شہر قائد جائے پیدائش سے مدفن تک
قائداعظم کی جمہوری عمل سے وابستگی کا ذکر بھی اس مضمون میں غیرمناسب نہ ہوگا
بانی پاکستان کے یوم ولادت کے موقع پر قائداعظمؒ سے متعلق مضمون کے لیے قلم اٹھانے سے قبل کئی گوشے سامنے آتے ہیں اور اس امر کے یقین میں بھی ذہن کو دشواری محسوس ہوتی ہے کہ بابائے قوم پر ہونے والی تحقیق کے مواد کو کہاں سے شروع کیا جائے۔
قائداعظم کی زندگی میں ان کا آخری یوم پیدائش 25 دسمبر 1974تھا، جس میں بذات خود بابائے قوم شریک ہوئے۔ اس تقریب کی میزبانی وزیراعظم لیاقت علی خان اور ان کی شریک حیات بیگم رعنا نے 10وکٹوریا روڈ (موجودہ عبداللہ ہارون روڈ) پر واقع اپنی سرکاری رہائش گاہ پرائم منسٹر ہاؤس میں کی تھی۔
یوم پیدائش کی مناسبت سے اس مضمون میں ان کی جائے پیدائش سے متعلق بعض خود ساختہ تنازعات کا ذکر ضروری ہے۔ دس بارہ برس پہلے قائداعظم کے اپنے بیان کے برعکس یہ کہا گیا کہ وہ کراچی میں نہیں بلکہ جھرک میں پیدا ہوئے۔
قائداعظم نے 9اگست1947ء کو کراچی کلب میں سر غلام حسین ہدایت اللہ کی ضیافت میں تقریر کرتے ہوئے اپنی جائے پیدائش کراچی بتائی تھی۔ 19ویں صدی سے لے کر 20 ویں صدی کے پہلے چار عشروں میں ٹھٹھہ کا پورا ضلع جو اب دو اضلاع میں منقسم ہے، کراچی ضلع کی انتظامی حدود میں شامل تھا۔
''جھرک'' بھی ٹھٹھہ کا ایک مقام ہے جو قائداعظم کی پیدائش کے وقت کراچی میں شامل تھا۔ راقم الحروف کو معروف سماجی راہ نما نسیم احمد عثمانی و دیگر دوستوں کے ساتھ کلفٹن میں واقع ''قصرفاطمہ'' (مہٹہ پیلس) میں قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ شیریںبائی سے ملاقات کا شرف حاصل ہے۔ اس دوران قائد اعظم کے بھانجے اکبر بھائی بھی موجود تھے۔
محترمہ شیریں جناح کو قائداعظم کی پیدائش سے منسوب کیے جانے والے وزیرمینشن کے بارے میں تحفظات تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا خاندان متمول گھرانا تھا اور ہمارا مکان وسیع و عریض جگہ پر تھا۔
ان کے اس بیان سے میرے ذہن میں کئی شکوک و شبہات نے جنم لیا اور میں نے محسوس کیا کہ جھرک میں جائے پیدائش کا بیانیہ اپنی جگہ وزن رکھتا ہے، کیوںکہ جھرک میں بھی قائداعظم کے والد جیناح پونجا کا ایک وسیع و عریض مکان تھا۔ محترمہ شیریں جناح سے اس ملاقات کا احوال ریکارڈ پر لانا ضروری ہے۔
انہوں نے ایک اور بھی انکشاف کیا تھا کہ جب جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت کے اولین برسوں میں قائداعظم کی ملکیت فلیگ اسٹاف ہاؤس کو قائداعظم کی املاک کے ایک ٹرسٹی جو نہ صرف قائداعظم کی زیر صدارت آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن رہے تھے بلکہ امریکا میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی تھیں نے فلیگ اسٹاف ہاؤس کو نیلامی کے ذریعے فروخت کا منصوبہ بنایا لیکن جب ان کو (محترمہ شیریں جناح) اس کا علم ہوا تو انہوں نے مذکورہ ٹرسٹی پر واضح کردیا تھا کہ وہ قائداعظم کی اس جائیداد کو جو انہوں نے اپنی ذاتی کمائی سے بنائی تھی۔
