی سے استفسار کیا کہ کیوں حضرت! آپ ہمیں تو اپنی کتابوں کو ہاتھ لگانے نہیں دیتے اور یہ نوجوان لڑکا کیسے بے تکلفی سے کتب اُٹھا اُٹھا کر دیکھ رہا تھا۔ مفتی صاحب اپنی جگہ سے اُٹھے اور ایک کتاب (اُسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ از امام علامہ ابن اثیررحمۃ اللہ علیہ) کی ایک جلد اُٹھاکر اُس کے اوراق پر خاکسار کی پینسل سے کی گئی حاشیہ نگاری دکھاتے ہوئے فرمایا کہ یہ وجہ ہے۔ یہ اُس لڑکے نے کی ہے جس پر آپ معترض تھے۔ وہ عالم ششدر ہوگئے۔ یہ واقعہ تو بہت بعد کا ہے، مگر مفتی صاحب سے مراسم کی ابتداء ہی میں ایسے واقعات پیش آچکے تھے۔
میری مفتی اطہر نعیمی صاحب سے اولین ملاقات 1985ء میں دارالعلوم نعیمیہ میں واقع اُن کے دفتر میں ہوئی جب خاکسار اُن سے فارسی کی تعلیم کے لیے درخواست پیش کرنے حاضر ہوا۔ انھوں نے دیگر علمائے کرام بشمول مفتی منیب الرحمٰن و مفتی جمیل احمد نعیمی (مرحوم) کی طرف سے مجھے اُن سے رجوع کرنے کا صائب مشورہ دیکھا اور فوراً میری استدعا قبول فرمائی۔ یہ سلسلہ شروع ہوا تو ایک عرصے تک دارالعلوم ہی میں حاضر ہوتا رہا، پھر اُن کے گھر پر مستفیض ہوتا رہا۔ انھوں نے مجھے بلامعاوضہ، فی سبیل اللہ فارسی کی تعلیم دی اور مجھے اپنے چھوٹے بیٹے زبیر نعیمی کی تعلیم کے لیے ٹیوٹر مقرر فرمایا، پھر اُن کی پوتی اور آخرش اُن کے بھتیجے عفان بن حافظ اظہر نعیمی (مرحوم) کو پڑھانے پر مامور ہوا۔ مجھے اس خدمت کا مشاہرہ ملتا تھا۔
مفتی صاحب کی ایک عادت بہت متاثرکن تھی کہ مجھ جیسے چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہتے۔ ایک مرتبہ اُن کا پوتا عمربن اَنفس نعیمی، ننھی سی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ حج کرکے واپس آیا تو خاکسار نے اُسے پیار سے 'حاجی صاحب' کہہ کر پکارا۔ مفتی صاحب نے اسے مستقل حاجی صاحب ہی کا نام دے دیا اور شاذ ہی کبھی اصل نام سے مخاطب کرتے۔ اسی طرح ایک جلیل القدرعالم سے میری کچھ شکررنجی ہوئی تو میں نے انھیں ''ناراض مولانا'' قرار دیا۔ مفتی صاحب جب بھی موڈ میں ہوتے تو کہتے، بھئی وہ آپ کے (یا کبھی تمھارے) ناراض مولانا نے یہ کیا، یہ فرمایا۔
شروع دور میں یوں ہوا کہ ایک دن مولانا منظورعلی خاں، سابق خطیب وپیش امام پاکستان اسٹیل ملز (عبیداللہ بیگ مرحوم کے برادرِنسبتی) مفتی اطہر نعیمی صاحب کے پاس، دارالعلوم میں حاضر ہوئے، یہ خاکسار فارسی کا درس لینے کو موجود تھا۔ انھوں نے بہت جھجکتے ہوئے شکستہ لہجے میں ایک مسئلے کا جواب دریافت کیا۔ موصوف مجھ سے کچھ سال بڑے یعنی اُن دنوں بھرپور جوان تھے۔ حضرت کی بارعب شخصیت کے آگے لب کُشائی محال لگ رہی تھی۔
مفتی صاحب نے اُن کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کیا فرماتے ہیں، وہ بے چارے بولتے ہوئے شرمارہے تھے، پھر مفتی صاحب نے میری طرف متوجہ ہوکر پوچھا، آپ کا کیا فتویٰ ہے۔ میں نے بلاجھجک عرض کی کہ ''طلاقِ بائن واقع ہوگئی''۔ جواب میں ارشاد فرمایا، تو لکھ دیجے، میں دستخط کردوں گا۔ اب تو جناب مولانا منظور کی حالت دیکھنے والی تھی۔ عاجزی سے گڑگڑائے، نہیں حضرت! آپ لکھ دیجے (میں نے تو لکھنا شروع کر بھی دیا تھا)۔ مفتی صاحب نے تبسم فرماکر جواب لکھا اور دستخط فرمادیے۔ یہ تھا اُن کا عالمانہ طرزِعمل جو دیگر سے جُدا اور ممتاز کرنے کو کافی تھا۔ بخدا وہ عالم نہیں، عالم گر تھے۔
