سگریٹ کی مدد سے ماحول دوست ایندھن بنانے کا طریقہ کار وضع
سیگریٹ کے فلٹر سے حاصل ہونے والا اہم مرکب ماحول دوست ایندھن کی پیداوار میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے
دنیا بھر کے سائنس دان زہریلی اور ناقابلِ تجدید توانائی پر انحصار کم کرنے کے لیے ماحول دوست اور پائیدار متبادل ذرائع کا سراغ لگانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
ان ذرائع میں ایک ذریعہ بائیو ڈیزل ہے جو غذا میں استعمال کیے جانے اور نہ کیے جانے والے تیل، جانوروں کی چربی اور ریستورانوں میں استعمال کی جانے والی جانوروں کی چکنائی یا سبزیوں کے تیل جیسے حیاتیاتی عناصر سے بنائے جاتے ہیں۔ بائیو ڈیزل قابلِ تجدید ہونے کے ساتھ بائیو ڈگریڈ ایبل ہونے کی وجہ سے صاف اور ماحول دوست توانائی کا ذریعہ ہے۔
تاہم، بائیو ڈیزل کی مہنگی پیداوار اس کے وسیع پیمانے پر استعمال کی راہ میں حائل رکاوٹ ہے۔ لیکن سائنس دانوں نے اس مسئلے کا حل سیگریٹ کے فلٹر میں تلاش کر لیا ہے۔
ماضی کے مطالعوں میں یہ بات دیکھی جا چکی ہے کہ بائی ڈیزل میں ٹریگلیسیرائیڈ ٹرائیسیٹن جیسے مرکبات کا ملایا جانا فضائی آلودگی میں کمی اور اس کے جلنے کے دورانیے میں اضافہ کرتے ہوئے اس ایندھن کی کارکردگی کو بڑھاتا ہے۔
ٹرائیسیٹن کی پیداوار ماحول کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ اس کو بنانے کے لیے کئی کیمیا کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے بڑی مقدار میں زہریلا مواد بنتا ہے۔
جرنل آف اینیلیٹکل اینڈ اپلائیڈ پائرولیسز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق لِیتھوینیا کی کانس یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے سائنس دانوں نے لیتھوینین انرجی انسٹیٹیوٹ کے اشتراک سے سگریٹ کے بٹ کو استعمال کرتے ہوئے ٹرائیسٹین بنانے کا طریقہ کار وضع کیا ہے۔
تحقیق کے سربراہ مصنف سمیع یوسف کا کہنا تھا 'ہم ری سائیکلنگ اور ویسٹ منیجمنٹ کے عنوانات پر کام کر رہے ہیں لہٰذا ہم ہمیشہ ایسے کچرے کی تلاش میں رہتے ہیں جو وسیع مقدار میں ہو اور اس کا سانچہ منفرد ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ سگریٹیں تین چیزوں سے مل کر بنتی ہیں (تمباکو، پیپر اور فلٹر جو سیلولوز ایسیٹیٹ فائبر کا بنا ہوتا ہے) اور خام مال اور توانائی کا ایک اچھا ذریعہ ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ سگریٹوں کے بٹ جمع کرنا آسان ہوتا ہے کیوں کہ متعدد کمپنیاں یہ کچرا جمع کر رہی ہیں۔
سائنس دانوں نے پائرولیسز کے عمل کا استعمال کرتے ہوئے ان بٹوں کو 650، 700 اور 750 ڈگری سیلسیئس پر تحلیل کیا۔ متعدد تجربات کرنے کے بعد ماہرین کے سامنے یہ بات آئی کہ ٹرائیسیٹن کی سب سے زیادہ مقدار (43 فی صد) 750 ڈگری سیلسیئس پر حاصل کی گئی۔ اس کے علاوہ 38 فی صد تیل، 25.7 فی صد چار اور 36.4 فی صد گیس بھی حاصل کی گئی۔
سمیع یوسف کا کہنا تھا کہ تمام اشیاء حقیقی طور پر استعمال کے قابل ہیں۔
ان ذرائع میں ایک ذریعہ بائیو ڈیزل ہے جو غذا میں استعمال کیے جانے اور نہ کیے جانے والے تیل، جانوروں کی چربی اور ریستورانوں میں استعمال کی جانے والی جانوروں کی چکنائی یا سبزیوں کے تیل جیسے حیاتیاتی عناصر سے بنائے جاتے ہیں۔ بائیو ڈیزل قابلِ تجدید ہونے کے ساتھ بائیو ڈگریڈ ایبل ہونے کی وجہ سے صاف اور ماحول دوست توانائی کا ذریعہ ہے۔
تاہم، بائیو ڈیزل کی مہنگی پیداوار اس کے وسیع پیمانے پر استعمال کی راہ میں حائل رکاوٹ ہے۔ لیکن سائنس دانوں نے اس مسئلے کا حل سیگریٹ کے فلٹر میں تلاش کر لیا ہے۔
ماضی کے مطالعوں میں یہ بات دیکھی جا چکی ہے کہ بائی ڈیزل میں ٹریگلیسیرائیڈ ٹرائیسیٹن جیسے مرکبات کا ملایا جانا فضائی آلودگی میں کمی اور اس کے جلنے کے دورانیے میں اضافہ کرتے ہوئے اس ایندھن کی کارکردگی کو بڑھاتا ہے۔
ٹرائیسیٹن کی پیداوار ماحول کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ اس کو بنانے کے لیے کئی کیمیا کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے بڑی مقدار میں زہریلا مواد بنتا ہے۔
جرنل آف اینیلیٹکل اینڈ اپلائیڈ پائرولیسز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق لِیتھوینیا کی کانس یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے سائنس دانوں نے لیتھوینین انرجی انسٹیٹیوٹ کے اشتراک سے سگریٹ کے بٹ کو استعمال کرتے ہوئے ٹرائیسٹین بنانے کا طریقہ کار وضع کیا ہے۔
تحقیق کے سربراہ مصنف سمیع یوسف کا کہنا تھا 'ہم ری سائیکلنگ اور ویسٹ منیجمنٹ کے عنوانات پر کام کر رہے ہیں لہٰذا ہم ہمیشہ ایسے کچرے کی تلاش میں رہتے ہیں جو وسیع مقدار میں ہو اور اس کا سانچہ منفرد ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ سگریٹیں تین چیزوں سے مل کر بنتی ہیں (تمباکو، پیپر اور فلٹر جو سیلولوز ایسیٹیٹ فائبر کا بنا ہوتا ہے) اور خام مال اور توانائی کا ایک اچھا ذریعہ ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ سگریٹوں کے بٹ جمع کرنا آسان ہوتا ہے کیوں کہ متعدد کمپنیاں یہ کچرا جمع کر رہی ہیں۔
سائنس دانوں نے پائرولیسز کے عمل کا استعمال کرتے ہوئے ان بٹوں کو 650، 700 اور 750 ڈگری سیلسیئس پر تحلیل کیا۔ متعدد تجربات کرنے کے بعد ماہرین کے سامنے یہ بات آئی کہ ٹرائیسیٹن کی سب سے زیادہ مقدار (43 فی صد) 750 ڈگری سیلسیئس پر حاصل کی گئی۔ اس کے علاوہ 38 فی صد تیل، 25.7 فی صد چار اور 36.4 فی صد گیس بھی حاصل کی گئی۔
سمیع یوسف کا کہنا تھا کہ تمام اشیاء حقیقی طور پر استعمال کے قابل ہیں۔