اسے نیلام نہ ہونے دیں گی اگر ایسا کوئی قدم اٹھایا گیا تو وہ بذات خود فلیگ اسٹاف ہاؤس جاکر بیٹھ جائیں گی اور اسے ہرگز نیلام نہیں ہونے دیں گی۔
فلیگ اسٹاف ہاؤس جو دس ہزار مربع گز پر محیط عمارت تھی قائداعظم نے 14اگست 1943ء کو کراچی کے ایک میئر سہراب کے ایچ کیٹرک سے خریدی تھی۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ مذکورہ عمارت جو قائداعظم ہاؤس میوزیم کہلاتی ہے تحریک پاکستان کے ایک راہ نما جو اس وقت وفاقی وزیر کے منصب پر فائز تھے، نے عمارت کو حکومت کی تحویل میں لے کر موجودہ حیثیت دی تھی۔
قائداعظم کی جمہوری عمل سے وابستگی کا ذکر بھی اس مضمون میں غیرمناسب نہ ہوگا۔ وہ جب پہلی مرتبہ انگلستان سے واپسی کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے تو اس کے بعد مسلم لیگ میں تواتر کے ساتھ ہر سال صدر، اعزازی سیکریٹری اور خازم کے عہدوں پر جنرل اجلاس کے ذریعے انتخابات کا انعقاد ہوتا رہا اور قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا جو محض رسمی طور پر تاج برطانیہ کی نام زدگی سے ہوتا تھا تو قائداعظم مسلم لیگ کی صدارت سے مستعفی ہوگئے اور خالقدینا ہال میں منعقدہ مسلم لیگ کا اجلاس قائداعظم کے بجائے سردار عبدالرب نشتر کی صدارت میں ہوا۔
جس میں تقسیم ہند کی وجہ سے پاکستان اور ہندوستان میں پاکستان مسلم لیگ اور انڈین یونین مسلم لیگ کے نام سے دو علیحدہ علیحدہ تنظیمیں معرضِ وجود میں آئیں۔ 1949ء میں چوہدری خلیق الزماں کو پاکستان میں مسلم لیگ کا پہلا صدر منتخب کیا گیا جس کے لیے پارٹی کے آئین میں درج پورا انتخابی طریقہ کار اپنایا گیا۔
پھر لیاقت علی خان کو بھی باقاعدہ انتخابات کے ذریعے مسلم لیگ کا دوسرا صدر منتخب کیا گیا جو بعد ازآں سردار عبدالرب نشتر اور خان عبدالقیوم خان تک جاری رہا۔ ایوبی مارشل لا میں پارٹیوں کے کالعدم ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ ایک وقفہ کے لیے جاری نہ رہ سکا لیکن مارشل ہٹنے کے بعد خواجہ ناظم الدین کو مسلم لیگ کونسل نے صدر منتخب کیا۔ اسی طرح مسلم لیگ کے صدر و دیگر عہدوں کے لیے باقاعدہ انتخاب کا طریقہ کار گذشتہ صدی کی ساتویں دہائی تک جاری رہا۔
قائداعظم کی زندگی کے آخری ایام جو کہ بلوچستان کے پر فضا مقام زیارت کی ریزیڈنسی میں گزرے تھے اور شدید علالت کی حالت میں معالجین کی تجویز پر کوئٹہ سے کراچی منتقل ہوئے پھر ماریپورایئرپورٹ سے گورنرجنرل ہاؤس کراچی کے سفر کے بارے میں پیش آنے والے واقعے میں ایمبولینس کی حادثاتی خرابی پر بھی بہت سے مفروضے قائم کیے گئے حالاںکہ کھارادر کے قریب ایئرفورس کی فوجی ایمبولینس جس میں قائداعظم، اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح وطبی عملے کے ساتھ موجود تھے۔
