کشمیر و فلسطین تاحال حل طلب کیوں
درحقیقت کشمیروفلسطین کا گہرا تعلق ہے، دونوں کے عوام پچھتر برس سے ظلم کا سامنا کر رہے ہیں
سلامتی کونسل کی قرارداد منظور ہونے کے باوجود غزہ پر اسرائیلی دہشت گردی تھم نہ سکی، غزہ میں اسرائیلی فضائیہ کی اسپتالوں اور جبالیہ کیمپ پر تباہ کن بمباری کے نتیجے میں اٹھارہ فلسطینی شہید ہوگئے جب کہ درجنوں زخمی ہیں۔
اقوام متحدہ میں بچوں کے فنڈ کے ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ غزہ میں غذائی قلت کی وجہ سے پانچ سال تک کی عمر کے دس ہزار بچوں کی موت کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ دوسری جانب بھارت کے غیرقانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں قابض فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی تازہ کارروائیوں کے دوران میں مزید چار کشمیریوں کو شہید کردیا۔
درحقیقت کشمیروفلسطین کا گہرا تعلق ہے، دونوں کے عوام پچھتر برس سے ظلم کا سامنا کر رہے ہیں اور دونوں کی تقدیر اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اُلجھی پڑی ہیں۔ بیتی سات دہائیوں میں اگرکشمیر کو پانچ حصوں میں بانٹا گیا تو فلسطین کو جنوب شمال میں تقسیم کے بعد سات لاکھ سے زائد خاندانوں کو ہجرت پر مجبورکردیا گیا۔
اس وقت جو آبادی بچی ہوئی ہے اُس پر بم برس رہے ہیں۔ پانی، خوراک، ادویات، اسکول، اسپتال اورگھر، سب چھینے جا رہے ہیں۔
فلسطین میں2014 کے بعد دوسری مرتبہ یہ سب سے بڑا تنازعہ سامنے آیا کہ جس میں عمارتیں پھر منہدم ہورہی ہیں، اسرائیل کی جانب سے یہ کہہ دیا گیا تھا کہ یہ جنگ تب تک جاری رہے گی، جب تک اس کی ضرورت ہوگی۔
حماس کی سات اکتوبر کی کارروائی کے پیچھے برسوں کی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کار فرما تھی کیونکہ اہل فلسطین کا گھٹن کے ماحول میں دم گھٹ چکا تھا۔
گزشتہ بیس برسوں سے اہل غزہ ایک ایسے محاصرے میں زندگی بسر کررہے تھے جس میں ان کے لیے ایک پل کی بھی خوشی میسر نہیں تھی۔ ان کے لیے زندگی بے معنی اور بے مقصد ہوچکی تھی کیونکہ انھیں قدم قدم پر تشدد و تذلیل اور توقیر کا نشانہ بنایا جانا معمول بن چکا تھا۔
معصوم فلسطینی بچیوں کو بھی نہیں بخشا جاتا انھیں بھی انسان نما بھڑیے پکڑ کر جیلوں میں بند کرتے اور آج بھی ہزاروں فلسطینی مرد و خواتین اور معصوم بچے بچیاں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ایک ایسی زندگی گزارنے پر مجبور کیے گئے ہیں، جس کا دنیاوی زندگی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
اہل فلسطین کو مسجد اقصیٰ میں خصوصیت کے ساتھ نماز جمعہ پڑھنے سے روکنا کوئی غیر معمولی جرم تصور نہیں کیا جاتا، حتیٰ کہ انھیں دوران نماز تشدد کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسرائیلی بربریت کے خلاف 9 ممالک اسرائیل سے اپنے سفارتکار واپس بلا چکے ہیں۔
ان میں کولمبیا، بحرین، اردن، چلی، چاڈ، ترکی، بولیویا، ہنڈرس اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ ان ممالک نے غزہ میں جاری اسرائیلی درندگی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے یہ قدم اٹھایا ہے۔
البتہ دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ مسلم اور عرب ممالک کہاں کھڑے ہیں جو اہل فلسطین اور سرزمین فلسطین کے وارث کہلاتے ہیں، یہ بہت بڑا سوال ہے جو ہر شخص کی زبان پر ہے۔
ارض فلسطین کے ساتھ ساتھ ارض کشمیر بھی لہولہان ہے، یہاں ہر روز معصوم کشمیری نوجوانوں کو قتل کیا جاتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت ارض فلسطین میں صہیونی پالیسی پر گامزن ہے۔ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں جعلی مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل عام کے ذریعے کشمیری عوام کی نسل کشی میں مصروف عمل ہے۔
