اعظم خان مرحوم
ابھی تک اعظم خان مرحوم ہی کا نام وہ واحد نام ہے جسے قوم زبان اورادب کے حوالے سے بھی یادکیاجاسکتاہے
ہماری حالت اس وقت اکبرالہ آبادی کی اس حالت جیسی ہورہی ہے جو ان کی سرسید احمدخان کی وفات پر ہوئی تھی ، اکبرنے اکثر سرسید احمد خان پر پھبتیاں کسی تھیں لیکن ان کی وفات پر کہا۔
ہماری باتیں ہی باتیںتھیں سید کام کرتا تھا
اور یہی ہم خدا بخشے مرحوم اعظم خان کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں عمربھر ایک بہت ہی فعال اورمتحرک انسان رہے تھے اورشاید آخری عمر میں نگران وزیراعلیٰ کے منصب کے لیے راضی بھی اس لیے ہوئے تھے کہ وہ کسی سے کسی بات کے لیے بھی انکارنہیں کرسکتے تھے۔
ہم اکثر ان سے چھیڑ خانی کرلیتے تھے لیکن انھوں نے کبھی برا نہیں منایا تھا حالاںکہ ہم دل سے ان کے قدردان تھے کیوں کہ وہ واحد بڑے افسر تھے جنھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد پشتو زبان وادب کے لیے بہت کچھ کیا تھا۔
پشتو ادبی بورڈ قائم کرکے ادیبوں کو جمع کیا اوران سے کام لیا اوران کو کام دیا کافی عرصے تک ایک پشتو مجلہ نکالتے رہے جس کانام ''تاترہ'' تھا تاترہ خیبر سے شمال کی جانب ایک اونچی پہاڑی چوٹی کا نام ہے ۔
خوش قسمتی سے ان دنوں پشتو ادب کو دو ''اعظم'' نصیب ہوئے تھے ایک خود اعظم خان مرحوم اوردوسرے معروف شاعر ادیب ڈرامہ نگار اوراستاد محمد اعظم اعظم ۔ چنانچہ ہم ان کو ''بڑااعظم'' اور''چھوٹا اعظم'' کہاکرتے تھے۔
اعظم خان بڑے اعظم اورمحمد اعظم اعظم چھوٹے اعظم تھے دونوں ہی بے مثال تھے ۔جناب اعظم خان جس منصب سے ریٹائرہوتے تھے اس پر بہت سارے جغادری فائز رہے۔
ان میں ایسے ایسے بھی تھے اورجو اپنے ادبی خانوادے پر بڑا فخر کرتے تھے اوراپنے ادیب بزرگوں اوروالدین کا نام اپنے نام کا دم چھلا بھی بناتے تھے لیکن ان میں کسی نے بھی زبان وادب کے لیے کچھ نہیں کیا لیکن اعظم خان واحد بڑے افسر تھے جنھیں پشتو ادب کے سلسلے میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
انھوں نے اس ادارے پشتو ادبی بورڈ کے تحت کئی ادیبوں کوجمع کیا اوران سے کام لیا، پشتو لغت پر بھی کام کروایا، جو قلندر مومند کی مرتب کی ہوئی لغت ''دریاب'' کاتسلسل ہے۔
شاید نہیں بلکہ یقیناً اعظم خان اس ادبی بورڈ کو بہت بڑا ادارہ بنا دیتے لیکن جو لوگ ان کے گرد جمع ہوئے تھے وہ مطلوبہ کارکردگی نہ دکھا سکے، اس لیے وہ ادارہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہوگیا لیکن اس کے باوجود جناب اعظم خان کانام اورکام فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
