کراچی کا اردو میلہ دنیا میں دھوم
کتابوں کا کلچر زندہ رکھو، جب تک کتابیں زندہ رہیں گی تو ادیب، شاعر بھی زندہ رہے گا
کہتے ہیں کہ ایک درخت لگاؤ تو وہ برسوں چھاؤں دیتا ہے اور اس کی چھاؤں سے ہزاروں لوگ فیض اٹھاتے ہیں جب کہ درخت کا لگانا بھی ایک صدقہ ہے، اسی طرح کتاب کا پڑھنا، کتاب کو آگے بڑھانا اورکتابوں کے ذوق و شوق کو تقویت دینا بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
کتابیں پڑھو، یہ کتابیں انسان کو زندگی کا بھرپور احساس دلاتی ہیں اور یہ کتابیں ہی ہیں جو تاریخ کے تسلسل کو برقرار رکھتی ہیں، کتابیں خود بھی تر و تازہ رہتی ہیں اور کتابوں کے لکھنے والوں کو صدیوں زندہ رکھتی ہیں۔ آج ہم سیکڑوں برس پرانی شخصیات کی عظمت کو جانتے ہیں تو اس کا سبب کتاب ہی ہے۔
کتابیں نہ ہوتیں تو شاید ہمیں ارسطو سے لے کر ٹالسٹائی تک کسی کے بارے میں پتہ نہ ہوتا۔ اسی طرح گلیلیو سے لے کر نیوٹن تک کا علم بھی ہمیں کتاب کے ذریعے ملا۔برصغیر کے نامور موسیقار ہوں یا اداکار یا گائیک، ان کے بارے میں نئی نسل کو آگاہی کتابوں کے ذریعے ہی ملی ہے لہٰذا کتابیں نہ ہوتیں تو نسل انسانی کی تاریخ انتہائی مختصر ہوتی۔
کراچی میں کتابوں کا میلہ کوئی چھوٹی بات نہیں اس میلے کو ہر سال سجانا اور کتابوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا ایک بہت بڑا کام ہے اور جو لوگ یہ کام کرتے ہیں وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ان کی اردو زبان اور کتابوں کے حوالے سے ایک قابل قدر کاوش ہے کراچی کے ادبی ادارے، ادبی محفلیں اور ادبی تنظیمیں یہ میلہ سجا کر کتابوں کی آبیاری کر رہی ہیں۔
جو لوگ سوشل میڈیا کے دور میں پرنٹ میڈیا کے ساتھ بڑے افلاس کے ساتھ اپنا رشتہ قائم کیے ہوئے ہیں وہ واقعی عظیم لوگ ہیں، کتابیں اب بھی شوق سے پڑھی جاتی ہیں، اس کا اندازہ ہمیں گزشتہ دنوں ایکسپو سینٹر میں سجائے گئے کتابوں کے میلے سے ہوا کتابوں کے میلے میں جس قدر ہجوم تھا، جس طرح سے لوگ جوق در جوق آ رہے تھے اور کتابوں سے اپنی بے کراں محبت کا اظہار کر رہے تھے وہ واقعی دیدنی تھا۔
ایکسپو سینٹر میں چار مرکز تھے اور چاروں میں کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ کتابوں کے میلے میں زبردست بھیڑ دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ یہاں چاند رات ہے اور ہر طرف بے شمار بک اسٹالوں پر کتابوں کے چاند چمک رہے تھے یہاں چار بڑے دروازے تھے اور ہر دروازے سے لوگ کتابوں کی روشن شمع کی خاطر پروانوں کی طرح دیوانہ وار آ رہے تھے، اس میلے میں ہر طرف اور حد نگاہ تک لوگوں کا ہجوم تھا جو بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا، اس ہجوم نے اس بات کی نفی کر دی تھی کہ ٹی وی اور سوشل میڈیا کی وجہ سے کتابوں سے محبت ختم ہوتی جا رہی ہے۔
یہ صرف جھوٹا پروپیگنڈا ہی کہا جاتا ہے اور کتابوں کا میلہ کتابوں کی اہمیت اور محبت کا برملا اظہار کر رہا تھا یہ میلہ کراچی میں ہر سال لگتا ہے اور ہر سال ہی اس میلے میں لوگوں کی تعداد کسی طور کم نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ ہی نظر آتی ہے۔
کتابیں ہر دور میں انسان کو زندگی کا شعور دیتی رہی ہیں، بیرونی دنیا میں تو کتابوں کی اہمیت آج بھی برقرار ہے بلکہ ٹیلی وژن اور فلموں کی شہرت کے دور میں بھی کتابوں سے محبت میں ذرا بھی کمی نہیں آئی ہے، لوگ سفر کے دوران کتابوں کو اپنا ساتھی بنائے رکھتے ہیں، اکثر و بیشتر دیکھنے میں آتا ہے سفر ٹرین کا ہو، بس کا ہو یا ہوائی جہاز کا لوگ اپنے ہاتھوں میں کتابیں بھی لیے ہوئے کثرت سے نظر آتے ہیں۔