کی خرابی محض اتفاقی تھی اور قائداعظم کے اس سفر میں شریک ان کے اے ڈی سی بریگیڈیئر نور حسین نے اس کی تصدیق کی ہے ۔
قائداعظم کی وفات کے بعد 19سال تک محترمہ فاطمہ جناح بقیدِحیات رہیں۔ انہوں نے کبھی اس ضمن میں کسی سازش یا غیرمعمولی بات کا خدشہ ظاہر نہیں کیا۔ مادرملت سے منسوب ''مائی بردار'' نامی کتابچہ جو جی الانہ کی تحریر ہے کو بھی قائداعظم اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر خواجہ رضی حیدر نے غیرمستند قرار دیا ہے، اور جب دوسری ایمبولینس قائداعظم کو لینے کے لیے روانہ ہوئی تو وزیراعظم لیاقت علی خان بھی اس کے ہم راہ تھے۔
وزیراعظم نے اس موقع پر کابینہ کے جاری اجلاس کو موخر کردیا تھا۔ حالاںکہ یہ ہنگامی طور پر حیدرآباد دکن پر بھارتی فوجی کارروائی کے تناظر میں طلب کیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں اس وقت فوج کے سنیئر ترین پاکستانی افسران شریک تھے۔ اجلاس میں اپنی اور ایئرکوڈور جنجوعہ کی شرکت کا ذکر ایئر مارشل اصغر خان نے اپنے مضمون بھی کیا ہے جو ریکارڈ پر موجود ہے۔
اختتام پر بابائے قوم کے مدفن کی جگہ کے تعین کا حوالہ بھی ضروری ہے۔ جگہ کا انتخاب اس وقت دارالحکومت کراچی کے ایڈمنسٹریٹر سید ہاشم رضا کا حسنِ انتخاب تھا، جن کے بقول لائنز ایریا سے منتقل اس مقام پر مہاجرین کی جھونپڑیاں پڑی تھیں جو انہوں نے اپنے قائد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے فوری طور پر وہاں سے منتقل کرلی تھیں۔ یہ ذکر سیدہاشم رضا نے اپنی کتاب ''ہماری منزل'' میں تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔
قائداعظم کی زندگی میں ان کا آخری یوم پیدائش 25 دسمبر 1974تھا، جس میں بذات خود بابائے قوم شریک ہوئے۔ اس تقریب کی میزبانی وزیراعظم لیاقت علی خان اور ان کی شریک حیات بیگم رعنا نے 10وکٹوریا روڈ (موجودہ عبداللہ ہارون روڈ) پر واقع اپنی سرکاری رہائش گاہ پرائم منسٹر ہاؤس میں کی تھی۔
یوم پیدائش کی مناسبت سے اس مضمون میں ان کی جائے پیدائش سے متعلق بعض خود ساختہ تنازعات کا ذکر ضروری ہے۔ دس بارہ برس پہلے قائداعظم کے اپنے بیان کے برعکس یہ کہا گیا کہ وہ کراچی میں نہیں بلکہ جھرک میں پیدا ہوئے۔
قائداعظم نے 9اگست1947ء کو کراچی کلب میں سر غلام حسین ہدایت اللہ کی ضیافت میں تقریر کرتے ہوئے اپنی جائے پیدائش کراچی بتائی تھی۔ 19ویں صدی سے لے کر 20 ویں صدی کے پہلے چار عشروں میں ٹھٹھہ کا پورا ضلع جو اب دو اضلاع میں منقسم ہے، کراچی ضلع کی انتظامی حدود میں شامل تھا۔
''جھرک'' بھی ٹھٹھہ کا ایک مقام ہے جو قائداعظم کی پیدائش کے وقت کراچی میں شامل تھا۔ راقم الحروف کو معروف سماجی راہ نما نسیم احمد عثمانی و دیگر دوستوں کے ساتھ کلفٹن میں واقع ''قصرفاطمہ'' (مہٹہ پیلس) میں قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ شیریںبائی سے ملاقات کا شرف حاصل ہے۔ اس دوران قائد اعظم کے بھانجے اکبر بھائی بھی موجود تھے۔