بہت بعد میں ایک اورصاحب اس سرکاری منصب پر آئے جو بڑے ادبی اورسیاسی خانوادے تھے، ان کے والد مشہور ادیب شاعر اورسکالر تھے چنانچہ وہ ہم جیسوں کو چچا مخاطب کرتے تھے ان سے جب ہم نے اس ادبی بورڈ کاذکر کیا اوراس سلسلے میں کچھ کرنے کو کہا تو بڑے خوش ہوئے اوران کی باتوں سے ہمیں ایسا لگا جیسے وہ ادبی بورڈ نہ صرف زندہ ہوگیا ہو بلکہ بہت بڑے ادبی ادارے کی شکل بھی اختیار کرگیا لیکن عملی طورپر اس کی یادداشت ہی سے وہ سب کچھ نکل گیا چنانچہ ابھی تک اعظم خان مرحوم ہی کا نام وہ واحد نام ہے جسے قوم زبان اورادب کے حوالے سے بھی یادکیا جاسکتا ہے۔
یہاں اگر ہم ایک اورکردار کا ذکر نہیں کریں گے تو یہ ناانصافی ہوگی ، میاں فیروزجمال شاہ کاکاخیل، جنھوں نے مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے ''عمرہ'' کیا اگر چہ یہ چھوٹی سی بات ہے لیکن اس چھوٹی سی بات میں بھی بہت بڑی بات ہے ، کہ آج کل تو چڑھتے سورج کی پرستش کا زمانہ ہے، کسے کیاپڑی ہے کہ مرنے والوں کی پروا کرے، مرحوم تو اپنے منصب سمیت جاچکے تھے لیکن پھر بھی میاں فیروزجمال کاکاخیل نے ان کے لیے عمرہ کیا اوراس کی وجہ بھی ہمیں معلوم ہے ، میاں فیروزجمال کاکاخیل کاتعلق ایک ایسے خانوادے سے ہے جو دوستی وفا اوراخلاص میں یکتا تھا اوریہ ہم سنی سنائی نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ خود ان کے بزرگوں کو ہم نے دوستی اوروفاداری نبھاتے دیکھا ہے۔
ہمارے پڑوس میں ایک کاکاخیل گھراناتھا جو ایک طرح ہمارے ماموں ہوتے تھے ان سے میاں فیروزشاہ کے تعلقات تھے حالانکہ وہ بہت غریب لوگ تھے لیکن فیروزشاہ میاں صاحب اکثر ان کے ہاں آیا کرتے تھے ہم اس لڑکپن کے دورمیں تھے لیکن پھران کو دیکھتے تھے اورسنتے تھے کہ میاں فیروزشاہ ان کے لیے بہت بڑے بڑے کام کرتے تھے۔
اس کے بعد میاں جمال شاہ کا دورآیا انھوں نے بھی اپنے والد کاتسلسل جاری رکھا اوران میاں صاحبان کے سرکا سایہ رہے یہاں تک کہ اس خاندان کافرد جب ایک فیک ڈکیتی میں ملوث ہوکر پھانسی کے خطرے میں آگیا تو اس کو بھی میاں جمال شاہ نے بچایا تھا۔
ان بیرسٹر میاں فیروزجمال شاہ سے ہم واقف نہیں ہیں لیکن اتنابہرحال جانتے ہیں کہ ان کا تعلق اسی گھرانے سے ہے ۔ بہرحال ان کی اس بات سے ہم بے انتہا خوش ہوئے کہ انھوں نے مرحوم کے ایصال ثواب اورمغفرت کے لیے عمرہ کیا۔جناب حمزہ خان شنواری کاوہ شعر تو ہمیں اب یاد نہیں جو انھوں نے ہندوؤں کی رسم ستی پر کہاہے یہ رسم اگر ناپسندیدہ ہے اوراب بند کر دی گئی ہے لیکن اگلے زمانوں میں شوہر کے مرنے پر اس کی بیوہ بھی اس کے ساتھ ہی ''چتا'' پر بیٹھ کر ستی ہوجاتی تھی۔
