کتابیں اور زندہ معاشرہ

کتب بینی سے معاشرہ نہ صرف سنورتا ہے بلکہ لوگوں کے درمیان ہم آہنگی بھی پیدا کرتا ہے


زندہ معاشرے کی بہت سی نشانیوں میں سے ایک ’کتب بینی‘ ہے۔ (فوٹو: فائل)

زندہ معاشرے کی بہت سی نشانیوں میں سے ایک 'کتب بینی' ہے۔ کتب بینی سے معاشرہ نہ صرف سنورتا ہے بلکہ لوگوں کے درمیان ہم آہنگی بھی پیدا کرتا ہے۔ ایک اچھی کتاب انسانی صفات کو اپنی اصل پر لاتی ہے۔ انسان کے طور طریقوں میں نکھار لاتی ہے۔ اس کی فکر، خیالات کو نہ صرف وسعت دیتی ہے بلکہ اس کے انداز کو ایک عام آدمی سے مختلف کردیتی ہے۔


گزشتہ ہفتے ایکسپو سینٹر کراچی میں اٹھارہواں عالمی کتب میلہ سجا اور بھرپور رعنائیوں کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس سوشل میڈیائی دور میں جب کتابیں 'ایک کلک' پر دستیاب ہوں، لوگوں کا اتنی بڑی تعداد میں کتابیں خریدنا ایک غیر معمولی بات ہے۔


کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی


لوگوں کا اتنی بڑی تعداد میں عالمی کتب میلے میں آنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ 'کتابوں سے عشق کی یہ آخری صدی نہیں' ابھی 'ہنوز دلی دوراست۔'


اس کتب میلے میں مختلف پبلشرز نے اپنے اپنے اسٹالز لگائے ہوئے تھے، تاہم! دوسرے اسٹالز کے برعکس دینی کتب کے اسٹالز پر لوگوں کا زیادہ رش دیکھنے کو ملا۔ کچھ اسٹالز ایسے بھی نظر آئے جہاں مخصوص مکاتبِ فکر کے علما کی کتب کی تعداد زیادہ تھی۔ ان اسٹالز میں ساتھ ساتھ ان مذہبی شخصیات کی تصاویر اور بیانات بھی چل رہے تھے۔


کچھ ایسے اسٹالز بھی دیکھنے کو ملے جہاں ملکی مذہبی شخصیات کے خلاف ایسی کتابیں بھی موجود تھیں جن میں موجود مواد کو باقاعدہ ابواب بندی کی صورت میں پیش کیا گیا تھا۔ اگرچہ علمی اختلاف اور آزادیٔ اظہارِ رائے ہر کسی کا حق ہے، لیکن کسی کلمہ گو کو کافر یا منکر صرف اس وجہ سے کہنا کہ وہ ان کے مطابق نہیں، تو یہ غلط ہے۔ ایسے موقع پر جب یہاں ملکی و غیر ملکی لوگوں کا آنا ہو، تو ایک بڑے پلیٹ فارم پر اس طرح کی کتب کی نمائش مناسب معلوم نہیں ہوتی۔ بہرحال! بحیثیتِ مجموعی یہ بات اچھی تھی کہ لوگوں کا دینی کتب کی طرف رجحان زیادہ رہا۔ اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ مثلاً، جس طرح کے واقعات دنیا میں رونما ہورے ہیں، مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے تو لوگوں کا رجحان مذہب کی طرف بھی بڑھ رہا ہے۔


کچھ ایسے اسٹالز بھی نظر آئے جہاں اسلامیات اور دوسرے مضامین کی 'تدریس 'کے حوالے سے کتب موجود تھیں۔ ان کتب کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ہمارے اساتذہ دنیا سے پیچھے کیوں ہیں اور ان کی وقعت کیوں کم ہے۔ ہر کتاب کے اختتام پر کچھ اس طرح کے جملے لکھے تھےکہ ''طلبا کو مذکورہ سبق اچھی طرح یاد کرائیے۔ وغیرہ'' لیکن سوال یہ ہے کہ ان اسباق کا عملی اطلاق کہاں گیا؟ مصنفین جو کہ یقیناً خود بھی اساتذہ ہوں گے، انھیں اس بارے میں ضرور سوچنا چاہیے کہ کتابیں لکھ کر ان کے اکاؤنٹ میں اضافہ تو ہوگیا، لیکن کیا کتاب لکھنے کا حق بھی ادا کیا؟ اس طرح کی کتب کی خریداری سے نفع تو ضرور ہوا ہوگا، لیکن ان کتب کا 'مقصد' نہ ہونے کے برابر ہے۔ مصنفین کو چاہیے کہ اساتذہ کےلیے اس طرح کی کتب تیار کریں جن میں 'عملی سرگرمیاں' ہوں تاکہ جب وہ طلبا کو علم دیں تو 'رٹا' لگانے کے بجائے عملی زندگی میں ان اسباق کا اطلاق کرسکیں۔ وگرنہ اسکولوں و کالجز میں تدریس کے اس وقت جو معیارات ہیں وہ بہتری کے بجائے اسی طرح چلتے رہیں گے۔


