عوامی لیڈر بے نظیر بھٹو
محترمہ کے اندر یہ خوبی بھی تھی کہ وہ دلائل سے سامنے والے کو قائل کرنے کا گر جانتی تھیں
زمانہ قدیم کی تاریخ پڑھی جائے یا عہد وسطیٰ کی، ایک حقیقت ضرور ہمارے سامنے عیاں ہوتی ہے کہ حکمران تو روز روز پیدا ہوتے رہے اور ہورہے ہیں، مگر حقیقی رہنما یا Leader کبھی کبھی ہی پیدا ہوتے ہیں۔
لیڈر یا حقیقی راہ نما کی ذات میں ہر خوبی ہوتی ہے کہ جو کام حکمران صدیوں میں نہیں کرپاتے، لیڈر وہ کام دنوں مہینوں میں کر دکھاتے ہیں۔
برصغیر میں اس کی سب سے بڑی مثال شیر خان المعروف شیر شاہ سوری ہے۔ شیرشاہ سوری وہ لیڈر تھا جس نے فقط 5 برس میں پورے برصغیر میں اس قدر ترقیاتی کام کیے کہ مغلیہ دور کے حکم راں اپنے 2 سو سالہ نسلی دور حکمرانی میں بھی اس قدر ترقیاتی کام نہ کرسکے، کیوںکہ مغل نسل در نسل حکم رانی کرنے کے باوجود حکم راں ہی ثابت ہوئے، حقیقی لیڈر نہیں۔
پاکستان کی 69 سالہ تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو ہمیں 26 وزرائے اعظم، 12 صدور، قائداعظم کے علاوہ 3 گورنر جنرل ضرور نظر آتے ہیں، مگر حقیقی لیڈر جو عوام کے نبض شناس تھے دو ہی تھے ان میں ایک ذوالفقار علی بھٹو اور دوسری شہید بے نظیر بھٹو۔ عصر حاضر چوںکہ نسلی سیاست کا دور ہے مگر بے نظیر بھٹو میں خوبی ضرور تھی کہ اگر وہ ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی نہ بھی ہوتیں تو بھی اسی قدر مقبول ترین لیڈر ہوتیں جس قدر وہ پاکستان و دنیا بھر میں مقبول لیڈر تسلیم کی جاتی تھیں۔
بے نظیر بھٹو کی فہم و فراست کا یہ عالم تھا کہ جب اپنے دور حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی سے مذاکرات کے لیے شملہ تشریف لے گئے تو دیگر لوگوں کے ساتھ 19 سالہ ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو بھی ان کے ہمراہ تھیں۔
چنانچہ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ یہ امکان پیدا ہوگیا تھا کہ ممکن تھا کہ یہ مذاکرات ناکام ہوجاتے، کیفیت یہ تھی کہ دونوں وزرائے اعظم یعنی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی و پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اپنی اپنی پسند کے معاہدے کے طالب تھے، امکان پیدا ہوگیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے وفد کے ساتھ پاکستان واپسی کا ارادہ کرلیا تھا مگر اس موقع پر بے نظیر بھٹو کی فہم و فراست کام آگئی۔
بیان کیا جاتا ہے کہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد اندرا گاندھی نے 19 سالہ بے نظیر بھٹو سے کہا کہ بیٹی! بتاؤ میں تمہیں کیا تحفہ دوں؟ اندرا گاندھی کا یہ انداز شفقت جب بے نظیر بھٹو نے دیکھا تو دوراندیش لڑکی نے اندرا گاندھی سے کہا کہ آنٹی! اگر مجھے کوئی تحفہ دینا مقصود ہے تو پھر میرے پاپا کی پسند کا معاہدہ کرلیں۔ یہ ہی آپ کی جانب سے میرے اور تمام پاکستانیوں کے لیے بہترین تحفہ ہوگا۔
بے نظیر بھٹو نے اپنے ان الفاظ سے گویا اندرا گاندھی کو لاجواب کردیا۔ نتیجہ یہ کہ دونوں فریقین دوبارہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ گئے اور اس طرح تاریخی معاہدہ شملہ قرار پایا۔