مفتی صاحب نے بے شمار علماء اور کچے پکے مولویوں کو تقاریر اور کتب لکھ کر دیں۔ ایک مرتبہ ایک صاحب گھر پر اِسی مقصد سے تشریف لائے اور باوجودیکہ مجھ سے تعارف ہوچکا تھا، مفتی صاحب کے ذرا دیر کو گھر کے اندر جانے پر اُن کی نہایت بیہودہ الفاظ میں غیبت کردی۔ مجھے ضبط کرنا محال ہوگیا۔ اگلی ملاقات میں شکایت کردی، مفتی صاحب نے مناسب الفاظ میں بات آئی گئی کردی اور کچھ دن بعد وہ صاحب پھر اپنے لیے تقریر لکھوانے آدھمکے۔ مفتی صاحب شاذ ہی کسی سے معذرت کرتے کہ فُلاں علمی کام میں مصروف ہوں، آپ کا کام نہیں کرسکتا۔ ہرچند مجھ جیسا بے باک شاگرد اُن سے یہ کہتا کہ آپ صاف منع کیوں نہیں کرتے، مگر وہ اپنی سرشت سے مجبور تھے۔
یہ جو آج ہم دوسروں کی تحسین آمیز گفتگو پر کہتے ہیں کہ آپ کی تعریف نے تو سیروں خون بڑھا دیا، درحقیقت استاد ِگرامی کے معاملے میں ایسا ہی تھا جو کسی بھی موقع پر، کسی بھی معاملے میں، اپنے مختصر وجامع بیان، قول، ردّعمل، حتیٰ کہ محض مسکراہٹ یا بے اختیار ہنسی سے مُرجھائی ہوئی کلی کو دوبارہ تروتازہ کردیتے تھے۔ کاش وہ زندہ ہوتے تو اس تحریر کی داد فقط اُن سے وصول کرتا، مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
جب راقم نے اپنی اولین کتاب 'اسلامی معلومات۔ سوالاً جواباً' کے لیے استادگرامی سے تقریظ کی درخواست کی تو انھوں نے بکمال مہربانی، مسودہ دیکھ کر مختصرو جامع جواب عنایت فرمایا۔ یہ کتاب 1988ء میں منصہ شہود پر آئی۔ اس کے بعد جب ''اردو کے مشہور اشعار۔ ایک جائزہ'' نامی کتابچہ مرتب کرکے اُن کے نام انتساب کیا تو بہت خوش ہوئے۔ 2009ء میں خاکسار نے اسلامی معلومات پر مبنی اپنے ٹیلیوژن کوئز شو 'مشعل کوئز' میں تحقیق، ترتیب، تنصیف ومیزبانی کے ساتھ ساتھ مفتی صاحب کی تقاریر پروگرام کے شروع میں شامل کیں تو اُنھوں نے اپنی ہی کہی ہوئی ایک بات عمل سے غلط ثابت کردی ۔
ہوا یوں تھا کہ ایک دن میں نے اُن سے یونہی پوچھا کہ مفتی صاحب! آپ Orator(فی البدیہ خطیب) ہیں یا Debater (مقرر) تو انھوں نے جواب میں کہا کہ میں Orator نہیں ہوں۔ اب جو مجھ سمیت حاضرین نے اُنھیں متواتر کھڑے ہوکر تین ریکارڈنگز میں برجستہ تقریر کرتے ہوئے دیکھا تو سبھی حیران ہوئے، کیونکہ تکنیکی دشواریوں کے سبب، اسٹوڈیو میں سپہر سے رات ہوگئی تب جاکر ریکارڈنگ شروع ہوئی تھی۔ مفتی صاحب نے کمال ضبط کا مظاہرہ کیا۔
انگریزی دانی کے حوالے سے مفتی صاحب کے دو واقعات آپ کی نذر کرتا ہوں:
۱۔ پاکستان کے ایک مشہور ادارے نے برطانیہ سے لکھوائی ہوئی ایک درسی کتاب برائے اسلامیات (اولیول) اُن کی خدمت میں نظرِثانی کے لیے پیش کی تو اُنھوں نے اپنی مصروفیات کے باوجود، اُس کا غالب حصہ دیکھ لیا اور پھر میرا نام پیش کیا کہ یہ صاحب بھی دیکھیں گے، ساتھ ہی اپنے ایک اور شاگرد حافظ کا نام دیا کہ وہ اعراب دیکھیں گے۔
ادارے کے خسیس کرتا دھرتا اس بات پر راضی نہیں ہوئے کہ مفتی صاحب اور اُن شاگرد کے ساتھ ساتھ، راقم کو بھی کوئی حقیر نذرانہ پیش کریں تو مفتی صاحب نے مجھے روک دیا کہ جہاں تک میںنے دیکھا ہے، وہیں تک دیکھ لو، اپنے تاثرات رقم کرکے واپس کردو، چنانچہ یہی ہوا۔
۲۔ مفتی صاحب کا پوتا سعد بن مظہر نعیمی، اولیول میں پڑھ رہا تھا۔ ایک دن اُن کے پاس اسلامیات (بزبان انگریزی) لے کر آیا کہ والدین تو کسی وجہ سے نہیں سمجھاسکے، آپ ہی سمجھادیں۔ انھوں نے تبسم فرمایا اور اُس کی فرمائش پوری کردی۔
تنگی وقت و قرطاس مانع نہ ہوتی تو اپنے استاد گرامی کی شان میں مزید خامہ فرسائی کرتا، فی الحال تھوڑے لکھے کو بہت جانیں۔ بشرط ِزیست کبھی لکھوں گا تو مزید گوشے آشکار کروں گا۔