محترمہ شیریں جناح کو قائداعظم کی پیدائش سے منسوب کیے جانے والے وزیرمینشن کے بارے میں تحفظات تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا خاندان متمول گھرانا تھا اور ہمارا مکان وسیع و عریض جگہ پر تھا۔
ان کے اس بیان سے میرے ذہن میں کئی شکوک و شبہات نے جنم لیا اور میں نے محسوس کیا کہ جھرک میں جائے پیدائش کا بیانیہ اپنی جگہ وزن رکھتا ہے، کیوںکہ جھرک میں بھی قائداعظم کے والد جیناح پونجا کا ایک وسیع و عریض مکان تھا۔ محترمہ شیریں جناح سے اس ملاقات کا احوال ریکارڈ پر لانا ضروری ہے۔
انہوں نے ایک اور بھی انکشاف کیا تھا کہ جب جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت کے اولین برسوں میں قائداعظم کی ملکیت فلیگ اسٹاف ہاؤس کو قائداعظم کی املاک کے ایک ٹرسٹی جو نہ صرف قائداعظم کی زیر صدارت آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن رہے تھے بلکہ امریکا میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی تھیں نے فلیگ اسٹاف ہاؤس کو نیلامی کے ذریعے فروخت کا منصوبہ بنایا لیکن جب ان کو (محترمہ شیریں جناح) اس کا علم ہوا تو انہوں نے مذکورہ ٹرسٹی پر واضح کردیا تھا کہ وہ قائداعظم کی اس جائیداد کو جو انہوں نے اپنی ذاتی کمائی سے بنائی تھی۔
اسے نیلام نہ ہونے دیں گی اگر ایسا کوئی قدم اٹھایا گیا تو وہ بذات خود فلیگ اسٹاف ہاؤس جاکر بیٹھ جائیں گی اور اسے ہرگز نیلام نہیں ہونے دیں گی۔
فلیگ اسٹاف ہاؤس جو دس ہزار مربع گز پر محیط عمارت تھی قائداعظم نے 14اگست 1943ء کو کراچی کے ایک میئر سہراب کے ایچ کیٹرک سے خریدی تھی۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ مذکورہ عمارت جو قائداعظم ہاؤس میوزیم کہلاتی ہے تحریک پاکستان کے ایک راہ نما جو اس وقت وفاقی وزیر کے منصب پر فائز تھے، نے عمارت کو حکومت کی تحویل میں لے کر موجودہ حیثیت دی تھی۔
قائداعظم کی جمہوری عمل سے وابستگی کا ذکر بھی اس مضمون میں غیرمناسب نہ ہوگا۔ وہ جب پہلی مرتبہ انگلستان سے واپسی کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے تو اس کے بعد مسلم لیگ میں تواتر کے ساتھ ہر سال صدر، اعزازی سیکریٹری اور خازم کے عہدوں پر جنرل اجلاس کے ذریعے انتخابات کا انعقاد ہوتا رہا اور قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا جو محض رسمی طور پر تاج برطانیہ کی نام زدگی سے ہوتا تھا تو قائداعظم مسلم لیگ کی صدارت سے مستعفی ہوگئے اور خالقدینا ہال میں منعقدہ مسلم لیگ کا اجلاس قائداعظم کے بجائے سردار عبدالرب نشتر کی صدارت میں ہوا۔
جس میں تقسیم ہند کی وجہ سے پاکستان اور ہندوستان میں پاکستان مسلم لیگ اور انڈین یونین مسلم لیگ کے نام سے دو علیحدہ علیحدہ تنظیمیں معرضِ وجود میں آئیں۔ 1949ء میں چوہدری خلیق الزماں کو پاکستان میں مسلم لیگ کا پہلا صدر منتخب کیا گیا جس کے لیے پارٹی کے آئین میں درج پورا انتخابی طریقہ کار اپنایا گیا۔