یہ تھی بے نظیر بھٹو کی فہم و فراست جس کے باعث دو مقبول ترین راہ نماؤں کے درمیان ناکام ہوتے ہوئے مذاکرات کامیابی میں تبدیل ہوگئے جب کہ بے نظیر بھٹو کا عام افلاس زدہ لوگوں سے ہم دردی و پیار کا یہ عالم تھا کہ ایک بار لاڑکانہ سے اسلام آباد بذریعہ گاڑی تشریف لے جا رہی تھیں کہ سڑک کنارے بنے ایک جھونپڑا ہوٹل کے سامنے اپنی گاڑی رکوائی اور ہوٹل والے سے کہا کہ ایک شربت کی بڑی بوتل لاؤ۔
ہوٹل والا جب شربت کی بوتل لایا تو اس نے بے نظیر بھٹو کو شناخت کرلیا۔ اب تو وہ ہوٹل والا مارے خوشی کے پھولے نہ سما رہا تھا۔ چناںچہ بے نظیر بھٹو نے ازراہ ہم دردی اس ہوٹل والے سے کہا کہ تمہیں اس ہوٹل سے اس قدر آمدنی ہوجاتی ہے کہ تمہارے گھر والوں کا گزر بسر ہوجائے؟
محترمہ کا یہ انداز محبت جب اس ہوٹل والے غریب شخص نے دیکھا تو کہنے لگا بس بی بی! گزر بسر کیا البتہ شام تک ڈیڑھ دو سو کما لیتا ہوں۔ مقام شکر ہے کہ بچے دال روٹی کھا لیتے ہیں۔ اس پر محترمہ نے اپنے پرس میں ہاتھ ڈالا اور تمام رقم نکال کر اس ہوٹل والے کے ہاتھ پر رکھ دی۔ ہوٹل والے نے محترمہ کے تشریف لے جانے کے بعد دی ہوئی رقم گنتی کی تو وہ رقم 70 ہزار روپے تھی۔ یہ تھا محترمہ کا عام پاکستانیوں سے محبت کا ایک انداز جو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ وہ ایک عوامی لیڈر تھیں۔
محترمہ کے اندر یہ خوبی بھی تھی کہ وہ دلائل سے سامنے والے کو قائل کرنے کا گر جانتی تھیں، واقعہ یوں ہے کہ الیکشن 2008 سے قبل موجودہ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف بضد تھے کہ وہ الیکشن 2008 کا بائیکاٹ کریں گے مگر یہ محترمہ کی فہم و فراست ہی تھی کہ فقط 30 منٹ کی مختصر ترین ملاقات میں نوازشریف کو قائل کرلیا کہ وہ الیکشن 2008 میں حصہ لیں تاکہ پاکستان میں پرویز مشرف آمریت کا خاتمہ ہوسکے اور پاکستان میں جمہوری عمل کا آغاز ہوسکے، جب کہ حقیقت بھی یہی ہے کہ نواز شریف، محترمہ کے بدترین مخالف سیاسی راہ نما تھے۔
جب کہ محترمہ اس قدر حساس تھیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اپنی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد سے قبل کہا کرتے کہ میں فکرمند ہوں کہ میری موت کا صدمہ میری بیٹی کیسے برداشت کرے گی، کیوںکہ وہ تو بچپن میں اپنے پالتو پرندے کی موت پر کئی روز روتی رہی تھی، مگر اس قدر حساس و نرم و نازک دبلی پتلی بے نظیر بھٹو نے جس طرح ایک چٹان کی مانند ضیا و پرویزمشرف کے دونوں آمرانہ ادوار کا مقابلہ کیا وہ انھی کا خاصا تھا، جب کہ یہ بے نظیر بھٹو ہی تھیں کہ جنھوں نے اپنے والد کی پھانسی کی موت، اپنے بھائیوں شاہ نواز و میر مرتضیٰ بھٹو کی بے وقت موت کے صدمات برداشت کیے۔
ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اس کے لیے یہ تمام صدمات ناقابل برداشت ہوجاتے اور یہ تمام صدمات اسے ذہنی مریض بنانے کے لیے کافی تھے، جب کہ ان صدمات کے ساتھ اپنے شوہر آصف علی زرداری کی طویل اسیری، خود ان کی اپنی طویل جلاوطنی الگ صدمات تھے۔ بے نظیر بھٹو ایک حکمران نہ تھیں بلکہ ایک حقیقی عوامی لیڈر تھیں۔
