قائداعظم کا خواب تشنہء تعبیر
ہم سیاسی، معاشرتی اور عوامی تنازعات میں یوں گم رہے کہ اپنی اخلاقیات کو بھی بھول بیٹھے
بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم پیدائش پر ملک بھر میں اس مناسبت سے سیمینارز، کانفرنسز اور تقاریب منعقد کی گئیں۔
ان تقریبات میں بانی پاکستان کو ایک آزاد وطن کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے کی گئی جدوجہد پر شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔
دوسری جانب پاکستان سمیت دنیا بھر میں عیسائی برادری نے کرسمس کا تہوار منایا، کراچی، لاہور اور اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر شہروں میں بھی کرسمس کے حوالے سے تقریبات کا انعقاد کیا گیا، درحقیقت کرسمس تہوار انسانی مسرتوں کا استعارہ ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح جیسی شخصیت، صدیوں بعد پیدا ہوتی ہے۔ تاریخ کے صفحات کی ورق گردانی کر لیجیے ان عظیم صفات کی حامل کوئی دوسری سیاسی شخصیت نظر نہیں آئے گی۔ قائداعظم محمد علی جناح کو یہ مقام کیسے حاصل ہوا؟
اس کے لیے ان کی سیاسی سرگرمیوں کی ابتداء سے ان کی وفات تک جائزہ لینا ہوگا، وہ انگلستان سے بیرسٹری کی سند لے کر بمبئی میں آئے، انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت برصغیر کے سیاسی حلقوں میں جو مقام حاصل کیا وہ بہت کم سیاسی رہنماؤں کو ملا ہے۔ 1896 میں جب ان کی عمر صرف بیس سال تھی بمبئی ہائی کورٹ میں ایک ایڈووکیٹ کی حیثیت سے ان کے نام کا اندراج کیا گیا۔
یہ ان کی عملی زندگی کا آغاز تھا لیکن یہ مرحلہ بہت کٹھن اور مشکلات سے بھرپور تھا۔ انھوں نے ابتداء میں اپنا سارا وقت مطالعے میں اور لوگوں سے میل ملاقات میں صرف کیا اور بہت ہی جلد اپنی مسلسل محنت اور قانونی کتب کے مطالعے کی وجہ سے وہ نہ صرف بمبئی کے قانونی حلقوں میں بلکہ سیاسی حلقوں میں بھی اپنا با وقار مقام بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
وہ ابتدا ہی سے عملی سیاست میں دلچسپی لیتے رہے اور امپیریل قانون ساز کونسل کا رکن بننے سے پہلے میونسپل کارپوریشن کمپنی کے ممبر رہے۔ ان کی باقاعدہ سیاسی زندگی کا آغاز 1906 سے ہوا جب وہ انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہوئے۔
1906 سے 1948 تک وہ برصغیر کی سیاست پر چھائے رہے۔ کانگریس میں شمولیت کے بعد انھیں عملی سیاست میں اپنی منفرد سوچ اور خیالات میں پختگی کی بدولت ایک اہم مقام حاصل ہوتا گیا۔ دسمبر 1906 میں مسلم لیگ کا قیام بھی عمل میں آگیا تھا ۔
قائداعظم اپنے اعتدال پسند خیالات اور جدید سیاسی تصورات کی وجہ سے مسلم حلقوں میں بھی مقبول تھے اور 1909میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب کر لیے گئے۔
1913میں کچھ مسلم رہنماؤں کے کہنے پر وہ مسلم لیگ میں بھی شامل ہو گئے اور دونوں اقوام کو نزدیک لانے کی کوششیں کرتے رہے لیکن جب انھوں نے گاندھی اور دوسرے ہندو رہنماؤں کا مسلمانوں سے متعصبانہ رویہ دیکھا تو وہ ان سے برملا اختلاف کرتے ہوئے 1920میں کانگریس پارٹی سے علیحدہ ہو گئے اور خود کو مسلم لیگ اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔
انھوں نے کانگریس اور مسلم لیگ میں 1916میں معاہدہ لکھنو کرا کے انھیں نزدیک لانے کی کوشش کی ان کی اور دیگر رہنماؤں کی کوشش سے مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا لیکن بعد میں کانگریسی رہنماؤں نے اپنا رویہ تبدیل کر لیا اور مسلمانوں کی علیحدہ قومیت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے۔
قائداعظم ابتداء میں صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ تمام اقوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم رہے۔ جب 1915 میں اسمبلی نے رولیٹ ایکٹ منظور کیا تو قائداعظم نے اسے شہری آزادیوں سے متصادم قرار دیا اور احتجاجاً اسمبلی سے مستعفی ہو گئے اور اگلے سال کانگریس کی غلط پالیسیوں اور منافقانہ رویوں کی وجہ سے اس سے بھی علیحدہ ہو گئے اور پھر خود کو مسلمانوں کی خدمت اور حقوق کے تحفظ کے لیے وقف کر دیا۔
صوبائی قانون سازی اور کانگریس سے علیحدگی بلاشبہ ایک جرات مندانہ اقدام تھا اور یہ ان کی سچائی اور جرات پر مبنی سیاست کا ایک شاندار پہلو تھا۔ 1928میں کانگریس نے نہرو رپورٹ منظور کرائی، انھوں نے اس کی مخالفت کی اور مسلمانوں کی صحیح نمایندگی کرتے ہوئے1929میں اپنے مشہور زمانہ 14 نکات پیش کیے جو مسلم قوم کے جذبات کی صحیح عکاسی کرتے تھے۔
انھوں نے گول میز کانفرنسوں میں بھی مسلمانوں کی نمایندگی کی، وہ اس کے بعد وقتی طور پر مسلمانوں کے رویے، ہندوؤں کے تعصب اور انگریزوں کی مخالفانہ پالیسیوں سے متنفر بھی ہوئے اور کچھ عرصہ کے لیے لندن میں سکونت اختیار کر لی لیکن بعد میں مسلم لیگی رہنماؤں کی کوششوں سے وہ 1934میں واپس آگئے اور خود کو مسلمانوں کی خدمت کے لیے ہمیشہ کے لیے وقف کردیا۔
علامہ اقبال نے جس طریق عمل کی طرف اشارہ کیا تھا 1940کی قرارداد اور اس میں قائداعظم کا خطبہ صدارت اس کی واضح عکاسی کرتا ہے۔
یہ قائداعظم کی سیاسی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ صرف سات سال کے عرصے میں انھوں نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے مطالبے کو حقیقت کا روپ دیا۔ انتخابات میں مسلم لیگ کی شاندار کامیابی ان ہی کی فراست اور سیاسی دور اندیشی کا نتیجہ تھی۔
قائداعظم کی شخصیت سیاست کے میدان میں اتنی قد آور تھی کہ اس خطے کی تمام سیاسی شخصیات ان کے سامنے کم دکھائی دیتی ہیں۔ قائداعظم نے سیاست کی خاردار وادی میں 42 سال گزارے اور برصغیر کی سیاست میں باوقار، اصول پسند، سمجھدار اور بے لوث سیاستدان کی حیثیت سے نام پیدا کیا۔ لالچ اور خوف ان کی لغت میں نہیں تھے، انھیں کسی قیمت پر نہ جھکایا جا سکتا تھا نہ خریدا جا سکتا تھا۔
قائداعظم کی وفات کے بعد ملک میں حکمرانی کی میوزیکل چیئر کا آغاز ہوگیا۔ گزشتہ 7 دہائیوں میں ملک پر حکومت چند گنے چنے افراد کے ہاتھوں میں رہی جنھوں نے وڈیرہ شاہی کے نظام کو مضبوط کیا، جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری حکومتوں کو چلایا اور عوام پر اپنی آہنی گرفت مضبوط کی۔ آمروں نے بھی جمہوری روایتوں کی نفی کی اور انفرادی سوچ کو فروغ دیا۔
