2024 میں بھی اسموگ اور ماحولیاتی آلودگی کا سامنا کرنا پڑے گا ماہرین

پنجاب میں بسنے والے شہریوں کی اوسط عمر کم از کم سات برس کم ہوسکتی ہے


آصف محمود December 27, 2023
(فوٹو: فائل)

پنجاب کو سال 2023 میں بھی ماحولیاتی آلودگی اور اسموگ کے مسائل کا سامنا رہا جبکہ ماہرین کے مطابق اسموگ کے تدارک سے متعلق ٹھوس اقدامات اور ماحولیاتی پالیسی پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے نئے سال میں بھی مسائل کا سامنا رہے گا۔

پنجاب میں بسنے والے شہریوں کی اوسط عمر کم از کم سات برس کم ہوسکتی ہے۔ اسموگ اور فضائی آلودگی شہریوں کی صحت کے لیے دوسرا سب سے بڑا خطرہ ہے جو نئے سال میں بھی برقرار رہے گا۔

پنجاب میں موسم سرما کے آغاز پر ہی اسموگ نے اثرات دکھانا شروع کر دیے تھے اور سال کے اختتام تک لاہور سمیت مختلف شہروں میں ایئر کوالٹی انڈیکس 400 کی حد بھی عبور کر گیا۔ لاہور متعدد بار دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رہا ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے اسموگ کو آفت قرار دیتے ہوئے صوبے کے مختلف اضلاع میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کی گئی جبکہ لاہور، شخوپورہ، ننکانہ، قصور، گجرانوالہ، حافظ آباد، سیالکوٹ اور نارووال کے اضلاع میں اسکولوں میں چھٹیوں کا اعلان کیا گیا۔

لاہور ڈویژن میں دفعہ 144 نافذ ہے جس کے تحت ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے فضائی آلودگی کا سبب بننے والے افراد کے خلاف کارروائیاں عمل میں لائی جا رہی ہیں۔ فصلوں کی باقیات جلانے، دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں، فیکٹریوں اور کارخانوں میں غیرمعیاری ایندھن استعمال کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج اور جرمانے کیے گئے۔ اس کے علاوہ اینٹوں کے بھٹوں کو بند کیا گیا جبکہ لاہور میں مصنوعی بارش بھی برسائی گئی لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود اسموگ اورفضائی آلودگی کی شرح میں کمی نہیں آسکی۔

ادھر پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی نے اسموگ بڑھنے کی اصل وجوہات سامنے لانے کے لیے انٹرنیشنل کنسلٹنٹس سے اسٹڈی کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعلیٰ محسن نقوی نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے پاس اسموگ بڑھنے کی وجوہات کی مستند ریسرچ ہی نہیں، ہم صرف سنی سنائی باتوں اور قیاس آرائیوں کے ذریعے اسموگ پر قابو نہیں پا سکتے۔ عوام کی صحت کے تحفظ کے لیے مستند ڈیٹا سے ہی اسموگ سے نمٹنے کے لیے جامع اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

وزیراعلیٰ محسن نقوی نے غیرمعیاری پیٹرول و ڈیزل فروخت کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ غیرمعیاری پیٹرول و ڈیزل فروخت کرنے والوں کے لیے بلاامتیاز کارروائی کرے۔ سڑکوں پر پانی کے چھڑکاؤ کے بجائے سڑکوں سے مٹی کو مکمل طور پر صاف کیا جائے۔

ماحولیاتی وکیل اور ماہر رافع عالم کہتے ہیں کہ سڑکوں پر پانی چھڑکنے یا اسکول ہفتے میں تین دن بند کرنے سے کیا اسموگ کا مسئلہ حل ہو جائے گا؟ حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ماحولیات سے جڑے مسائل کو حل کرنے کے لیے منصوبہ بندی اور طویل عرصے کے لیے ایسے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں جو واقعی ہی کار آمد ثابت ہوں۔ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہمیں درست ڈیٹا کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ 2023 میں موجودہ نگران حکومت نے کلین ایئر پالیسی منظور کی تھی لیکن اس پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔

پبلک پالیسی اور ماحولیات کے ماہر داور بٹ سمجھتے ہیں کہ پنجاب حکومت اور متعلقہ محکموں کو اسموگ اور ماحولیاتی آلودگی کے نقصانات اور سنگینی کا ادراک ہے جبکہ ایئرکوالٹی پالیسی 2023 میں بھی آلودگی، اسموگ کی وجوہات، اس کے خاتمے کے لیے لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان پالیسز پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2018 سے الیکٹرک بسیں لانے کی بات ہو رہی ہے جو آج تک نہیں آسکیں، اب 10 ہزار الیکٹرک موٹرسائیکل منگوائی جائیں گی لیکن یہ انتہائی ناکافی ہیں۔ لاہور سمیت مختلف شہروں میں چنگ چی رکشے بند کر دیے گئے لیکن متبادل کیا ہوگا؟ کیا انہیں الیکٹرک رکشے دیے جائیں اس بارے کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔

داوربٹ نے کہا کہ ایئرکوالٹی مانیٹرنگ کے آلات نصب کرنے کا پراجیکٹ 2018 میں شروع ہوا جو آج تک مکمل نہیں ہوسکا جبکہ ورلڈ بینک کے اشتراک سے جاری یہ منصوبہ 2025 میں ختم ہوجائے گا، وہ سمجھتے ہیں کہ 2024 میں بھی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔

کنسلٹنٹ فزیشن و پلمونالوجسٹ سروسز اسپتال لاہور ڈاکٹر امداد علی فاروقی نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نزلہ، کھانسی، گلا خراب، سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو اسموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں جبکہ اسموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتی ہے جو بظاہر فوری طور پر نظر نہیں آتے جن میں پھیپھڑوں کی خرابی اور کینسر قابل ذکر ہے۔

ڈاکٹر فاروقی کے مطابق بچے اور بوڑھے افراد اسموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، اس لیے جب اسموگ بڑھ جائے تو انھیں گھروں میں ہی رہنا چاہیے۔ انہوں نے ایئر کوالٹی لائف انڈیکس کی 2023 کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ فضائی آلودگی پاکستان میں اوسط عمر تقریباً 4 سال جبکہ لاہور، شیخوپورہ، قصور اور پشاور جیسے ملک کے آلودہ ترین علاقوں میں سات سال تک کم ہوسکتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فضائی آلودگی سے نمٹنا ایک پیچیدہ اور طویل المدتی چیلنج ہے لیکن صحت عامہ اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے فیصلہ کن اقدامات اٹھانا ضروری ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد کی طرف سے اسموگ اور فضائی آلودگی میں کمی کے لیے مرتب کی گئی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ اسموگ اور ماحولیاتی آلودگی سے متعلق رئیل ٹائم ڈیٹا فراہم کرنے کے لیے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ اس طرح آلودگی پھیلانے والے ایندھن جیسے کوئلہ اور غیرمعیاری ڈیزل کا استعمال بند کرکے توانائی کے متبادل ذرائع استعمال کرنا ہوں گے۔ روایتی ڈیزل اور پیٹرول گاڑیوں کے بجائے الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیوں کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر بنایا جائے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد کم کرنے کے لیے کارپولنگ اور رائیڈنگ شیئرنگ کو فروغ دیا جائے۔

سفارشات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسموگ اور فضائی آلودگی سے متعلق عوامی آگاہی پیدا کی جائے، ایئر پیوریفائر، ماسک کا استعمال کیا جائے جبکہ اسموگ سیزن میں غیرضروری سفر سے گریز کیا جائے۔ صنعتی آلودگی پر قابو پایا جائے، کلینر پروڈکشن ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کی جائے۔ صنعتوں، گاڑیوں اور تعمیراتی شعبے کے لیے مقررہ معیارات کو اَپ ڈیٹ کیا جائے۔ کچرے کو تلف کرنے کے طریقوں کو بہتر بنایا جائے۔ ری سائیکلنگ اور ویسٹ ٹو انرجی کے منصوبوں کو فروغ دیا جائے۔ سرسبز علاقوں اور اربن فاریسٹری میں اضافہ کیا جائے، گھروں، دفاتر اور عمارتوں کی چھتوں پر شجرکاری کی جائے، گرین بلڈنگ آئیڈیا کی ترویج کی جائے۔ اس کے علاوہ اسموگ اور آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا خصوصی علاج اور اس کے اثرات پر طبی تحقیق اور اس شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں