جواب لازم ہے

نواز شریف اب بھی نہ ملنے والا جواب مانگتے رہیں گے اور سیاسی کشیدگی برقرار رہے گی

m_saeedarain@hotmail.com

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف بار بار اپنے سوالات کا جواب مانگ رہے ہیں کہ ملک کو ترقی دلانے والی میری حکومت 2017 میں مجھے نااہل کر کے کیوں ختم کی گئی تھی۔ میری حکومت میں مزدور اور کسان خوش تھے۔ موٹر ویز بن رہی تھیں، مخالفین حسد کر رہے تھے کہ اگر 2018 میں شفاف الیکشن ہوئے تو مسلم لیگ (ن) جیت جائے گی۔ قوم جاننا چاہتی ہے کہ ترقی کا سفر رکا کیوں؟

میاں صاحب ان لوگوں سے مسلسل سوالات کر رہے ہیں لیکن ان کے بقول مجھے میرے سوالوں کا جواب نہیں مل رہا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ قوم جاننا چاہتی ہے کہ 2018 کے الیکشن میں کیا ہوا ؟ سب نے مسلم لیگ (ن) کے جیتنے کی پیش گوئی کی تھی، انھوں نے یہ بھی کہا کہ زیادتی کے ازالے کے لیے اپنی ذات سے بلند ہو کر خدمت کرنا ہوگی۔ ملکی حالات دیکھ کر دل دکھی ہے اور خوشحال پاکستان ضروری ہے ہمیں ملک و قوم کی خدمت کرنی ہے۔

2017 میں ہٹائے جانے کا دکھ میاں نواز شریف کے دل میں موجود ہے جس کا اظہار وہ جذبات میں کر بھی جاتے ہیں اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ میرے دل میں انتقام کی کوئی خواہش نہیں۔ وہ اپنے سوالات کا جواب بھی چاہتے ہیں۔

میاں صاحب کو اپنے سوالات کا جواب معلوم بھی ہے اور العزیزیہ ریفرنس میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے ان کی رہائی کے فیصلے میں چیف جسٹس نے کہا کہ نیب دستاویز سے کچھ ثابت نہیں ہوتا اور سرکاری تحقیقاتی افسر مان رہے تھے کہ نواز شریف کی ملکیت کا کوئی ثبوت موجود نہیں اور جو مفروضہ بنایا گیا تھا، اس پر سزا نہیں ہوتی، اس لیے نواز شریف کی احتساب عدالت کی سزا کالعدم کر کے ملزم کو بری کیا جاتا ہے، اپنی بریت پر نواز شریف نے کہا کہ پاناما فیصلے کے تحت میرے خلاف تینوں کیسز ختم ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے دنیا کو میری بے گناہی دکھا دی ہے۔

پی ٹی آئی نے حسب فطرت نواز شریف کی بریت پر عدالتی فیصلے پر نازیبا کلمات ہی ادا کیے۔ نواز شریف کی تینوں مقدمات میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ پی ٹی آئی کو قبول نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی رہنما کے قابل احترام ممتاز وکیل حامد خان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف کو 2018 میں سزائیں کسی کے کہنے پر عدلیہ نے دی تھیں، جو پانچ سال بعد ہائی کورٹ نے ختم کردی ہیں مگر اپنے بانی رہنما کی بات بھی پی ٹی آئی نے نہیں مانی تھی اور نہ ہی حامد خان کے بیان کی تردید کی تھی۔


نواز شریف خود بھی بتا چکے ہیں کہ انھیں کس نے ہٹوایا اور سزائیں دلائی تھیں اور انھیں ہٹوانے اور سزا دینے والے خود بھی نواز شریف کے سوالوں کا جواب نہیں دیں گے۔ پی ٹی آئی رہنما اگر اصول پرست اور نواز شریف کے ذاتی دشمن نہ ہوتے تو حامد خان کی بات مانتے اور عدالتی فیصلے کا احترام کرتے مگر وہ اب بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ نواز شریف کی جو مہنگی جائیدادیں خریدی تھیں۔

ان کی رسیدیں نواز شریف نے عدلیہ کو پیش نہیں کیں، اس لیے وہ اب بھی صادق و امین نہیں ہیں اور عدالتی فیصلہ انھیں اسی لیے قبول نہیں اور وہ اپنے اسی موقف پر قائم ہیں جو اس کے بانی نے اپنایا تھا اور خود ہی جج بن کر اپنے مخالفین کو چور ڈاکو قرار دیا تھا۔ دیگر سیاسی مخالفین کے مقابلے میں بانی پی ٹی آئی کا نشانہ صرف تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف اور ان کا خاندان تھا اور ملک کی کسی عدالت نے انھیں کرپٹ قرار نہیں دیا تھا۔

بانی پی ٹی آئی نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم اور اپنی تقاریر سے ملک میں یہ تاثر قائم کردیا تھا کہ نواز شریف کسی عدالتی فیصلے کے بغیر بھی چور ڈاکو ہے جس نے ملک لوٹ کر جائیدادیں بنائیں جس پر انھیں سزائیں ہوئیں اگر ان کے پاس رسیدیں ہوتیں تو عدالتوں میں پیش کرتے۔

مسلم لیگ (ن) کے مطابق نیب نیازی گٹھ جوڑ نے ان پر بغیر ثبوت مقدمات بنائے تھے اور سپریم کورٹ کی مانیٹرنگ میں کام کرنے والی ٹیم کا سربراہ واجد ضیا عدالتی فیصلے کے مطابق خود تسلیم کرچکا ہے کہ اس کے اور نیب کے پاس نواز شریف کے مجرم ہونے کے ثبوت نہیں تھے اور مفروضے پر سزا نہیں دی جاسکتی تھی۔

میاں نواز شریف کو احتساب عدالتوں نے جس بنیاد پر سزائیں دی تھیں ان میں انھیں کرپٹ قرار نہیں دیا تھا جس پر نواز شریف کو بانی پی ٹی آئی کے پروپیگنڈے کو روکنے کے لیے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنا تھا اور ان سے عدالتوں نے جو رسیدیں مانگی تھیں وہ پیش کرنی چاہیے تھیں جن رسیدوں کا ذکر اب بھی پی ٹی آئی کر رہی ہے۔ نواز شریف جن سے اپنے سوالوں کے جواب مانگ رہے ہیںوہ کبھی جواب نہیں دیں گے۔

نواز شریف اب بھی نہ ملنے والا جواب مانگتے رہیں گے اور سیاسی کشیدگی برقرار رہے گی اس لیے اب انھیں پی ٹی آئی کے الزامات کے خلاف سپریم کورٹ جانا چاہیے اور سوالات کے جواب مانگنے کے بجائے ماضی کو بھول کر اور انتقام کو واقعی دل سے نکال کر اگر اقتدار میں آتے ہیں اور عوامی عدالت بھی انھیں بری کرتی ہے تو ملک کی ترقی کے لیے مل جل کر سوچنا ہوگا اور اپنی اچھی کارکردگی دکھانا ہوگی جس کا اعتراف اگر عوام کریں گے تو نواز شریف کے خلاف پروپیگنڈا خود ختم ہو جائے گا۔
Load Next Story