اس پر حمزہ صاحب نے کہاہے کہ جلتی ہوئی شمع پر تو پروانے نثارہوتے رہتے ہیں لیکن ''ستی'' ایک ایسی پروانہ ہے جو بجھی ہوئی مردہ شمع پر نثار ہوجاتی ہے ۔
اعظم خان صاحب تو چلے گئے ان کے لیے عمرہ ادا کرنا بھی ویسی ہی بات ہے ۔
ہماری باتیں ہی باتیںتھیں سید کام کرتا تھا
اور یہی ہم خدا بخشے مرحوم اعظم خان کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں عمربھر ایک بہت ہی فعال اورمتحرک انسان رہے تھے اورشاید آخری عمر میں نگران وزیراعلیٰ کے منصب کے لیے راضی بھی اس لیے ہوئے تھے کہ وہ کسی سے کسی بات کے لیے بھی انکارنہیں کرسکتے تھے۔
ہم اکثر ان سے چھیڑ خانی کرلیتے تھے لیکن انھوں نے کبھی برا نہیں منایا تھا حالاںکہ ہم دل سے ان کے قدردان تھے کیوں کہ وہ واحد بڑے افسر تھے جنھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد پشتو زبان وادب کے لیے بہت کچھ کیا تھا۔
پشتو ادبی بورڈ قائم کرکے ادیبوں کو جمع کیا اوران سے کام لیا اوران کو کام دیا کافی عرصے تک ایک پشتو مجلہ نکالتے رہے جس کانام ''تاترہ'' تھا تاترہ خیبر سے شمال کی جانب ایک اونچی پہاڑی چوٹی کا نام ہے ۔
خوش قسمتی سے ان دنوں پشتو ادب کو دو ''اعظم'' نصیب ہوئے تھے ایک خود اعظم خان مرحوم اوردوسرے معروف شاعر ادیب ڈرامہ نگار اوراستاد محمد اعظم اعظم ۔ چنانچہ ہم ان کو ''بڑااعظم'' اور''چھوٹا اعظم'' کہاکرتے تھے۔
اعظم خان بڑے اعظم اورمحمد اعظم اعظم چھوٹے اعظم تھے دونوں ہی بے مثال تھے ۔جناب اعظم خان جس منصب سے ریٹائرہوتے تھے اس پر بہت سارے جغادری فائز رہے۔
ان میں ایسے ایسے بھی تھے اورجو اپنے ادبی خانوادے پر بڑا فخر کرتے تھے اوراپنے ادیب بزرگوں اوروالدین کا نام اپنے نام کا دم چھلا بھی بناتے تھے لیکن ان میں کسی نے بھی زبان وادب کے لیے کچھ نہیں کیا لیکن اعظم خان واحد بڑے افسر تھے جنھیں پشتو ادب کے سلسلے میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
انھوں نے اس ادارے پشتو ادبی بورڈ کے تحت کئی ادیبوں کوجمع کیا اوران سے کام لیا، پشتو لغت پر بھی کام کروایا، جو قلندر مومند کی مرتب کی ہوئی لغت ''دریاب'' کاتسلسل ہے۔
شاید نہیں بلکہ یقیناً اعظم خان اس ادبی بورڈ کو بہت بڑا ادارہ بنا دیتے لیکن جو لوگ ان کے گرد جمع ہوئے تھے وہ مطلوبہ کارکردگی نہ دکھا سکے، اس لیے وہ ادارہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہوگیا لیکن اس کے باوجود جناب اعظم خان کانام اورکام فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