قائد اعظم نے تو ایسے پاکستان کا تصور بھی نہیں کیا ہوگا، جہاں صرف باتوں کا شور اور عمل صفر نظر آتا ہو۔ یہاں بابائے قوم کے یوم پیدائش پر تقاریر اور بینرز لگانے کا اہتمام تو ہوتا ہے لیکن اقوال پر عمل نہیں کیا جاتا۔
ہمارے لیڈران کا یہ حال ہے کہ وہ آئے دن ہماری آزادی کو خدشات کی نذر کرنے اور ملک کی سالمیت کے اعتبار کو ٹھیس پہنچانے کے لیے اپنی تقاریر میں، ملک کو بدترین آزمائش اور بقا کی جنگ سے تشبیہ دیتے رہتے ہیں۔
اب چاہے ملک میں بحران، سیلاب کا ہو، توانائی کا ہو، امن و امان کا ہو یا پھر طوفانی بارش کا ،تمام حالات میں ان لیڈران کا چرچہ ملک کی سالمیت سے جڑے خطرات کا ہوتا ہے۔ ایسا کر کے وہ ذہنی طور پر عوام کو نفسیاتی طور پر ہراساں اور اپنے لیڈران سے جڑے رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
عوام کو سادگی کا درس دینے والے خواص پروٹوکول کے بغیر ہلنے تک کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ حکمرانوں کی قانون شکنی کی مثالیں عام ہیں۔ کرپٹ کی شان و شوکت دیکھ کر ہم مرعوب جب کہ ایماندار کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔
قائداعظم جنھوں نے تلوار اور قلم کو دنیا کی دو طاقتوں کا درجہ دیا۔ ہمارا ملک دفاعی طور پر جتنا مستحکم ہے اتنا ہی تعلیمی لحاظ سے کمزور شمار کیا جاتا ہے۔ وہ '' کام، کام اور کام پر یقین رکھتے تھے جب کہ ہم صرف '' آرام، آرام '' پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ہمیں دنیا سنجیدگی سے نہیں لیتی کیونکہ ہم عوام کی تعلیم و تربیت عظیم قوموں کی طرز پر نہیں کر رہے ہیں۔
قائداعظم کے نزدیک تو پاکستان ایک ایسا ملک تھا جس میں عدل و انصاف، مذہبی آزادی، اسلامی اصول، اور جمہوریت، ریاست کی بنیاد تھے، لیکن پاکستان میں عدل و انصاف گم، مذہبی آزادی مشروط، اسلامی اصول ناپید اور جمہوریت سرمایہ داروں کی قید میں ہے۔
افسوس! ہم قائداعظم کے پاکستان کو سنبھال سکے نہ ترقی دلا سکے، ہماری عاقبت نااندیش پالیسیوں کے باعث مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوا افسوس ہم نے پھر بھی سبق نہ لیا۔
ہم سیاسی، معاشرتی اور عوامی تنازعات میں یوں گم رہے کہ اپنی اخلاقیات کو بھی بھول بیٹھے۔ آج یہاں 25 کروڑ افراد تو موجود ہیں مگر قوم گم ہوگئی۔ قوم کو تعصب کی ایسی چھتری دی گئی کہ وہ قومی وحدت سے دور ہوتے گئے اور یہ کام غیروں نے نہیں ہم نے خود کیا۔ قوم کی خوبصورتی اور دلکشی ہم سے چھین لی۔
آج 76 سال بعد جب ہم پاکستان پر نظر ڈالتے ہیں تو لگتا ہے کہ قائد کا خواب اب بھی تشنہ تعبیر ہے۔ ہم کو رول ماڈل بنانے والے ملک جنوبی کوریا، ملائیشیا، ترکی وغیرہ معاشی طور پر اب پاکستان کے لیے رول ماڈل بن چکے ہیں۔
قائداعظم نے 21 فروری 1948کو کہا تھا '' قیامِ پاکستان کی جنگ ہم جیت چکے، مگر استحکامِ پاکستان و بقائے پاکستان کی شدید ترین جنگ ابھی جاری ہے'' یہ جنگ 2023میں بھی جاری ہے اور وقت کا تقاضا ہے کہ آج کے دن ہم تجدیدِ عہد اور وفائے عہد کریں اور خاص طور پر موجودہ حکومت کو چاہیے کہ ملک کی تمام سیاسی، معاشی، دینی، علمی، سائنسی، تجارتی، بیوروکریسی اور اورسیز پاکستانیوں میں سے اہل ترین افراد پر مشتمل قائداعظم کی طرح کی پلاننگ کمیٹی بنائے اور پاکستان کو روشن اور شاندار مستقبل کے لیے بہترین منصوبہ سازی کرے تاکہ ہم قائداعظم کے ادھورے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں۔