لیڈر یا حقیقی راہ نما کی ذات میں ہر خوبی ہوتی ہے کہ جو کام حکمران صدیوں میں نہیں کرپاتے، لیڈر وہ کام دنوں مہینوں میں کر دکھاتے ہیں۔
برصغیر میں اس کی سب سے بڑی مثال شیر خان المعروف شیر شاہ سوری ہے۔ شیرشاہ سوری وہ لیڈر تھا جس نے فقط 5 برس میں پورے برصغیر میں اس قدر ترقیاتی کام کیے کہ مغلیہ دور کے حکم راں اپنے 2 سو سالہ نسلی دور حکمرانی میں بھی اس قدر ترقیاتی کام نہ کرسکے، کیوںکہ مغل نسل در نسل حکم رانی کرنے کے باوجود حکم راں ہی ثابت ہوئے، حقیقی لیڈر نہیں۔
پاکستان کی 69 سالہ تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو ہمیں 26 وزرائے اعظم، 12 صدور، قائداعظم کے علاوہ 3 گورنر جنرل ضرور نظر آتے ہیں، مگر حقیقی لیڈر جو عوام کے نبض شناس تھے دو ہی تھے ان میں ایک ذوالفقار علی بھٹو اور دوسری شہید بے نظیر بھٹو۔ عصر حاضر چوںکہ نسلی سیاست کا دور ہے مگر بے نظیر بھٹو میں خوبی ضرور تھی کہ اگر وہ ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی نہ بھی ہوتیں تو بھی اسی قدر مقبول ترین لیڈر ہوتیں جس قدر وہ پاکستان و دنیا بھر میں مقبول لیڈر تسلیم کی جاتی تھیں۔
بے نظیر بھٹو کی فہم و فراست کا یہ عالم تھا کہ جب اپنے دور حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی سے مذاکرات کے لیے شملہ تشریف لے گئے تو دیگر لوگوں کے ساتھ 19 سالہ ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو بھی ان کے ہمراہ تھیں۔
چنانچہ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ یہ امکان پیدا ہوگیا تھا کہ ممکن تھا کہ یہ مذاکرات ناکام ہوجاتے، کیفیت یہ تھی کہ دونوں وزرائے اعظم یعنی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی و پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اپنی اپنی پسند کے معاہدے کے طالب تھے، امکان پیدا ہوگیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے وفد کے ساتھ پاکستان واپسی کا ارادہ کرلیا تھا مگر اس موقع پر بے نظیر بھٹو کی فہم و فراست کام آگئی۔
بیان کیا جاتا ہے کہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد اندرا گاندھی نے 19 سالہ بے نظیر بھٹو سے کہا کہ بیٹی! بتاؤ میں تمہیں کیا تحفہ دوں؟ اندرا گاندھی کا یہ انداز شفقت جب بے نظیر بھٹو نے دیکھا تو دوراندیش لڑکی نے اندرا گاندھی سے کہا کہ آنٹی! اگر مجھے کوئی تحفہ دینا مقصود ہے تو پھر میرے پاپا کی پسند کا معاہدہ کرلیں۔ یہ ہی آپ کی جانب سے میرے اور تمام پاکستانیوں کے لیے بہترین تحفہ ہوگا۔
بے نظیر بھٹو نے اپنے ان الفاظ سے گویا اندرا گاندھی کو لاجواب کردیا۔ نتیجہ یہ کہ دونوں فریقین دوبارہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ گئے اور اس طرح تاریخی معاہدہ شملہ قرار پایا۔
