غزہ جنگ پاکستان میں بائیکاٹ مہم سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو بھاری مالی نقصان

18 سے زائد اشیاکی فروخت میں پچاس فیصد تک کمی، پاکستان بزنس فورم


آصف محمود December 26, 2023
18 سے زائد اشیاکی فروخت میں پچاس فیصد تک کمی، پاکستان بزنس فورم

غزہ پراسرائیل کی مسلسل بمباری اور حملوں کے کیخلاف پاکستانی عوام کی طرف سے ایسی غیرملکی کمپنیوں اور برانڈز کے بائیکاٹ کی مہم جاری ہے جو اسرائیل اور اس کے حمایتی ممالک سے تعلق رکھتی ہیں۔

غیرملکی مصنوعات کے بائیکاٹ کے باعث ان کمپنیوں کی آمدن میں نمایاں کمی آئی ہے ۔

بائیکاٹ کرنیوالوں کا خیال ہے کہ اگر وہ فلسطینیوں کے حق میں براہ راست جنگ نہیں لڑ سکتے تو اسرائیل اور امریکا کا معاشی بائیکاٹ کر کے اس میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔

رواں سال اکتوبر میں سوشل میڈیا پر شروع ہونے والی اس بائیکاٹ مہم سے متعلق مختلف مواد شئیر کیا جا رہا ہے جن میں دودرجن سے زائد مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی جارہی ہے۔

صارفین کا دعوی ہے کہ یہ مصنوعات اسرائیلی اورامریکی کمپنیاں بناتی ہیں یا پھر ان کی پیرنٹ کمپنیوں کے مالکان یہودی ہیں۔ اس مہم میں عام شہریوں سے بڑھ کر مذہبی جماعتوں سے وابستہ افراد زیادہ حصہ لے رہے ہیں۔ اس مہم میں متبادل کے طور پر مقامی مصنوعات کی فہرست بھی شیئر کی جارہی ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون صارف زینب ارشد کہتی ہیں '' اگرہم اسرائیلی مظالم اورمعصوم فلسطینیوں پر کی جانیوالی بمباری کو نہیں روک سکتے تو کم ازکم اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے اس کومعاشی نقصان تو پہنچا ہی سکتے ہیں''۔

ایک اور شہری حافظ وسیم احمد کہتے ہیں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کامیاب جارہی ہے،اگرتمام مسلم ممالک کے عوام متحد ہوکر اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو چند ہفتوں میں اسرائیل کی معاشی طور پرکمر توڑی جاسکتی ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی اورپاکستان علما کونسل کے سربراہ حافظ طاہرمحمود اشرفی کاکہنا ہے اسرائیل اور اس کے حلیفوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا سلسلہ پوری دنیا میں جاری ہے۔

انہوں نے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ جب بھی خریداری کے لئے جائیں تو اسرائیلی مصنوعات کی بجائے اس کامتبادل طلب کریں، پاکستان میں اکثر بڑے ریسٹورنٹس میں مشروبات اورپانی ان کمپنیوں کا ہے جو اسرائیل یا اس کے حریفوں کی کمپنیاں ہیں لہذا ریسٹورنٹ کے عملے سے متبادل پانی اورمشروب طلب کریں۔

دوسری طرف پاکستان میں کام کرنیوالی بعض غیرملکی کمپنیوں خاص طور پر فوڈ برانڈز کی طرف سے وضاحتی بیانات بھی جاری ہو رہے ہیں کہ ان کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پاکستان کے ایک معروف فوڈ برانڈ کی طرف سے فلسطینی عوام کے لئے ایک کروڑ روپے کا عطیہ بھی دیا گیا ہے۔ تاہم اس کے باوجود عوام کی طرف سے بائیکاٹ کے مہم سے ان کمپنیوں کی فروخت میں کمی آئی ہے۔ جبکہ ایک ملٹی نیشنل بینک کے کئی کھاتہ داروں نے اپنے اکاؤنٹس کلوز کروا دیئے ہیں۔

پاکستان بزنس فورم کے مطابق 18 سے زائد اشیاکی فروخت میں پچاس فیصد تک کمی ہوئی ہے۔

لاہور میں موجود ایک غیرملکی برانڈ کے ریسٹورنٹ کے ذمہ دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایا کہ ان کی روزانہ فروخت میں 20 سے 25 فیصد تک کمی آئی ہے۔ جبکہ ان کمپنیوں کو خام مال فراہم کرنے والے اداروں کی سپلائی میں بھی 50 فیصد تک کمی آئی ہے۔

غیر ملکی کمپنیاں اور برانڈز عام طور پر فرنچائز سے 20 سے 25 سال کا معاہدہ کرتی ہیں جس میں معاوضے کے تحت فرنچائزز کو برانڈ نام اور اس کے سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے ریسٹورنٹ چلانے کی اجازت ہوتی ہے۔

بعض کمپنیاں سالانہ بنیادوں پر رائلٹی ادا کرتی ہیں جو پانچ یا سات فیصد یا پھر اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے اور کچھ کمپنیاں منافع شئیر کرتی ہیں جبکہ کچھ ایک ہی مرتبہ رقم کی ادائیگی کر کے فرنچائز خرید لیتی ہیں۔

لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کاشف انور کا کہنا ہے امپورٹڈ مصنوعات کی بجائے لوکل پراڈکٹ کے استعمال سے ملک کا بھی فائدہ ہوگا اور ہم اسرائیل کوہونے والے معاشی فائدے کو روک کر اپنے فلسطینی بھائیوں کے دکھ اور تکلیف میں بھی شریک ہوسکیں گے۔

ماہر معیشت ڈاکٹر قیس اسلم نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا اس مہم کے پیچھے ان مقامی کمپنیوں کا بھی ہاتھ ہیں جو چاہتی ہیں کہ غیرملکی مصنوعات کی بجائے ان کی مصنوعات خریدی جائیں۔

انہوں نے کہا اس سے پہلے بھی اس طرح کی مہمات چلتی رہی ہیں ۔ اگر تو اس مہم کے نتیجے میں غیرملکی مصنوعات کی فروخت میں کمی اور مقامی مصنوعات کی فروخت بڑھتی ہے تو یقینا ہماری معیشت کو فائدہ ہوگا۔ کیونکہ پاکستان کی براہ راست تو اسرائیل کے ساتھ کو ئی تجارت اورلین دین نہیں ہے۔ جہاں تک ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافع کی بات ہے تو اس کا بہت تھوڑا حصہ ان کمپنیوں یا افراد کو جاتا ہے جو اسرائیلی اورامریکی ہوں گے یاپھر وہ عرب ممالک کے شہری ہوسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