ان تقریبات میں بانی پاکستان کو ایک آزاد وطن کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے کی گئی جدوجہد پر شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔
دوسری جانب پاکستان سمیت دنیا بھر میں عیسائی برادری نے کرسمس کا تہوار منایا، کراچی، لاہور اور اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر شہروں میں بھی کرسمس کے حوالے سے تقریبات کا انعقاد کیا گیا، درحقیقت کرسمس تہوار انسانی مسرتوں کا استعارہ ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح جیسی شخصیت، صدیوں بعد پیدا ہوتی ہے۔ تاریخ کے صفحات کی ورق گردانی کر لیجیے ان عظیم صفات کی حامل کوئی دوسری سیاسی شخصیت نظر نہیں آئے گی۔ قائداعظم محمد علی جناح کو یہ مقام کیسے حاصل ہوا؟
اس کے لیے ان کی سیاسی سرگرمیوں کی ابتداء سے ان کی وفات تک جائزہ لینا ہوگا، وہ انگلستان سے بیرسٹری کی سند لے کر بمبئی میں آئے، انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت برصغیر کے سیاسی حلقوں میں جو مقام حاصل کیا وہ بہت کم سیاسی رہنماؤں کو ملا ہے۔ 1896 میں جب ان کی عمر صرف بیس سال تھی بمبئی ہائی کورٹ میں ایک ایڈووکیٹ کی حیثیت سے ان کے نام کا اندراج کیا گیا۔
یہ ان کی عملی زندگی کا آغاز تھا لیکن یہ مرحلہ بہت کٹھن اور مشکلات سے بھرپور تھا۔ انھوں نے ابتداء میں اپنا سارا وقت مطالعے میں اور لوگوں سے میل ملاقات میں صرف کیا اور بہت ہی جلد اپنی مسلسل محنت اور قانونی کتب کے مطالعے کی وجہ سے وہ نہ صرف بمبئی کے قانونی حلقوں میں بلکہ سیاسی حلقوں میں بھی اپنا با وقار مقام بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
وہ ابتدا ہی سے عملی سیاست میں دلچسپی لیتے رہے اور امپیریل قانون ساز کونسل کا رکن بننے سے پہلے میونسپل کارپوریشن کمپنی کے ممبر رہے۔ ان کی باقاعدہ سیاسی زندگی کا آغاز 1906 سے ہوا جب وہ انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہوئے۔
1906 سے 1948 تک وہ برصغیر کی سیاست پر چھائے رہے۔ کانگریس میں شمولیت کے بعد انھیں عملی سیاست میں اپنی منفرد سوچ اور خیالات میں پختگی کی بدولت ایک اہم مقام حاصل ہوتا گیا۔ دسمبر 1906 میں مسلم لیگ کا قیام بھی عمل میں آگیا تھا ۔
قائداعظم اپنے اعتدال پسند خیالات اور جدید سیاسی تصورات کی وجہ سے مسلم حلقوں میں بھی مقبول تھے اور 1909میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب کر لیے گئے۔
1913میں کچھ مسلم رہنماؤں کے کہنے پر وہ مسلم لیگ میں بھی شامل ہو گئے اور دونوں اقوام کو نزدیک لانے کی کوششیں کرتے رہے لیکن جب انھوں نے گاندھی اور دوسرے ہندو رہنماؤں کا مسلمانوں سے متعصبانہ رویہ دیکھا تو وہ ان سے برملا اختلاف کرتے ہوئے 1920میں کانگریس پارٹی سے علیحدہ ہو گئے اور خود کو مسلم لیگ اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔
انھوں نے کانگریس اور مسلم لیگ میں 1916میں معاہدہ لکھنو کرا کے انھیں نزدیک لانے کی کوشش کی ان کی اور دیگر رہنماؤں کی کوشش سے مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا لیکن بعد میں کانگریسی رہنماؤں نے اپنا رویہ تبدیل کر لیا اور مسلمانوں کی علیحدہ قومیت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے۔
قائداعظم ابتداء میں صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ تمام اقوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم رہے۔ جب 1915 میں اسمبلی نے رولیٹ ایکٹ منظور کیا تو قائداعظم نے اسے شہری آزادیوں سے متصادم قرار دیا اور احتجاجاً اسمبلی سے مستعفی ہو گئے اور اگلے سال کانگریس کی غلط پالیسیوں اور منافقانہ رویوں کی وجہ سے اس سے بھی علیحدہ ہو گئے اور پھر خود کو مسلمانوں کی خدمت اور حقوق کے تحفظ کے لیے وقف کر دیا۔
صوبائی قانون سازی اور کانگریس سے علیحدگی بلاشبہ ایک جرات مندانہ اقدام تھا اور یہ ان کی سچائی اور جرات پر مبنی سیاست کا ایک شاندار پہلو تھا۔ 1928میں کانگریس نے نہرو رپورٹ منظور کرائی، انھوں نے اس کی مخالفت کی اور مسلمانوں کی صحیح نمایندگی کرتے ہوئے1929میں اپنے مشہور زمانہ 14 نکات پیش کیے جو مسلم قوم کے جذبات کی صحیح عکاسی کرتے تھے۔
انھوں نے گول میز کانفرنسوں میں بھی مسلمانوں کی نمایندگی کی، وہ اس کے بعد وقتی طور پر مسلمانوں کے رویے، ہندوؤں کے تعصب اور انگریزوں کی مخالفانہ پالیسیوں سے متنفر بھی ہوئے اور کچھ عرصہ کے لیے لندن میں سکونت اختیار کر لی لیکن بعد میں مسلم لیگی رہنماؤں کی کوششوں سے وہ 1934میں واپس آگئے اور خود کو مسلمانوں کی خدمت کے لیے ہمیشہ کے لیے وقف کردیا۔
علامہ اقبال نے جس طریق عمل کی طرف اشارہ کیا تھا 1940کی قرارداد اور اس میں قائداعظم کا خطبہ صدارت اس کی واضح عکاسی کرتا ہے۔
یہ قائداعظم کی سیاسی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ صرف سات سال کے عرصے میں انھوں نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے مطالبے کو حقیقت کا روپ دیا۔ انتخابات میں مسلم لیگ کی شاندار کامیابی ان ہی کی فراست اور سیاسی دور اندیشی کا نتیجہ تھی۔
قائداعظم کی شخصیت سیاست کے میدان میں اتنی قد آور تھی کہ اس خطے کی تمام سیاسی شخصیات ان کے سامنے کم دکھائی دیتی ہیں۔ قائداعظم نے سیاست کی خاردار وادی میں 42 سال گزارے اور برصغیر کی سیاست میں باوقار، اصول پسند، سمجھدار اور بے لوث سیاستدان کی حیثیت سے نام پیدا کیا۔ لالچ اور خوف ان کی لغت میں نہیں تھے، انھیں کسی قیمت پر نہ جھکایا جا سکتا تھا نہ خریدا جا سکتا تھا۔
قائداعظم کی وفات کے بعد ملک میں حکمرانی کی میوزیکل چیئر کا آغاز ہوگیا۔ گزشتہ 7 دہائیوں میں ملک پر حکومت چند گنے چنے افراد کے ہاتھوں میں رہی جنھوں نے وڈیرہ شاہی کے نظام کو مضبوط کیا، جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری حکومتوں کو چلایا اور عوام پر اپنی آہنی گرفت مضبوط کی۔ آمروں نے بھی جمہوری روایتوں کی نفی کی اور انفرادی سوچ کو فروغ دیا۔
قائد اعظم نے تو ایسے پاکستان کا تصور بھی نہیں کیا ہوگا، جہاں صرف باتوں کا شور اور عمل صفر نظر آتا ہو۔ یہاں بابائے قوم کے یوم پیدائش پر تقاریر اور بینرز لگانے کا اہتمام تو ہوتا ہے لیکن اقوال پر عمل نہیں کیا جاتا۔
ہمارے لیڈران کا یہ حال ہے کہ وہ آئے دن ہماری آزادی کو خدشات کی نذر کرنے اور ملک کی سالمیت کے اعتبار کو ٹھیس پہنچانے کے لیے اپنی تقاریر میں، ملک کو بدترین آزمائش اور بقا کی جنگ سے تشبیہ دیتے رہتے ہیں۔
اب چاہے ملک میں بحران، سیلاب کا ہو، توانائی کا ہو، امن و امان کا ہو یا پھر طوفانی بارش کا ،تمام حالات میں ان لیڈران کا چرچہ ملک کی سالمیت سے جڑے خطرات کا ہوتا ہے۔ ایسا کر کے وہ ذہنی طور پر عوام کو نفسیاتی طور پر ہراساں اور اپنے لیڈران سے جڑے رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
عوام کو سادگی کا درس دینے والے خواص پروٹوکول کے بغیر ہلنے تک کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ حکمرانوں کی قانون شکنی کی مثالیں عام ہیں۔ کرپٹ کی شان و شوکت دیکھ کر ہم مرعوب جب کہ ایماندار کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔
قائداعظم جنھوں نے تلوار اور قلم کو دنیا کی دو طاقتوں کا درجہ دیا۔ ہمارا ملک دفاعی طور پر جتنا مستحکم ہے اتنا ہی تعلیمی لحاظ سے کمزور شمار کیا جاتا ہے۔ وہ '' کام، کام اور کام پر یقین رکھتے تھے جب کہ ہم صرف '' آرام، آرام '' پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ہمیں دنیا سنجیدگی سے نہیں لیتی کیونکہ ہم عوام کی تعلیم و تربیت عظیم قوموں کی طرز پر نہیں کر رہے ہیں۔
قائداعظم کے نزدیک تو پاکستان ایک ایسا ملک تھا جس میں عدل و انصاف، مذہبی آزادی، اسلامی اصول، اور جمہوریت، ریاست کی بنیاد تھے، لیکن پاکستان میں عدل و انصاف گم، مذہبی آزادی مشروط، اسلامی اصول ناپید اور جمہوریت سرمایہ داروں کی قید میں ہے۔
افسوس! ہم قائداعظم کے پاکستان کو سنبھال سکے نہ ترقی دلا سکے، ہماری عاقبت نااندیش پالیسیوں کے باعث مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوا افسوس ہم نے پھر بھی سبق نہ لیا۔
ہم سیاسی، معاشرتی اور عوامی تنازعات میں یوں گم رہے کہ اپنی اخلاقیات کو بھی بھول بیٹھے۔ آج یہاں 25 کروڑ افراد تو موجود ہیں مگر قوم گم ہوگئی۔ قوم کو تعصب کی ایسی چھتری دی گئی کہ وہ قومی وحدت سے دور ہوتے گئے اور یہ کام غیروں نے نہیں ہم نے خود کیا۔ قوم کی خوبصورتی اور دلکشی ہم سے چھین لی۔
آج 76 سال بعد جب ہم پاکستان پر نظر ڈالتے ہیں تو لگتا ہے کہ قائد کا خواب اب بھی تشنہ تعبیر ہے۔ ہم کو رول ماڈل بنانے والے ملک جنوبی کوریا، ملائیشیا، ترکی وغیرہ معاشی طور پر اب پاکستان کے لیے رول ماڈل بن چکے ہیں۔
قائداعظم نے 21 فروری 1948کو کہا تھا '' قیامِ پاکستان کی جنگ ہم جیت چکے، مگر استحکامِ پاکستان و بقائے پاکستان کی شدید ترین جنگ ابھی جاری ہے'' یہ جنگ 2023میں بھی جاری ہے اور وقت کا تقاضا ہے کہ آج کے دن ہم تجدیدِ عہد اور وفائے عہد کریں اور خاص طور پر موجودہ حکومت کو چاہیے کہ ملک کی تمام سیاسی، معاشی، دینی، علمی، سائنسی، تجارتی، بیوروکریسی اور اورسیز پاکستانیوں میں سے اہل ترین افراد پر مشتمل قائداعظم کی طرح کی پلاننگ کمیٹی بنائے اور پاکستان کو روشن اور شاندار مستقبل کے لیے بہترین منصوبہ سازی کرے تاکہ ہم قائداعظم کے ادھورے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں۔