یہ تھی بے نظیر بھٹو کی فہم و فراست جس کے باعث دو مقبول ترین راہ نماؤں کے درمیان ناکام ہوتے ہوئے مذاکرات کامیابی میں تبدیل ہوگئے جب کہ بے نظیر بھٹو کا عام افلاس زدہ لوگوں سے ہم دردی و پیار کا یہ عالم تھا کہ ایک بار لاڑکانہ سے اسلام آباد بذریعہ گاڑی تشریف لے جا رہی تھیں کہ سڑک کنارے بنے ایک جھونپڑا ہوٹل کے سامنے اپنی گاڑی رکوائی اور ہوٹل والے سے کہا کہ ایک شربت کی بڑی بوتل لاؤ۔
ہوٹل والا جب شربت کی بوتل لایا تو اس نے بے نظیر بھٹو کو شناخت کرلیا۔ اب تو وہ ہوٹل والا مارے خوشی کے پھولے نہ سما رہا تھا۔ چناںچہ بے نظیر بھٹو نے ازراہ ہم دردی اس ہوٹل والے سے کہا کہ تمہیں اس ہوٹل سے اس قدر آمدنی ہوجاتی ہے کہ تمہارے گھر والوں کا گزر بسر ہوجائے؟
محترمہ کا یہ انداز محبت جب اس ہوٹل والے غریب شخص نے دیکھا تو کہنے لگا بس بی بی! گزر بسر کیا البتہ شام تک ڈیڑھ دو سو کما لیتا ہوں۔ مقام شکر ہے کہ بچے دال روٹی کھا لیتے ہیں۔ اس پر محترمہ نے اپنے پرس میں ہاتھ ڈالا اور تمام رقم نکال کر اس ہوٹل والے کے ہاتھ پر رکھ دی۔ ہوٹل والے نے محترمہ کے تشریف لے جانے کے بعد دی ہوئی رقم گنتی کی تو وہ رقم 70 ہزار روپے تھی۔ یہ تھا محترمہ کا عام پاکستانیوں سے محبت کا ایک انداز جو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ وہ ایک عوامی لیڈر تھیں۔
محترمہ کے اندر یہ خوبی بھی تھی کہ وہ دلائل سے سامنے والے کو قائل کرنے کا گر جانتی تھیں، واقعہ یوں ہے کہ الیکشن 2008 سے قبل موجودہ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف بضد تھے کہ وہ الیکشن 2008 کا بائیکاٹ کریں گے مگر یہ محترمہ کی فہم و فراست ہی تھی کہ فقط 30 منٹ کی مختصر ترین ملاقات میں نوازشریف کو قائل کرلیا کہ وہ الیکشن 2008 میں حصہ لیں تاکہ پاکستان میں پرویز مشرف آمریت کا خاتمہ ہوسکے اور پاکستان میں جمہوری عمل کا آغاز ہوسکے، جب کہ حقیقت بھی یہی ہے کہ نواز شریف، محترمہ کے بدترین مخالف سیاسی راہ نما تھے۔
جب کہ محترمہ اس قدر حساس تھیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اپنی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد سے قبل کہا کرتے کہ میں فکرمند ہوں کہ میری موت کا صدمہ میری بیٹی کیسے برداشت کرے گی، کیوںکہ وہ تو بچپن میں اپنے پالتو پرندے کی موت پر کئی روز روتی رہی تھی، مگر اس قدر حساس و نرم و نازک دبلی پتلی بے نظیر بھٹو نے جس طرح ایک چٹان کی مانند ضیا و پرویزمشرف کے دونوں آمرانہ ادوار کا مقابلہ کیا وہ انھی کا خاصا تھا، جب کہ یہ بے نظیر بھٹو ہی تھیں کہ جنھوں نے اپنے والد کی پھانسی کی موت، اپنے بھائیوں شاہ نواز و میر مرتضیٰ بھٹو کی بے وقت موت کے صدمات برداشت کیے۔
ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اس کے لیے یہ تمام صدمات ناقابل برداشت ہوجاتے اور یہ تمام صدمات اسے ذہنی مریض بنانے کے لیے کافی تھے، جب کہ ان صدمات کے ساتھ اپنے شوہر آصف علی زرداری کی طویل اسیری، خود ان کی اپنی طویل جلاوطنی الگ صدمات تھے۔ بے نظیر بھٹو ایک حکمران نہ تھیں بلکہ ایک حقیقی عوامی لیڈر تھیں۔