ظالمانہ قوانین کی آڑ میں بھارتی فوجی روزانہ کی بنیاد پر معصوم کشمیریوں کو بے دردی سے قتل، گرفتار اور تشدد و تذلیل کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اگست 2019میں غیر قانونی اقدامات کے بعد بھارت نے ماورائے عدالت قتل عام کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنے کے عمل میں تیزی لائی ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں روزانہ قتل، من مانی گرفتاریاں اور جائیداد و املاک ضبط کرنے کا مقصد آزادی پسند کشمیری عوام کو دہشت زدہ اور تحریک آزادی کشمیر سے دستبردار کرانا ہے۔مسئلہ کشمیر دنیا کے دیرینہ تنازعات میں سے ایک ہے ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دشمنی کی وجہ سے ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ لگی ہے، تجارتی تعلقات نہ ہونے کے برابر ہیں، ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس پر دونوں ملک بہت نیچے ہیں۔ مسئلے کے بنیادی فریق ریاستی عوام بنیادی حقوق سے محروم، منقسم اور ریاستی جبرکا شکار ہیں۔
اس پورے خطے میں امن کی بحالی اور ترقی کے لیے اس تنازع کا حل ناگزیر ہے۔ برصغیر کے با شعور لوگوں کا یہ فرض ہے کہ نہ صرف ریاستی عوام کے لیے بلکہ اپنی تعلیم، صحت، روزگار، معاشی میدان میں ترقی اور جمہوری حقوق کے لیے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل پر زور دیں۔
دہشت گردی اور مقروض معیشت کے پیچھے بنیادی وجہ ہندوستان اور پاکستان کے خراب تعلقات ہیں جن کی جڑ مسئلہ کشمیر ہے۔
ستر سال سے اس بنیادی مسئلے کے حل میں پیشرفت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے ہندوستان ریاست جموں و کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔
اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی محض کاغذ کا ٹکڑا ثابت ہوئی ہیں کیونکہ وہاں عالمی طاقتیں حاوی ہیں اور وہ اپنے مفادات کے مطابق ہی اقوام متحدہ کو استعمال کرتی ہیں۔ اس مسئلہ کو بھارت کی نظر سے دیکھنے سے یہ کبھی حل نہیں ہو گا۔ مسئلہ کشمیر تب ہی حل ہو سکتا ہے جب ریاستی عوام کو بنیادی فریق تسلیم کر کے ان کی امنگوں کے مطابق اس کا حل تلاش کیا جائے۔
پاکستان اور بھارت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ جنگ لڑ کر پوری ریاست پر قبضہ کر سکیں اور اگر یہ ناممکن کام ہو بھی جائے تو اس طرح صورتحال مزید مخدوش ہو جائے گی۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند عوام نے لاکھوں جانیں قربان کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی صورت بھارت کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں اسی طرح آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کبھی بھارت میں شامل نہیں ہونگے۔ دوسری طرف ایسی کوئی طاقت موجود نہیں جو بھارت کو ریاست پر سے اپنا قبضہ ختم کرنے پر مجبور کرے ۔
کشمیری عوام، پاکستان اور بھارت سب کے لیے اس مسئلے کا حل ہو جانا ضروری ہے اور اس کا واحد ممکنہ اور منصفانہ حل کشمیریوں کا حق خود ارادیت ہے۔
تقسیم سے بچاؤ کا واحد راستہ یہی ہے۔ کشمیریوں کی بیرون ملک مقیم ایک بہت بڑی تعداد آزادی کشمیر کے لیے کوشش کر رہی ہے۔ حق خودارادیت کو اقوام متحدہ بنیادی حق تسلیم کر چکی ہے اور موجودہ وقتوں میں کئی چھوٹے چھوٹے ملکوں نے اس حق کو اپنی خودمختاری کے لیے کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ ہندوستان کے کروڑوں غریبوں کی دشمن ان کے ملک کی استحصالی اشرافیہ ہے اور مسئلہ کشمیر کو محض اس استحصال کو طوالت دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی رائے عامہ پر بھی بنیادی انسانی حقوق کی بازیابی کے لیے تحریک مسئلہ کشمیر کے حل پر مثبت اثر ڈال سکتی ہے۔ فرقہ واریت، دہشت گردی اور پراکسی وار کے پروپیگنڈے کا توڑ بھی یہی ہے کہ ریاست جموں کشمیر کی تمام اکائیاں مساوی حیثیت میں اس ریاست کا حصہ ہوں، صوبے خودمختار ہوں اور وفاق کے پاس چند ضروری شعبے ہوں۔