سفر کے علاوہ بھی یہ کتابیں بعض لوگوں کے لیے ہر وقت کی ساتھی ہوتی ہیں۔ مغربی ممالک میں کسی بھی کتاب کا رائٹر کبھی مفلسی میں نہیں مرتا ہے ہمارے ملک میں کتابیں چھاپنے والے تو خوب کماتے ہیں مگر کتاب لکھنے والے کو صرف سنہرے خواب ہی ملتے رہتے ہیں۔
مغرب میں صرف ایک کتاب لکھنے والا بھی شہرت پا کر نوٹوں میں کھیلنے لگتا ہے، ہر پبلشر ہر کتاب کے رائٹر کو بڑی ایمان داری کے ساتھ اس کتاب کی رائلٹی دیتے ہوئے خود بھی فخر محسوس کرتا ہے کہ اس نے اس رائٹر کی کتاب سے خوب کمایا ہے اور رائٹر کو شہرت کے ساتھ دولت اور وقار بھی حاصل ہوتا ہے جب کہ پاکستان میں رائٹر کو بڑی مشکل سے رائلٹی دی جاتی ہے۔ بس پبلشر کو اپنا نفع عزیز ہوتا ہے۔
رائٹر کے لیے تو خسارہ ہی خسارہ لکھ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہمارے ملک میں شاعروں، ٹیلی وژن اور فلم کے نغمہ نگاروں کو ان کے مقبول گیتوں کی طرف سے نہ ریڈیو کوئی رائلٹی دیتا ہے اور نہ ہی یوٹیوب پر مقبول ہونے والے گیتوں کا کوئی حساب کتاب رکھا جاتا ہے۔ یہاں سے بھی شاعر محرومیاں ہی سمیٹتے رہ جاتے ہیں۔ یہ بہت پرانا قصہ ہے جب میں بھی ریڈیو، ٹی وی اور پھر بعد میں فلموں کے لیے بھی گیت لکھتا رہا تھا۔
اس دوران نام ور شاعر قتیل شفائی نے ایک مہم چلائی تھی کہ ریڈیو سے نشر ہونے والے فلمی اور غیر فلمی گیتوں کی مد میں شاعر حضرات کو رائلٹی ملنی چاہیے یہ ان کا بنیادی حق ہے۔ ان کے گیتوں اور ان کے کلام سے ریڈیو کے اعلیٰ حکام اپنا کام چلاتے ہیں اور اپنا ایک مقام بھی بناتے ہیں پھر شاعروں اور گیت نگاروں کو رائلٹی کیوں نہیں دیتے۔
قتیل شفائی کی اس مہم نے جب زیادہ زور پکڑا اور اخبارات میں اس کے تذکرے عام ہوئے تو قتیل شفائی کے فلمی گیت ریڈیو سے نشر ہونا بند ہوگئے۔ صورت حال تو کبھی بھی ادیبوں، شاعروں کے حق میں اچھی نہیں رہی، ان کے حقوق کی بات پر ہمیشہ ان کو معتوب کیا جاتا رہا ہے۔
پڑوسی ملک ہندوستان میں صورت حال کچھ مختلف ہے وہاں ادیبوں اور شاعروں کی انجمنیں بڑی مضبوط بنیاد پر قائم ہیں وہاں ریڈیو، ٹی وی کے لیے لکھنے والوں بلکہ فلم کے نغمہ نگاروں کو بھی رائلٹی کے طور پر کچھ نہ کچھ حصہ ادا کیا جاتا ہے اور نشریاتی ادارے، شاعروں اور ادیبوں کے حقوق کی کچھ نہ کچھ پاسداری کرتے ہیں وہاں ہمارے ملک سے زیادہ لوگوں کے بنیادی حقوق کا بھی خیال کیا جاتا ہے۔
ادیبوں، شاعروں کو راستے کا پتھر نہیں سمجھا جاتا ہے وہاں ادیبوں اور شاعروں کی بڑی قدر و منزلت ہے اور وہاں کے نشریاتی ادارے ان کے حقوق کا احترام بھی کرتے ہیں اور ان کو خوش حال بنانے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔
میری امریکا میں کئی فنکاروں، ادیبوں اور شاعروں سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں اور گفتگو کے دوران وہ اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ ان کے ملک میں ان کی نہ صرف قدر و منزلت ہے بلکہ ان کو مالی طور پر فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے، وہاں اردو بستیوں میں منظم تحریکیں بھی چلتی رہتی ہیں وہاں اب بھی اردو ادب کو زندہ رکھا ہوا ہے، وہاں اب بھی غالب، میر اور داغ دہلوی کی شاعری کو فنکار اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ بات کتابوں کے میلے سے نکلی تھی اور پھر کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی۔
یہاں میں اپنی بات کو اس بات پر ہی ختم کرتا ہوں کہ کتابوں کا کلچر زندہ رکھو، جب تک کتابیں زندہ رہیں گی تو ادیب، شاعر بھی زندہ رہے گا۔ جس قوم کے ادیب و شاعر بھلا دیے جاتے ہیں وہ قوم دنیا میں دیگر قوموں کی نسبت اپنا تشخص بھی برقرار رکھنے میں ناکام رہتی ہے اور پھر پستی کی طرف گامزن ہو جاتی ہے۔