اس کے علاوہ کچھ ایسے اسٹالز بھی نظر آئے جہاں مختلف سافٹ ویئرز بنانے والے ماہرین لوگوں مستفید کر رہے تھے، یہاں پر لوگوں کا رش کم دیکھنے کو ملا۔ کوئی ایک شخص بھی وہاں جاتا، تو ماہرین اسے سافٹ ویئرز کے بارے میں اچھی خاصی وضاحت دیتے۔ لوگوں کو اس طرح کے سافٹ ویئرز سے باخبر رہنا چاہیے تاکہ انھیں تھوڑی بہت شُد بُد رہے۔ کچھ ایسے اسٹالز ایسے بھی دیکھنے کو ملے جہاں اساتذہ کی نگرانی میں بچوں نے بھرپور محنت کرکے مختلف سائنٹیفک ٹولز کی مدد سے کھلونے تیار کیے تھے، جو یقیناً اس لحاظ سے خوش آئند بات ہے کہ پاکستان، بطورِ خاص کراچی میں طلبا کو جدید اسمارٹ ٹولز کا استعمال سکھایا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ بچوں کی درس و تدریس کے حوالے سے بہت عمدہ کتابیں نظر آئیں، تاہم! ان کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی تھیں، اس کی وجہ شاید مہنگائی ہوسکتی ہو۔ کچھ اسٹالز ایسے بھی نظر آئے جہاں انگریزی کتب کا ذخیرہ موجود تھا، وہاں وہی لوگ آرہے تھے، جو انگریزی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔


ان تمام تفصیلات کے بعد یہاں کچھ باتیں غور طلب ہیں




  • اتنی کتابیں فروخت ہونے کے بعد معاشرے میں کچھ مثبت تبدیلیاں بھی آئیں گی یا نہیں؟

  • اس پُرفتن دور میں جب لوگ ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں، کتابیں اپنا کردار ادا کرپائیں گی؟

  • مذہبی مصنفین جن کی بے شمار کتب فروخت ہوئیں، ان کی کتب میں موجود لٹریچر سے لوگ عملی زندگی میں استفادہ کرپائیں گے؟


اس وقت کتابیں ہی وہ حقیقت ہیں جو معاشرے میں لوگوں کے اخلاق کو سنوار سکتی ہیں، کیوں کہ سوشل میڈیا میں جو کچھ نظر آتا ہے، زیادہ تر حقیقت کے برعکس ہوتا ہے۔ مساجد جو کسی زمانے میں اپنا کردار ادا کرتی تھیں، اب مساجد تو اسی طرح موجود ہیں، لیکن وہاں کا معاملہ ویسا نہیں رہا۔ اب تو لو گ جمعہ کے دن بھی صرف 'بیان' کے بعد ہی مساجد میں تشریف لاتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ واعظین کا گنے چنے بیانات دینا ہے۔ تاہم! مساجد میں اب بھی مختلف مواقع پر جو مجالس ہوتی ہیں، لوگ بڑی تعداد میں وہاں آتے ہیں۔ ان مجالس کے بھی معاملات یہ ہیں کہ صرف واقعات سنا کر لوگوں کے ایمان تو تازہ کیے جاتےہیں، لیکن عملی زندگی میں کیا کرنا ہے، اس طرف توجہ کم ہی دی جاتی ہے۔ (لیکن کہیں کہیں ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ واعظین کا پورا محور عملی زندگی سے ہوتا ہے)۔ اس صورتِ حال میں کتابیں ہی وہ حقیقت ہیں جو لوگوں میں صحیح و غلط کی تمیز، اختلافات کے اصول، رواداری کی مثالیں اور راجح و مرجوح قول کے اصول وغیرہ سکھا سکتی ہیں۔


ہمارے یہاں ایک صورتِ حال یہ پیدا ہوگئی ہے کہ لوگوں سے کہا جاتا ہے فلاں کتاب نہ پڑھی جائے، فلاں کتاب پڑھنے سے ایمان میں وسوسے آتے ہیں، فلاں کا بیان نہ سنا جائے وغیرہ وغیرہ۔ یہ طریقہ نہ دین کا ہے نہ غیروں کا ہے، اس سے باہر آیا جائے اور کھلا ذہن رکھا جائے۔


اب جب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ کتب بینی کی اہمیت کم نہیں ہوئی (دینی و دنیاوی) تو واعظین کو بھی چاہیے کہ وہ




  • لوگوں کو بلا تفریق کتابوں کے مطالعہ کی طرف راغب کریں۔

  • کتاب کس طرح پڑھی جاتی ہے، کس طرح اہم نکات لکھے جاتے ہیں، یہ بھی بتائیں۔

  • ایک دوسرے (کتابوں کے مصنفین کے حوالے سے) کا احترام سکھایا جائے۔

  • لوگوں کو اختلاف کے اصول سکھائیں۔

  • دوسرے مکاتبِ فکر کی کتب صرف اس لیے پڑھنے کےلیے نہ کہا جائے کہ ان میں غلطی کیا ہے، بلکہ کھلے دل سے یہ کہا جائے کہ پوری کتاب پڑھیے، بہت سی اچھی باتیں ملیں گی۔

  • عوام کو اس مقولے 'العوام کالانعام ( عوام چوپایوں کی مانند)' کا مصداق ٹھہرانے کے بجائے انھیں 'عقل و شعور' والا سمجھا جائے اور انھیں اخلاقی تعلیم دی جائے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