دوسری جانب مسئلہ فلسطین 1948 میں اسرائیل کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی یہ تنازعہ وجود میں آیا تھا۔ اسرائیل کی بنیاد رکھنے والوں کے درمیان یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ فلسطینی اپنے گھروں کو واپس آئیں گے، انھیں اپنی جگہوں پر لوٹنے کا حق ہو گا لیکن اس کے تناظر میں فلسطینی اپنی سر زمین پر واپس نہیں آسکے۔
عالمی جنگ میں عرب ممالک سلطنت عثمانیہ کے خلاف برطانوی اتحاد کی حمایت پر اس شرط پر شامل ہوئے کہ جنگ میں جیت کی صورت میں انھیں آزادی دے دی جائے گی، مگر جنگ کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں تیل کے ذخائر پر نظر رکھنے والی طاقتوں نے خطے کو اپنی مرضی کے مطابق بانٹنا شروع کردیا اور نئی سرحدی تقسیم کی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد فلسطین کے علاقے کو تقسیم کر کے یہاں یہودی مملکت کی بنیاد رکھی گئی اور کئی وعدوں کے سائے میں فلسطینیوں کو وہاں سے بے دخل کردیا گیا۔
مشرقی یروشلم جو جھگڑے کی بنیاد تھی اس پر طے ہوا تھا کہ مسجد اقصیٰ مشرقی یروشلم میں ہی رہے گی اور طے کیا جائے گا کہ یہ علاقہ اسرائیلی کنٹرول میں رہے گا یا آزاد رہے گا۔ اس دوران کئی تبدیلیاں ہوئیں جس سے فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے وہ چھاپہ مار جنگ پر اتر آئے۔
مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں ریفرنڈم، اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہوگیا جب کہ دیوار برلن کی ٹوٹ پھوٹ میں دلچسپی اور دیوار برہمن کے دوام کے لیے حیلے بہانے تراشے گئے، تیل کے کنوؤں کے لیے طاقت اور انسانی خون کے لیے مصلحت اپنائی گئی۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کی منظوری دیتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ اب دنیا کو جنگوں کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیا جائے گا اورکسی کو یہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ لاٹھی کی بنیاد پر دوسروں کے حق کو تلف کرے، لیکن اقوام متحدہ کے دہرے معیار نے اس ادارے کی ساکھ کے آگے ایک بڑا سا سوالیہ نشان لگا رکھا ہے۔
اقوام متحدہ میں بچوں کے فنڈ کے ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ غزہ میں غذائی قلت کی وجہ سے پانچ سال تک کی عمر کے دس ہزار بچوں کی موت کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ دوسری جانب بھارت کے غیرقانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں قابض فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی تازہ کارروائیوں کے دوران میں مزید چار کشمیریوں کو شہید کردیا۔
درحقیقت کشمیروفلسطین کا گہرا تعلق ہے، دونوں کے عوام پچھتر برس سے ظلم کا سامنا کر رہے ہیں اور دونوں کی تقدیر اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اُلجھی پڑی ہیں۔ بیتی سات دہائیوں میں اگرکشمیر کو پانچ حصوں میں بانٹا گیا تو فلسطین کو جنوب شمال میں تقسیم کے بعد سات لاکھ سے زائد خاندانوں کو ہجرت پر مجبورکردیا گیا۔
اس وقت جو آبادی بچی ہوئی ہے اُس پر بم برس رہے ہیں۔ پانی، خوراک، ادویات، اسکول، اسپتال اورگھر، سب چھینے جا رہے ہیں۔
فلسطین میں2014 کے بعد دوسری مرتبہ یہ سب سے بڑا تنازعہ سامنے آیا کہ جس میں عمارتیں پھر منہدم ہورہی ہیں، اسرائیل کی جانب سے یہ کہہ دیا گیا تھا کہ یہ جنگ تب تک جاری رہے گی، جب تک اس کی ضرورت ہوگی۔
حماس کی سات اکتوبر کی کارروائی کے پیچھے برسوں کی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کار فرما تھی کیونکہ اہل فلسطین کا گھٹن کے ماحول میں دم گھٹ چکا تھا۔
گزشتہ بیس برسوں سے اہل غزہ ایک ایسے محاصرے میں زندگی بسر کررہے تھے جس میں ان کے لیے ایک پل کی بھی خوشی میسر نہیں تھی۔ ان کے لیے زندگی بے معنی اور بے مقصد ہوچکی تھی کیونکہ انھیں قدم قدم پر تشدد و تذلیل اور توقیر کا نشانہ بنایا جانا معمول بن چکا تھا۔