پھر لیاقت علی خان کو بھی باقاعدہ انتخابات کے ذریعے مسلم لیگ کا دوسرا صدر منتخب کیا گیا جو بعد ازآں سردار عبدالرب نشتر اور خان عبدالقیوم خان تک جاری رہا۔ ایوبی مارشل لا میں پارٹیوں کے کالعدم ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ ایک وقفہ کے لیے جاری نہ رہ سکا لیکن مارشل ہٹنے کے بعد خواجہ ناظم الدین کو مسلم لیگ کونسل نے صدر منتخب کیا۔ اسی طرح مسلم لیگ کے صدر و دیگر عہدوں کے لیے باقاعدہ انتخاب کا طریقہ کار گذشتہ صدی کی ساتویں دہائی تک جاری رہا۔
قائداعظم کی زندگی کے آخری ایام جو کہ بلوچستان کے پر فضا مقام زیارت کی ریزیڈنسی میں گزرے تھے اور شدید علالت کی حالت میں معالجین کی تجویز پر کوئٹہ سے کراچی منتقل ہوئے پھر ماریپورایئرپورٹ سے گورنرجنرل ہاؤس کراچی کے سفر کے بارے میں پیش آنے والے واقعے میں ایمبولینس کی حادثاتی خرابی پر بھی بہت سے مفروضے قائم کیے گئے حالاںکہ کھارادر کے قریب ایئرفورس کی فوجی ایمبولینس جس میں قائداعظم، اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح وطبی عملے کے ساتھ موجود تھے۔
کی خرابی محض اتفاقی تھی اور قائداعظم کے اس سفر میں شریک ان کے اے ڈی سی بریگیڈیئر نور حسین نے اس کی تصدیق کی ہے ۔
قائداعظم کی وفات کے بعد 19سال تک محترمہ فاطمہ جناح بقیدِحیات رہیں۔ انہوں نے کبھی اس ضمن میں کسی سازش یا غیرمعمولی بات کا خدشہ ظاہر نہیں کیا۔ مادرملت سے منسوب ''مائی بردار'' نامی کتابچہ جو جی الانہ کی تحریر ہے کو بھی قائداعظم اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر خواجہ رضی حیدر نے غیرمستند قرار دیا ہے، اور جب دوسری ایمبولینس قائداعظم کو لینے کے لیے روانہ ہوئی تو وزیراعظم لیاقت علی خان بھی اس کے ہم راہ تھے۔
وزیراعظم نے اس موقع پر کابینہ کے جاری اجلاس کو موخر کردیا تھا۔ حالاںکہ یہ ہنگامی طور پر حیدرآباد دکن پر بھارتی فوجی کارروائی کے تناظر میں طلب کیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں اس وقت فوج کے سنیئر ترین پاکستانی افسران شریک تھے۔ اجلاس میں اپنی اور ایئرکوڈور جنجوعہ کی شرکت کا ذکر ایئر مارشل اصغر خان نے اپنے مضمون بھی کیا ہے جو ریکارڈ پر موجود ہے۔
اختتام پر بابائے قوم کے مدفن کی جگہ کے تعین کا حوالہ بھی ضروری ہے۔ جگہ کا انتخاب اس وقت دارالحکومت کراچی کے ایڈمنسٹریٹر سید ہاشم رضا کا حسنِ انتخاب تھا، جن کے بقول لائنز ایریا سے منتقل اس مقام پر مہاجرین کی جھونپڑیاں پڑی تھیں جو انہوں نے اپنے قائد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے فوری طور پر وہاں سے منتقل کرلی تھیں۔ یہ ذکر سیدہاشم رضا نے اپنی کتاب ''ہماری منزل'' میں تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