الیکشن کمیشن اور ہائی کورٹس
اکثر دیکھا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلوں کی معطلی رٹ پٹیشن کے ذریعے کرائی جاتی ہے
تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف الیکشن کمیشن کے فیصلے پر پشاور ہائی کورٹ نے حکم امتناعی جاری کر دیا ہے۔ اس فیصلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ صرف تحریک انصاف کو سن کر یہ حکم امتناعی جاری کیا گیا ہے جب کہ دیگر فریقین کو صرف نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔
اکبر ایس بابر جو اس مقدمے میں ایک بنیادی فریق کی حیثیت رکھتے ہیں، انھیں بھی اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
اس طرح یہ حکم امتناعی جس کو کیس میں بنیادی فیصلے کی حیثیت حاصل ہے، صرف ایک فریق کے وکلاء کے دلائل سن کر جاری کیا گیا ہے۔ میری رائے میں اگر فوری حکم امتناعی جاری کرنا انتہائی ضروری تھا اور معزز جج صاحب سمجھتے تھے کہ تاخیر سے درخواست گزار کو نقصان ہو جائے گا تو بھی ایک دن کا نوٹس جاری کر کے باقی فریقین کو سنا جا سکتا تھا۔ اگر اسی دن دائر ہونے والی پٹیشن، اسی دن لگ سکتی ہے تو باقی فریقین کو بھی ایک دن کا نوٹس دیا جا سکتا ہے لیکن کسی کو نہ سننے سے چہ میگوئیاں ہونا لازمی امر ہوتا ہے۔
ویسے تو معزز عدالت نے حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ اس کیس کو ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ کو سننا چاہیے لیکن چھٹیوں کی وجہ سے ڈویژن بنچ موجود نہیں، اس لیے وہ ہی اس کو سن رہے ہیں۔
اسی انٹرا پارٹی انتخابات کے کیس میں الیکشن کمیشن کے کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ہی پشاور ہائی کورٹ نے ایک حکم امتناعی جاری کرکے روک دیا تھا۔ تحریک انصاف کے نئے نامزد چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے اس حکم امتناعی کے حوالے سے میڈیا کو بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ہمارے خلاف کوئی بھی فیصلہ کرنے سے روکا ہے البتہ اگر الیکشن کمیشن چاہے تو ہمارے حق میں فیصلہ کر سکتا ہے۔
اس حکم امتناعی میں حق میں فیصلہ کرنے کی کوئی ممانعت نہیں لیکن الیکشن کمیشن نے اس حکم امتناعی کی موجودگی میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد خود تحریک انصاف نے جا کر اس حکم امتناعی کو ختم کرایا۔ اس طرح حکم امتناعی جیسا ضروری اور قانونی ریلیف سیاسی مقاصد پورے کرنے کے لیے لیا گیا ہے۔
اس سے پہلے آر اوز کے معاملے پر بھی لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بنچ نے حکم امتناعی جاری کر کے معاملہ ہائی کورٹ کے لارجر بنچ کو بھجوا دیا۔ تب بھی یہی سوال اٹھایا گیا تھا کہ جب معاملہ ہائی کورٹ کے لارجر بنچ کو سننا چاہیے تو حکم امتناعی بھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔
جب آر اوز کا نوٹیفکیشن معطل کر کے معاملہ لارجر بنچ کو بھجوا دیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ معاملہ تقریباً طے کر دیا گیا ہے اور اب رسمی کارروائی کے لیے لارجر بنچ کو بھجوا دیا گیا ہے۔ اسی طرح حلقہ بندیوں کے معاملے پر بھی ہم نے ہائی کورٹس کا فیصلہ دیکھا ہے۔
پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے کی گئی حلقہ بندیاں معطل کرانے کے لیے ہائی کورٹس سے رجوع کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تاہم پھر سپریم کورٹ نے اس راستہ کو روکا ہے کیونکہ جس طرح حلقہ بندیاں معطل کرنا شروع ہوئی تھیں، ایسے تو ملک میں کبھی انتخابات کا انعقاد ممکن ہی نہیں تھا۔ ہر وقت کسی نہ کسی فریق کو تو حلقہ بندیوں پر اعتراض رہنا ہی تھا ، یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔
یہ کوئی نیا سلسلہ نہیں ہے۔ ہم نے ماضی میں بھی دیکھا ہے کہ جب سابق وزیر اعظم بانی تحریک انصاف کے دور حکومت میں انھیں ضمنی انتخابات اور کے پی میں بلدیاتی انتخابات میں بطور وزیر اعظم شرکت پر جرمانہ کیا جاتا تھا تو وہ ہائی کورٹ سے جا کر حکم امتناعی حاصل کر لیتے تھے اور انتخابی ضابطہ کاری کی خلاف ورزی جاری رکھتے تھے۔
بلکہ کسی کو بھی انتخابی ضابطہ کار کی خلاف ورزی پر جرمانہ کیا گیا ہے تو وہ ہائی کورٹ سے جاری الیکشن کمیشن کے نوٹس کے خلاف حکم امتناعی حاصل کر لیتا ہے اور پھر خلاف ورزی جاری رکھتا ہے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن کی توہین کے نوٹس پر بھی حکم امتناعی کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔
ویسے تو اے این پی اور جے یو آئی (ف) کا موقف بھی سب کے سامنے ہے۔ لیکن ہم سیاسی بات نہیں کریں گے۔ سیاسی بات کرنا سیاستدانوں کا کام ہے۔
ان کی بات میں وزن ہے کہ نہیں، یہ طے کرنا عوام کا کام ہے، اس لیے عدلیہ کے فیصلوں کے سیاسی محرکات پر بات کرنا سیاستدانوں کا کام ہے۔ عدلیہ جانے اور سیاستدان جانیں لیکن انصاف کا بنیادی اصول ہے کہ انصاف صرف ہونا نہیں چاہیے بلکہ ہوتا نظر بھی آنا چاہیے۔
میری رائے یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اور اس کے فیصلوں کی آئینی حیثیت اور الیکشن کمیشن کا دائرہ سماعت و اختیار طے ہوجانا چاہیے۔ یہ حمتی طور پر طے ہوجانا چاہیے کہ کیا الیکشن کمیشن کی حیثیت ہائیکورٹس سے کم ہے؟ الیکشن کمیشن کے فیصلوں پر ہائی کورٹس کا اختیار سماعت ہے یا نہیں ہے؟
اکثر دیکھا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلوں کی معطلی رٹ پٹیشن کے ذریعے کرائی جاتی ہے حالانکہ رٹ صرف وہاں دائر کی جاتی ہے جہاں قانونی طور پر انصاف حاصل کرنے کے لیے کوئی اور فورم میسر نہ ہو تو فریق رٹ پٹیشن کے ذریعے عدالت سے ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جہاں دیگر قانونی فورمز موجود ہوں، وہاں رٹ پٹیشنز کا استعمال بادی النظر میں قانونی نہیں لگتا ہے۔ بہرحال ہائی کورٹس کی جانب سے الیکشن کمیشن کے فیصلوں کی معطلی سے الیکشن کمیشن کی حیثیت اور ساکھ کمزور ہو رہی ہے بلکہ اس سے انتخابی عمل بھی کمزور ہو رہا ہے۔
اگر الیکشن کمیشن کے پانچ ممبران کا حکم ہائی کورٹ کا سنگل بنچ معطل کر سکتا ہے تو پھر قانونی طور پر الیکشن کمیشن کی حیثیت ماتحت عدلیہ کے برابر ہو گئی۔ جیسے ماتحت عدلیہ کے فیصلوں کو ہائی کورٹ کا ایک جج ختم کر سکتا ہے، ایسے ہی الیکشن کمیشن کے پانچ ممبران کے فل بینچ کے متفقہ فیصلے کو بھی ہائی کورٹ کا ایک جج ختم کر دیتا ہے
ایسے تو الیکشن کمیشن کے پانچ ممبران مل کر ایک ایڈیشنل سیشن جج یا سینئر سول جج کے برابر ہو گئے۔ بلکہ کئی جگہ تو اس سے بھی کم ہوگئے۔ جس الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو ہائی کورٹ کے حکم امتناعی سے کنٹرول کیا جا سکتا ہو، اسے مضبوط نہیں کمزور الیکشن کمیشن ہی سمجھا جائے گا۔
میں سمجھتا ہوں الیکشن کمیشن کے پانچ ممبران کے فیصلوں پر ہائی کورٹس کی مداخلت فوری بند ہونی چاہیے، یہ معاملہ صرف سپریم کورٹ میں سنا جانا چاہیے، وہ بھی جب بہت ضروری سمجھا جائے۔ ورنہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو حتمی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ موجودہ مبہم صورتحال میں الیکشن کمیشن نہ تو مضبوط فیصلے کر سکتا ہے اور نہ کوئی شفاف انتخابات کروا سکتا ہے۔