معصوم فلسطینی بچیوں کو بھی نہیں بخشا جاتا انھیں بھی انسان نما بھڑیے پکڑ کر جیلوں میں بند کرتے اور آج بھی ہزاروں فلسطینی مرد و خواتین اور معصوم بچے بچیاں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ایک ایسی زندگی گزارنے پر مجبور کیے گئے ہیں، جس کا دنیاوی زندگی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
اہل فلسطین کو مسجد اقصیٰ میں خصوصیت کے ساتھ نماز جمعہ پڑھنے سے روکنا کوئی غیر معمولی جرم تصور نہیں کیا جاتا، حتیٰ کہ انھیں دوران نماز تشدد کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسرائیلی بربریت کے خلاف 9 ممالک اسرائیل سے اپنے سفارتکار واپس بلا چکے ہیں۔
ان میں کولمبیا، بحرین، اردن، چلی، چاڈ، ترکی، بولیویا، ہنڈرس اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ ان ممالک نے غزہ میں جاری اسرائیلی درندگی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے یہ قدم اٹھایا ہے۔
البتہ دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ مسلم اور عرب ممالک کہاں کھڑے ہیں جو اہل فلسطین اور سرزمین فلسطین کے وارث کہلاتے ہیں، یہ بہت بڑا سوال ہے جو ہر شخص کی زبان پر ہے۔
ارض فلسطین کے ساتھ ساتھ ارض کشمیر بھی لہولہان ہے، یہاں ہر روز معصوم کشمیری نوجوانوں کو قتل کیا جاتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت ارض فلسطین میں صہیونی پالیسی پر گامزن ہے۔ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں جعلی مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل عام کے ذریعے کشمیری عوام کی نسل کشی میں مصروف عمل ہے۔
ظالمانہ قوانین کی آڑ میں بھارتی فوجی روزانہ کی بنیاد پر معصوم کشمیریوں کو بے دردی سے قتل، گرفتار اور تشدد و تذلیل کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اگست 2019میں غیر قانونی اقدامات کے بعد بھارت نے ماورائے عدالت قتل عام کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنے کے عمل میں تیزی لائی ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں روزانہ قتل، من مانی گرفتاریاں اور جائیداد و املاک ضبط کرنے کا مقصد آزادی پسند کشمیری عوام کو دہشت زدہ اور تحریک آزادی کشمیر سے دستبردار کرانا ہے۔مسئلہ کشمیر دنیا کے دیرینہ تنازعات میں سے ایک ہے ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دشمنی کی وجہ سے ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ لگی ہے، تجارتی تعلقات نہ ہونے کے برابر ہیں، ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس پر دونوں ملک بہت نیچے ہیں۔ مسئلے کے بنیادی فریق ریاستی عوام بنیادی حقوق سے محروم، منقسم اور ریاستی جبرکا شکار ہیں۔
اس پورے خطے میں امن کی بحالی اور ترقی کے لیے اس تنازع کا حل ناگزیر ہے۔ برصغیر کے با شعور لوگوں کا یہ فرض ہے کہ نہ صرف ریاستی عوام کے لیے بلکہ اپنی تعلیم، صحت، روزگار، معاشی میدان میں ترقی اور جمہوری حقوق کے لیے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل پر زور دیں۔
دہشت گردی اور مقروض معیشت کے پیچھے بنیادی وجہ ہندوستان اور پاکستان کے خراب تعلقات ہیں جن کی جڑ مسئلہ کشمیر ہے۔
ستر سال سے اس بنیادی مسئلے کے حل میں پیشرفت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے ہندوستان ریاست جموں و کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔
اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی محض کاغذ کا ٹکڑا ثابت ہوئی ہیں کیونکہ وہاں عالمی طاقتیں حاوی ہیں اور وہ اپنے مفادات کے مطابق ہی اقوام متحدہ کو استعمال کرتی ہیں۔ اس مسئلہ کو بھارت کی نظر سے دیکھنے سے یہ کبھی حل نہیں ہو گا۔ مسئلہ کشمیر تب ہی حل ہو سکتا ہے جب ریاستی عوام کو بنیادی فریق تسلیم کر کے ان کی امنگوں کے مطابق اس کا حل تلاش کیا جائے۔