بہت بعد میں ایک اورصاحب اس سرکاری منصب پر آئے جو بڑے ادبی اورسیاسی خانوادے تھے، ان کے والد مشہور ادیب شاعر اورسکالر تھے چنانچہ وہ ہم جیسوں کو چچا مخاطب کرتے تھے ان سے جب ہم نے اس ادبی بورڈ کاذکر کیا اوراس سلسلے میں کچھ کرنے کو کہا تو بڑے خوش ہوئے اوران کی باتوں سے ہمیں ایسا لگا جیسے وہ ادبی بورڈ نہ صرف زندہ ہوگیا ہو بلکہ بہت بڑے ادبی ادارے کی شکل بھی اختیار کرگیا لیکن عملی طورپر اس کی یادداشت ہی سے وہ سب کچھ نکل گیا چنانچہ ابھی تک اعظم خان مرحوم ہی کا نام وہ واحد نام ہے جسے قوم زبان اورادب کے حوالے سے بھی یادکیا جاسکتا ہے۔
یہاں اگر ہم ایک اورکردار کا ذکر نہیں کریں گے تو یہ ناانصافی ہوگی ، میاں فیروزجمال شاہ کاکاخیل، جنھوں نے مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے ''عمرہ'' کیا اگر چہ یہ چھوٹی سی بات ہے لیکن اس چھوٹی سی بات میں بھی بہت بڑی بات ہے ، کہ آج کل تو چڑھتے سورج کی پرستش کا زمانہ ہے، کسے کیاپڑی ہے کہ مرنے والوں کی پروا کرے، مرحوم تو اپنے منصب سمیت جاچکے تھے لیکن پھر بھی میاں فیروزجمال کاکاخیل نے ان کے لیے عمرہ کیا اوراس کی وجہ بھی ہمیں معلوم ہے ، میاں فیروزجمال کاکاخیل کاتعلق ایک ایسے خانوادے سے ہے جو دوستی وفا اوراخلاص میں یکتا تھا اوریہ ہم سنی سنائی نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ خود ان کے بزرگوں کو ہم نے دوستی اوروفاداری نبھاتے دیکھا ہے۔
ہمارے پڑوس میں ایک کاکاخیل گھراناتھا جو ایک طرح ہمارے ماموں ہوتے تھے ان سے میاں فیروزشاہ کے تعلقات تھے حالانکہ وہ بہت غریب لوگ تھے لیکن فیروزشاہ میاں صاحب اکثر ان کے ہاں آیا کرتے تھے ہم اس لڑکپن کے دورمیں تھے لیکن پھران کو دیکھتے تھے اورسنتے تھے کہ میاں فیروزشاہ ان کے لیے بہت بڑے بڑے کام کرتے تھے۔
اس کے بعد میاں جمال شاہ کا دورآیا انھوں نے بھی اپنے والد کاتسلسل جاری رکھا اوران میاں صاحبان کے سرکا سایہ رہے یہاں تک کہ اس خاندان کافرد جب ایک فیک ڈکیتی میں ملوث ہوکر پھانسی کے خطرے میں آگیا تو اس کو بھی میاں جمال شاہ نے بچایا تھا۔
ان بیرسٹر میاں فیروزجمال شاہ سے ہم واقف نہیں ہیں لیکن اتنابہرحال جانتے ہیں کہ ان کا تعلق اسی گھرانے سے ہے ۔ بہرحال ان کی اس بات سے ہم بے انتہا خوش ہوئے کہ انھوں نے مرحوم کے ایصال ثواب اورمغفرت کے لیے عمرہ کیا۔جناب حمزہ خان شنواری کاوہ شعر تو ہمیں اب یاد نہیں جو انھوں نے ہندوؤں کی رسم ستی پر کہاہے یہ رسم اگر ناپسندیدہ ہے اوراب بند کر دی گئی ہے لیکن اگلے زمانوں میں شوہر کے مرنے پر اس کی بیوہ بھی اس کے ساتھ ہی ''چتا'' پر بیٹھ کر ستی ہوجاتی تھی۔
اس پر حمزہ صاحب نے کہاہے کہ جلتی ہوئی شمع پر تو پروانے نثارہوتے رہتے ہیں لیکن ''ستی'' ایک ایسی پروانہ ہے جو بجھی ہوئی مردہ شمع پر نثار ہوجاتی ہے ۔
اعظم خان صاحب تو چلے گئے ان کے لیے عمرہ ادا کرنا بھی ویسی ہی بات ہے ۔