پاکستان اور بھارت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ جنگ لڑ کر پوری ریاست پر قبضہ کر سکیں اور اگر یہ ناممکن کام ہو بھی جائے تو اس طرح صورتحال مزید مخدوش ہو جائے گی۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند عوام نے لاکھوں جانیں قربان کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی صورت بھارت کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں اسی طرح آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کبھی بھارت میں شامل نہیں ہونگے۔ دوسری طرف ایسی کوئی طاقت موجود نہیں جو بھارت کو ریاست پر سے اپنا قبضہ ختم کرنے پر مجبور کرے ۔
کشمیری عوام، پاکستان اور بھارت سب کے لیے اس مسئلے کا حل ہو جانا ضروری ہے اور اس کا واحد ممکنہ اور منصفانہ حل کشمیریوں کا حق خود ارادیت ہے۔
تقسیم سے بچاؤ کا واحد راستہ یہی ہے۔ کشمیریوں کی بیرون ملک مقیم ایک بہت بڑی تعداد آزادی کشمیر کے لیے کوشش کر رہی ہے۔ حق خودارادیت کو اقوام متحدہ بنیادی حق تسلیم کر چکی ہے اور موجودہ وقتوں میں کئی چھوٹے چھوٹے ملکوں نے اس حق کو اپنی خودمختاری کے لیے کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ ہندوستان کے کروڑوں غریبوں کی دشمن ان کے ملک کی استحصالی اشرافیہ ہے اور مسئلہ کشمیر کو محض اس استحصال کو طوالت دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی رائے عامہ پر بھی بنیادی انسانی حقوق کی بازیابی کے لیے تحریک مسئلہ کشمیر کے حل پر مثبت اثر ڈال سکتی ہے۔ فرقہ واریت، دہشت گردی اور پراکسی وار کے پروپیگنڈے کا توڑ بھی یہی ہے کہ ریاست جموں کشمیر کی تمام اکائیاں مساوی حیثیت میں اس ریاست کا حصہ ہوں، صوبے خودمختار ہوں اور وفاق کے پاس چند ضروری شعبے ہوں۔
دوسری جانب مسئلہ فلسطین 1948 میں اسرائیل کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی یہ تنازعہ وجود میں آیا تھا۔ اسرائیل کی بنیاد رکھنے والوں کے درمیان یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ فلسطینی اپنے گھروں کو واپس آئیں گے، انھیں اپنی جگہوں پر لوٹنے کا حق ہو گا لیکن اس کے تناظر میں فلسطینی اپنی سر زمین پر واپس نہیں آسکے۔
عالمی جنگ میں عرب ممالک سلطنت عثمانیہ کے خلاف برطانوی اتحاد کی حمایت پر اس شرط پر شامل ہوئے کہ جنگ میں جیت کی صورت میں انھیں آزادی دے دی جائے گی، مگر جنگ کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں تیل کے ذخائر پر نظر رکھنے والی طاقتوں نے خطے کو اپنی مرضی کے مطابق بانٹنا شروع کردیا اور نئی سرحدی تقسیم کی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد فلسطین کے علاقے کو تقسیم کر کے یہاں یہودی مملکت کی بنیاد رکھی گئی اور کئی وعدوں کے سائے میں فلسطینیوں کو وہاں سے بے دخل کردیا گیا۔
مشرقی یروشلم جو جھگڑے کی بنیاد تھی اس پر طے ہوا تھا کہ مسجد اقصیٰ مشرقی یروشلم میں ہی رہے گی اور طے کیا جائے گا کہ یہ علاقہ اسرائیلی کنٹرول میں رہے گا یا آزاد رہے گا۔ اس دوران کئی تبدیلیاں ہوئیں جس سے فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے وہ چھاپہ مار جنگ پر اتر آئے۔
مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں ریفرنڈم، اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہوگیا جب کہ دیوار برلن کی ٹوٹ پھوٹ میں دلچسپی اور دیوار برہمن کے دوام کے لیے حیلے بہانے تراشے گئے، تیل کے کنوؤں کے لیے طاقت اور انسانی خون کے لیے مصلحت اپنائی گئی۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کی منظوری دیتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ اب دنیا کو جنگوں کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیا جائے گا اورکسی کو یہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ لاٹھی کی بنیاد پر دوسروں کے حق کو تلف کرے، لیکن اقوام متحدہ کے دہرے معیار نے اس ادارے کی ساکھ کے آگے ایک بڑا سا سوالیہ نشان لگا رکھا ہے۔